یوم پیدائش 31 جنوری 1941
زندگی کے تغیرات ہی کیا
صرف اتنی سی بات ، بات ہی کیا
زندگی کچھ تھی ،کچھ ہے ،کچھ ہوگی
بزمِ نیرنگیء حیات ہی کیا
شارق اجمیری
یوم پیدائش 31 جنوری 1941
زندگی کے تغیرات ہی کیا
صرف اتنی سی بات ، بات ہی کیا
زندگی کچھ تھی ،کچھ ہے ،کچھ ہوگی
بزمِ نیرنگیء حیات ہی کیا
شارق اجمیری
یوم پیدائش31 جنوری 1941
پھر یاد کوئی آیا پھر درد سوا ہوگا
اب اے غم تنہائی اس رات کا کیا ہوگا
کچھ اور بڑھی ہوگی سرخی ترے چہرے کی
تنہائی میں جب تونے کچھ یاد کیا ہوگا
ماتھے پہ شکن کیسی شرمائے ہوئے کیو ں ہو
لوگوں نے مجھے شاید دیوانہ کہا ہوگا
میخانہ چھٹا مجھ سے پی آ تو ہی اب واعظ
اب بھی مرے حصہ کا پیمانہ بھرا ہوگا
فردوسی عظیم آبادی
یوم پیدائش 31 جنوری
جو ہیں سوغاتیں اپنوں کی وہ سینے میں چھپاتے ہیں
ملے جو زخم اپنوں سے کہاں سب کو بتاتے ہیں
پڑا جب وقت تو غیروں نے ہی ہم کو سنبھالا ہے
جنہیں اپنا سمجھتے ہیں وہی دامن بچاتے ہیں
دلوں سے کھیلنا فطرت رہی جن کی محبت میں
کھلونوں کی طرح اکثر وہ دل کو توڑ جاتے ہیں
لگے گی آگ ان کے بھی کبھی تو آشیانہ میں
گھروں میں آگ نفرت کی جو اوروں کے لگاتے ہیں
وہ آہی جائیں گے اک دن زمانے کی نگاہوں میں
جو اپنے اصل چہرے پر بھی اک چہرہ لگاتے ہیں
مٹادیں جن کی خاطر خواہشیں ہم نے ظہور اپنی
زمانے میں وہی تو آج کل ہم کو رلاتے ہیں
ظہور ظہیرآبادی
یوم پیدائش 30 جنوری 1960
جس جگہ جو خوش نشیں آیا نظر رہنے دیا
ہم نے روشن دان میں چڑیوں کا گھر رہنے دیا
مل کے جو بچھڑے انہیں جانے سے روکا بھی نہیں
اور جو ساتھ آئے ان کو ہم سفر رہنے دیا
جس کے ڈر کی کرتے پھرتے ہیں تجارت اہل دیں
ہم نے اس کے خوف سے لرزیدہ شر رہنے دیا
درد دل کو بھی دواؤں سے ہی بہلاتے رہے
بد دعاؤں کو ہمیشہ بے اثر رہنے دیا
ہر سحر تجھ کو بھلانے کے لئے دفتر گیا
اور تری یادوں کو مہماں رات بھر رہنے دیا
جس میں ہاتھوں کو مرے تھامے نظر آتے ہو تم
بس اسی تصویر کو دیوار پر رہنے دیا
سب بدل کر رکھ دیا ہم نے ان آنکھوں کے لئے
ہاں مگر منظر بہ منظر چشم تر رہنے دیا
عبدالسلام عاصم
یوم وفات 29 جنوری 2020
گیت
کہاں ہے میرا ہندوستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسلماں اور ہندو کی جان
کہاں ہے میرا ہندوستان
میں اس کو ڈھونڈ رہا ہوں
مرے بچپن کا ہندوستان
نہ بنگلہ دیش نہ پاکستان
مری آشا مرا ارمان
وہ پورا پورا ہندوستان
میں اس کو ڈھونڈ رہا ہوں
وہ میرا بچپن وہ اسکول
وہ کچی سڑکیں اڑتی دھول
لہکتے باغ مہکتے پھول
وہ میرے کھیت مرے کھلیان
میں اس کو ڈھونڈ رہا ہوں
وہ اردو غزلیں ہندی گیت
کہیں وہ پیار کہیں وہ پریت
پہاڑی جھرنوں کے سنگیت
دیہاتی لہرا پربی تان
میں اس کو ڈھونڈ رہا ہوں
جہاں کے کرشن جہاں کے رام
جہاں کی شام سلونی شام
جہاں کی صبح بنارس دھام
جہاں بھگوان کریں اشنان
میں اس کو ڈھونڈ رہا ہوں
جہاں تھے تلسیؔ اور کبیرؔ
جائسیؔ جیسے پیر فقیر
جہاں تھے مومنؔ غالبؔ میرؔ
جہاں تھے رحمنؔ اور رسخانؔ
میں اس کو ڈھونڈ رہا ہوں
وہ میرے پرکھوں کی جاگیر
کراچی لاہور و کشمیر
وہ بالکل شیر کی سی تصویر
وہ پورا پورا ہندوستان
میں اس کو ڈھونڈ رہا ہوں
جہاں کی پاک پوتر زمین
جہاں کی مٹی خلد نشین
جہاں مہراج معینؔ الدین
غریب نواز ہند سلطان
میں اس کو ڈھونڈ رہا ہوں
مجھے ہے وہ لیڈر تسلیم
جو دے یکجہتی کی تعلیم
مٹا کر کنبوں کی تقسیم
جو کر دے ہر قالب اک جان
میں اس کو ڈھونڈ رہا ہوں
یہ بھوکا شاعر پیاسا کوی
سسکتا چاند سلگتا روی
ہو جس مدرا میں ایسی چھوی
کرا دے اجملؔ کو جلپان
میں اس کو ڈھونڈ رہا ہوں
مسلماں اور ہندو کی جان
کہاں ہے میرا ہندوستان
میں اس کو ڈھونڈ رہا ہوں
اجمل سلطان پور
یوم وفات 28 جنوری 2015
بہت زوروں پہ وی سی آر تھا کل شب جہاں میں تھا
ہر اک ناظر بڑا بیدار تھا کل شب جہاں میں تھا
سیہ زلف پریشاں کے عوض شانے پہ چوٹی تھی
ستارہ تھا مگر دم دار تھا کل شب جہاں میں تھا
اندھیرا ہی اندھیرا چھا گیا ہے لوڈ شیڈنگ سے
نہ جانے کس طرف کو یار تھا کل شب جہاں میں تھا
بڑے ارمان سے نکلا تھا شاپنگ کے لیے گھر سے
کلوزنگ پہ ہر اک بازار تھا کل شب جہاں میں تھا
زبردستی کا میں قائل نہ تھا واپس چلا آیا
کہ اس کے ہونٹ پر انکار تھا کل شب جہاں میں تھا
اڑن چھو تھا سگ معشوق بیدلؔ اپنی ڈیوٹی سے
نہ پہرہ تھا نہ پہرے دار تھا کل شب جہاں میں تھا
بیدل جونپوری
یوم وفات 29 جنوری 1963
مرے ساتھ آئے رنگِ بزم جاناں کون دیکھے گا
دل و جاں نذر دے کر خونِ ارماں کون دیکھے گا
نہ گھراؤ کرے گا کون دعویٰ خونِ ناحق کا
سرِ محشر تمہیں سردر گریباں کون دیکھے گا
دلِ بیتاب ہوگا جاکے رُسوا ان کی محفل میں
ارے ناداں سوئے ناخواندہ مہماں کون دیکھے گا
خدارا درد کا میرے اثر تم بھی نہ لے لینا
پہ ہنس ہنس کے مرا حالِ پریشاں کون دیکھے گا
بہت نکلیں گے یوں تو رقصِ بسمل دیکھنے والے
دل ِمہجور تیرا دردِ پنہاں کون دیکھے گا
نظر والو سرِ راهِ تصور عام دعوت ہے
مریِ آنکھوں میں ہے تصویرِ جاں کون دیکھے گا
جو ہم اہلِ جنوں کی بھی چمن ہی پر نظر ہوگی
تو پھر حُسن رُخِ دشت و بیاباں کون دیکھے گا
غنیمت ہے شبِ غم نیند اُڑ جاتی ہے آنکھوں سے
سحر تک سیکڑوں خوابِ پریشاں کون دیکھے گا
بکھر جائیں گے جلوے تم نقابِ رُخ نہ سرکاؤ
نگاہِ شوق کی تنگیء داماں کون دیکھے گا
ٹھہر جا تو پسِ میخانہ واعظ، میں ابھی آیا
بس اک دوگھونٹ، اطمینان رکھ، یاں کون دیکھے گا ؟
گرفتِ پنجۂ شہباز تحسین ِنظر لے گی
ترے جذبوں کو اے صیدِ پَر افشاں کون دیکھے گا
ضرور آئی کہیں سے دل میں چنگاری محبت کی
لگا کر آگ خود گھر میں چراغاں کون دیکھے گا
کسی نے جیتے جی تجھ پر نہ جب راز اک نظر ڈالی
تو پھر مڑ کر سوئے گورِ غریباں کون دیکھے گا
راز عظیم آبادی
یوم پیدائش 29 جنوری 1940
نظم اس عہد کی بے حس ساعتوں کے نام
یہاں اب ایک تارہ
زرد تارہ بھی نہیں باقی
یہاں اب آسماں کے
چیتھڑوں کی پھڑپھڑاہٹ بھی نہیں باقی
یہاں پر سارے سورج
تارے سورج
تیرتے افلاک سے گر کر
کسی پاتال میں گم ہیں
یہاں اب سارے سیاروں کی گردش
رک گئی ہے
یہاں اب روشنی ہے
اور نہ آوازوں کی لرزش ہے
نہ جسموں میں ہی حرکت ہے
یہاں پر اب فقط
اک خامشی کی پھڑپھڑاہٹ ہے
تبسم کاشمیری
یوم پیدائش 29 جنوری 1932
بس اسی کا سفر شب میں طلب گار ہے کیا
تو ہی اے ماہ مرا ہم دم و غم خوار ہے کیا
تیشہ در دست امنڈ آئی ہے آبادی تمام
سب یہی کہتے ہیں دیکھیں پس دیوار ہے کیا
ہاں اسی لمحے میں ہوتا ہے ستاروں کا نزول
شہر خوابیدہ میں کوئی دل بیدار ہے کیا
جسم تو جسم ہے مجروح ہوئی ہے جاں بھی
اپنوں کے ہوتے ہوئے شکوۂ اغیار ہے کیا
تھرتھری پتوں پہ ہے درد بجاں ہیں کلیاں
تو بھی اے باد سحر درپئے آزار ہے کیا
لب ہلانے کی سکت ہے نہ قدم اٹھتے ہیں
سامنے جو بھی ہے دلدل میں گرفتار ہے کیا
حامدی کاشمیری
یوم پیدائش 29 جنوری 1999
دیکھا جو مجھ کو پیاس کا نقشہ لئے ہوئے
گھر کر گھٹائیں آ گئیں دریا لئے ہوئے
نطق فشاں سے حد سماعت جھلس گئی
شعلہ بیاں سا تھا کوئی لہجہ لئے ہوئے
دیکھو تو کیا عجب ہے سواری قتیل کی
چلتا ہے سر لعیں سر نیزہ لئے ہوئے
اک جشن عالی شان میں بھوکا تمام رات
طعنے بٹورتا رہا کاسہ لئے ہوئے
آتی تھیں چیخنے کی صدائیں زمین سے
جب میں چلا تھا پاؤں میں چھالا لئے ہوئے
تشنہ لبی کی آبلہ پائی کا فیض ہے
کانٹے کھڑے ہیں راہ میں دریا لئے ہوئے
پھر یوں ہوا کہ شمر ستمگر کی لاش کا
منقار میں تھا گوشت پرندہ لئے ہوئے
ہوتا میں دور پانی سے تشنہ لبی کے ساتھ
ساحل کھڑا ہے دل میں تمنا لئے ہوئے
دریا سے مشت خاک بھی اٹھی نہیں بلال
نیزے پہ دشت آ گیا پیاسا لئے ہوئے
بلال سرسوی
یوم پیدائش 29 جنوری 1964
اجنبی رخ، آئینہ بھی اجنبی
زندگی کا فلسفہ بھی اجنبی
شہر بے معنی ہر اک رشتہ فضول
اس سے میرا رابطہ بھی اجنبی
جانے موسم ایسا کیسے ہو گیا
پہلا بھی تھا دوسرا بھی اجنبی
اجنبیت ہے غضب کا ذائقہ
ہے ہمارا مدعا بھی اجنبی
مختلف ہیں آدمی کے رنگ و بو
منظروں کا سلسلہ بھی اجنبی
سوچنا، لکھنا، ہر اک شب جاگنا
میرا تو ہے راستہ بھی اجنبی
گہری کھائی رات کی پھیلی ایاغ
ہو گیا بوڑھا دیا بھی اجنبی
جوثر ایاغ
یوم پیدائش 28 جنوری
اس اذیت سے ہے کچھ دیر جڑے رہنا مجھے
آج کی رات کوئی شعر نہیں کہنا مجھے
ہونی پابند نہیں ہوتی کسی جذبے کی
دست بردار کرو، خواہشوں سے کہنا' مجھے!
راکھ ہوں راکھ مگر جانتا ہوں اصل اپنا
اس لیے دوست کبھی کہنا نہیں گہنا مجھے
غم کوئی بھی ہو مگر بحر وہی ہے مخصوص
ایک رفتار سے ہر رات پڑا بہنا مجھے
نعمان طارق بٹ
یوم پیدائش 28 جنوری
حقیقتوں سے پرے ، واہمے کو کھینچتا ہے
مرا دماغ فقط وسوسے کو کھینچتا ہے
کسی بھی شے کو جہاں میں اکیلے چین نہیں
ہر ایک جسم کسی دوسرے کو کھینچتا ہے
میں چاہتا ہوں کہ ٹوٹےنہ پیار کی ڈوری
سو ڈھیل دیتا ہوں جب وہ سرےکو کھینچتا ہے
میں بار بار پلٹتا ہوں زندگی کی طرف
مگر یہ عشق مجھے مارنے کو کھینچتا ہے
سفر کو چھوڑ کے سب لوگ ، سننے لگتے ہیں
کسی کا گیت ہر اک قافلے کو کھینچتا ہے
ہماری بات کہانی کو طول دیتی ہے
ہمارا ذکر ہر اک واقعے کو کھینچتا ہے
دانش علی دانش
یوم پیدائش 28 جنوری 1864
فنا کہتے ہیں کس کو موت سے پہلے ہی مر جانا
بقا ہے نام کس کا اپنی ہستی سے گزر جانا
جو روکا راہ میں حر نے تو شہہ عباس سے بولے
مرے بھائی نہ غصے میں کہیں حد سے گزر جانا
کہا اہل حرم نے روکے یوں اکبر کے لاشے پر
جواں ہونے کا شاید تم نے رکھا نام مر جانا
بقا میں تھا فنا کا مرتبہ حاصل شہیدوں کو
وہاں اس پر عمل تھا موت سے پہلے ہی مر جانا
نہ لیتے کام گر سبط بنی صبر و تحمل سے
لعینوں کا نگاہ خشم سے آساں تھا مر جانا
دکھائی جنگ میں صورت ادھر جا پہنچے وہ کوثر
یہ اصغر ہی کی تھی رفتار ادھر آنا ادھر جانا
یہاں کا زندہ رہنا موت سے بد تر سمجھتا ہوں
حیات جاوداں ہے کربلا میں جا کے مر جانا
مہاراج
یوم وفات 27 جنوری 1756
فلک نے رنج تیر آہ سے میرے زبس کھینچا
لبوں تک دل سے شب نالے کو میں نے نیم رس کھینچا
مرے شوخ خراباتی کی کیفیت نہ کچھ پوچھو
بہار حسن کو دی آب اس نے جب چرس کھینچا
رہا جوش بہار اس فصل گر یوں ہی تو بلبل نے
چمن میں دست گلچیں سے عجب رنج اس برس کھینچا
کہا یوں صاحب محمل نے سن کر سوز مجنوں کا
تکلف کیا جو نالہ بے اثر مثل جرس کھینچا
نزاکت رشتہ الفت کی دیکھو سانس دشمن کی
خبردار آرزوؔ ٹک گرم کر تار نفس کھینچا
خاں آرزو سراج الدین علی
یوم پیدائش 26 جنوری 196
نظم وہ کیسی عورتیں تھیں
جو گیلی لکڑیوں کو پھونک کر چولہا جلاتی تھیں
جو سل پر سرخ مرچیں پیس کر سالن پکاتی تھیں
سحر سے شام تک مصروف لیکن مسکراتی تھیں
بھری دوپہر میں سر اپنا جو ڈھک کر ملنے آتی تھیں
جو پنکھے ہاتھ کے جھلتی تھیں اور بس پان کھاتی تھیں
جو دروازے پہ رک کر دیر تک رسمیں نبھاتی تھیں
پلنگوں پر نفاست سے دری چادر بچھاتی تھیں
بصد اصرار مہمانوں کو سرہانے بٹھاتی تھیں
اگر گرمی زیادہ ہو تو روح افزا پلاتی تھیں
جو اپنی بیٹیوں کو سوئیٹر بننا سکھاتی تھیں
سلائی کی مشینوں پر کڑے روزے بتاتی تھیں
بڑی پلیٹوں میں جو افطار کے حصے بناتی تھیں
جو کلمے کاڑھ کر لکڑی کے فریموں میں سجاتی تھیں
دعائیں پھونک کر بچوں کو بستر پر سلاتی تھیں
اور اپنی جا نمازیں موڑ کر تکیہ لگاتی تھیں
کوئی سائل جو دستک دے اسے کھانا کھلاتی تھیں
پڑوسن مانگ لے کچھ با خوشی دیتی دلاتی تھیں
جو رشتوں کو برتنے کے کئی نسخے بتاتی تھیں
محلے میں کوئی مر جائے تو آنسو بہاتی تھیں
کوئی بیمار پڑ جائے تو اس کے پاس جاتی تھیں
کوئی تہوار ہو تو خوب مل جل کر مناتی تھیں
وہ کیسی عورتیں تھیں
میں جب گھر اپنے جاتی ہوں تو فرصت کے زمانوں میں
انہیں ہی ڈھونڈھتی پھرتی ہوں گلیوں اور مکانوں میں
کسی میلاد میں جزدان میں تسبیح دانوں میں
کسی بر آمدے کے طاق پر باورچی خانوں میں
مگر اپنا زمانہ ساتھ لے کر کھو گئی ہیں وہ
کسی اک قبر میں ساری کی ساری سو گئی ہیں وہ
اسنی بدر
یوم پیدائش 27 جنوری 1947
خزاں کے دوش پہ ہے فصل گل کا رخت ابھی
کہ برگ و بار سے خالی ہے ہر درخت ابھی
ابھی غموں سے عبارت ہے سر نوشت بشر
کہ آسمان پرے ہے زمین سخت ابھی
سمجھ شعاع بریدہ نہ صرف جگنو کو
کرن کرن کا جگر ہوگا لخت لخت ابھی
متاع جاں بھی اسے پیش کر چکا ہوں میں
مرے رقیب کا لہجہ ہے کیوں کرخت ابھی
تمام رات رہا مے کدہ نشیں جعفرؔ
گیا ہے اٹھ کے یہاں سے وہ نیک بخت ابھی
جعفر بلوچ
یوم پیدائش 26 جنوری 1972
دیتا ہے اس طرح بھی مری تشنگی کی داد
حسرت سے دیکھتا ہے سمندر مری طرف
افتخار عابد
یوم پیدائش 26 جنوری 1926
چاہت کے پرندے دل ویران میں آئے
صیاد کسی صید کے ارمان میں آئے
وہ چاند ہے سچ مچ کا تو پھر اس سے کہونا
اترے میرے گھر میں کبھی دالان میں آۓ
سورج ہے تو کچھ اپنی تمازت کی رکھے لاج
پگھلائے مجھے برف کی دکان میں آئے
سایہ ہے تو گزرے کسی دیوار کو چھو کر
ہے دھوپ تو اونچان سے ڈھلوان میں آئے
نغمہ ہے تو پھوٹے کبھی ساز رگ جاں سے
آواز کوئی ہے تو مرے کان میں آئے
ہے جسم تو بن جائے مری روح کا مسکن
ہے جان تو پھر اس تن بے جان میں آئے
ساحل ہے تو نظارہ کی دعوت بھی نظر کو
ہے موج بلاخیز تو طوفان میں آئے
امرت ہے تو چمکے لب لعلیں سے کسی کے
ہے زہر تو بازار سے سامان میں آئے
غنچہ ہے تو کھل جائے مرے دل کی صدا پر
خوشبو ہے تو زخموں کے گلستان میں آئے
فرمانؔ وہ جس آن میں جس رنگ میں چاہے
آۓ مگر اتنا ہو کہ پہچان میں آئے
فرمان فتح پوری
یوم وفات 26 جنوری 2022
انا الیہ وانا الیہ راجعون
وہ بے وفا ہی سہی اس کو بے وفا نہ کہو
ادب کی حد میں رہو حسن کو برا نہ کہو
شراب عشق کی عظمت سے جو کرے انکار
وہ پارسا بھی اگر ہو تو پارسا نہ کہو
پڑا ہے کام اسی خود پرست کافر سے
جسے یہ ضد ہے کسی اور کو خدا نہ کہو
مرا خلوص محبت ہے قدر کے قابل
زباں پہ ذکر وفا ہے اسے گلا نہ کہو
یہ کیا کہا کہ دعا ہے اثر سے بیگانہ
تڑپ نہ دل کی ہو جس میں اسے دعا نہ کہو
یہ اور کچھ نہیں فطرت کی بد مذاقی ہے
بغیر بادہ گھٹا کو کبھی گھٹا نہ کہو
تڑپ تڑپ کے گزارو شب فراق اپنی
یہ ناز حسن ہے شاعرؔ اسے جفا نہ کہو
شاعر فتح پوری
یوم پیدائش 26 جنوری 2002
خطرات سے ہر گام گزر کیوں نہیں جاتے
جینا نہیں آتا ہے تو مر کیوں نہیں جاتے
یہ عشق کا دریا ہے یہاں موت ہے ممکن
ڈرتے ہو تو کشتی سے اتر کیوں نہیں جاتے
دیوانہ فقط میں نہیں وہ بھی تو ہوا ہے !
آتے ہیں ادھر سنگ ادھر کیوں نہیں جاتے
کب تک یہاں بیٹھو گے فقط آس میں دل کے
اب رات بھی چڑھنے کو ہے گھر کیوں نہیں جاتے
اب مان بھی تو جاؤ نہ! شیراز مری جان
تم حافظ قرآں ہو!! سدھر کیوں نہیں جاتے
شیراز صدیقی
یوم پیدائش 26 جنوری 1895
گو قیامت سے پیشتر نہ ہوئی
تم نہ آئے تو کیا سحر نہ ہوئی
آ گئی نیند سننے والوں کو
داستاں غم کی مختصر نہ ہوئی
خون کتنے ستم کشوں کا ہوا
آنکھ اس سنگ دل کی تر نہ ہوئی
اس نے سن کر بھی ان سنی کر دی
موت بھی میری معتبر نہ ہوئی
ساتھ تقدیر نے کبھی نہ دیا
کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی
چین کی جستجو رہی دن رات
زندگی چین سے بسر نہ ہوئی
مجھ کو ملتی نہ اے وفاؔ منزل
عقل قسمت سے راہ بر نہ ہوئی
میلہ رام وفاؔ
یوم پیدائش 25 جنوری
میں "روشن" ہوں ؟ نہیں ! بے نور ہوں میں
یہ کیا کم ہے کہ تم سے دور ہوں میں ؟
مجھے دنیا کا کوئی غم نہیں ہے
تمھارے ہجر میں رنجور ہوں میں
مجھے تم سے حیا آتی ہے جاناں
"غلط کہتے ہو تم "مغرور ہوں میں "
کہانی ہیر لیلیٰ کی پرانی
محبت کا نیا دستور ہوں میں
بھلے سے رائیگانی زندگی ہے
یہ کیا کم ہے کہ اب مشہور ہوں میں ؟
نہیں دنیا کی مجھ کو فکر "روشن
تمھاری حور ہوں ؟ تو حور ہوں میں
کشمالہ علی روشن
یوم پیدائش 25 جنوری
کوئی چراغ کوئی دل ہے کوئی پتھر ہے
ہر ایک چیز کی اوقات مجھ کو ازبر ہے
بعید کیا کہ پرستار ہوں سب اہل جہاں
ہماری آنکھ میں دیدہ دلی کا منظر ہے
انہیں درختوں سے ملتی ہے امن کی تسکین
شجر کی شاخ پہ کچھ فاختاؤں کا گھر ہے
سکون دور ہے اسکی مہک نہیں آتی
'سفر ہمارا ابھی گیلی رہگزر پر ہے'
خدا کرے مری قربت سے آشنا ہی نہ ہو
جو شخص آج مری دسترس سے باہر ہے
خدائے کل نے خدائے وفا کی نوکری دی
سرائے کرب و بلا سر پہ سبز چادر ہے
سبھی کو ظاہری حلیے سے کام ہے تابش
دکھائی پڑتا نہیں ہے جو دل کے اندر ہے
صبا تابش
یوم پیدائش 24 جنوری
جن کے تھے شیدا کئی وہ حسن جاناں کیا ہوئے
نازنین و مہ جبین و گل بداماں کیا ہوئے
میرے سارے خواب چکنا چور ہو کر رہ گئے
تیرے سینے میں پنپتے تھے جو ارماں کیا ہوئے
یوں اکیلا چھوڑ کر جاتے کہاں ہو ہم سفر
ساتھ جینے مرنے کے وہ عہد و پیماں کیا ہوئے
کیوں اندھیروں سے بھری ہے زندگانی اب تری
جن پہ تجھ کو مان تھا وہ مہر تاباں کیا ہوئے
لوگ سمجھے ہم گرے شاید سنبھل پائیں بھی
وقت کے ہاتھوں سے کچھ پل ہم ہراساں کیا ہوئے
عثمان غازی
یوم پیدائش 24 جنوری
کتنی ہی کہانی، کہیں افسا نے ہوئے ہیں
ٹوٹے ہیں تو اندر سے کئی خانے ہوئے ہیں
زرٌے بھی ہمیں راہ کے پہچانے ہوئےہیں
ہم خاک زمانے کی بہت چھانے ہوئے ہیں
یہ وقت تو گزرا ہے کئی بار سروں سے
اپنے بھی ہمیں دیکھ کے انجانے ہوئے ہیں
جو آپ میں دیکھا ہےکسی میں نہیں پایا
ہم یونہی نہیں آپ کے دیوانے ہوئے ہیں
کانٹوں پہ اگر پاؤں یہ چلتے ہیں تو کیا ہے
پھولوں کی تو ہم سر پہ ردا تانے ہوئے ہیں
ظفر رانی پوری
یوم پیدائش 23 جنوری 1722
جس دن کو ساجن بچھڑے ہیں تس دن کا دل بیمار ہویا
اب کٹھن بنا کیا فکر کروں گھر بار سبھی بیمار ہویا
دن رات تمام آرام نہیں اب شام پڑی وہ شام نہیں
وہ ساقی صاحب جان نہیں اب پینا مے دشوار ہویا
بن جانی جان خراب بہی با آتش شوق کباب بہی
جوں ماہی بحر بے آب بہی نت رودن ساتھ بیمار ہویا
مجھے پی اپنے کو لیاؤ رے یا مجھ سوں پی پہنچاؤ رے
یہ اگن فراق بجھاؤ رے سب تن من جل انگار ہویا
تب مجنوں کا میل ہویا تھا جب لیلیٰ کہہ کر رویا تھا
وہ یک دم سیج نہ سویا تھا اب لگ نیک شمار ہویا
سو میں اب مجنوں وار بہی پردیش بدیس خوار بہی
اس پی اپنے کی یار بہی اب میرا بھی اعتبار ہویا
جب وارثؔ شاہ کہلایا نے تب روح سوں روح ملایا نے
تب سیج سہاگ سلایا نے جیو جان مخزن اسرار ہویا
وارث شاہ
یوم پیدائش 22 جنوری 1984
تمہاری چال میں آنے لگے ہیں
پرندے جال میں آنے لگے ہیں
سبھی چہروں پہ ہے پھیلا تجسس
وہ اب کس حال میں آنے لگے ہیں
ترے وعدے کا موسم آ گیا ہے
شگوفے ڈال میں آنے لگے ہیں
کہو ان عاشقوں سے دل کو تھامیں
وہ کالی شال میں آنے لگے ہیں
تمہارے ہجر میں اشعار میرے
عجب سر تال میں آنے لگے ہیں
جو دکھ آتے تھے مدت بعد پہلے
وہ اب ہر سال میں آنے لگے ہیں
حیا کے جتنے بھی ہیں رنگ سارے
تمہارے گال میں آنے لگے ہیں
تاثیرجعفری
یوم پیدائش 22 جنوری
تابندہ بہاروں کے نظارے نہیں دیکھے
تو نے وہ چمکتے ہوئے تارے نہیں دیکھے
کچھ اس لیے بھی نیند ہمیں آتی ہے جلدی
آنکھوں نے ابھی خواب تمہارے نہیں دیکھے
خود ہاتھ ملایا ہے سمندر میں بھنور سے
کشتی نے تلاطم میں سہارے نہیں دیکھے
ممکن ہے کسی طور کوئی چارہ بھی ہوتا
تو نے ہی کبھی زخم ہمارے نہیں دیکھے
کیا کیا نہ ستم مجھ پہ کیا رات نے آ کر
دن کیسے مری جان گزارے نہیں دیکھے
کیا دیکھ رہے ہو یہ محبت کے کرم ہیں
تم نے کبھی تقدیر کے مارے نہیں دیکھے
مریم ناز
یوم پیدائش 21 جنوری 1964
سفر سے آئے تو پھر اک سفر نصیب ہوا
کہ عمر بھر کے لیے کس کو گھر نصیب ہوا
وہ ایک چہرہ جو برسوں رہا ہے آنکھوں میں
کب اس کو دیکھنا بھی آنکھ بھر نصیب ہوا
تمام عمر گزاری اسی کے کاندھے پر
جو ایک لمحہ ہمیں مختصر نصیب ہوا
ہوا میں ہلتے ہوئے ہاتھ اور نم آنکھیں
ہمیں بس اتنا ہی زاد سفر نصیب ہوا
ہوا کے رخ سے پر امید تھا بہت گلشن
پر اب کے بھی شجر بے ثمر نصیب ہوا
بلندیوں کی ہوس میں جو سب کو چھوڑ گئے
کب ان پرندوں کو اپنا شجر نصیب ہوا
لبوں سے نکلیں ادھر اور ادھر قبول ہوئیں
کہاں دعاؤں میں ایسا اثر نصیب ہوا
ادھر چھپائیں تو کھل جائیں دوسری جانب
لباس زیست ذرا مختصر نصیب ہوا
سلیمؔ چاروں طرف تیرگی کے جال گھنے
پہ ہم کو نیشتر بے ضرر نصیب ہوا
سلیم سرفراز
یوم پیدائش 21 جنوری 1944
آپ کا حسیں چہرہ جب بھی یاد آیا ہے
ذہن کے دریچے سے چاند مسکرایا ہے
دل کشی کو میں کیسے آپ سے الگ سمجھوں
چاندنی حقیقت میں چاند ہی کا سایا ہے
ٹھیک ہی تو کہتے ہیں پھر بہار آئی ہے
درد دل کا مہکا ہے، زخم مسکرایا ہے
بے خودی سی طاری ہے، کیا خبر زمانے کو
ساز کس نے چھیڑا ہے، گیت کس نے گایا ہے
تنگ آکے خلوت سے، انتہائے الفت میں
درد کے فرشتوں سے شہرِ دل بسایا ہے
زندگی عبارت ہے اشک سے، تبسم سے
ہر کسی نے کھویا ہے، ہر کسی نے پایا ہے
میری آرزوؤں کا دل نہ توڑیئے مغموم
میں نے ہر تمنا کو خونِ دل پلا یا ہے
باغیش مغموم کلکتوی
یوم پیدائش 21 جنوری 1948
یوم وفات 07 مئی 2021
خلاصہ ہے گلوں کی داستاں کا
رہا قبضہ بہاروں پر خزاں کا
مخالف سمت رہبر چل رہے ہیں
خدا حافظ ہمارے کارواں کا
ہمارے سر پہ جو سایہ فگن ہے
یہ بادل ہے تعصب کے دھواں کا
وہ شعلوں کی زبانیں بولتا ہے
دہانہ ہے کسی آتش فشاں کا
ذرا سوچو یہ کیسا فاصلہ ہے
ہمارے اور تمھارے درمیاں کا
اڑا کر لے گئیں دشمن ہوائیں
ہر اک تنکا ہمارے آشیاں کا
شرافت حسین
یوم پیدائش 20 جنوری 1948
کوئی مشکل ہو خود ہوتی آساں نہیں
درد کیسے مٹے گر ہو درماں نہیں
ہوتے مومن کبھی بھی ہراساں نہیں
جن میں جرات نہیں ان میں ایماں نہیں
اہلِ ہمت کریں جب بھی عزمِ عمل
کون سی مشکلیں ہیں جو آساں نہیں
خاربھی لازمی ہیں گلابوں کے ساتھ
خارجس میں نہیں وہ گلستاں نہیں
ظلم کرتے ہو تم ظلم سہتے ہیں ہم
تم بھی انساں نہیں ہم بھی انساں نہیں
اِن پہ تنقید سب مل کے کھل کر کرو
میرے اشعار آیاتِ قرآں نہیں
فن کے گہنوں سے جس کو سجایا گیا
کم دلھن سے حسیں میرا دیواں نہیں
جانور دیکھ کر آج لگتا ہے یوں
یا ہم انساں نہیں یا یہ حیواں نہیں
عادل فاروقی
تاریخ پیدائش:20جنوری 1964
چاند کو دیکھ کے جب درد سوا ہوتا ہے
قطرۂ اشک بھی اک حرفِ دعا ہوتا ہے
صبح دم وہ بھی چلا آتا ہے اٹھلاتا ہوا
جس پہ احسان ترا بادِ صبا ہوتا ہے
دل دھڑکتا ہوا بخشا ہے جگر زخم بھرا
شکریہ ان کا کہاں مجھ سے ادا ہوتا ہے
جس پہ گزری ہو وہی جانتا ہے اس کا مزہ
ہجر کی زیست کا ہر لمحہ سزا ہوتا ہے
چاندنی رات ہو ، گلزار ہو ، تنہائی ہو
پھر غزل چھیڑ کے دیکھے کوئی کیا ہوتا ہے
پھر منڈیروں سے اتر آتے ہیں پنچھی سارے
جب صنم دل کا ہر اک زخم ہرا ہوتا ہے
تسنیم صنم
یوم پیدائش 19 جنوری 1938
مرا یقیں، نہ کہیں میرا وہم ہو جائے
کبھی تو خواب کی تعبیر لے کے تو آئے
ترے جہان کی وسعت ترے خیال سے ہے
وہی خیال ہر اک دل میں کاش در آئے
نمود صبح کی، تقدیر شب تو ہے لیکن
مرا خیال گہن میں کہیں نہ آ جائے
یہ راستہ ہے لہو کا، قدم قدم پہ کہیں
چلو چلو کی سدا سن کے دل نہ گھبرائے
یہ ڈر، یہ خط، یہ تشویش کی فصیلیں ہیں
خدا کا قہر بھی اس شہر میں اتر آئے
بشیر آروی
یوم پیدائش 19 جنوری
کارِ جنوں میں خود کو نہ خود کی خبر ملے
دستِ طلب کو اپنا ہی شوریدہ سر ملے
رُخ آسماں کا لرزہ بر اندام کیوں نہ ہو
نوکِ سناں پہ جب کوئی پاکیزہ سر ملے
آئے نظر شفق پہ پرندے شکستہ حال
وہ چاہتے ہیں اب انھیں زارِ شجر ملے
مجھ کو ہے زندگی سے زیادہ قضا عزیز
”یا رب مری دعا کو نہ بابِ اثر ملے“
قیصر کو ابتغائے محبت سے کیا غرض
حسرت ہے اس کے دل میں کہ سوزِ جگر ملے
محمد امتیاز قیصر
یوم پیدائش 19 جنوری 1949
اب شام زندگی کا اندھیرا بھی ہو چلا
جو ہوں اسیر گردش حالات کیا کروں
(جلال الدین خاں نظر گیاوی)
شاعر حیدر بیابانی ادب اطفال کے اہم ستون آج بتاریخ 19/01/2022 اچلپور میں انتقال کر گئے
انا الیہ وانا الیہ راجعون
نہ دولت کام آئے گی نہ طاقت کام آئے گی
شرافت ہے کھرا سکہ شرافت کام آئے گی
نہ دیکھیں ہم بھری آنکھوں سے اپنے ہاتھ کے چھالے
کریں محنت مرے بھائی کہ محنت کام آئے گی
رہیں جس حال میں لیکن چلیں ہم راستہ سیدھا
یہی اپنی روش روز قیامت کام آئے گی
بڑھیں آگے ستارے چاند، سورج راہ تکتے ہیں
کسی بھی چیز کو پانے میں محنت کام آئے گی
سہج رکھیں اگر گھر میں پڑی ہیں فالتو چیزیں
ہے ہر شئے کام کی وقت ضرورت کام آئے گی
کریں گے علم حاصل چاہے ہم کو چین جانا ہو
نبی فرماگئے بے شک یہ دولت کام آئے گی
جہاں دیدہ بزرگوں سے بصیرت پاؤ حیدر جی
بصیرت جس میں ہو ایسی بصارت کام آئے گی
حیدر بیابانی
یوم پیدائش 19 جنوری 1873
وہ مسلمان کہاں اگلے زمانے والے
گردنیں قیصر و کسریٰ کی جھکانے والے
امتیاز ابیض و اسود کا مٹانے والے
سبق انسان کو اخوّت کا پڑھانے والے
بات کیا تھی کہ نہ روما سے نہ ایران سے دیے
چند بے تربیت اونٹوں کے چرانے والے
بھید وہ کیا تھا جو آپس میں ملے تھے نہ کبھی
ہوگئے مشرق و مغرب کو ملانے والے
جن کو کا فور پہ ہوتا تھا نمک کا دھوکا
بن گئے خاک کو اکسیر بنانے والے
پیشوائی کو نکل آئی خدائی ساری
گھر سے نکلے جو محمدؐ کے گھرانے والے
غم و خمخانہ بھی ہے مہر و نشاں بھی ہے وہی
نہیں ملتے ہیں مگر خم کے لنڈھانے والے
وہی نیسان ہے گہر ریز ابھی تک لیکن
نظر آتے نہیں گوہر کے لٹانے والے
کیا سکھاتے ہیں تمدن کی حقیقت ہم کو
آج قرآن کی دولت کو چرانے والے
فیض کس کا ہے یہ اس پر بھی کبھی غور کریں
اپنی تہذیب کا افسانہ سنانے والے
بادشاہی میں فقیری کا چلن رکھتے ہیں
دوش پر بار امانت کا اٹھانے والے
نہ دبے ہیں کبھی باطل سے نہ دب سکتے ہیں
گردن اللہ کے رستے میں کٹانے والے
آشنا ذوق اسیری سے ہو میری مانند
شعر کہنے ہوں اگر وجد میں لانے والے
مولانا ظفر علی خان
یوم پیدائش 19 جنوری 1873
کچھ اس کی بھی خبر ہے تجھ کو اے مسلم کہ آپہنچی
وہ ساعت جو نہ بھولے سے بھی لے گی نام ٹلنے کا
بھڑک اٹھی وہ آگ اسلام نے جس کی خبر دی تھی
کیا ہے کفر نے ساماں ترے خرمن کے جلنے کا
جمی ہیں پپڑیاں تیرے غبار آلودہ ہونٹوں پر
تماشا دیکھ لے حسرت سے زمزم کے ابلنے کا
تجھے تہذیب مغرب سبز باغ اپنا دکھاتی ہے
یہ ساماں ہو رہا ہے تیری نیت کے پھسلنے کا
ترا اخراج قسطنطنیہ سے شائد نشاں ہوگا
امام مہدی برحق کے میداں میں نکلنے کا
اگر قرآں کے وعدے سچ ہیں اور شک نہیں سچ میں
تو وقت آہی گیا ہے کفر کے سورج کے ڈھلنے کا
رسول اللہ خود گرتے ہوؤں کو تھام لیتے ہیں
تجھے اے بے خبر ہر وقت موقع ہے سنبھلنے کا
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
مولانا ظفر علی خان
یوم پیدائش 18 جنوری
قدرت کا سرسبز بچھونا اچھا لگتا ہے
کھلی فضا میں گھاس پہ سونا اچھا لگتا ہے
شام ڈھلے جب شاخ پہ چڑیاں نغمے گاتی ہیں
مجھ کو تیرے ساتھ میں ہونا اچھا لگتا ہے
ہر ایک چیز جو اپنی جگہ پر سجی سجائی ہو
خود ہی گھر کا کونا کونا اچھا لگتا ہے
تم کیا جانو رہ رہ کیسے پاتے ہیں منزل
تم کو تو بس خواب سلونا اچھا لگتا ہے
میرے گاؤں کے لوگ بھی کتنے بھولے بھالے ہیں
آج بھی ان کو جادو ٹونا اچھا لگتا ہے
فیض الامین فیض
یوم پیدائش 18 جنوری 1983
اگر وہ خود ہی بچھڑ جانے کی دعا کرے گا
تو اس سے بڑھ کے مرے ساتھ کوئی کیا کرے گا
سنا ہے آج وہ مرہم پہ چوٹ رکھے گا
مجھی سے مجھ کو بھلانے کا مشورہ کرے گا
ترس رہی ہیں یہ آنکھیں اس ایک منظر کو
جہاں سے لوٹ کے آنے کا دکھ ہوا کرے گا
اگر یہ پھول ہے میری بلا سے مرجھائے
اگر یہ زخم ہے مالک اسے ہرا کرے گا
میں جانتی ہوں کہ جتنا خفا بھی ہو جائے
وہ میرے شہر میں آیا تو رابطہ کرے گا
میں اس سے اور محبت سے پیش آؤں گی
جو میرے حق میں کوئی عائشہؔ برا کرے گا
عائشہ ایوب
یوم پیدائش 18 جنوری 1964
یہ جو ہم اختلاف کرتے ہیں
آپ کا اعتراف کرتے ہیں
آؤ دھوتے ہیں دل کے داغوں کو
آؤ آئینے صاف کرتے ہیں
تم کو خوش دیکھنے کی خاطر ہم
بات اپنے خلاف کرتے ہیں
مجرم عشق تو بھی ہے اے دوست
جا تجھے ہم معاف کرتے ہیں
لفظ کے گھاؤ ہوں تو کیسے بھریں
لفظ گہرا شگاف کرتے ہیں
تبسم صدیقی
یوم پیدائش 18 جنوری 1935
(نظم) بچے اسکول سے آرہے ہیں
بچے اسکول سے آرہے ہیں
بچے معصوم روشن ستارے
حسن گھر کا ہیں آنگن کی رونق
خوش فضا یہ وطن کے نظارے
ان سے روشن رہے گا زمانہ
ان میں وہ علم کی روشنی ہے
ان سے انسانیت ہی بڑھے گی
ان میں وہ پیار کی زندگی ہے
یہ ہیں پاکیزہ جذبوں کا گلشن
یہ محبت ہیں اور یہ وفا ہیں
ان پہ قرآں کی آیات واری
ان پہ انجیل گیتا فدا ہیں
اُف یہ کیسا دھماکہ ہوا ہے
بچوں کے چیتھڑے اڑ گئے ہیں
جیسے قرآں کے بکھرے ہوں اوراق
جیسے انجیل گیتا پھٹے ہیں
اے دھماکوں کے بانی، تو سن لے
یہ عمل وحشیانہ قدم ہے
اپنے رب کو دکھائے گا کیا منہ
نا پسند ارب کو تیرا ستم ہے
کوئی مذہب یہ کہتا نہیں ہے
بے گناہوں کو مارو ، مٹائو
مذہبوں کی تو تلقین یہ ہے
علم کی روشنی سب میں لائو
علم کی گرمی لے کر بڑھیں ہم
تبجہالت کا کہرا چھٹے گا
پھر بُری سوچ ہوگی نہ کوئی
تب عمل وحشیانہ ہٹے گا
قمر الدین صدیقی برتر
یوم پیدائش 18 جنوری 1929
شہر کا شہر جلا اور اجالا نہ ہوا
سانحہ کیا یہ مقدر کا نرالا نہ ہوا
ہے فقط نام کو آزادئ اظہار خیال
ورنہ کب کس کے لبوں پر یہاں تالا نہ ہوا
ٹوٹتے شیشے کو دیکھا ہے زمانے بھر نے
دل کے ٹکڑوں کا کوئی دیکھنے والا نہ ہوا
جس نے پرکھا انہیں وہ تھی کوئی بے جان مشین
دل کے زخموں کا بشر دیکھنے والا نہ ہوا
کس قدر یاس زدہ ہے یہ حصار ظلمت
دل جلائے بھی تو ہر سمت اجالا نہ ہوا
دشت غربت کے سفر کی یہ اذیت ناکی
خشک تلووں کا ابھی ایک بھی چھالا نہ ہوا
ضبط کا حد سے گزر جانا یہی ہے اخترؔ
دل سلگتا ہے مگر ہونٹوں پہ نالہ نہ ہوا
اختر مادھو پوری
یوم پیدائش 17جنوری
فریبِ ضو میں ہمیں کس نے لا اچھالا ہے
سجھائی کچھ نہیں دیتا کہاں اجالا ہے
وگرنہ کون تھا جو تیری پرورش کرتا
خدائے فکر تجھے میں نے ہی تو پالا ہے
تماشا دیکھتی آنکھوں ! سلامتی پاؤ
تمھارے شوق سے کرتب مرا نرالا ہے
میں اپنے کرب کو سہلا رہا ہوں مدت سے
یہ میری راکھ پہ سر رکھ کے سونے والا ہے
ترے حصار میں آ کر بدل گیا ہوں میں
مرا وجود بھی اب روشنی کا ہالہ ہے
مرے لیے ہے وہی میرا حکمِ کن شاہد
حصارِ وقت سے جو لمحہ بھی نکالا ہے
شاہد فیروز
یاد رفتگاں بیاد ہردلعزیز سخنور و ممتاز نغمہ نگار ابراہیم اشک مرحوم
تاریخ وفات : 16 جنورٕی 2022
ہو گٸے دنیاسے رخصت آج ابراہیم اشک
اردو دنیا کے لٸے ہے روح فرسا یہ خبر
ان کی غزلوں سے عیاں ہے زندگی کا سوز و ساز
فلمی نغمے بھی ہیں ان کے سب کے منظور نظر
ان کو تھا دوھہ نگاری میں بھی حاصل امتیاز
ان کی نظمیں بھی ہیں اک آٸینہ نقد و نظر
" آگہی " ہے نام جس مجموعہ اشعار کا
ندرت فکر و نظر ہے اس میں ان کی جلوہ گر
ان کے ہے " الہام " سے ظاہر شعور فکر و فن
اک ادیب و شاعر و فنکار تھے وہ نامور
گلشن اردو میں ان کی ذات تھی مثل بہار
ان کی اردو شاعری ہے جس کا اک شیریں ثمر
ان کے سینے میں دھڑکتا تھا دل درد آشنا
گردش حالات پر بھی ان کی تھی گہری نظر
جنت الفردوس میں درجات ہوں ان کےبلند
عہد حاضر کے تھے برقی وہ سخنور معتبر
احمد علی برقی اعظمی
یوم پیدائش 17 جنوری
مرے کانوں میں ان کے لہجے کی پھر چاشنی اترے
زباں سے ان کی ہر اک بات بن کے نغمگی اترے
سدا روشن کیا ہے دل کو جن کی یاد سے ہم نے
ہمارے نام پر ان کے بھی دل میں روشنی اترے
مرے گلشن سے ہجرت پر خزاں مجبور ہو جائے
ہر اک برگ و شجر پر اس طرح سے تازگی اترے
سدا تہمت لگاتے ہیں وہ مجھ پر کیا کروں مولا
میں مریم تو نہیں جس کی صفائی میں وحی اترے
یہ مانا بخت میں میرے ازل سے رات ہے لیکن
کبھی تو میرے آنگن میں بھی اجلی چاندی اترے
میں خود کو آئینے میں دیکھ کر حیران رہ جاؤں
تمہارے پیار سے چہرے پہ ایسی دلکشی اترے
کسی ہمدرد کا کاندھا میسر فوزیہ کو ہو
تھکن برسوں کی اس کے جسم و جاں سے بھی کبھی اترے
فوزیہ اختر شیخپوروی
یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...