Urdu Deccan

Monday, January 31, 2022

شارق اجمیری

 یوم پیدائش 31 جنوری 1941


زندگی کے تغیرات ہی کیا

صرف اتنی سی بات ، بات ہی کیا

زندگی کچھ تھی ،کچھ ہے ،کچھ ہوگی

 بزمِ نیرنگیء حیات ہی کیا


شارق اجمیری


Sunday, January 30, 2022

فردوسی عظیم آبادی

 یوم پیدائش31 جنوری 1941

 

 پھر یاد کوئی آیا پھر درد سوا ہوگا

 اب اے غم تنہائی اس رات کا کیا ہوگا


 کچھ اور بڑھی ہوگی سرخی ترے چہرے کی

تنہائی میں جب تونے کچھ یاد کیا ہوگا

   

 ماتھے پہ شکن کیسی شرمائے ہوئے کیو ں ہو

 لوگوں نے مجھے شاید دیوانہ کہا ہوگا

     

 میخانہ چھٹا مجھ سے پی آ تو ہی اب واعظ

 اب بھی مرے حصہ کا پیمانہ بھرا ہوگا

       

   فردوسی عظیم آبادی


ظہور ظہیرآبادی

 یوم پیدائش 31 جنوری 


جو ہیں سوغاتیں اپنوں کی وہ سینے میں چھپاتے ہیں

ملے جو زخم اپنوں سے کہاں سب کو بتاتے ہیں


پڑا جب وقت تو غیروں نے ہی ہم کو سنبھالا ہے

جنہیں اپنا سمجھتے ہیں وہی دامن بچاتے ہیں


دلوں سے کھیلنا فطرت رہی جن کی محبت میں

کھلونوں کی طرح اکثر وہ دل کو توڑ جاتے ہیں


لگے گی آگ ان کے بھی کبھی تو آشیانہ میں

گھروں میں آگ نفرت کی جو اوروں کے لگاتے ہیں


وہ آہی جائیں گے اک دن زمانے کی نگاہوں میں

جو اپنے اصل چہرے پر بھی اک چہرہ لگاتے ہیں


مٹادیں جن کی خاطر خواہشیں ہم نے ظہور اپنی

زمانے میں وہی تو آج کل ہم کو رلاتے ہیں


ظہور ظہیرآبادی


عبدالسلام عاصم

 یوم پیدائش 30 جنوری 1960


جس جگہ جو خوش نشیں آیا نظر رہنے دیا

ہم نے روشن دان میں چڑیوں کا گھر رہنے دیا


مل کے جو بچھڑے انہیں جانے سے روکا بھی نہیں

اور جو ساتھ آئے ان کو ہم سفر رہنے دیا


جس کے ڈر کی کرتے پھرتے ہیں تجارت اہل دیں

ہم نے اس کے خوف سے لرزیدہ شر رہنے دیا


درد دل کو بھی دواؤں سے ہی بہلاتے رہے

بد دعاؤں کو ہمیشہ بے اثر رہنے دیا


ہر سحر تجھ کو بھلانے کے لئے دفتر گیا

اور تری یادوں کو مہماں رات بھر رہنے دیا


جس میں ہاتھوں کو مرے تھامے نظر آتے ہو تم

بس اسی تصویر کو دیوار پر رہنے دیا


سب بدل کر رکھ دیا ہم نے ان آنکھوں کے لئے

ہاں مگر منظر بہ منظر چشم تر رہنے دیا


عبدالسلام عاصم


اجمل سلطان پوری

 یوم وفات 29 جنوری 2020


گیت

کہاں ہے میرا ہندوستان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مسلماں اور ہندو کی جان 

کہاں ہے میرا ہندوستان 

میں اس کو ڈھونڈ رہا ہوں 


مرے بچپن کا ہندوستان 

نہ بنگلہ دیش نہ پاکستان 

مری آشا مرا ارمان 

وہ پورا پورا ہندوستان 

میں اس کو ڈھونڈ رہا ہوں 


وہ میرا بچپن وہ اسکول 

وہ کچی سڑکیں اڑتی دھول 

لہکتے باغ مہکتے پھول 

وہ میرے کھیت مرے کھلیان 

میں اس کو ڈھونڈ رہا ہوں 


وہ اردو غزلیں ہندی گیت 

کہیں وہ پیار کہیں وہ پریت 

پہاڑی جھرنوں کے سنگیت 

دیہاتی لہرا پربی تان 

میں اس کو ڈھونڈ رہا ہوں 


جہاں کے کرشن جہاں کے رام 

جہاں کی شام سلونی شام 

جہاں کی صبح بنارس دھام 

جہاں بھگوان کریں اشنان 

میں اس کو ڈھونڈ رہا ہوں 


جہاں تھے تلسیؔ اور کبیرؔ 

جائسیؔ جیسے پیر فقیر 

جہاں تھے مومنؔ غالبؔ میرؔ 

جہاں تھے رحمنؔ اور رسخانؔ 

میں اس کو ڈھونڈ رہا ہوں 


وہ میرے پرکھوں کی جاگیر 

کراچی لاہور و کشمیر 

وہ بالکل شیر کی سی تصویر 

وہ پورا پورا ہندوستان 

میں اس کو ڈھونڈ رہا ہوں 


جہاں کی پاک پوتر زمین 

جہاں کی مٹی خلد نشین 

جہاں مہراج معینؔ الدین 

غریب نواز ہند سلطان 

میں اس کو ڈھونڈ رہا ہوں 


مجھے ہے وہ لیڈر تسلیم 

جو دے یکجہتی کی تعلیم 

مٹا کر کنبوں کی تقسیم 

جو کر دے ہر قالب اک جان 

میں اس کو ڈھونڈ رہا ہوں 


یہ بھوکا شاعر پیاسا کوی 

سسکتا چاند سلگتا روی 

ہو جس مدرا میں ایسی چھوی 

کرا دے اجملؔ کو جلپان 

میں اس کو ڈھونڈ رہا ہوں

 

مسلماں اور ہندو کی جان 

کہاں ہے میرا ہندوستان 

میں اس کو ڈھونڈ رہا ہوں


اجمل سلطان پور


Saturday, January 29, 2022

بیدل جونپوری

 یوم وفات 28 جنوری 2015


بہت زوروں پہ وی سی آر تھا کل شب جہاں میں تھا

ہر اک ناظر بڑا بیدار تھا کل شب جہاں میں تھا


سیہ زلف پریشاں کے عوض شانے پہ چوٹی تھی

ستارہ تھا مگر دم دار تھا کل شب جہاں میں تھا


اندھیرا ہی اندھیرا چھا گیا ہے لوڈ شیڈنگ سے

نہ جانے کس طرف کو یار تھا کل شب جہاں میں تھا


بڑے ارمان سے نکلا تھا شاپنگ کے لیے گھر سے

کلوزنگ پہ ہر اک بازار تھا کل شب جہاں میں تھا


زبردستی کا میں قائل نہ تھا واپس چلا آیا

کہ اس کے ہونٹ پر انکار تھا کل شب جہاں میں تھا


اڑن چھو تھا سگ معشوق بیدلؔ اپنی ڈیوٹی سے

نہ پہرہ تھا نہ پہرے دار تھا کل شب جہاں میں تھا


بیدل جونپوری


راز عظیم آبادی

 یوم وفات 29 جنوری 1963


مرے ساتھ آئے رنگِ بزم جاناں کون دیکھے گا

دل و جاں نذر دے کر خونِ ارماں کون دیکھے گا


نہ گھراؤ کرے گا کون دعویٰ خونِ ناحق کا

سرِ محشر تمہیں سردر گریباں کون دیکھے گا 


دلِ بیتاب ہوگا جاکے رُسوا ان کی محفل میں

ارے ناداں سوئے ناخواندہ مہماں کون دیکھے گا


خدارا درد کا میرے اثر تم بھی نہ لے لینا

پہ ہنس ہنس کے مرا حالِ پریشاں کون دیکھے گا


بہت نکلیں گے یوں تو رقصِ بسمل دیکھنے والے

دل ِمہجور تیرا دردِ پنہاں کون دیکھے گا


نظر والو سرِ راهِ تصور عام دعوت ہے

مریِ آنکھوں میں ہے تصویرِ جاں کون دیکھے گا


جو ہم اہلِ جنوں کی بھی چمن ہی پر نظر ہوگی

تو پھر حُسن رُخِ دشت و بیاباں کون دیکھے گا


غنیمت ہے شبِ غم نیند اُڑ جاتی ہے آنکھوں سے

سحر تک سیکڑوں خوابِ پریشاں کون دیکھے گا


بکھر جائیں گے جلوے تم نقابِ رُخ نہ سرکاؤ

نگاہِ شوق کی تنگیء داماں کون دیکھے گا


ٹھہر جا تو پسِ میخانہ واعظ، میں ابھی آیا

بس اک دوگھونٹ، اطمینان رکھ، یاں کون دیکھے گا ؟


گرفتِ پنجۂ شہباز تحسین ِنظر لے گی

ترے جذبوں کو اے صیدِ پَر افشاں کون دیکھے گا


ضرور آئی کہیں سے دل میں چنگاری محبت کی

لگا کر آگ خود گھر میں چراغاں کون دیکھے گا


 کسی نے جیتے جی تجھ پر نہ جب راز اک نظر ڈالی

  تو پھر مڑ کر سوئے گورِ غریباں کون دیکھے گا

  

راز عظیم آبادی


تبسم کاشمیری

 یوم پیدائش 29 جنوری 1940


نظم اس عہد کی بے حس ساعتوں کے نام


یہاں اب ایک تارہ 

زرد تارہ بھی نہیں باقی 

یہاں اب آسماں کے 

چیتھڑوں کی پھڑپھڑاہٹ بھی نہیں باقی 

یہاں پر سارے سورج 

تارے سورج 

تیرتے افلاک سے گر کر 

کسی پاتال میں گم ہیں 

یہاں اب سارے سیاروں کی گردش 

رک گئی ہے 

یہاں اب روشنی ہے 

اور نہ آوازوں کی لرزش ہے 

نہ جسموں میں ہی حرکت ہے 

یہاں پر اب فقط 

اک خامشی کی پھڑپھڑاہٹ ہے 


تبسم کاشمیری


حامدی کاشمیری

 یوم پیدائش 29 جنوری 1932


بس اسی کا سفر شب میں طلب گار ہے کیا

تو ہی اے ماہ مرا ہم دم و غم خوار ہے کیا


تیشہ در دست امنڈ آئی ہے آبادی تمام

سب یہی کہتے ہیں دیکھیں پس دیوار ہے کیا


ہاں اسی لمحے میں ہوتا ہے ستاروں کا نزول

شہر خوابیدہ میں کوئی دل بیدار ہے کیا


جسم تو جسم ہے مجروح ہوئی ہے جاں بھی

اپنوں کے ہوتے ہوئے شکوۂ اغیار ہے کیا


تھرتھری پتوں پہ ہے درد بجاں ہیں کلیاں

تو بھی اے باد سحر درپئے آزار ہے کیا


لب ہلانے کی سکت ہے نہ قدم اٹھتے ہیں

سامنے جو بھی ہے دلدل میں گرفتار ہے کیا


حامدی کاشمیری


بلال سرسوی

 یوم پیدائش 29 جنوری 1999


دیکھا جو مجھ کو پیاس کا نقشہ لئے ہوئے

گھر کر گھٹائیں آ گئیں دریا لئے ہوئے


نطق فشاں سے حد سماعت جھلس گئی 

شعلہ بیاں سا تھا کوئی لہجہ لئے ہوئے 


دیکھو تو کیا عجب ہے سواری قتیل کی 

چلتا ہے سر لعیں سر نیزہ لئے ہوئے 


اک جشن عالی شان میں بھوکا تمام رات 

طعنے بٹورتا رہا کاسہ لئے ہوئے 


آتی تھیں چیخنے کی صدائیں زمین سے 

جب میں چلا تھا پاؤں میں چھالا لئے ہوئے  


تشنہ لبی کی آبلہ پائی کا فیض ہے 

کانٹے کھڑے ہیں راہ میں دریا لئے ہوئے 


پھر یوں ہوا کہ شمر ستمگر کی لاش کا 

منقار میں تھا گوشت پرندہ لئے ہوئے 


ہوتا میں دور پانی سے تشنہ لبی کے ساتھ 

ساحل کھڑا ہے دل میں تمنا لئے ہوئے 


دریا سے مشت خاک بھی اٹھی نہیں بلال 

نیزے پہ دشت آ گیا پیاسا لئے ہوئے


  بلال سرسوی ⁦


جوثر ایاغ

 یوم پیدائش 29 جنوری 1964


اجنبی رخ، آئینہ بھی اجنبی

زندگی کا فلسفہ بھی اجنبی


شہر بے معنی ہر اک رشتہ فضول

اس سے میرا رابطہ بھی اجنبی


جانے موسم ایسا کیسے ہو گیا

پہلا بھی تھا دوسرا بھی اجنبی


اجنبیت ہے غضب کا ذائقہ

ہے ہمارا مدعا بھی اجنبی


مختلف ہیں آدمی کے رنگ و بو

منظروں کا سلسلہ بھی اجنبی


سوچنا، لکھنا، ہر اک شب جاگنا

میرا تو ہے راستہ بھی اجنبی


گہری کھائی رات کی پھیلی ایاغ

ہو گیا بوڑھا دیا بھی اجنبی


جوثر ایاغ


نعمان طارق بٹ

 یوم پیدائش 28 جنوری


اس اذیت سے ہے کچھ دیر جڑے رہنا مجھے

آج کی رات کوئی شعر نہیں کہنا مجھے


ہونی پابند نہیں ہوتی کسی جذبے کی

دست بردار کرو، خواہشوں سے کہنا' مجھے! 


راکھ ہوں راکھ مگر جانتا ہوں اصل اپنا

اس لیے دوست کبھی کہنا نہیں گہنا مجھے


غم کوئی بھی ہو مگر بحر وہی ہے مخصوص

ایک رفتار سے ہر رات پڑا بہنا مجھے


نعمان طارق بٹ


دانش علی دانش

 یوم پیدائش 28 جنوری


حقیقتوں سے پرے ، واہمے کو کھینچتا ہے 

مرا دماغ فقط وسوسے کو کھینچتا ہے 


کسی بھی شے کو جہاں میں اکیلے چین نہیں 

ہر ایک جسم کسی دوسرے کو کھینچتا ہے 


میں چاہتا ہوں کہ ٹوٹےنہ پیار کی ڈوری 

سو ڈھیل دیتا ہوں جب وہ سرےکو کھینچتا ہے 


میں بار بار پلٹتا ہوں زندگی کی طرف 

مگر یہ عشق مجھے مارنے کو کھینچتا ہے 


سفر کو چھوڑ کے سب لوگ ، سننے لگتے ہیں 

کسی کا گیت ہر اک قافلے کو کھینچتا ہے 


ہماری بات کہانی کو طول دیتی ہے 

ہمارا ذکر ہر اک واقعے کو کھینچتا ہے 


دانش علی دانش


مہاراج سرکشن پرشاد شاد

 یوم پیدائش 28 جنوری 1864


فنا کہتے ہیں کس کو موت سے پہلے ہی مر جانا

بقا ہے نام کس کا اپنی ہستی سے گزر جانا


جو روکا راہ میں حر نے تو شہہ عباس سے بولے

مرے بھائی نہ غصے میں کہیں حد سے گزر جانا


کہا اہل حرم نے روکے یوں اکبر کے لاشے پر

جواں ہونے کا شاید تم نے رکھا نام مر جانا


بقا میں تھا فنا کا مرتبہ حاصل شہیدوں کو

وہاں اس پر عمل تھا موت سے پہلے ہی مر جانا


نہ لیتے کام گر سبط بنی صبر و تحمل سے

لعینوں کا نگاہ خشم سے آساں تھا مر جانا


دکھائی جنگ میں صورت ادھر جا پہنچے وہ کوثر

یہ اصغر ہی کی تھی رفتار ادھر آنا ادھر جانا


یہاں کا زندہ رہنا موت سے بد تر سمجھتا ہوں

حیات جاوداں ہے کربلا میں جا کے مر جانا


مہاراج


سرکشن پرشاد شاد

خان آرزو سراج الدین علی

یوم وفات 27 جنوری 1756


فلک نے رنج تیر آہ سے میرے زبس کھینچا

لبوں تک دل سے شب نالے کو میں نے نیم رس کھینچا


مرے شوخ خراباتی کی کیفیت نہ کچھ پوچھو

بہار حسن کو دی آب اس نے جب چرس کھینچا


رہا جوش بہار اس فصل گر یوں ہی تو بلبل نے

چمن میں دست گلچیں سے عجب رنج اس برس کھینچا


کہا یوں صاحب محمل نے سن کر سوز مجنوں کا

تکلف کیا جو نالہ بے اثر مثل جرس کھینچا


نزاکت رشتہ الفت کی دیکھو سانس دشمن کی

خبردار آرزوؔ ٹک گرم کر تار نفس کھینچا


خاں آرزو سراج الدین علی


Thursday, January 27, 2022

اسنی بدر

 یوم پیدائش 26 جنوری 196


 نظم وہ کیسی عورتیں تھیں 


جو گیلی لکڑیوں کو پھونک کر چولہا جلاتی تھیں 

جو سل پر سرخ مرچیں پیس کر سالن پکاتی تھیں 

سحر سے شام تک مصروف لیکن مسکراتی تھیں 

بھری دوپہر میں سر اپنا جو ڈھک کر ملنے آتی تھیں 

جو پنکھے ہاتھ کے جھلتی تھیں اور بس پان کھاتی تھیں 

جو دروازے پہ رک کر دیر تک رسمیں نبھاتی تھیں 

پلنگوں پر نفاست سے دری چادر بچھاتی تھیں 

بصد اصرار مہمانوں کو سرہانے بٹھاتی تھیں 

اگر گرمی زیادہ ہو تو روح افزا پلاتی تھیں 

جو اپنی بیٹیوں کو سوئیٹر بننا سکھاتی تھیں 

سلائی کی مشینوں پر کڑے روزے بتاتی تھیں 

بڑی پلیٹوں میں جو افطار کے حصے بناتی تھیں 

جو کلمے کاڑھ کر لکڑی کے فریموں میں سجاتی تھیں 

دعائیں پھونک کر بچوں کو بستر پر سلاتی تھیں 

اور اپنی جا نمازیں موڑ کر تکیہ لگاتی تھیں 

کوئی سائل جو دستک دے اسے کھانا کھلاتی تھیں 

پڑوسن مانگ لے کچھ با خوشی دیتی دلاتی تھیں 

جو رشتوں کو برتنے کے کئی نسخے بتاتی تھیں 

محلے میں کوئی مر جائے تو آنسو بہاتی تھیں 

کوئی بیمار پڑ جائے تو اس کے پاس جاتی تھیں 

کوئی تہوار ہو تو خوب مل جل کر مناتی تھیں 


وہ کیسی عورتیں تھیں 


میں جب گھر اپنے جاتی ہوں تو فرصت کے زمانوں میں 

انہیں ہی ڈھونڈھتی پھرتی ہوں گلیوں اور مکانوں میں 

کسی میلاد میں جزدان میں تسبیح دانوں میں 

کسی بر‌ آمدے کے طاق پر باورچی خانوں میں 

مگر اپنا زمانہ ساتھ لے کر کھو گئی ہیں وہ 

کسی اک قبر میں ساری کی ساری سو گئی ہیں وہ 


اسنی بدر


جعفر بلوچ

 یوم پیدائش 27 جنوری 1947


خزاں کے دوش پہ ہے فصل گل کا رخت ابھی

کہ برگ و بار سے خالی ہے ہر درخت ابھی


ابھی غموں سے عبارت ہے سر نوشت بشر

کہ آسمان پرے ہے زمین سخت ابھی


سمجھ شعاع بریدہ نہ صرف جگنو کو

کرن کرن کا جگر ہوگا لخت لخت ابھی


متاع جاں بھی اسے پیش کر چکا ہوں میں

مرے رقیب کا لہجہ ہے کیوں کرخت ابھی


تمام رات رہا مے کدہ نشیں جعفرؔ 

گیا ہے اٹھ کے یہاں سے وہ نیک بخت ابھی


جعفر بلوچ


افتخار عابد

 یوم پیدائش 26 جنوری 1972


دیتا ہے اس طرح بھی مری تشنگی کی داد 

حسرت سے دیکھتا ہے سمندر مری طرف


افتخار عابد


فرمان فتح پوری

 یوم پیدائش 26 جنوری 1926


چاہت کے پرندے دل ویران میں آئے

صیاد کسی صید کے ارمان میں آئے


وہ چاند ہے سچ مچ کا تو پھر اس سے کہونا

اترے میرے گھر میں کبھی دالان میں آۓ


سورج ہے تو کچھ اپنی تمازت کی رکھے لاج

پگھلائے مجھے برف کی دکان میں آئے


سایہ ہے تو گزرے کسی دیوار کو چھو کر

ہے دھوپ تو اونچان سے ڈھلوان میں آئے


نغمہ ہے تو پھوٹے کبھی ساز رگ جاں سے

آواز کوئی ہے تو مرے کان میں آئے


ہے جسم تو بن جائے مری روح کا مسکن

ہے جان تو پھر اس تن بے جان میں آئے


ساحل ہے تو نظارہ کی دعوت بھی نظر کو

ہے موج بلاخیز تو طوفان میں آئے


امرت ہے تو چمکے لب لعلیں سے کسی کے

ہے زہر تو بازار سے سامان میں آئے


غنچہ ہے تو کھل جائے مرے دل کی صدا پر

خوشبو ہے تو زخموں کے گلستان میں آئے


فرمانؔ وہ جس آن میں جس رنگ میں چاہے

آۓ مگر اتنا ہو کہ پہچان میں آئے


فرمان فتح پوری


زاہد کلیم

 یوم پیدائش 26 جنوری 1954


ذلت کے درپہ خم سرِ تسلیم ہو گئے

تم رنگ و نسل و خون میں تقسیم ہوگئے


زاہد کلیم


شاعر فتح پوری

 یوم وفات 26 جنوری 2022

انا الیہ وانا الیہ راجعون


وہ بے وفا ہی سہی اس کو بے وفا نہ کہو

ادب کی حد میں رہو حسن کو برا نہ کہو


شراب عشق کی عظمت سے جو کرے انکار

وہ پارسا بھی اگر ہو تو پارسا نہ کہو


پڑا ہے کام اسی خود پرست کافر سے

جسے یہ ضد ہے کسی اور کو خدا نہ کہو


مرا خلوص محبت ہے قدر کے قابل

زباں پہ ذکر وفا ہے اسے گلا نہ کہو


یہ کیا کہا کہ دعا ہے اثر سے بیگانہ

تڑپ نہ دل کی ہو جس میں اسے دعا نہ کہو


یہ اور کچھ نہیں فطرت کی بد مذاقی ہے

بغیر بادہ گھٹا کو کبھی گھٹا نہ کہو


تڑپ تڑپ کے گزارو شب فراق اپنی

یہ ناز حسن ہے شاعرؔ اسے جفا نہ کہو


شاعر فتح پوری


شیراز صدیقی

 یوم پیدائش 26 جنوری 2002


خطرات سے ہر گام گزر کیوں نہیں جاتے

جینا نہیں آتا ہے تو مر کیوں نہیں جاتے


یہ عشق کا دریا ہے یہاں موت ہے ممکن

ڈرتے ہو تو کشتی سے اتر کیوں نہیں جاتے


دیوانہ فقط میں نہیں وہ بھی تو ہوا ہے !

آتے ہیں ادھر سنگ ادھر کیوں نہیں جاتے


کب تک یہاں بیٹھو گے فقط آس میں دل کے

اب رات بھی چڑھنے کو ہے گھر کیوں نہیں جاتے


اب مان بھی تو جاؤ نہ! شیراز مری جان

تم حافظ قرآں ہو!! سدھر کیوں نہیں جاتے


شیراز صدیقی


میلہ رام وفا

 یوم پیدائش 26 جنوری 1895


گو قیامت سے پیشتر نہ ہوئی

تم نہ آئے تو کیا سحر نہ ہوئی


آ گئی نیند سننے والوں کو

داستاں غم کی مختصر نہ ہوئی


خون کتنے ستم کشوں کا ہوا

آنکھ اس سنگ دل کی تر نہ ہوئی


اس نے سن کر بھی ان سنی کر دی

موت بھی میری معتبر نہ ہوئی


ساتھ تقدیر نے کبھی نہ دیا

کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی


چین کی جستجو رہی دن رات

زندگی چین سے بسر نہ ہوئی


مجھ کو ملتی نہ اے وفاؔ منزل

عقل قسمت سے راہ بر نہ ہوئی


میلہ رام وفاؔ


کشمالہ علی روشن

 یوم پیدائش 25 جنوری


میں "روشن" ہوں ؟ نہیں ! بے نور ہوں میں

یہ کیا کم ہے کہ تم سے دور ہوں میں ؟


مجھے دنیا کا کوئی غم نہیں ہے

تمھارے ہجر میں رنجور ہوں میں


مجھے تم سے حیا آتی ہے جاناں

"غلط کہتے ہو تم "مغرور ہوں میں "


کہانی ہیر لیلیٰ کی پرانی

محبت کا نیا دستور ہوں میں


بھلے سے رائیگانی زندگی ہے 

یہ کیا کم ہے کہ اب مشہور ہوں میں ؟


نہیں دنیا کی مجھ کو فکر "روشن 

تمھاری حور ہوں ؟ تو حور ہوں میں


کشمالہ علی روشن


صبا تابش

 یوم پیدائش 25 جنوری


کوئی چراغ کوئی دل ہے کوئی پتھر ہے

ہر ایک چیز کی اوقات مجھ کو ازبر ہے


بعید کیا کہ پرستار ہوں سب اہل جہاں

ہماری آنکھ میں دیدہ دلی کا منظر ہے


انہیں درختوں سے ملتی ہے امن کی تسکین

شجر کی شاخ پہ کچھ فاختاؤں کا گھر ہے


سکون دور ہے اسکی مہک نہیں آتی

'سفر ہمارا ابھی گیلی رہگزر پر ہے'


خدا کرے مری قربت سے آشنا ہی نہ ہو

جو شخص آج مری دسترس سے باہر ہے


خدائے کل نے خدائے وفا کی نوکری دی

سرائے کرب و بلا سر پہ سبز چادر ہے


سبھی کو ظاہری حلیے سے کام ہے تابش

دکھائی پڑتا نہیں ہے جو دل کے اندر ہے


صبا تابش


Monday, January 24, 2022

عثمان غازی

 یوم پیدائش 24 جنوری


جن کے تھے شیدا کئی وہ حسن جاناں کیا ہوئے

نازنین و مہ جبین و گل بداماں کیا ہوئے


میرے سارے خواب چکنا چور ہو کر رہ گئے

تیرے سینے میں پنپتے تھے جو ارماں کیا ہوئے


یوں اکیلا چھوڑ کر جاتے کہاں ہو ہم سفر

ساتھ جینے مرنے کے وہ عہد و پیماں کیا ہوئے


کیوں اندھیروں سے بھری ہے زندگانی اب تری

 جن پہ تجھ کو مان تھا وہ مہر تاباں کیا ہوئے

 

لوگ سمجھے ہم گرے شاید سنبھل پائیں بھی

وقت کے ہاتھوں سے کچھ پل ہم ہراساں کیا ہوئے


عثمان غازی


ظفر رانی پوری

 یوم پیدائش 24 جنوری


کتنی ہی کہانی، کہیں افسا نے ہوئے ہیں

ٹوٹے ہیں تو اندر سے کئی خانے ہوئے ہیں


زرٌے بھی ہمیں راہ کے پہچانے ہوئےہیں

ہم خاک زمانے کی بہت چھانے ہوئے ہیں


یہ وقت تو گزرا ہے کئی بار سروں سے

اپنے بھی ہمیں دیکھ کے انجانے ہوئے ہیں


جو آپ میں دیکھا ہےکسی میں نہیں پایا

ہم یونہی نہیں آپ کے دیوانے ہوئے ہیں


کانٹوں پہ اگر پاؤں یہ چلتے ہیں تو کیا ہے

پھولوں کی تو ہم سر پہ ردا تانے ہوئے ہیں


ظفر رانی پوری


وارث شاہ

 یوم پیدائش 23 جنوری 1722


جس دن کو ساجن بچھڑے ہیں تس دن کا دل بیمار ہویا

اب کٹھن بنا کیا فکر کروں گھر بار سبھی بیمار ہویا


دن رات تمام آرام نہیں اب شام پڑی وہ شام نہیں

وہ ساقی صاحب جان نہیں اب پینا مے دشوار ہویا


بن جانی جان خراب بہی با آتش شوق کباب بہی

جوں ماہی بحر بے آب بہی نت رودن ساتھ بیمار ہویا


مجھے پی اپنے کو لیاؤ رے یا مجھ سوں پی پہنچاؤ رے

یہ اگن فراق بجھاؤ رے سب تن من جل انگار ہویا


تب مجنوں کا میل ہویا تھا جب لیلیٰ کہہ کر رویا تھا

وہ یک دم سیج نہ سویا تھا اب لگ نیک شمار ہویا


سو میں اب مجنوں وار بہی پردیش بدیس خوار بہی

اس پی اپنے کی یار بہی اب میرا بھی اعتبار ہویا


جب وارثؔ شاہ کہلایا نے تب روح سوں روح ملایا نے

تب سیج سہاگ سلایا نے جیو جان مخزن اسرار ہویا


وارث شاہ


Saturday, January 22, 2022

تاثیر جعفری

 یوم پیدائش 22 جنوری 1984


تمہاری چال میں آنے لگے ہیں

پرندے جال میں آنے لگے ہیں


سبھی چہروں پہ ہے پھیلا تجسس

وہ اب کس حال میں آنے لگے ہیں


ترے وعدے کا موسم آ گیا ہے

شگوفے ڈال میں آنے لگے ہیں 


کہو ان عاشقوں سے دل کو تھامیں

وہ کالی شال میں آنے لگے ہیں


تمہارے ہجر میں اشعار میرے

عجب سر تال میں آنے لگے ہیں


جو دکھ آتے تھے مدت بعد پہلے

وہ اب ہر سال میں آنے لگے ہیں


حیا کے جتنے بھی ہیں رنگ سارے

تمہارے گال میں آنے لگے ہیں


تاثیرجعفری


مریم ناز

 یوم پیدائش 22 جنوری


تابندہ بہاروں کے نظارے نہیں دیکھے 

تو نے وہ چمکتے ہوئے تارے نہیں دیکھے 


کچھ اس لیے بھی نیند ہمیں آتی ہے جلدی 

آنکھوں نے ابھی خواب تمہارے نہیں دیکھے 


خود ہاتھ ملایا ہے سمندر میں بھنور سے 

کشتی نے تلاطم میں سہارے نہیں دیکھے 


ممکن ہے کسی طور کوئی چارہ بھی ہوتا 

تو نے ہی کبھی زخم ہمارے نہیں دیکھے


کیا کیا نہ ستم مجھ پہ کیا رات نے آ کر 

دن کیسے مری جان گزارے نہیں دیکھے 


کیا دیکھ رہے ہو یہ محبت کے کرم ہیں 

تم نے کبھی تقدیر کے مارے نہیں دیکھے


مریم ناز


عمران ابن عرشی

 یوم پیدائش 21 جنوری 1965


وا ہوئے زندگی کی تلخی سے

درد کے کتنے باب آنکھوں میں


عمران ابن عرشی


سلیم سرفراز

 یوم پیدائش 21 جنوری 1964


سفر سے آئے تو پھر اک سفر نصیب ہوا 

کہ عمر بھر کے لیے کس کو گھر نصیب ہوا 


وہ ایک چہرہ جو برسوں رہا ہے آنکھوں میں 

کب اس کو دیکھنا بھی آنکھ بھر نصیب ہوا 


تمام عمر گزاری اسی کے کاندھے پر 

جو ایک لمحہ ہمیں مختصر نصیب ہوا 


ہوا میں ہلتے ہوئے ہاتھ اور نم آنکھیں 

ہمیں بس اتنا ہی زاد سفر نصیب ہوا 


ہوا کے رخ سے پر امید تھا بہت گلشن 

پر اب کے بھی شجر بے ثمر نصیب ہوا 


بلندیوں کی ہوس میں جو سب کو چھوڑ گئے 

کب ان پرندوں کو اپنا شجر نصیب ہوا 


لبوں سے نکلیں ادھر اور ادھر قبول ہوئیں 

کہاں دعاؤں میں ایسا اثر نصیب ہوا 


ادھر چھپائیں تو کھل جائیں دوسری جانب 

لباس زیست ذرا مختصر نصیب ہوا 


سلیمؔ چاروں طرف تیرگی کے جال گھنے 

پہ ہم کو نیشتر بے ضرر نصیب ہوا 


سلیم سرفراز


باغیش مغموم کلکتوی

 یوم پیدائش 21 جنوری 1944


آپ کا حسیں چہرہ جب بھی یاد آیا ہے

ذہن کے دریچے سے چاند مسکرایا ہے


دل کشی کو میں کیسے آپ سے الگ سمجھوں

چاندنی حقیقت میں چاند ہی کا سایا ہے


ٹھیک ہی تو کہتے ہیں پھر بہار آئی ہے

درد دل کا مہکا ہے، زخم مسکرایا ہے


بے خودی سی طاری ہے، کیا خبر زمانے کو

ساز کس نے چھیڑا ہے، گیت کس نے گایا ہے


تنگ آکے خلوت سے، انتہائے الفت میں

درد کے فرشتوں سے شہرِ دل بسایا ہے


زندگی عبارت ہے اشک سے، تبسم سے

ہر کسی نے کھویا ہے، ہر کسی نے پایا ہے


میری آرزوؤں کا دل نہ توڑیئے مغموم

میں نے ہر تمنا کو خونِ دل پلا یا ہے


باغیش مغموم کلکتوی


شرافت حسین

 یوم پیدائش 21 جنوری 1948

یوم وفات 07 مئی 2021


خلاصہ ہے گلوں کی داستاں کا

 رہا قبضہ بہاروں پر خزاں کا


مخالف سمت رہبر چل رہے ہیں

خدا حافظ ہمارے کارواں کا


ہمارے سر پہ جو سایہ فگن ہے

 یہ بادل ہے تعصب کے دھواں کا


وہ شعلوں کی زبانیں بولتا ہے

دہانہ ہے کسی آتش فشاں کا


ذرا سوچو یہ کیسا فاصلہ ہے

 ہمارے اور تمھارے درمیاں کا


اڑا کر لے گئیں دشمن ہوائیں 

ہر اک تنکا ہمارے آشیاں کا


شرافت حسین


عادل فاروقی

 یوم پیدائش 20 جنوری 1948

                                               

کوئی مشکل ہو خود ہوتی آساں نہیں

درد کیسے مٹے گر ہو درماں نہیں


ہوتے مومن کبھی بھی ہراساں نہیں

جن میں جرات نہیں ان میں ایماں نہیں


اہلِ ہمت کریں جب بھی عزمِ عمل

کون سی مشکلیں ہیں جو آساں نہیں


خاربھی لازمی ہیں گلابوں کے ساتھ

خارجس میں نہیں وہ گلستاں نہیں


ظلم کرتے ہو تم ظلم سہتے ہیں ہم

تم بھی انساں نہیں ہم بھی انساں نہیں


اِن پہ تنقید سب مل کے کھل کر کرو

میرے اشعار آیاتِ قرآں نہیں


فن کے گہنوں سے جس کو سجایا گیا

کم دلھن سے حسیں میرا دیواں نہیں


جانور دیکھ کر آج لگتا ہے یوں

یا ہم انساں نہیں یا یہ حیواں نہیں


عادل فاروقی


تسنیم صنم

 تاریخ پیدائش:20جنوری 1964


چاند کو دیکھ کے جب درد سوا ہوتا ہے

قطرۂ اشک بھی اک حرفِ دعا ہوتا ہے


صبح دم وہ بھی چلا آتا ہے اٹھلاتا ہوا

جس پہ احسان ترا بادِ صبا ہوتا ہے


دل دھڑکتا ہوا بخشا ہے جگر زخم بھرا

شکریہ ان کا کہاں مجھ سے ادا ہوتا ہے


جس پہ گزری ہو وہی جانتا ہے اس کا مزہ

ہجر کی زیست کا ہر لمحہ سزا ہوتا ہے


چاندنی رات ہو ، گلزار ہو ، تنہائی ہو

پھر غزل چھیڑ کے دیکھے کوئی کیا ہوتا ہے


پھر منڈیروں سے اتر آتے ہیں پنچھی سارے

جب صنم دل کا ہر اک زخم ہرا ہوتا ہے


تسنیم صنم


بشیر آروی

 یوم پیدائش 19 جنوری 1938


مرا یقیں، نہ کہیں میرا وہم ہو جائے

کبھی تو خواب کی تعبیر لے کے تو آئے


ترے جہان کی وسعت ترے خیال سے ہے

وہی خیال ہر اک دل میں کاش در آئے


نمود صبح کی، تقدیر شب تو ہے لیکن

مرا خیال گہن میں کہیں نہ آ جائے


یہ راستہ ہے لہو کا، قدم قدم پہ کہیں

چلو چلو کی سدا سن کے دل نہ گھبرائے


یہ ڈر، یہ خط، یہ تشویش کی فصیلیں ہیں

خدا کا قہر بھی اس شہر میں اتر آئے


بشیر آروی


محمد امتیاز قیصر

 یوم پیدائش 19 جنوری


کارِ جنوں میں خود کو نہ خود کی خبر ملے

دستِ طلب کو اپنا ہی شوریدہ سر ملے


رُخ آسماں کا لرزہ بر اندام کیوں نہ ہو

نوکِ سناں پہ جب کوئی پاکیزہ سر ملے


 آئے نظر شفق پہ پرندے شکستہ حال

 وہ چاہتے ہیں اب انھیں زارِ شجر ملے

 

 مجھ کو ہے زندگی سے زیادہ قضا عزیز

 ”یا رب مری دعا کو نہ بابِ اثر ملے“

 

 قیصر کو ابتغائے محبت سے کیا غرض

 حسرت ہے اس کے دل میں کہ سوزِ جگر ملے

 

محمد امتیاز قیصر


جلال الدین خان نظر گیاوی

 یوم پیدائش 19 جنوری 1949

 

 اب شام زندگی کا اندھیرا بھی ہو چلا

 جو ہوں اسیر گردش حالات کیا کروں


(جلال الدین خاں نظر گیاوی)


حیدر بیابانی

 شاعر حیدر بیابانی ادب اطفال کے اہم ستون آج بتاریخ 19/01/2022 اچلپور میں انتقال کر گئے

انا الیہ وانا الیہ راجعون


نہ دولت کام آئے گی نہ طاقت کام آئے گی

شرافت ہے کھرا سکہ شرافت کام آئے گی


نہ دیکھیں ہم بھری آنکھوں سے اپنے ہاتھ کے چھالے

کریں محنت مرے بھائی کہ محنت کام آئے گی


رہیں جس حال میں لیکن چلیں ہم راستہ سیدھا

یہی اپنی روش روز قیامت کام آئے گی


بڑھیں آگے ستارے چاند، سورج راہ تکتے ہیں

کسی بھی چیز کو پانے میں محنت کام آئے گی


سہج رکھیں اگر گھر میں پڑی ہیں فالتو چیزیں

ہے ہر شئے کام کی وقت ضرورت کام آئے گی


کریں گے علم حاصل چاہے ہم کو چین جانا ہو

نبی فرماگئے بے شک یہ دولت کام آئے گی


جہاں دیدہ بزرگوں سے بصیرت پاؤ حیدر جی

بصیرت جس میں ہو ایسی بصارت کام آئے گی


حیدر بیابانی


مولانا ظفر علی خان

 یوم پیدائش 19 جنوری 1873


وہ مسلمان کہاں اگلے زمانے والے

گردنیں قیصر و کسریٰ کی جھکانے والے


امتیاز ابیض و اسود کا مٹانے والے

سبق انسان کو اخوّت کا پڑھانے والے


بات کیا تھی کہ نہ روما سے نہ ایران سے دیے

چند بے تربیت اونٹوں کے چرانے والے


بھید وہ کیا تھا جو آپس میں ملے تھے نہ کبھی

ہوگئے مشرق و مغرب کو ملانے والے


جن کو کا فور پہ ہوتا تھا نمک کا دھوکا

بن گئے خاک کو اکسیر بنانے والے


پیشوائی کو نکل آئی خدائی ساری

گھر سے نکلے جو محمدؐ کے گھرانے والے


 غم و خمخانہ بھی ہے مہر و نشاں بھی ہے وہی

  نہیں ملتے ہیں مگر خم کے لنڈھانے والے

  

 وہی نیسان ہے گہر ریز ابھی تک لیکن

  نظر آتے نہیں گوہر کے لٹانے والے

  

 کیا سکھاتے ہیں تمدن کی حقیقت ہم کو

  آج قرآن کی دولت کو چرانے والے

  

 فیض کس کا ہے یہ اس پر بھی کبھی غور کریں

  اپنی تہذیب کا افسانہ سنانے والے

  

 بادشاہی میں فقیری کا چلن رکھتے ہیں

  دوش پر بار امانت کا اٹھانے والے

  

 نہ دبے ہیں کبھی باطل سے نہ دب سکتے ہیں

  گردن اللہ کے رستے میں کٹانے والے

  

آشنا ذوق اسیری سے ہو میری مانند

شعر کہنے ہوں اگر وجد میں لانے والے


مولانا ظفر علی خان


مولانا ظفر علی خان

 یوم پیدائش 19 جنوری 1873


کچھ اس کی بھی خبر ہے تجھ کو اے مسلم کہ آپہنچی

وہ ساعت جو نہ بھولے سے بھی لے گی نام ٹلنے کا


بھڑک اٹھی وہ آگ اسلام نے جس کی خبر دی تھی

کیا ہے کفر نے ساماں ترے خرمن کے جلنے کا


جمی ہیں پپڑیاں تیرے غبار آلودہ ہونٹوں پر

تماشا دیکھ لے حسرت سے زمزم کے ابلنے کا


تجھے تہذیب مغرب سبز باغ اپنا دکھاتی ہے

یہ ساماں ہو رہا ہے تیری نیت کے پھسلنے کا


ترا اخراج قسطنطنیہ سے شائد نشاں ہوگا

امام مہدی برحق کے میداں میں نکلنے کا


اگر قرآں کے وعدے سچ ہیں اور شک نہیں سچ میں

تو وقت آہی گیا ہے کفر کے سورج کے ڈھلنے کا


رسول اللہ خود گرتے ہوؤں کو تھام لیتے ہیں

تجھے اے بے خبر ہر وقت موقع ہے سنبھلنے کا


خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا


مولانا ظفر علی خان 


فیض الامین فیض

 یوم پیدائش 18 جنوری 


قدرت کا سرسبز بچھونا اچھا لگتا ہے 

کھلی فضا میں گھاس پہ سونا اچھا لگتا ہے 


شام ڈھلے جب شاخ پہ چڑیاں نغمے گاتی ہیں 

مجھ کو تیرے ساتھ میں ہونا اچھا لگتا ہے 


ہر ایک چیز جو اپنی جگہ پر سجی سجائی ہو 

خود ہی گھر کا کونا کونا اچھا لگتا ہے 


تم کیا جانو رہ رہ کیسے پاتے ہیں منزل 

تم کو تو بس خواب سلونا اچھا لگتا ہے 


میرے گاؤں کے لوگ بھی کتنے بھولے بھالے ہیں 

آج بھی ان کو جادو ٹونا اچھا لگتا ہے


فیض الامین فیض


عائشہ ایوب

 یوم پیدائش 18 جنوری 1983


اگر وہ خود ہی بچھڑ جانے کی دعا کرے گا 

تو اس سے بڑھ کے مرے ساتھ کوئی کیا کرے گا 


سنا ہے آج وہ مرہم پہ چوٹ رکھے گا 

مجھی سے مجھ کو بھلانے کا مشورہ کرے گا 


ترس رہی ہیں یہ آنکھیں اس ایک منظر کو 

جہاں سے لوٹ کے آنے کا دکھ ہوا کرے گا 


اگر یہ پھول ہے میری بلا سے مرجھائے 

اگر یہ زخم ہے مالک اسے ہرا کرے گا 


میں جانتی ہوں کہ جتنا خفا بھی ہو جائے 

وہ میرے شہر میں آیا تو رابطہ کرے گا 


میں اس سے اور محبت سے پیش آؤں گی 

جو میرے حق میں کوئی عائشہؔ برا کرے گا 


عائشہ ایوب


تبسم صدیقی

 یوم پیدائش 18 جنوری 1964


یہ جو ہم اختلاف کرتے ہیں 

آپ کا اعتراف کرتے ہیں 


آؤ دھوتے ہیں دل کے داغوں کو 

آؤ آئینے صاف کرتے ہیں 


تم کو خوش دیکھنے کی خاطر ہم 

بات اپنے خلاف کرتے ہیں 


مجرم عشق تو بھی ہے اے دوست 

جا تجھے ہم معاف کرتے ہیں 


لفظ کے گھاؤ ہوں تو کیسے بھریں 

لفظ گہرا شگاف کرتے ہیں


تبسم صدیقی


قمر الدین صدیقی برتر

 یوم پیدائش 18 جنوری 1935

(نظم) بچے اسکول سے آرہے ہیں


بچے اسکول سے آرہے ہیں

بچے معصوم روشن ستارے

حسن گھر کا ہیں آنگن کی رونق

 خوش فضا یہ وطن کے نظارے


 ان سے روشن رہے گا زمانہ

 ان میں وہ علم کی روشنی ہے

 ان سے انسانیت ہی بڑھے گی

 ان میں وہ پیار کی زندگی ہے


 یہ ہیں پاکیزہ جذبوں کا گلشن

 یہ محبت ہیں اور یہ وفا ہیں

 ان پہ قرآں کی آیات واری

 ان پہ انجیل گیتا فدا ہیں


اُف یہ کیسا دھماکہ ہوا ہے

بچوں کے چیتھڑے اڑ گئے ہیں

جیسے قرآں کے بکھرے ہوں اوراق

جیسے انجیل گیتا پھٹے ہیں


اے دھماکوں کے بانی، تو سن لے 

یہ عمل وحشیانہ قدم ہے

اپنے رب کو دکھائے گا کیا منہ

نا پسند ارب کو تیرا ستم ہے


کوئی مذہب یہ کہتا نہیں ہے

بے گناہوں کو مارو ، مٹائو

مذہبوں کی تو تلقین یہ ہے

علم کی روشنی سب میں لائو


علم کی گرمی لے کر بڑھیں ہم

تبجہالت کا کہرا چھٹے گا

پھر بُری سوچ ہوگی نہ کوئی

تب عمل وحشیانہ ہٹے گا


قمر الدین صدیقی برتر 


اختر مادھو پوری

 یوم پیدائش 18 جنوری 1929


شہر کا شہر جلا اور اجالا نہ ہوا

سانحہ کیا یہ مقدر کا نرالا نہ ہوا


ہے فقط نام کو آزادئ اظہار خیال

ورنہ کب کس کے لبوں پر یہاں تالا نہ ہوا


ٹوٹتے شیشے کو دیکھا ہے زمانے بھر نے

دل کے ٹکڑوں کا کوئی دیکھنے والا نہ ہوا


جس نے پرکھا انہیں وہ تھی کوئی بے جان مشین

دل کے زخموں کا بشر دیکھنے والا نہ ہوا


کس قدر یاس زدہ ہے یہ حصار ظلمت

دل جلائے بھی تو ہر سمت اجالا نہ ہوا


دشت غربت کے سفر کی یہ اذیت ناکی

خشک تلووں کا ابھی ایک بھی چھالا نہ ہوا


ضبط کا حد سے گزر جانا یہی ہے اخترؔ

دل سلگتا ہے مگر ہونٹوں پہ نالہ نہ ہوا


اختر مادھو پوری


شاہد فیروز

 یوم پیدائش 17جنوری


فریبِ ضو میں ہمیں کس نے لا اچھالا ہے

سجھائی کچھ نہیں دیتا کہاں اجالا ہے


وگرنہ کون تھا جو تیری پرورش کرتا

خدائے فکر تجھے میں نے ہی تو پالا ہے


تماشا دیکھتی آنکھوں ! سلامتی پاؤ

تمھارے شوق سے کرتب مرا نرالا ہے


میں اپنے کرب کو سہلا رہا ہوں مدت سے

یہ میری راکھ پہ سر رکھ کے سونے والا ہے


ترے حصار میں آ کر بدل گیا ہوں میں

مرا وجود بھی اب روشنی کا ہالہ ہے


مرے لیے ہے وہی میرا حکمِ کن شاہد

حصارِ وقت سے جو لمحہ بھی نکالا ہے


شاہد فیروز


احمد علی برقی اعظمی

 یاد رفتگاں بیاد ہردلعزیز سخنور و ممتاز نغمہ نگار ابراہیم اشک مرحوم

تاریخ وفات : 16 جنورٕی 2022


ہو گٸے دنیاسے رخصت آج ابراہیم اشک

اردو دنیا کے لٸے ہے روح فرسا یہ خبر


ان کی غزلوں سے عیاں ہے زندگی کا سوز و ساز

فلمی نغمے بھی ہیں ان کے سب کے منظور نظر


ان کو تھا دوھہ نگاری میں بھی حاصل امتیاز

ان کی نظمیں بھی ہیں اک آٸینہ نقد و نظر


" آگہی " ہے نام جس مجموعہ اشعار کا

ندرت فکر و نظر ہے اس میں ان کی جلوہ گر


ان کے ہے " الہام " سے ظاہر شعور فکر و فن

اک ادیب و شاعر و فنکار تھے وہ نامور


گلشن اردو میں ان کی ذات تھی مثل بہار

ان کی اردو شاعری ہے جس کا اک شیریں ثمر


ان کے سینے میں دھڑکتا تھا دل درد آشنا

گردش حالات پر بھی ان کی تھی گہری نظر


جنت الفردوس میں درجات ہوں ان کےبلند

عہد حاضر کے تھے برقی وہ سخنور معتبر


احمد علی برقی اعظمی


فوزیہ اختر شیخیوروی

 یوم پیدائش 17 جنوری


مرے کانوں میں ان کے لہجے کی پھر چاشنی اترے

زباں سے ان کی ہر اک بات بن کے نغمگی اترے


سدا روشن کیا ہے دل کو جن کی یاد سے ہم نے

ہمارے نام پر ان کے بھی دل میں روشنی اترے


مرے گلشن سے ہجرت پر خزاں مجبور ہو جائے

ہر اک برگ و شجر پر اس طرح سے تازگی اترے


سدا تہمت لگاتے ہیں وہ مجھ پر کیا کروں مولا

میں مریم تو نہیں جس کی صفائی میں وحی اترے


یہ مانا بخت میں میرے ازل سے رات ہے لیکن

کبھی تو میرے آنگن میں بھی اجلی چاندی اترے


میں خود کو آئینے میں دیکھ کر حیران رہ جاؤں

تمہارے پیار سے چہرے پہ ایسی دلکشی اترے


کسی ہمدرد کا کاندھا میسر فوزیہ کو ہو

تھکن برسوں کی اس کے جسم و جاں سے بھی کبھی اترے


فوزیہ اختر شیخپوروی 


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...