Urdu Deccan

Monday, May 30, 2022

خمار میرزادہ

یوم پیدائش 30 مئی 1984

خاموشی کی وادی ہو اور آبادی کی بیلا ہو
بستی کی تنہائی سے کٹ کر جیسے کوئی اکیلا ہو

اس دل سے ان آنکھوں کے رشتے کو بھی تفہیم ملے
اک صحرا کی پیاس بہم ہو اک دریا کا ریلا ہو

باہر سب ہم وار ہے لیکن اندر سلوٹ سلوٹ ہے
دو لفظوں کی کاٹ کو جیسے روح نے خود پر جھیلا ہو

تسلیمات کے سبز پھریرے دالانوں تک آتے ہوں
افق افق پر رقص کرے دن، دن بھی نیا نویلا ہو

پڑے پڑے ہی سو جائیں ہم رکھے رکھے ہی کھو جائیں
شام منڈیریں چوم رہی ہو خواب نگر میں میلہ ہو

جان! گزرتے دن کی حد تک بارِ اذیت جھیلتا ہے
چاہے سوچ کا جلتا ورق ہو چاہے آنکھ کا ڈھیلا ہو

کون آجر ہو ایسے دل کا ایسی جان کی اجرت کیا
کیا بنتا ہے حصہ اس کا جس نے وقت دھکیلا ہو

دونوں طرف کی بانجھ زمینیں ساختوں سے بھر جائیں گی
اک جھرنا انفاس کا ہو اور اک احساس کا ریلا ہو

اس سنجوگ کی بوندوں کے کچھ رنگ اکہرے تھے جیسے
بے ترتیب سی آسانی میں بے انداز ،جھمیلا ہو

زیست مسلسل رنگ بدلتی اک تکرار کی صورت ہے
وہ امکان بدست آئے گا جس نے کھیل یہ کھیلا ہو

اس بازار میں زرد دوپہریں ڈھل جانے کے بعد خمار
اک سے خواب ہیں سب آنکھوں میں جیب میں جیسا دھیلا ہو

خمار میرزادہ


 

گل بخشالوی

یوم پیدائش 30 مئی 1952

قلم ، صدا و قدم جب بھی تو اٹھائے گا
نظام جبر ترا خون ہی بہائے گا

ہمیں امید تھی آئے گی کوئی تبدیلی
خبر نہیں تھی ہمیں تو بھی گل کھلائے گا

کبھی یہ سوچنا اس دور خود پرستی میں
ترے ضمیر کو آکر کوئی جگائے گا

دبی ہے راکھ میں معصوم سی جو چنگاری
بھڑک اٹھی تو کوئی بھی بجھا نہ پائے گا

مرا وجود ہے سیسہ مرے عقیدے کا
میں دیکھتا ہوں کہاں تک تو آزمائے گا

نہا رہا ہے جن آنکھوں میں دیس کو اپنے
لہو میں دیکھنا اپنے بھی تو نہائے گا

نظام وقت کے کم بخت جابر و ظالم
کھبی نہ سوچنا گل تیرے گیت گائے گا

گل بخشالوی



وکیل اختر

یوم پیدائش 30 مئی 1936

زندگی دست تہہ سنگ رہی ہے برسوں
یہ زمیں ہم پہ بہت تنگ رہی ہے برسوں

تم کو پانے کے لیے تم کو بھلانے کے لیے
دل میں اور عقل میں اک جنگ رہی ہے برسوں

اپنے ہونٹوں کی دہکتی ہوئی سرخی بھر دو
داستاں عشق کی بے رنگ رہی ہے برسوں

دل نے اک چشم زدن میں ہی کیا ہے وہ کام
جس پہ دنیائے خرد دنگ رہی ہے برسوں

کس کو معلوم نہیں وقت کے دل کی دھڑکن
میری ہم راز و ہم آہنگ رہی ہے برسوں

صاف تاریخ یہ کہتی ہے کہ منصوری سے
مضمحل سطوت اورنگ رہی ہے برسوں

میری ہی آبلہ پائی کی بدولت اخترؔ
رہگزر ان کی شفق رنگ رہی ہے برسوں

وکیل اختر



ناصر معین

یوم پیدائش 29 مئی 1961

اک مسخرہ سا بن کے زمانے میں رہ گئے  
تا عمر ہم تو ہنسنے ہنسانے میں رہ گئے

پانی ہمارے سر سے بھی اوپر نکل گیا  
ہم ہیں کہ بس قیاس لگانے میں رہ گئے
 
 دشمن ہمارا آگیا دہلیز کے قریب
ہم دوستوں کو شعر سنانے میں رہ گئے

 بھائی کے گھر میں چولہا بھی جلنا محال تھا
ہم تھے کہ گھر کو اپنے سجانے میں رہ گئے  

مطلب پرست تھا ہمیں دیتا رہا فریب 
ہم دوستی کو اپنی نبھانے میں رہ گئے 

اک گھر بنا کے ٹوٹ گئے تھے ہم اسقدر
 باقی تو عمر قرض چکانے میں رہ گئے  

 ظلم و ستم کا سلسلہ ہوتا رہا دراز
ہم صرف اپنی جان بچانے میں رہ گئے    

آنسو بہا رہے ہیں کہ وہ دور اب نہیں
ہم زلف جان جاں کے سجانے میں رہ گئے  

دیدار باپ ماں کا نہیں ہو سکا نصیب
ہم تو عرب میں پیسہ کمانے میں رہ گئے 

خستہ ہے سب کا حال ، سبھی حاشیے پہ ہیں
  دیوارِ مسلکی ہم اٹھانے میں رہ گئے  

اب تخت و تاج اپنی حکومت نہیں رہی
ہم فاختہ حضور اڑانے میں رہ گئے 

خود اتنا گرگئے ہمیں اسکا گماں نہ تھا
نیچا ہمیشہ انکو گرانے میں رہ گئے 

بڑھتا گیا ہجوم غموں کا اف ! اس قدر
جھوٹی ہنسی لبوں پہ دکھانے میں رہ گئے 

رخصت ہوئی جوانی ، ضعیفی کب آگئی 
ہم زندگی کا بوجھ اٹھانے میں رہ گئے   

اعمال نامے اپنے گناہوں سے پر رہے 
ہم دوسروں کے عیب گنانے میں رہ گئے

ناصر ! وہ پست حوصلہ کرتا رہا سدا
 ہم خود کو باوفا ہی دکھانے میں رہ گئے

ناصر معین



منشی امیر اللہ تسلیم

یوم پیدائش 28 مئی 1911

پارسائی ان کی جب یاد آئے گی 
مجھ سے میری آرزو شرمائے گی 

گر یہی ہے پاس آداب سکوت 
کس طرح فریاد لب تک آئے گی 

یہ تو مانا دیکھ آئیں کوئے یار 
پھر تمنا اور کچھ فرمائے گی 

جانے دے صبر و قرار و ہوش کو 
تو کہاں اے بے قراری جائے گی 

ہجر کی شب گر یہی ہے اضطراب 
نیند اے تسلیمؔ کیوں کر آئے گی

منشی امیر اللہ تسلیم


 

Sunday, May 29, 2022

عالم مظفر نگری

یوم وفات 20 مئی 1969

جو ہیں رند ازل گلشن کو مے خانہ سمجھتے ہیں 
کلی کو شیشۂ مے گل کو پیمانہ سمجھتے ہیں
 
حقیقت آشنائے گلستاں فصل بہاراں میں 
ہجوم رنگ و بو کو برق کاشانہ سمجھتے ہیں
 
کسی دن جس کے شعلے خرمن ہستی کو پھونکیں گے 
اسی بجلی کو ہم شمع طرب خانہ سمجھتے ہیں 

نگاہیں ڈالتے ہیں مرکز وحدت سے کثرت پر 
حرم میں رہ کے ہم راز صنم خانہ سمجھتے ہیں 

چھپا لیتے ہیں ہر زخم جگر کو فصل گل میں بھی 
چمن میں پھول منشائے غم پنہاں سمجھتے ہیں 

علمؔ ربط دل و پیکاں اب اس عالم کو پہنچا ہے 
کہ ہم پیکاں کو دل دل کو کبھی پیکاں سمجھتے ہیں 

عالم مظفر نگری


 

اسماء ہادیہ

یوم پیدائش 28 مئی 1994

چوکھٹ پہ تیری لطف صدا کا خرید کر
صدیاں خرید لی ہیں یہ لمحہ خرید کر

اس بے وفا سے پیار کی قیمت نہ لگ سکی
لاے گا میرے واسطے دنیا خرید کر

شہرِ ہنر سے خود ہی بڑی شدتوں سے ہم
لے آے آنسووں کا یہ دریا خرید کر

جب دل ہی بجھ گیا ہو یہ ہجراں کے درد سے
میں کیا کروں گی رونقِ چہرہ خرید کر

یوسف سے آفتاب کو انجامِ عشق میں
زنداں میں ڈال دے گی زلیخا خرید کر

خوش تھے جو روشنی کے تماشے کو دیکھ دیکھ
شرمندہ کس قدر ہیں اندھیرا خرید کر

سب کچھ ھی بیچ ڈالا ہے اس کارِ زیست میں
اور شادماں ہوں شہرِ تمنا خرید کر

اسماء ہادیہ


 

سید نظر علی عدیل

یوم پیدائش 28 مئی 1928

آج رندوں کو ہے غم کس کے بچھڑ جانے کا
منہ پھرالیتے ہیں منہ دیکھ کے پیمانے کا

دعویٰ خوں ہے غلط شمع پہ پروانے کا
خود اسے شوق ہے جلتے ہوئے مرجانے کا

داخلہ ٹھیک نہیں بزم میں دیوانے کا
کہیں اس پر کوئی سایہ نہ ہو ویرانے کا

مصر نے پائی ہے اک اندھے کنویں سے شہرت
ہائے اک شہر پہ احسان ہے ویرانے کا

شہر میں ہر کوئی بیگانہ نظر آتا ہے
گاؤں میں وہم وگماں تک نہیں بیگانے کا

کچھ تو موسی کو بھی حسرت بھی نظربازی کی
اور کچھ شوق تھا اس کو بھی نظر آنے کا

زلف و رخسار کہاں اور شب و روز کہاں
کچھ محل ہی نہ تھا قرآں میں قسم کھانے کا

گل نے کیوں پائی سزا چاک گریبانی کی
کیا اڑایا تھا مذاق آپ کے دیوانے کا

شیخ آئے نہ کہیں بھیس بدل کر رندو
راستہ پوچھ رہا تھا کوئی میخانے کا

کہیے دشمن سے ذرا وار سلیقے سے کرے
کہیں ٹوٹے نہ بھرم آپ کے یارانے کا

پہلے وہ مشق کریں چہرہ بدلنے کی عدیل
ورنہ اندیشہ ہے پہچان لئے جانے کا

سید نظر علی عدیل


 

انورشمیم

یوم پیدائش 28 مئی 1952

مگر کون ہوں میں ____ !!
                                                                     
کبھی بخت سے یہ سعادت ہو حاصل
کہ آنکھیں جڑائیں
دل و دیدہ قسمت جگائیں
سماعت میں چڑیوں کی چہکار اترے
فضاؤں سے رنگوں کی بارات اترے
دھنک رنگ بارش کی سوغات اترے

کسی شامیانے میں بیٹھوں
نہایا ہوا نور کرنوں سے لوٹوں
بدن قصر ویراں کی خلوت سرا میں
جہاں سارے اجزاۓ ترکیبی بکھرے پڑے ہیں
کسی کیمیا سے
کسی لمسِ قُم سے سمٹنے کی ترکیب نکلے
مگر
پتلیاں زرد چادر ڈھکی ہیں
کوئ سبز پانی کو ہانکے لیے جا رہا ہے
کسی تیرہ تاریک روزن
کسی رود اسود کی جانب
کوئ معجزہ ہو
حریری ردا پوش جنگل کے فرش جناں پر
کبھی رقص طاؤس صورت
مجسّم ہو تصویر جاناں
کبھی ہو زیارت
کہ میں ہوں ___ !
مگر کون ہوں میں ___ !!
                                                                     
 انورشمیم



Thursday, May 26, 2022

نوید مرزا

یوم پیدائش 26 مئی 1968

جب کبھی اپنا گھر بناؤں گا
میں تجھے ہم سفر بناؤں گا

اے خدا بخش دے اڑان مجھے
میں کہاں بال و پر بناؤں گا

پنچھیوں سے مکالمہ کر کے
اپنے گھر میں شجر بناؤں گا

اپنے پیکر سے تنگ رہتا ہوں
میں اسے توڑ کر بناؤں گا

ایک تصویر ہوں مصور کی
نقش ہی عمر بھر بناؤں گا

سائباں کی تلاش کرتے ہوئے
دھوپ کی رہگزر بناؤں گا

ایک درویش مجھ سے کہتا ہے
میں تجھے معتبر بناؤں گا

تشنگی نے مجھے پکارا ہے
میں بھی اب چشم تر بناؤں گا

ایک میدان میں ہوں مدت سے
اب میں دیوار و در بناؤں گا

ایک تصویر ہے خیالوں میں
اب اسے سوچ کر بناؤں گا

پیڑ تو سوکھ ہی چکا ہے نوید
میں کہاں اب ثمر بناؤں گا

ایک تازہ غزل کہی ہے نوید
میں اسے پر اثر بناؤں گا

نوید مرزا


 

گھائل اعظمی

یوم پیدائش 25 مئی 1947

شعلوں نے بھیس بدلا ہے اب کے بہار میں
ممکن اگر ہو پھول سے دامن بچایئے

گھائل اعظمی 


 

وکیل احمد چاپدانوی

یوم پیدائش 25 مئی 1949

میری کیا دیکھو گے پہلے اپنی حالت دیکھ لو
آئینے کی کس کو پہلے ہے ضرورت دیکھ لو

تم نظر سے چھپ بھی جاؤ دل سے چھپ سکتے نہیں
گر یقیں آتا نہیں تو کر کے جرأت دیکھ لو

بے سبب بھٹکا کیے میرے لیے صحراؤں میں
تم مرے ہمزاد ہو اپنی ہی صورت دیکھ لو

زندگی سے اتنی الفت دوستو! اچھی نہیں
ایک دن کر جائے گی تم سے بغاوت دیکھ لو

کر بھلا تو ہو بھلا اور کر برا تو ہو برا
ہے اسی دنیا میں دوزخ اور جنت دیکھ لو

ہے کہیں سیلابی صورت ، خشک سالی ہے کہیں
کیسے کیسے کھیل دکھلاتی ہے قدرت دیکھ لو

زیست کا لمبا سفر لے لو دعائیں اپنے ساتھ
کب کہاں انورؔ پڑے ان کی ضرورت دیکھ لو

وکیل احمد چاپدانوی


 

تنہاؔ فریحہ

یوم پیدائش 23 مئی

پاس آتے ہو ، جان لیتے ہو
چھوڑ جاتے ہو ، جان لیتے ہو 

بے رخی مجھ سے بارہا کرکے
دل جلاتے ہو ، جان لیتے ہو

بن تمہارے نہیں لگے جی مرا
کیوں ستاتے ہو ؟ جان لیتے ہو؟

جب مرے ان گنت سوالوں پہ تم 
چب ہوجاتے ہو ، جان لیتے ہو

اس قدر میٹھا اس قدر پیارا
مسکراتے ہو ، جان لیتے ہو

چھوٹی سی باتوں پر خفا ہو کر
منہ بناتے ہو ، جان لیتے ہو

تم محبت سے میری اپنی نظر
جب چراتے ہو ، جان لیتے ہو

میرے اشعار ، میری غزلیں جب
گنگناتے ہو ، جان لیتے ہو

باتوں پر میری جی حضور کی جب
رٹ لگاتے ہو ، جان لیتے ہو

جب کبھی ضد کے آگے میری تم‌
سر جھکاتے ہو ، جان لیتے ہو

میری ساری شرارتوں پر جب
کھلکھلاتے ہو ، جان لیتے ہو

تنہاؔ فریحہ



اسحاق ساجد

یوم پیدائش 23 مئی 1966

دیوانوں میں نام ہوا پردیسی کا
چرچا جگ میں عام ہوا پردیسی کا

شاید دل کی بات زبان پر آئی ہے
شعر غزل انعام ہوا پردیسی کا

گھر والوں کو آئی جب خط کی خوشبو
عام وہیں پیغام ہوا پردیسی کا

آخر کو زندہ رہنے کی خواہش میں
جینا بھی الزام ہوا پردیسی کا

ان آنکھوں کی دل کو پھر سے یاد آئی
خالی جب بھی جام ہوا پردیسی کا

بیگانوں کی محفل میں آ کر ساجدؔ
چال چلن بدنام ہوا پردیسی کا

اسحاق ساجد



حفیظ بنارسی

یوم پیدائش 20 مئی 1933

کچھ سوچ کے پروانہ محفل میں جلا ہوگا 
شاید اسی مرنے میں جینے کا مزا ہوگا 

ہر سعی تبسم پر آنسو نکل آئے ہیں
انجام طرب کوشی کیا جانئے کیا ہوگا 

گمراہ محبت ہوں پوچھو نہ مری منزل 
ہر نقش قدم میرا منزل کا پتا ہوگا 

کیا تیرا مداوا ہو درد شب تنہائی 
چپ رہئے تو بربادی کہئے تو گلا ہوگا 

کترا کے تو جاتے ہو دیوانے کے رستے سے 
دیوانہ لپٹ جائے قدموں سے تو کیا ہوگا 

میخانے سے مسجد تک ملتے ہیں نقوش پا 
یا شیخ گئے ہوں گے یا رند گیا ہوگا 

فرزانوں کا کیا کہنا ہر بات پہ لڑتے ہیں 
دیوانے سے دیوانہ شاید ہی لڑا ہوگا 

رندوں کو حفیظؔ اتنا سمجھا دے کوئی جا کر 
آپس میں لڑو گے تم واعظ کا بھلا ہوگا

حفیظ بنارسی


 

امتیاز خان

یوم پیدائش 20 مئی 1989

وہ تبسم تھا جہاں شاید وہیں پر رہ گیا
میری آنکھوں کا ہر اک منظر کہیں پر رہ گیا 

میں تو ہو کر آ گیا آزاد اس کی قید سے 
دل مگر اس جلد بازی میں وہیں پر رہ گیا 

کون سجدوں میں نہاں ہے جو مجھے دکھتا نہیں 
کس کے بوسہ کا نشاں میری جبیں پر رہ گیا 

ہم لبوں کو کھول ہی کب پائے اس کے سامنے 
اک نیا الزام پھر دیکھو ہمیں پر رہ گیا

امتیاز خان


 

روبینہ شبنم

یوم پیدائش 18 مئی 1971

دیار عشق میں روشن دماغ تھے ہم بھی 
وہ خوش نظر تھا بہت سبز باغ تھے ہم بھی 

ہر ایک رشتہ تھا منکر ہماری ہستی سے 
نگار زیست کے دامن کا داغ تھے ہم بھی 

خزاں کا دور بھی ہوتا تو فصل گل ہوتی 
کسی کے فیض نظر سے وہ باغ تھے ہم بھی 

یہ اور بات ہمیں آج تم نہ پہچانو 
تمہاری بزم کا روشن چراغ تھے ہم بھی 

مزاج ہی نہیں ملتا تو دوستی کیسی 
وہ تند خو تھا بہت بد دماغ تھے ہم بھی 

کہیں پہ چاند کہیں آئنہ کہیں گل تھے 
یہ تم سے کس نے کہا ہے ایاغ تھے ہم بھی 

وہ ہم کو ڈھونڈ بھی لیتا تو کیا برا ہوتا 
کہ اس کی ذات کے شبنمؔ سراغ تھے ہم بھی

روبینہ شبنم



Wednesday, May 25, 2022

رفیعہ نوشین

یوم پیدائش 22 مئی 1967

خون دل کا پی رہی ہے
شاعری میں تازگی ہے

کس کے روکے سے رکی ہے؟
عمر تو بہتی ندی ہے!

چار دن کی چاندنی ہے
یہ بھی کوئی زندگی ہے؟

کون سا موسم ہے مجھ میں؟
تشنگی ہی تشنگی ہے!

رات کے آنسو ہیں شاید
صبح جو بھیگی ہوئی ہے

ذہن میں وہ آگئے ہیں
فکر روشن ہوگئی ہے

دل میں نوشین آرزو پھر
پاؤں پھیلانے لگی ہے

رفیعہ نوشین


 

آدی عباسی

یوم پیدائش 22 مئی 2000

ہم ترے شہر میں آئے تھے بڑے مان کے ساتھ
یوں نہیں کرتے جو تو نے کیا مہمان کے ساتھ

جس سے ملنے کے لیے رب سے دعائیں کی تھیں
یوں مِلا جیسے مِلا ہو کسی انجان کے ساتھ

عزتِ نفس نہ ماریں گے گنوا دیں گے تجھے
ہجر ہی کاٹنا تو کاٹیں گے پھر شان کے ساتھ

ایک شاعر کی محبت ہو اور جب تک ہو
ہوگی پہچان تمہاری میری پہچان کے ساتھ

عشق میں شرک کبھی بھی نہ کریں گے جانم
ہم مسلمان بھی کہلاتے ہیں انسان کے ساتھ

لاکھوں کی دنیا میں اِک شخص کو چاہا نہ مِلا
عمر بھر جینا پڑے گا اِسی ارمان کے ساتھ

عشق کرنے سے تو بہتر تھا تجارت کرتے
کچھ منافع بھی تو ہوتا ہمیں نقصان کے ساتھ

اب مجازی سے حقیقت کا سفر ہے آدی
شکریہ تم نے مِلایا مجھے رحمان کے ساتھ

آدی عباسی


 

نیاز جیراجپوری

یوم پیدائش 21 مارچ 1960

سوچ لو پھر نسل آئندہ کا کیا ہوگا نیاز
مر گئی اردو تو پھر تہذیب بھی مر جائے گی

 نیاز جیراجپوری



عرفان عارف

یوم پیدائش 21 مئی 1978

ستمگر کے ستم سہیے کسے کیا فرق پڑتاہے
اندھیروں میں پڑے رہیے کسے کیا فرق پڑتاہے

اسے تو نام پہ مذہب کے بس کرنی سیاست ہے
کسی کوبھی خدا کہیے کسے کیا فرق پڑتا ہے

لٹا کے گھر کی عصمت کو چھپا کے اپنے چہروں کو
جھکائے سر کھڑے رہیے کسے کیا فرق پڑتا ہے

صحافت آج بے شرمی کا چولا اوڑھ بیٹھی ہے
جو جی میں آئے وہ کہیے کسے کیا فرق پڑتا ہے

سیاست سے عدالت تک یہاں سارے ہی بہرے ہیں
مسلسل چیختے رہیے کسے کیا فرق پڑتا ہے

حمایت کرنے اٹھے ہیں غریبوں کی کسانوں کی
میاں عرفان چُپ رہیے کسے کیا فرق پرتا ہے

عرفان عارف


 

فیصل قادری گنوری

یوم پیدائش 21 مئی 1995

اُن سے شکوہ شکایت نہیں آج کل
جِن کو ملنے کی چاہت نہیں آج کل

یاد تواُن کی دل میں بسائےہوں میں
کیا ہوا ہے جو قربت نہیں آج کل

کیا سبب یے جو بے چین رہنے لگا
کیوں مرے دل کو راحت نہیں آج کل

کتنی مصروف رہتی ہے تُو زندگی
”خالی رہنے سے فرصت نہیں آج کل“

جو تھے کل تک مرے ساتھ ہر دم اُنھیں
ایک لمحے کی مہلت نہیں آج کل

اُن کےحالات ہم سے نہ پوچھے کوئی
ہوتی محفل میں شرکت نہیں آج کل

کام ہوگا تو فیصل وہ آ جائیں گے
اُن کو تیری ضرورت نہیں آج کل

فیصل قادری گنوری


 

صبغہ احمد

یوم پیدائش 21 مئی

کہیں نہ جی لگے ، ہم کیا کریں کدھر جائیں
ہمیں نہ دشت نہ گلشن نہ انجمن بھائیں 

کہ بحرِعشق میں ملتا ہے لطفِ جان کنی
یہاں پہ تیرنے والے بھی ڈوبتے جائیں

یہ میرا دل ہے، یہ کوئی سرائے تو نہیں ہے 
ہوئی ہے آپ کو وحشت تو دشت کو جائیں 

خدا کرے وہ سدا اب رہیں رقیب نواز 
نہ میرا حال وہ پوچھیں ، نہ میرا غم کھائیں

صبغہ احمد


 

اکبر وارثی میرٹھی

یوم وفات 20 مئی 1953

راز دل کس کو سنائیں راز داں ملتا نہیں 
جان جاتی ہے غضب ہے جان جاں ملتا نہیں 

جس مکاں میں تو مکیں ہے وہ مکاں ملتا نہیں 
جستجو میں گم ہوئے ایسے نشاں ملتا نہیں 

داور محشر قیامت ہے مری فریاد ہے 
لے گیا دل چھین کر اک دل ستاں ملتا نہیں 

تجھ سے ملنے کا بتا پھر کون سا دن آئے گا
عید کو بھی مجھ سے گر اے میری جاں ملتا نہیں 

اس بت‌ نا مہرباں سے پھر ملا دے ایک بار 
یا الٰہی کوئی ایسا مہرباں ملتا نہیں 

ملتا جلتا رہتا ہے وہ عام سے اور مجھ سے خاص 
ہاں میں ہاں ملتی نہیں جب تک نہاں ملتا نہیں 

بیل میں بوٹے میں پھل میں پتیوں میں پھول میں 
ہر چمن میں اس کا مظہر ہے کہاں ملتا نہیں 

سانس کے چابک کی زد نے دم میں پہنچایا عدم 
کچھ سراغ توسن عمر رواں ملتا نہیں 

جیسی چاہے کوششیں کر واعظ باطن خراب 
تیرے رہنے کو تو جنت میں مکاں ملتا نہیں 

کم نہیں گلشن میں شبنم گل بدن گل پیرہن 
غسل کر مل مل کے گر آب رواں ملتا نہیں 

کس سے پوچھوں شہر خاموشاں میں سب خاموش ہیں 
خاک ملتی ہے سراغ رفتگاں ملتا نہیں 

کیا بتائیں کیا سنائیں کیا پڑھیں اکبرؔ غزل 
کوئی دنیا میں سخن کا قدرداں ملتا نہیں

اکبر وارثی میرٹھی


 

شمیم انجم وراثی

یوم پیدائش 20 مئی 1966

احباب ملے ابنِ شریف ابنِ شریف
فطرت سے مگر ابنِ حریف ابنِ حریف
چہرے پہ نظر آئے نمائش کے خلوص
دل ان کا مگر بغض و ریا سے ہے کثیف

شمیم انجم وراثی


 

زاہد وارثی

یوم پیدائش 20 مئی 1965

قیادت کے لئے خنجر بکف ہے
یہ ظالم قوم کتنی ناخلف ہے

چرا کر لے گیا وہ گوہرِ غم
مرا سینہ ہے یا خالی صدف ہے

مجھے لہجے پرکھنے کی ہے عادت
اسے چہرے بدلنے کا شغف ہے

وبا کے خوف سے سہمے ہوئے گھر
تماشہ موت کا چاروں طرف ہے

سخن کے عرش کا روشن ستارہ
کہاں میں ہوں شکیل ابنِ شرف ہے

 وہی محفل، وہی آداب زاہد
مگر اس بار بھی مجھ پر ہدف ہے

زاہد وارثی 


 

صابر چودھری

یوم پیدائش 20 مئی 1982

ترے خلاف ہو جو بھی وہ کامیاب نہ ہو
خدا کرے تجھے الفت میں اضطراب نہ ہو

مرے ادھار سے خائف ہے، تُو بھی پینے لگے
جہاں جہاں بھی تُو ڈھونڈے وہاں شراب نہ ہو

مرے خدا ترے بندے نے کچھ نہیں پایا
جو اب دکھایا ہے تُو نے وہ صرف خواب نہ ہو 

خدا کرے کہ نئی نسل شعر کہنے لگے
خدا کرے کہ نئی نسل یہ خراب نہ ہو 

میں تھک گیا ہوں کمینوں کی خیر خواہی میں
میں ایسے کام کروں گا کہ اب ثواب نہ ہو

میں رات خواب میں کچھ ڈھونڈتا رہا صابر
 سبھی ہوں پھول میسر مگر گلاب نہ ہو

صابر چودھری


 

مینا نقوی

یوم پیدائش 20 نومبر 1955

خودی کو آ گئی ہنسی امید کے سوال پر 
اندھیرے تلملا اٹھے چراغ کی مجال پر 

یہ چاہتوں کا درد ہے یہ قربتوں کا حشر ہے 
جو دھوپ چھپ کے روئی آفتاب کے زوال پر 

یہ جان کر کہ چاند میرے گھر میں جگمگائے گا 
ستارے آج شام سے ہی آ گئے کمال پر 

نظر میں زندگی کی پھول معتبر نہ ہو سکے 
خزاں کو اعتراض تھا بہار سے وصال پر 

خبر یہ دیر سے اڑی کہ موت سے مفر نہیں 
پرند جب اتر چکے شکاریوں کے جال پر 

زمانہ جس کی زندگی میں قدر کچھ نہ کر سکا 
اب آسمان رو رہا ہے اس کے انتقال پر 

کہاں وہ میناؔ چاہتوں کی شدتوں کا سلسلہ 
کہاں یہ بے نیازیاں ہمارے عرض حال پر

مینا نقوی


 

نعیم الدین فضا

یوم پیدائش 19 مئی 1940

ہم نہ کہتے تھے کہ عہدِ زر کا یہ قحطِ نظر
امتیازِ منظرِ شام و سحر لے جائے گا

نعیم الدین فضا



تبسم اخلاق

یوم پیدائش 19 مئی 1964

گومگو میں، اگر مگر میں ہیں
ہم ابھی دست کوزہ گر میں ہیں
 
کوچ کر جائیں یا ٹھہر جائیں
ہم گرفتار دل اثر میں ہیں
 
معتبر ہیں. نظر. میں . دنیا کی
جب تلک ہم تیری نظر میں ہیں
 
اور لوگوں میں کیا بیان کریں
مسئلے جو ہمارے گھر میں ہیں
 
اس سے کہہ دو کہ انتظار کرے
ہم ابھی حالت سفر میں ہیں

تبسم اخلاق


 #

شارق ریاض

یوم پیدائش 19 مئی 1989

سب کی نظروں میں مجھے تو معتبر اس نے کیا
ذکر میرا ہر غزل میں جان کر اس نے کیا

مدتوں وہ مجھکو اپنا ہم سفر کہتا رہا
چلتے چلتے راہ میں پھر در بدر اس نے کیا

وہ تو سازش رچ رہا تھا اور میں تھا بے خبر
پھر بھی میرے ساتھ میں پورا سفر اس نے کیا

رہ گزار عشق میں جب جب ہوئی رسوائیاں
مجھ سے الفت کا فسانہ مختصر اس نے کیا

آنکھ سے آنسُو ٹپک کر گر پڑے رخسار پر
 شام کو پھر یاد جاناں میں سحر اس نے کیا

پھول خوشبو چاند تارے استعارے ہیں مگر
ان سبھی لفظوں کو میرے نام پر اس نے کیا

دل کی جب سونی حویلی میں صدا گونجی کہیں
ذکر تنہائی میں ان کا رات بھر اس نے کیا

ایک دن شارق تری منزل قریب آ جائے گی
تجھکو بھی کرنا پڑے گا جو سفر اس نے کیا

شارق ریاض



ساجدہ زیدی

یوم پیدائش 18مئی 1927

صبا میں مست خرامی گلوں میں بو نہ رہے
ترا خیال اگر دل کے روبرو نہ رہے
 
ترے بغیر ہر اک آرزو ادھوری ہے 
جو تو ملے تو مجھے کوئی آرزو نہ رہے 

ہے جستجو میں تری اک جہاں کا درد و نشاط 
تو کیا عجب کہ کوئی اور جستجو نہ رہے  

تو ذوق کم طلبی ہے تو آرزو کا شباب 
ہے یوں کہ تو رہے اور کوئی جستجو نہ رہے 

کتاب عمر کا ہر باب بے مزہ ہو جائے 
جو درد میں نہ رہوں اور داغ تو نہ رہے 

خدا کرے نہ وہ افتاد آ پڑے ہم پر 
کہ جان و دل رہیں اور تیری آرزو نہ رہے 

ترے خیال کی مے دل میں یوں اتاری ہے 
کبھی شراب سے خالی مرا سبو نہ رہے 

وہ دشت درد سہی تم سے واسطہ تو رہے 
رہے یہ سایۂ گیسوئے مشک بو نہ رہے 

کرو ہمارے ہی داغوں سے روشنی تم بھی 
بڑا ہے درد کا رشتہ دوئی کی بو نہ رہے 

نہیں قرار کی لذت سے آشنا یہ وجود 
وہ خاک میری نہیں ہے جو کو بہ کو نہ رہے 

اس التہاب میں کیسے غزل سرا ہو کوئی 
کہ ساز دل نہ رہے خوئے نغمہ جو نہ رہے 

سفر طویل ہے اس عمر شعلہ ساماں کا
وہ کیا کرے جسے جینے کی آرزو نہ رہے

ساجدہ زیدی


 

عمر خیام

یوم پیدائش 18 مئی 1048

عمر خیام کی ایک مشہور و معروف رباعی کا منظوم اردو ترجمہ حسب فرمائش فضل احمد ناظم اردو دکن مترجم ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی

از منزل کفر تا بہ دین یک نفس است
وز عالم شک تا بہ یقین یک نفس است
این یک نفس عزیز را خوش می دار
کز حاصل عمر ما ہمین یک نفس است

 عمر خیام


کفر کی منزل سے دیں تک بس یہی ہے ایک سانس
عالم شک سے یقیں تک بس یہی ہے ایک سانس
کر بسر تو شاد و خرم رہ کے اپنی زندگی
عمر کا حاصل یہیں تک بس یہی ہے ایک سانس

مترجم احمد علی برقی اعظمی

گنیش بہاری طرز لکھنوی

یوم پیدائش 18مئی 1929

ماحول سازگار کرو میں نشے میں ہوں 
ذکر نگاہ یار کرو میں نشے میں ہوں 

اے گردشو تمہیں ذرا تاخیر ہو گئی 
اب میرا انتظار کرو میں نشے میں ہوں 

میں تم کو چاہتا ہوں تمہیں پر نگاہ ہے 
ایسے میں اعتبار کرو میں نشے میں ہوں 

ایسا نہ ہو کہ سخت کا ہو سخت تر جواب 
یارو سنبھل کے وار کرو میں نشے میں ہوں 

اب میں حدود ہوش و خرد سے گزر گیا 
ٹھکراؤ چاہے پیار کرو میں نشے میں ہوں 

خود طرزؔ جو حجاب میں ہو اس سے کیا حجاب 
مجھ سے نگاہیں چار کرو میں نشے میں ہوں

گنیش بہاری طرز لکھنوی 



پروین طاہر

یوم پیدائش 17 مئی 1958
ایک نادان نظم

حبیب جاں 
تم اگر وبا کے دنوں میں آئے 
تو بصد عقیدت و محبت 
تمہارے ہاتھ چوموں گی
کیونکہ یہ میرے مسیحا کے ہاتھ ہیں 
تمہاری چادر کو اپنے ہاتھوں سے 
تہہ کر کے اپنے سرہانے رکھوں گی 
کہ اس بکل کی حرارت مجھ پر 
کشف کے در کھولتی ہے 
تمہارے جوتوں کو قرینے سے جوڑ 
کر پلنگ کے پاس رکھوں گی 
تمہارے ساتھ ایک پلیٹ میں 
کھانا کھاؤں گی
اور تمہاری ضدی نظروں کا 
بھرم رکھوں گی 
نہ جانے مجھے کیوں لگتا ہے 
کہ وبا کی آنکھ میں 
محبت کرنے والوں کے لیے 
کچھ حیا باقی ہوگی

پروین طاہر



طیب حسین طاہر

یوم پیدائش 17 مئی 1963

تلخی وقت سے ڈر جاتا ہے 
وقت کا کیا ہے گذر جاتا ہے

کیا کوئی غم سے بھی مرجاتا ہے
زخم جیسا بھی ہو بھر جاتا ہے 

زہر آلودہ ہیں الفاظ ان کے
جاتے جاتے ہی اثر جاتا ہے

جان قربان ترے وعدوں پر
روز وعدوں سے مکر جاتا ہے

اک نئے ولولے سے جیتا ہوں
وہ عیادت مری کر جاتا ہے

چند پہروں کی ہے شہرت ورنہ
اک نشہ ہے جو اتر جاتا ہے 

میں بھی چپ چاپ رہا کرتا ہوں
وہ بھی خاموش گذر جاتا ہے 

در و دیوار چمک اٹھتے ہیں
جب کوئی لوٹ کے گھر جاتا ہے

پال کر حسرتیں طاہر دل میں
اب کہاں دیدۂ تر جاتا ہے 

طیب حسین طاہر



پروفیسر شمیم خنفی

یوم پیدائش 17 مئی 1939

کبھی صحرا میں رہتے ہیں کبھی پانی میں رہتے ہیں 
نہ جانے کون ہے جس کی نگہبانی میں رہتے ہیں 

زمیں سے آسماں تک اپنے ہونے کا تماشا ہے 
یہ سارے سلسلے اک لمحۂ فانی میں رہتے ہیں 

سویرا ہوتے ہوتے روز آ جاتے ہیں ساحل پر 
سفینے رات بھر دریا کی طغیانی میں رہتے ہیں 

پتا آنکھوں کو ملتا ہے یہیں سب جانے والوں کا 
سبھی اس آئینہ خانے کی حیرانی میں رہتے ہیں 

ادھر ہم ہیں کہ ہر کار جہاں دشوار ہے ہم کو 
ادھر کچھ لوگ ہر مشکل کی آسانی میں رہتے ہیں 

کسے یہ نیلی پیلی تتلیاں اچھی نہیں لگتیں 
عجب کیا ہے جو ہم بچوں کی نادانی میں رہتے ہیں 

یہی بے چہرہ و بے نام گھر اپنا ٹھکانہ ہے 
ہم اک بھولے ہوئے منظر کی ویرانی میں رہتے ہیں 

   پروفیسر شمیم خنفی


 

حسن عابد

یوم پیدائش 17 مئی 1935

حسن مختار سہی عشق بھی مجبور نہیں 
یہ جفاؤں پہ جفا اب مجھے منظور نہیں 

زلف زنجیر سہی دل بھی گرفتار مگر 
میں ترے حلقۂ آداب کا محصور نہیں 

دل کا سودا ہے جو پٹ جائے تو بہتر ورنہ 
میں بھی مجبور نہیں آپ بھی مجبور نہیں 

دامن دل سے یہ بیگانہ روی اتنا گریز 
تم تو اک پھول ہو کانٹوں کا بھی دستور نہیں 

چند جام اور کہ میخانۂ جاں تک پہنچیں 
ڈھونڈنے والے مجھے مجھ سے بہت دور نہیں 

سب لباسوں میں ہیں پوشیدہ گناہوں کی طرح 
دل بیباک بھی محفل کے تئیں اور نہیں 

ہر سخن ہوش کا ہے مفتی حیران کے ساتھ 
سب پئے بیٹھے ہیں اور کوئی بھی مخمور نہیں
 
سب رسن بستۂ آزادیٔ ایمان ہوئے 
اب کوئی میرے سوا بندۂ مجبور نہیں 

اس سے مل کر بھی اداس اس کی جدائی بھی گراں 
دل بہ ہر حال کسی طور بھی مسرور نہیں 

حسن عابد 



Monday, May 16, 2022

ڈاکٹر احسان اعطمی

یوم پیدائش 16 مئی

بیٹھ کر بس قوت پرواز پر مت ناز کر
قوت پرواز ہے تو جرأت پرواز کر

اٹھ کہ یہ منزل ہے تیری آخری منزل نہیں
اٹھ نئے عزم سفر سے صبح کا آغاز کر

کیوں زمانے سے ہی رکھتا ہے امید انقلاب
خود بھی تو تبدیل اپنا تو ذرا انداز کر

خود اگر لڑنے سے قاصر ہے تو باطل کے خلاف
کم سے کم کچھ حق کے حق میں ہی بلند آواز کر

زندگی کی راہ میں ہیں سوز بھی اور ساز بھی
گامزن رہنا ہے تو پھر سوز کو بھی ساز کر

عین ممکن ہے کہ کل ہو جائے تیرے ہی خلاف
ہر کس و ناکس پہ افشا اس طرح مت راز کر 

ڈاکٹر احسان اعطمی



میر مہدی مجروح

یوم وفات 15 مئی 1909

غیروں کو بھلا سمجھے اور مجھ کو برا جانا 
سمجھے بھی تو کیا سمجھے جانا بھی تو کیا جانا 

اک عمر کے دکھ پائے سوتے ہیں فراغت سے 
اے غلغلۂ محشر ہم کو نہ جگا جانا 

مانگوں تو سہی بوسہ پر کیا ہے علاج اس کا 
یاں ہونٹ کا ہل جانا واں بات کا پا جانا 

گو عمر بسر اس کی تحقیق میں کی تو بھی 
ماہیت اصلی کو اپنی نہ ذرا جانا 

کیا یار کی بد خوئی کیا غیر کی بد خواہی 
سرمایۂ صد آفت ہے دل ہی کا آ جانا 

کچھ عرض تمنا میں شکوہ نہ ستم کا تھا 
میں نے تو کہا کیا تھا اور آپ نے کیا جانا 

اک شب نہ اسے لائے کچھ رنگ نہ دکھلائے 
اک شور قیامت ہی نالوں نے اٹھا جانا 

چلمن کا الٹ جانا ظاہر کا بہانہ ہے 
ان کو تو بہر صورت اک جلوہ دکھا جانا 

ہے حق بطرف اس کے چاہے سو ستم کر لے 
اس نے دل عاشق کو مجبور وفا جانا 

انجام ہوا اپنا آغاز محبت میں 
اس شغل کو جاں فرسا ایسا تو نہ تھا جانا 

مجروحؔ ہوئے مائل کس آفت دوراں پر 
اے حضرت من تم نے دل بھی نہ لگا جانا

میر مہدی مجروح


 

مہتاب قدر

یوم پیدائش 15 مئی 1957

ہجرتوں سے نظر ہٹاو میاں 
گھر بلانے لگے ہیں آو میاں 

پہلے گھر کی ذرا خبر لے لو 
پھر کہیں بھی دئیے جلاو میاں 

چگ رہے ہیں نصیب کا اپنے 
ان پرندوں کو مت اڑاو میاں 

آسماں نا زمین پر قدرت 
کس لئے اس قدر ہے بھاومیاں

کل یہ بچے تمھیں بھلا دیں گے
ان کو اپنی زباں سکھاو میاں 

دوسروں کے گھروں میں جھانکتے ہو
اپنے گھر کو ذرا بچاو میاں

چند سکوں پہ اتنا اترانا
اپنی اوقات مت دکھاو میاں

آپ کتنے شریف زادے ہیں !
رہنے دو منہ نہ اب کھلاومیاں

اردو اپنی شناخت ہے مہتاب 
اپنی پہچان مت گنواو میاں 

مہتاب قدر



صفدر حسین زیدی

یوم پیدائش 12 مئی 1919

داستاں دل کی ذرا دل کو جگا لوں تو کہوں
اپنے ماضی کو قریب اپنے بلا لوں تو کہوں

وسعتِ ارض و سما کتنی کشادہ کر دی
اُن کی انگڑائی کی تصویر بنا لوں تو کہوں

دشتِ ہستی کا سفر کتنا کٹھن تھا اے دوست
سانس لے لوں تو کہوں ، ہوش میں آ لوں تو کہوں

دیر پا کتنا ہے اُس آفتِ جاں کا غصہ
سامنے جا کے ذرا آنکھ ملا لوں تو کہوں

کتنے توڑے ہیں صنم ، کتنے تراشے ہیں خدا
اپنا بُت خانۂ افکار سجا لوں تو کہوں

کس طرح دل کو ملا چشمۂ حیواں سرِ راہ
اِس کی روداد ذرا پیاس بجھا لوں تو کہوں

عَرق آتا ہے جبیں پر کہ ستم بڑھتا ہے
اُن کو پیمانِ وفا یاد دلا لوں تو کہوں

یہ تپش زارِ محبت کا فسانہ صفدرؔ
شمعِ احساس ذرا دل میں جلا لوں تو کہوں

صفدر حسین زیدی



سردار خان سوز

یوم پیدائش 15 مئی 1934

بجھے چراغ جلانے میں دیر لگتی ہے
نصیب اپنا بنانے میں دیر لگتی ہے

وطن سے دور مسافر چلے تو جاتے ہیں
وطن کو لوٹ کے آنے میں دیر لگتی ہے

تعلقات تو اک پل میں ٹوٹ جاتے ہیں
کسی کو دل سے بھلانے میں دیر لگتی ہے

بکھر تو جاتے ہیں پل بھر میں دل کے سب ٹکڑے
مگر یہ ٹکڑے اٹھانے میں دیر لگتی ہے

یہ ان کی یاد کی خوشبو بھی کیسی ہے خوشبو
چلی تو آتی ہے جانے میں دیر لگتی ہے

وہ ضد بھی ساتھ میں لاتے ہیں جانے جانے کی
یہ اور بات کہ آنے میں دیر لگتی ہے

یہ گھونسلے ہیں پرندوں کے ان کو مت توڑو
انہیں دوبارہ بنانے میں دیر لگتی ہے

وہ دور عشق کی رنگیں حسین یادوں کے
نقوش دل سے مٹانے میں دیر لگتی ہے

یہ داغ ترک مراسم نہ دیجئے ہم کو
جگر کے داغ مٹانے میں دیر لگتی ہے

خبر بھی ہے تجھے دل کو اجاڑنے والے
دلوں کی بستی بسانے میں دیر لگتی ہے

تمہیں قسم ہے بجھاؤ نہ پیار کی شمعیں
انہیں بجھا کے جلانے میں دیر لگتی ہے

بھلاؤں کیسے اچانک کسی کا کھو جانا
یہ حادثات بھلانے میں دیر لگتی ہے

ذرا سی بات پہ ہم سے جو روٹھ جاتے ہیں
انہیں تو سوزؔ منانے میں دیر لگتی ہے

سردار خان سوز



نصیر الدین نصیر ہنزائی

یوم پیدائش 15 مئی 1917

جان فدا کردوں گا میں خود امن عالم کے لئے
تاکہ قربانی ہو میری ابن آدم کے لئے
عالم انسانیت جب اس قدر بیمار ہے
رحم کیوں آتا نہیں ہے ابن مریم کے لئے

نصیر الدین نصیر ہنزائی

میر گل خان نصیر

یوم پیدائش 14 مئی 1914

کیسے مانوں کہ میرا دیس بھی آزاد ہوا ​
جب کہ ہے نشہ حکومت وہی ساز وہی​
کیسے مانوں کہ یہ اجڑا چمن آباد ہوا ​
جب کہ ہے زاغ و زغن کا انداز وہی​

​کیسے مانوں کہ فرنگی حکومت نہ رہی​
جبکہ ہے جرگہ و جرمانہ و تعزیر وہی​
کیسے مانوں کہ غلامی کی مصیبت نہ رہی​
بیڑیاں پاوّں میں اور ہاتھوں میں زنجیر وہی ​
کیسے مانوں کہ یہاں وقت ہے دلشادی کا​
جبکہ کشکول لیے پھرتا ہے مجبور وہی​
کیسے مانوں کہ لوگوں کی حکومت ہوگی​
جبکہ مسند پہ جمے بیٹھے ہیں سردار وہی​

کیسے مانوں کہ یہاں ختم رعونت ہوگی​
جبکہ فرعون بنے بیٹھے ہیں زردار وہی​
کیسے مانوں کہ یہاں ہوگا شریعت کا نفاذ​
جبکہ ساقی ہے وہی شاہد و میخانہ وہی​

کیسے مانوں کہ بدل جا ئیں گے انکے انداز​
جبکہ ہے نعرہ لا دینی و مستانہ وہی​
کیسے میں قطرہ بے مایہ کو دریا کہہ دوں​
کیسے میں خاک کے ذرے کو ثریا کہہ دوں​

میر گل خان نصیر 



مضطر حیدری

 یوم وفات 14 مئی 1975



ہر اک صلیب و دار کا نظارہ ہم ہوئے 

ہر ایک کے گناہ کا کفارہ ہم ہوئے 



آئی جو بھوری شام سلگنے لگا بدن 

بھیگی جو کالی رات تو انگارا ہم ہوئے 



مٹی میں مل گئے تو کھلائے گناہ گل 

ابلے تو اپنے خون کا فوارہ ہم ہوئے 



سمجھا تھا وہ کہ خاک میں ہم کو ملا دیا 

پیدا اسی زمین سے دوبارہ ہم ہوئے 



ہر ایک چوب دار نے کھینچی ہماری کھال 

ہر دور کے جلوس کا نقارا ہم ہوئے 



جن اجنبی خلاؤں سے واقف نہیں کوئی 

مضطرؔ انہیں خلاؤں کا سیارہ ہم ہوئے



مضطر حیدری



Sunday, May 15, 2022

اصغر ندیم سید

یوم پیدائش 14 مئی 1948
نظم میرے دل میں جنگل ہے

میرے دل میں جنگل ہے 
اور اس میں بھیڑیا رہتا ہے 
جو رات کو میری آنکھوں میں آ جاتا ہے 
اور سارے منظر کھا جاتا ہے 
صبح کو سورج اپنے پیالے سے شبنم ٹپکاتا ہے 
اور دن کا بچہ 
میری روح کے جھولے میں رکھ جاتا ہے 
میرے دل میں جنگل ہے 
اور اس میں فاختہ رہتی ہے 
جو اپنے پروں سے میرے لئے 
اک پرچم بنتی رہتی ہے 
اور خوشبو سے اک نغمہ لکھتی رہتی ہے 
پھر تھک کر میرے بالوں میں سو جاتی ہے 
میرے دل میں جنگل ہے 
اور اس میں جوگی رہتا ہے 
جو میرے خون سے اپنی شراب بناتا ہے 
اور اپنے ستار میں چھپی ہوئی لڑکی کو 
پاس بلاتا ہے 
پھر جنگل بوسہ بن جاتا ہے 
میرے دل میں جنگل ہے 
اور اس میں بھولا بھٹکا زخمی شہزادہ ہے 
جس کا لشکر 
خون کی دھار پہ اس کے پیچھے آتا ہے 
وہ اپنے وطن کے نقشے کو زخموں پہ باندھ کے 
آخری خطبہ دیتا ہے 
پھر مر جاتا ہے 
میرے دل میں جنگل ہے 
اور اس میں گہری خاموشی ہے

اصغر ندیم سید



خورشید اکبر

یوم پیدائش 14 مئی 1959

وہ کون ہیں پھولوں کی حفاظت نہیں کرتے 
سنتے ہیں جو خوشبو سے محبت نہیں کرتے 

تم ہو کہ ابھی شہر میں مصروف بہت ہو 
ہم ہیں کہ ابھی ذکر شہادت نہیں کرتے 

قرآن کا مفہوم انہیں کون بتائے 
آنکھوں سے جو چہروں کی تلاوت نہیں کرتے 

ساحل سے سنا کرتے ہیں لہروں کی کہانی 
یہ ٹھہرے ہوئے لوگ بغاوت نہیں کرتے 

ہم بھی ترے بیٹے ہیں ذرا دیکھ ہمیں بھی 
اے خاک وطن تجھ سے شکایت نہیں کرتے 

اس موسم جمہور میں وہ گل بھی کھلے ہیں 
جو صاحب عالم کی حمایت نہیں کرتے 

ہم بندۂ ناچیز گنہ گار ہیں لیکن 
وہ بھی تو ذرا بارش رحمت نہیں کرتے 

چہرے ہیں کہ سو رنگ میں ہوتے ہیں نمایاں 
آئینے مگر کوئی سیاست نہیں کرتے 

شبنم کو بھروسہ ہے بہت برگ اماں پر 
خورشیدؔ بھی دانستہ قیامت نہیں کرتے

خورشید اکبر



اسلم بدر

یوم پیدائش 14 مئی 1944

خون اتر آیا دل کے چھالوں میں 
بن رہے تھے محل خیالوں میں 

جاگتے جاگتے چڑھا سورج 
آنکھ دکھنے لگی اجالوں میں 

پنچھیو ہجرتوں کی رت آئی 
برف جمنے لگی ہے بالوں میں 

بھوک نے کھینچ دی ہیں دیواریں 
ہم نوالوں میں ہم پیالوں میں 

مرثیہ اس صدی کا لکھنا ہے 
اور دو تین چار سالوں میں 

بجنے والی ہے آخری گھنٹی 
ہم ہیں الجھے ہوئے سوالوں میں 

پانیوں کی سیاستیں اسلمؔ 
مچھلیاں مطمئن ہیں جالوں میں

اسلم بدر



اویناش پانڈے

یوم پیدائش 14 مئی 1987

وصل کی ضد سے اٹھیں ہجر کو رویا نہ کریں
بیش قیمت ہیں یہ لمحے انہیں کھویا نہ کریں

ناصحا اور بتا ہم کو کہ کیا کیا نہ کریں
دن میں سویا نہ کریں رات کو جاگا نہ کریں

منزل ذکر رخ یار سے آگے کچھ ہو
ہم سے تو ہو نہیں سکتا اسے سوچا نہ کریں

ہم کو رہنا ہے اسی قریۂ کم نظراں میں
سخت مشکل ہے یہاں رہ کے دکھاوا نہ کریں

جھوٹ سو بار کہا جائے تو سچ لگتا ہے
مشورہ یہ ہے کہ خود پر بھی بھروسہ نہ کریں

یار کہتے ہیں کہ یہ طور جنوں اچھا نہیں
اس کی تصویر کو آنکھوں سے لگایا نہ کریں

ہم نہیں کر سکے لوگوں کی نظر کو قابو
لڑکیوں سے کہو بارش میں یوں بھیگا نہ کریں

اب جدھر دیکھیے اک محشر خوبی ہے بپا
آرزو کس کی کریں کس کی تمنا نہ کریں

کیف ہیں آپ کوئی مجنوں و فرہاد نہیں
پا برہنہ نگہ خلق میں آیا نہ کریں

اویناش پانڈے

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...