Urdu Deccan

Friday, April 29, 2022

ڈاکٹر گلِ رعنا

 یوم پیدائش 30 اپریل 1985


میں نے جب بھی کیا تذکرہ آپ کا

خواب میں دیکھا وجۂ ضیاء آپ کا


چاند کی سمت جب بھی اٹھائی نظر

آگیا ذہن میں معجزہ آپ کا


جس کو یوسف ہے کہتا یہ سارا جہاں

وہ بھی ہے عاشقِِ با صفا آپ کا


میں تو مایوس ہونے لگی تھی مگر

آسرا حشر میں مل گیا آپ کا


ہم کریں نا کریں فرق پڑتا ہے کیا

ذکر کرتا ہے جب خود خدا آپ کا


پڑھ کے کلمہ وہ حق آشنا ہوگیا

جس بشر سے ہوا رابطہ آپ کا


خاکِی انسان سے کیا تقابل بھلا

نور ہی نور ہے سلسلہ آپ کا


آپ رعنا تو نبیوں کے سردار ہیں

جانتا ہے جہاں مرتبہ آپ کا


ڈاکٹر گلِ رعنا



طاہر کنول نعمانی

 یوم وفات 30 اپریل 2021


ہے تمنا یہی نعت لکھتا رہوں نعت پڑھتا رہوں

یا نبی آپ کی نعت لکھتا رہوں نعت پڑھتا رہوں


صبح سے شام تک شام سے رات تک رات سے صبح تک 

مشغلہ ہو یہی نعت لکھتا رہوں نعت پڑھتا رہوں


کوئی لکّھے غزل نظم پر زور دے یا رباعی کہے 

میں تو یا سیدی ! نعت لکھتا رہوں نعت پڑھتا رہوں


ہر طرف نور ہو صاف ہو قلب بھی روح مسرور ہو 

اپنے سرکار کی نعت لکھتا رہوں نعت پڑھتا رہوں 


آرزو ہے یہی میری آنکھوں میں بس اُن کا روضہ رہے 

اے کنول! میں یونہی نعت لکھتا رہوں نعت پڑھتا رہوں 


طاہر کنول نعمانی



عظیم امروہوی

 یوم پیدائش 29 اپریل 1945


انبیاء جتنے ہیں ان کا مرتبہ کچھ اور ہے

عظمتِ حضرت محمد مصطفےؐ کچھ اور ہے


نیل کے پانی میں جو رستہ بنا کچھ اور ہے 

آسمانوں سے جو گزرا راستہ کچھ اور ہے 


چاند ہے سورج ہے تارا ہے نہ ہے کوئی چراغ

آمنہ کے گھر میں یہ جلوہ نما کچھ اور ہے 


ہوگی جنت بھی تری معبود کافی پُر فضا

میری نظروں میں مدینے کی فضا کچھ اور ہے


تھا خدا مطلوب موسیٰؐ کو تو پہنچے طور پر

جس کو بلوایا وہ محبوب خدا کچھ اور ہے


کوئی گزرے گا فلک سے چاند بھی آج خوش

اور تاروں کے چمکنے کی ادا کچھ اور ہے


ہیں محمدؐ تو مدینہ علم کا حیدر ؓ ہیں در

ماسوا حیدر ؓ کہیں سے راستہ کچھ اور ہے


شاعری کا لطف ہر صنف سخن میں ہے عظیم

نعت کہنے کا حقیقت میں مزا کچھ اور ہے 


عظیم امروہوی



مبارک عظیم آبادی

 یوم پیدائش 29 اپریل 1849


درد دل یار رہا درد سے یاری نہ گئی

زندگی ہم سے تو بے لطف گزاری نہ گئی


دن کے نالے نہ گئے رات کی زاری نہ گئی

نہ گئی دل سے کبھی یاد تمہاری نہ گئی


ہم تو خوں گشتہ تمناؤں کے ماتم میں رہے

سینہ کوبی نہ گئی سینہ فگاری نہ گئی


انتظار آپ کا کب لطف سے خالی نکلا

رائیگاں رات کسی روز ہماری نہ گئی


بخشوایا مجھے تم نے تو خدا نے بخشا

نہ گئی روز جزا بات تمہاری نہ گئی


لوگ کہتے ہیں بدلتا ہے زمانہ لیکن

دن ہمارا نہ گیا رات ہماری نہ گئی


مبارک عظیم آبادی



اجے سحاب

 یوم پیدائش 29 اپریل 1969


جب بھی ملتے ہیں تو جینے کی دعا دیتے ہیں

جانے کس بات کی وہ ہم کو سزا دیتے ہیں


حادثے جان تو لیتے ہیں مگر سچ یہ ہے

حادثے ہی ہمیں جینا بھی سکھا دیتے ہیں


رات آئی تو تڑپتے ہیں چراغوں کے لیے

صبح ہوتے ہی جنہیں لوگ بجھا دیتے ہیں


ہوش میں ہو کے بھی ساقی کا بھرم رکھنے کو

لڑکھڑانے کی ہم افواہ اڑا دیتے ہیں


کیوں نہ لوٹے وہ اداسی کا مسافر یارو

زخم سینہ کے اسے روز سدا دیتے ہیں


اجے سحاب



نیاز سواتی

 یوم پیدائش 29 اپریل 1941


ورنہ مجھے بھی جھوٹا سمجھتے تمام لوگ 

صد شکر اپنے حلقے کا ممبر نہیں ہوں میں 

دولت کی ریل پیل ہے اب گھر میں اس لیے 

کسٹم کا اک کلرک ہوں ٹیچر نہیں ہوں میں


نیاز سواتی 



سید خادم رسول عینی

 یوم پیدائش 29 اپریل 1968

ماہ صیام


دے رہا ہے مسلموں کو ضابطہ ماہ صیام

نور ایماں اور تقویٰ کی ضیا ماہ صیام 


اس کا استقبال کیجیے مومنو ، سنت ہے یہ 

تحفہء نیکی لیے پھر آگیا ماہ صیام


ہم گناہوں میں پھنسے تھے ، گرچہ نادم تھے بہت 

تیرے آتے ہی رکا یہ سلسلہ ماہ صیام


تجھ میں اک شب قدر والی ہے ، یہ آقا نے کہا 

تجھ سا ہم لائیں کہاں سے دوسرا ماہ صیام 


مومنوں کے رخ پہ ہیں رعنائیاں ، شادابیاں

منظر افطار و سحری خوش نما ماہ صیام 


اس کا ہر پل ہے مزین برکت و انوار سے 

ہے مقدس ابتدا تا انتہا ماہ صیام 


جس میں توریت و زبور انجیل بھی نازل ہوئیں 

مرحبا صد مرحبا وہ آگیا ماہ صیام


اس کا استقبال کرتے تھے حبیب کبریا

 اس قدر تقدیس کا حامل رہا ماہ صیام


کھل گیے جنت کے دروازے مسلماں کے لیے

بند ہر دوزخ کا دروازہ ہوا ماہ صیام


کرتی ہے مچھلی دعا دریا میں صائم کے لیے

ہے بہت اپنے لیے برکت نما ماہ صیام


نام ہے ماہ مساوات اس کا ، ماہ صبر بھی 

ہوگیے سب حامل صبر و رضا ماہ صیام


چاند کو اس کے پیمبر دیکھتے تھے شوق سے

مومنو خوشیاں مناؤ آگیا ماہ صیام


صائموں کی افضلیت "عینی" اس سے جان لو 

اجر ان کو دیتا ہے خود کبریا ماہ صیام


سید خادم رسول عینی



احمق پھپھوندوی

 یوم پیدائش 26 اپریل 1895


اٹھو اٹھو اٹھو اٹھو 

کمر کسو کمر کسو 

سحر سے پہلے چل پڑو 

کڑی ہے راہ دوستو 

تھکن کا نام بھی نہ لو 

بڑھے چلو بڑھے چلو 


جھجھک نہ دل میں لاؤ تم 

بس اب قدم اٹھاؤ تم 

ذرا نہ ڈگمگاؤ تم 

خدا سے لو لگاؤ تم 

ملول و مضطرب نہ ہو 

بڑھے چلو بڑھے چلو 


اٹھا دیا قدم اگر 

تو ختم ہے بس اب سفر 

ہے راہ صاف و بے خطر 

نہ کوئی خوف ہے نہ ڈر 

چلو چلو بڑھو بڑھو 

بڑھے چلو بڑھے چلو 


تمہارے ہم سفر جو تھے 

وہ منزلوں پہ جا لگے 

سب آگے تم سے بڑھ گئے 

مگر ہو تم پڑے ہوئے 

ذرا سمجھ سے کام لو 

بڑھے چلو بڑھے چلو 


دلوں میں ہے جو ولولہ 

تو ڈال دو گے زلزلہ 

رہے بلند حوصلہ 

وہ سامنے ہے مرحلہ 

وہیں پہنچ کے سانس لو 

بڑھے چلو بڑھے چلو 


احمق پھپھوندوی


 

من موہن عالم

 یوم پیدائش :28 اپریل 1938


گناہ اپنے اپنے ثواب اپنا اپنا 

کتاب اپنی اپنی عذاب اپنا اپنا 


مقدر کا رونا ہے کیسا کہ سب نے 

کیا تھا اگر انتخاب اپنا اپنا 


بھرم بھی ہیں درکار جینے کو شاید 

کہ خواب اپنے اپنے سراب اپنا اپنا 


نہ پوچھو کہ مطلب ہے کیا زندگی کا

سوال ایک ہی ہے جواب اپنا اپنا


من موہن عالم



مصطفٰی ارباب

 یوم پیدائش 28 اپریل

ہانکا


جس خطے پہ

ہمیں زندگی گزارتی ہے

بہت بڑی شکار گاہ ہے یہ

ہر وقت

ہانکا لگا رہتا ہے

دوڑتے دوڑتے

ہم ہانپنے لگتے ہیں

سانس اپنا راستہ بھولنے لگتی ہے

ختم ہی نہیں ہوتا یہ ہانکا

دو پاؤں والے

ہمیشہ چار پاؤں والوں کا ہانکا لگاتے ہیں

ہمارے دو پاؤں

ایک ہانکے کا شکار ہو چکے ہیں

ہم بہت خوش ہوئے تھے

اب ہمارے پاس

ہانکا لگانے والوں کی طرح

دو پاؤں ہیں

مگر پاؤں دو ہوں یا چار

ہانکا لگا ہی رہتا ہے


مصطفٰی ارباب



ارپیت شرما

 یوم پیدائش 28 اپریل


دور کرنے کو یہ تنہائی کہاں سے آئی

تو نہیں ہے تو یہ پرچھائی کہاں سے آئی


آنکھ رکھ کر ہوا جاتا ہے خدا کا منکر 

وہ نہیں ہے تو یہ بینائی کہاں سے آئی


سبز کوسار چمن زار درختوں کی قطار

جو زمیں آپ کو دکھلائی کہاں سے آئی


بام و در دیکھ کہ حیران ہیں آنکھیں میری 

ایسی دیواروں پہ یہ کائی کہاں سے آئی


دیکھ کر غرق ہوئی جاتی ہے ساری دنیا

تیری آنکھوں میں یہ گہرائی کہاں سے آئی


تیری رعنائیِ قدرت پہ تعجب ہے خدا

ان پہاڑوں میں یہ اونچائی کہاں سے آئی


تیرے سجدوں پہ تو نازاں ہیں فرشتے سارے

تجھ میں ارپتؔ یہ جبیں سائی کہاں سے آئی


ارپیت شرما



ڈاکٹر ناہید کیانی

 یوم پیدائش 28 اپریل


عجیب دل میں مچی کھلبلی سے ڈرتے ہوئے

میں سانس کھینچتی ہوں زندگی سے ڈرتے ہوئے


اذیتوں کی کسک سے وہ آشنا کب ہے

مجھے گزرنا ہے جس کی گلی سے ڈرتے ہوئے


چراغ وقت سے پہلے بجھا رہے ہیں لوگ

ہوا کے ساتھ مِلے, روشنی سے ڈرتے ہوئے


کسی کے ہونٹوں پہ لرزے گا قہقہوں کا ہجوم

مکانِ صبر کی اس پختگی سے ڈرتے ہوئے


ہر ایک آئنہ تڑخن کا غم سہے ناہید

مرے خلوص مری سادگی سے ڈرتے ہوئے


ڈاکٹر ناہید کیانی



سیفی سرونجی

 یوم پیدائش 28 اپریل 1952


کیا پوچھتے ہو درد کے ماروں کی زندگی 

یعنی فلک کے ڈوبتے تاروں کی زندگی 


پھیلاؤں ہاتھ جا کے بھلا کس کے سامنے 

ہم کو نہیں گوارا سہاروں کی زندگی

 

ساحل پہ آ کے موج تلاطم سے بارہا 

برباد ہو گئی ہے ہزاروں کی زندگی

 

آتی ہے یاد کیوں مجھے رہ رہ کے آج بھی 

گلشن کے دل فریب نظاروں کی زندگی 


ہے آندھیوں کا خوف نہ ہے ڈوبنے کا ڈر 

مجھ کو نہیں پسند کناروں کی زندگی 


کس درجہ خوش گوار ہے تنہائیوں میں آج 

سیفیؔ چمکتے چاند ستاروں کی زندگی 


سیفی سرونجی



بدنام نظر

 یوم پیدائش 27 اپریل 1941


حیات ڈھونڈ رہا ہوں قضا کی راہوں میں

پناہ مانگنے آیا ہوں بے پناہوں میں


بدن ممی تھا نظر برف سانس کافوری

تمام رات گزاری ہے سرد بانہوں میں


اب ان میں شعلے جہنم کے رقص کرتے ہیں

بسے تھے کتنے ہی فردوس جن نگاہوں میں


بجھی جو رات تو اپنی گلی کی یاد آئی

الجھ گیا تھا میں رنگین شاہراہوں میں


نہ جانے کیا ہوا اپنا بھی اب نہیں ہے وہ

جو ایک عمر تھا دنیا کے خیر خواہوں میں


مری تلاش کو جس علم سے قرار آئے

نہ خانقاہوں میں پائی نہ درس گاہوں میں


بدنام نظر



شوق قدوائی

 یوم وفات 27 اپریل 1925


روح کو آج ناز ہے اپنا وقار دیکھ کر 

اس نے چڑھائیں تیوریاں میرا قرار دیکھ کر 


قصد گلہ نہ تھا مگر حشر میں شوق جوش سے 

ہاتھ مرا نہ رک سکا دامن یار دیکھ کر 


دیکھ کے ایک بار انہیں دل سے تو ہاتھ دھو چکے 

دیکھیے کیا گزرتی ہے دوسری بار دیکھ کر 


آتے ہیں وہ تو پہلے ہی رنج سے صاف ہو رہوں 

آ کے کہیں پلٹ نہ جائیں دل میں غبار دیکھ کر 


وصل سے گزرے اے خدا ہاں یہ شگون چاہیئے 

صبح کو ہم اٹھا کریں روئے نگار دیکھ کر 


کعبہ کو جا نہ شوقؔ ابھی نیت زندگی بخیر 

ہم بھی چلیں گے تیرے ساتھ اب کی بہار دیکھ کر


شوق قدوائی



تابش رامپوری، ممبرا

 انسان کو ڈھونڈو گے تو انسان ملےگا

ورنہ یہاں ہر موڑ پہ حیوان ملے گا


پتھر کو اگر وصف کا ایوان ملے گا

ممکن ہے کہ خود ساختہ بھگوان ملے گا


بہتر ہے کہ یہ پھول کسی قبر پہ رکھ دو

بوسیدہ مکاں میں کہاں گلدان ملے گا


جس غار میں وحدت کی تجلی ہے وہاں جا

بستی میں کہاں صاحب عرفان ملے گا


جنت کی کسی کو بھی تمنا نہیں ہوگی

دنیا میں اگر عیش کا سامآن ملے گا


تابش میں یہی سوچ کے رہتا ہوں پریشاں 

ہر شخص یہاں مجھکو پریشان ملے گا


تابش رامپوری، ممبرا



زعیم رشید

 یوم پیدائش 27 اپریل 1984


دیار شوق میں آئے تھے ایک خواب کے ساتھ 

گزر رہی ہے مسلسل کسی عذاب کے ساتھ 


ہم اہل درد پکارے گئے صحیفوں میں 

ہم اہل عشق اتارے گئے کتاب کے ساتھ 


پھر ایک شام پذیرائی چشم تر کی ہوئی 

پھر ایک شام گزاری گئی جناب کے ساتھ 


ہمیں یہ خوف اندھیرے نگل نہ جائیں کہیں 

سو ہم نے جسم کو ڈھانپا ہے آفتاب کے ساتھ 


مکالمہ رہا جاری ہماری آنکھوں کا 

بدن کی شاخ پہ کھلتے ہوئے گلاب کے ساتھ 


کچھ اور چاہیے تشنہ لبی مٹانے کو 

یہ پیاس وہ ہے جو بجھتی نہیں شراب کے ساتھ 


زعیمؔ وہ مری دریا دلی سے ڈرتا ہے 

وہ مجھ سے ملتا ہے لیکن بڑے حساب کے ساتھ 


زعیم رشید



عشرت رومانی

 یوم وفات 25 اپریل 2021


طلوع صبح تاباں کی جبیں سے

یہ کس کا خون رستا ہے زمیں سے


تری یادوں کی شبنم ضو فشاں ہے

نظر آتے ہیں جگنو شہ نشیں سے


کوئی سورج مرے دل میں اتارو

بنے جاتے ہیں رستے سرمگیں سے


کوئی مانوس خوشبو بس گئی ہے

چلے آتے ہیں جھونکے عنبریں سے


تری قربت کی گرمی کہہ رہی ہے

بکھرنے کو ہیں لمحے آتشیں سے


مرے سپنے مری آنکھیں بھی لے لو

مگر جاناں مجھے دیکھو کہیں سے


جہاں جلتی ہیں یادوں کی چتائیں

پکارا ہے ہمیں اس نے وہیں سے


عشرت رومانی



محب وفا

 یوم پیدائش 26 اپریل 1984


ہجر ہے یاس ہے وحشت کا سماں ہے میں ہوں 

عمر ٹھہرے ہوئے موسم میں رواں ہے میں ہوں 


میرے دامن میں جو گنجینۂ گل ہے تو ہے 

تیرے دامن میں جو اک برگ خزاں ہے میں ہوں 


از زمیں تا بہ فلک رات کا سناٹا ہے 

ایسے عالم میں جو یہ شور فغاں ہے میں ہوں 


دیکھ ہجراں میں خیالات پریشاں کا فسوں 

جا بجا عکس ترا رقص کناں ہے میں ہوں 


طاق ہر شام پہ جلتی ہوئی امید ہے تو 

یہ جو بجھتی ہوئی حسرت کا دھواں ہے میں ہوں 


چشم صد ناز ہے پیکان ستم ہے تو ہے 

اور اک زخم جگر جان ستاں ہے میں ہوں 


برف جذبات کی پگھلی ہے مری حدت سے 

اندروں تیرے جو اک شعلہ فشاں ہے میں ہوں


محب وفا



رفیق رافع

 یوم پیدائش 25 اپریل


ملنے جب جب بھی ان سے جاتے ہیں

دل وہیں اپنا چھوڑ آتے ہیں


ہم نے سیکھا ہے بارہا ان سے

سانحے کچھ نہ کچھ سکھاتے ہیں


تھام لو دل کہ آپ کو اپنی

دکھ بھری داستاں سناتے ہیں


یار ہم بعد میں ہی سوتے ہیں

پہلے بستر پہ غم بچھاتے ہیں


یہ جو ہنستے دکھائی دیتے ہیں

درحقیقت یہ دکھ چھپاتے ہیں


اک قیامت سی ٹوٹ پڑتی ہے

رخ سے آنچل وہ کیا ہٹاتے ہیں


کیا کہا وہ یہاں پہ آئیں گے

رک زرا ہم سنور کے آتے ہیں


رفیق رافع



فاطر فریاد

 یوم پیدائش 25 اپریل


تیرا شانہ جو مجھ کو مل جائے

گریہ زاری کا زخم سِل جائے 


سن کے بیٹھا ہوں تجھ سے جو باتیں

آسماں بھی سنے تو ہِل جائے 


ہاتھ جو تم چھڑائے بیٹھے ہو

دل پہ رکھوں نہ گر تو دل جائے 


بند کرواو کوئے جاناں کو

شاد جو آئے مضمحل جائے 


ہاں اگر ہو تمہارے کمرے میں

خشک گملے میں پھول کھل جائے


فاطر فریاد



ممتاز راشد

 یوم وفات 23 اپریل 2022

انا الیہ وانا الیہ راجعون


رنگ الفاظ کا الفاظ سے گہرا چاہوں 

بات کرنے کے لیے اپنا ہی لہجہ چاہوں 


ہے تھکن ایسی مرا پار اترنا ہے محال 

تشنگی وہ ہے کہ بہتا ہوا دریا چاہوں 


کم نظر ہے جو کرے تیری ستائش محدود 

تو وہ شہکار ہے میں جس کو سراپا چاہوں 


تجھ پہ روشن مرے حالات کی زنجیریں ہیں 

روک لینا جو کبھی تجھ سے بچھڑنا چاہوں 


مفلسی لاکھ سہی دولت نایاب ہے یہ 

میں ترے غم کے عوض کیوں غم دنیا چاہوں 


غم ہے سناٹوں میں قدموں کے نشاں تک راشدؔ 

وہ اندھیرا ہے کہ دیواروں سے رستا چاہوں


ممتاز راشد



روبینہ رانیؔ

 یوم پیدائش 23 اپریل


کھلنے لگے اس دل میں گلاب اور زیادہ 

آتے ہیں مجھے تیرے ہی خواب اور زیادہ


میں نے تو محبت سے نوازا ہے سبھی کو 

دنیا نے دئیے مجھ کو عذاب اور زیادہ


امکان ہے جل جائے نہ اب میرا مکاں بھی

گرتے ہیں زمیں پر یہ شہاب اور زیادہ


پھوٹے نہ کہیں دل سے کوئی خون کا دھارا 

بپھرا ہے مرے دل کا چناب اور زیادہ


اک بار جو نفرت کا لیا نام کسی نے 

میں نے پڑھے الفت کے نصاب اور زیادہ


میں نے تو کبھی درد سے شکوہ نہ کیا تھا 

لیتا رہا کیوں درد حساب اور زیادہ


اس پیاس کو کیسے بھلا سمجھاؤں میں رانی 

صحرا نے دکھانے ہیں سراب اور زیادہ


روبینہ رانیؔ



اِمتیاز انجم

 یوم پیدائش 20 اپریل 2000


جو بات جتائی ہے جتانے کی نہیں تھی 

پھر بات ہماری تھی زمانے کی نہیں تھی


ہر بات ہر اک شخص سمجھ ہی نہیں سکتا 

ہر نظم سرِ بزم سنانے کی نہیں تھی


نقشہ بھی تھا رستہ بھی تھا ہمت بھی تھی لیکن

کنجی ہی مرے پاس خزانے کی نہیں تھی


تھا تیرا تبسّم ہی مری جان قیامت

لیکن جو تری مجھ کو ستانے کی "نہیں" تھی 


کیا جانیے کیا بات تھی اس شخص کے دل میں

یہ بات تو کچھ ایسی رلانے کی نہیں تھی 


آج اس کی صدا پر کوئی لبّیک نہ بولا

وہ جس کی نہیں ایک زمانے کی "نہیں" تھی


جو زخم لگایا ہے لگانے کا نہیں تھا 

جو تیغ چلائی ہے چلانے کی نہیں تھی


جو دل میں بسایا ہے بسانے کا نہیں تھا 

جو آگ لگائی ہے لگانے کی نہیں تھی


کرنے سے کوئی کام بھی ہو سکتا ہے لیکن

نیت ہی مری اس کو بھلانے کی نہیں تھی

 

جاتے ہوئے اس نے بھی پلٹ کر نہیں دیکھا 

خو میری بھی آواز لگانے کی نہیں تھی


اِمتیاز انجم



شہناز نبی

 یوم پیدائش 20 اپریل


ہوا سرکش اندھیرا سخت جاں ہے 

چراغوں کو مگر کیا کیا گماں ہے 


یقیں تو جوڑ دیتا ہے دلوں کو 

کوئی شے اور اپنے درمیاں ہے 


ابھی سے کیوں لہو رونے لگی آنکھ 

پس منظر بھی کوئی امتحاں ہے 


وہی بے فیض راتوں کا تسلسل 

وہی میں اور وہی خواب گراں ہے 


مرے اندر ہے اک پیاسا کنارہ 

مرے اطراف اک دریا رواں ہے 


شہناز نبی



عالم تاب تشنہ

 یوم پیدائش 20 اپریل 1935


وہ کہ ہر عہد محبت سے مکرتا جائے 

دل وہ ظالم کہ اسی شخص پہ مرتا جائے 


میرے پہلو میں وہ آیا بھی تو خوشبو کی طرح 

میں اسے جتنا سمیٹوں وہ بکھرتا جائے 


کھلتے جائیں جو ترے بند قبا زلف کے ساتھ 

رنگ پیراہن شب اور نکھرتا جائے 


عشق کی نرم نگاہی سے حنا ہوں رخسار 

حسن وہ حسن جو دیکھے سے نکھرتا جائے 


کیوں نہ ہم اس کو دل و جان سے چاہیں تشنہؔ 

وہ جو اک دشمن جاں پیار بھی کرتا جائے


عالم تاب تشنہ



شمسؔ ذبیحی بنارسی

 یوم پیدائش 15 اپریل 1923

شب قدر


مومنوں آئی ہے قسمت سے مناجات کی رات

ہو مبارک ہے شبِ قدر عبادات کی رات


جس نے بخشی ہے سلام اور تحیات کی رات

بھیجو کثرت سے درود اس پہ ہے صلوۃ کی رات


دیکھو انوارِ الہی کی تجلی ہر سو

لائی ہے نور ہی نور اہلِ سماوات کی رات


لطف معراج کا لے لو بخدا سجدے میں

 کی ہے ﷲ نے مخصوص ملاقات کی رات


قدر والے ہی شبِ قدر کی کرتے ہیں قدر

سونے کا نام نہیں جاگتے ہیں رات کی رات


خوابِ غفلت میں گنواتی ہے دن اپنا اُمّت

آقاﷺ سوئے نہیں اُمّت کے لیے رات کی رات


اے مرے دوستو تم ذکرِ الٰہی کے سوا

اور باتیں نہ کرو آج نہیں بات کی رات


حتی الامکان دل و جان سے تم قدر کرو

قابلِ قدر ہے یہ تحفہ و سوغات کی رات


شمسؔ ہوتی ہے میسّر اسی خوش قسمت کو

جسکی تقدیر میں ہے فضل و کمالات کی رات


 شمسؔ ذبیحی بنارسی



فہیم الدین احمد فہیم

 یوم پیدائش 19 اپریل 1877


یوں کہنے کو خنجر کو بھی خنجر ہی کہیں گے 

پر کیا تیرے ابرو کے برابر ہی کہیں گے

 

زاہد جو مزا مے میں یہاں پوچھ نہ ہم سے 

کہنا ہے جو کچھ وہ لب کوثر ہی کہیں گے

 

مانا نہ کریں وعدہ ہمیں بھی تو کہیں وہ 

گر کچھ نہیں حال دل مضطر ہی کہیں گے

 

سننے کی کوئی حد بھی ہے ہاں پوچھتے کیوں ہو 

ہم حال بھی اپنا سر محشر ہی کہیں گے

 

دو لفظوں میں کیوں کر ہو نہ سننا ہے نہ سنئے 

ہم کہنے کو بیٹھیں گے تو دفتر ہی کہیں گے

 

سننے کو تو کیا جانئے کیا کیا نہ سنیں گے 

کہنے کو تو حال دل مضطر ہی کہیں گے

 

اس میں تری مژگاں ہو کہ ہو گوشہ ابرو 

چبھ جائے جو دل میں اسے نشتر ہی کہیں گے

 

یوں کام کئے اس نے ہزاروں ہمیں کیا کام 

ہم آئنہ سازیٔ سکندر ہی کہیں گے 


تم نے بھی تو دیکھا ہے فہیمؔ اس کو کہو نہ 

ہم اپنی سی کہنے کو برابر ہی کہیں گے


فہیم الدین احمد فہیم



احمد علی برقیؔ اعظمی

 یاد رفتگا ں: بیاد بیدار مغزناول نگار مشرف عالم ذوقی مرحوم   پہلی برسی کی مناسبت سے

تاریخ وفات:  ۱۹ اپریل ۲۰۲۱


ایم اے ذوقی عہد حاضر کے تھے وہ ناول نگار

جن کی تخلیقات ہیں عصری ادب کا شاہکار


ایم اے ذوقی کا تھا معیاری ادیبوں میں شمار

ہر نئی تخلیق کا رہتا تھا سب کو انتظار


ذوقی تھے عصری ادب کی شخصیت اک عبقری

اردودنیا جن کے رحلت سے ہے ہر سو سوگوار


ان کی ادبی شخصیت تھی نازشِ برِصغیر

جتنے دانشور ہیں ان کے غم میں ہیں وہ دلفگار


اُن کی ہر تخلیق ہے آئینۂ نقد و نظر

ابن آدم کا عیاں ہے جس سے ذہنی انتشار


عہد حاضر میں تھے عصری آگہی کے وہ نقیب

درد کا رشتہ ہے اُن کے فکروفن سے آشکار


نبضِ دوراں پر نہایت سخت تھی ان کی گرفت

بحر ذخار ادب کی تھے وہ دُرِ شاہوار


سب کے ہیں ورد زباں اُن کے نقوش جاوداں 

گلشن اردو میں ان کی ذات تھی مثلِ بہار


اجتماعی زندگی کے ترجماں تھے اس لئے

عہد حاضر میں تھے وہ ناول نگاری کا وقار


لے لی کورونا وائرس نے آج برقیؔ ان کی جان

جن کے اقصائے جہاں میں قدرداں تھے بیشمار


احمد علی برقیؔ اعظمی


یاد رفتگاں بیاد ممتاز تخلیق کار مرحومہ تبسم فاطمہ شریک حیات مشرف عالم ذوقی مرحوم جو ان کے انتقال کے  فورا بعد ہی اس جہان فانی سے رخصت ہوگئیں


ایم اے ذوقی کی تبسم فاطمہ تھیں اہلیہ 

دونوں کے تھا درمیاں اک رشتہ مہر و وفا


دونوں تھے عہد رواں کی شخصیت  اک عبقری

ان  میں تھا یک جاان و دو قالب کا باھم رابطہ


دونوں کی تخلیق میں یکساں تھی عصری حسیت

ہوگئے کورونا کے وہ مہلک مرض میں مبتلا


ذوقی کی رحلت کا تھا ان پر اثر اتنا شدید

جان لیوا ہوگیا ان کے لئے یہ سانحہ


اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگی محبت کی مثال

ان کے جاتے ہی جہاں سے  ہوگئیں وہ بھی جدا


جاتے ہی ان کے تبسم فاطمہ بھی چل بسیں

اس خبر سے ادبی دنیا میں تھے سب حیرت زدہ


جنت الفردوس میں درجات ہوں ان کے بلند

دونوں پر نازل وہاں ہوں رحمت و فضل خدا


ان کے غم میں ہیں سبھی اہل قلم برقی شریک

صدمہ جانکاہ ہے سب کے لئے یہ حادثہ


احمد علی برقیؔ اعظمی



رؤف رضا

 یوم پیدائش 18 اپریل 1954


قریب بھی تو نہیں ہو کہ آ کے سو جاؤ 

ستاروں جاؤ کہیں اور جا کے سو جاؤ 


تھکن ضروری نہیں رات بھی ضروری نہیں 

کوئی حسین بہانہ بنا کے سو جاؤ 


کہانیاں تھی وہ راتیں کہانیاں تھے وو لوگ 

چراغ گل کرو اور بجھ بجھا کے سو جاؤ 


طریقِ کار بدلنے سے کچھ نہیں ہوگا 

جو دور ہے اسے نزدیک لا کے سو جاؤ 


خسارے جتنے ہوئے ہیں وہ جاگنے سے ہوئے 

سو ہر طرف سے صدا ہے کے جا کے سو جاؤ 


یہ کار شعر بھی اک کار خیر جیسا ہے 

کے طاق طاق جلو لو بڑھا کے سو جاؤ 


اداس رہنے کی عادت بہت بری ہے تمہیں 

لطیفے یاد کرو ہنس ہنسا کے سو جاؤ


رؤف رضا



اے ڈی اظہر

 یوم پیدائش 18 اپریل 1900


اب نہ ہم چھوڑ کے جائیں گے تمہیں

اب تو سب دل کی بتائیں گے تمہیں


آج کی رات تو جی بھر کے ملو

پھر تو ہم یاد نہ آئیں گے تمہیں


کیسے گزرے گی تمہیں کیا معلوم؟

پاس جب اپنے نہ پائیں گے تمہیں


چھوڑ جاتے ہو جسے ویرانہ 

پھر اسی دل میں بسائیں گے تمہیں


کبھی فرصت جو ملے ، آجانا

قصہ درد سنائیں گے تمہیں


ہجر میں اور کریں گے ہم کیا؟

دل سے ہر لحظہ بھلائیں گے تمہیں


کاش ! وہ بھی تو کہیں مجھ سے کبھی

روٹھ جاؤ تو منائیں گے تمہیں


اپنے دل میں ہے بہت کچھ اظہر

یاد آ لے ، تو جتائیں گے تمہیں


اے ڈی اظہر


ندا فاضلی

 نزدیکیوں میں دور کا منظر تلاش کر

جو ہاتھ میں نہیں ہے وہ پتھر تلاش کر


سورج کے ارد گرد بھٹکنے سے فائدہ

دریا ہوا ہے گم تو سمندر تلاش کر


تاریخ میں محل بھی ہے حاکم بھی تخت بھی

گمنام جو ہوئے ہیں وہ لشکر تلاش کر


رہتا نہیں ہے کچھ بھی یہاں ایک سا سدا

دروازہ گھر کا کھول کے پھر گھر تلاش کر


کوشش بھی کر امید بھی رکھ راستہ بھی چن

پھر اس کے بعد تھوڑا مقدر تلاش کر


ندا فاضلی



قادر صدیقی

 پیدائش 1923


بیکار بھی اس دور میں بیکار نہیں ہے

دیوانہ ہے وہ کون جو ہشیار نہیں ہے


اس دور ترقی پہ بہت ناز نہ کیجے

اس دور میں سب کچھ ہے مگر پیار نہیں ہے


ہر چیز کی بہتات ہے اس دور میں لیکن

وہ چیز جسے کہتے ہیں کردار نہیں ہے


اس بات پہ ناراض ہیں نا خوش ہیں کھنچے ہیں

وہ بات کہ جس بات کا اظہار نہیں ہے


یہ بات ہے کچھ اور کہ دل زخمی ہے اس کا

صورت سے تو قادرؔ ترا بیمار نہیں ہے


قادر صدیقی



شفقت حیات

 اک مسلسل ہجر ہر پل ساتھ رہتا ہے مرے

جو جدا ہوتا نہیں وہ ہمسفر رکھتی ہوں میں


شفقت حیات


 #اردودکن #urdudeccan

وقاص احمد

 یوم پیدائش 16 اپریل 1996


دکھوں سے بڑھ کہ مجھے آنسوؤں کا رونا ہے

کہ آمدن سے زیادہ تو میرا خرچہ ہے


میں بے ارادہ کہیں اٹھ کے دوڑ پڑتا ہوں 

مرا وجود بھی شاید کسی کا سایہ ہے


ہمارے بیچ ہے پوجا سے تھوڑا کم شاید

ہمارے بیچ محبت سے کچھ زیادہ ہے


ہماری آنکھ میں ٹوٹا ہے بارہا اک خواب

ہماری آنکھ میں آنسو نہیں ہیں ملبہ ہے


یہ جسم خاک سے تعمیر کی گئی اک قبر

جو آئینے میں نظر آ رہا ہے کتبہ ہے


وقاص احمد


توحید زیب

 یوم پیدائش 16 اپریل 1999


زبان بند تھی پر ذہن منخسف نہیں تھا

یہی زمانہ تھا انسان منکشف نہیں تھا


کسی وجود نے توصیف فکر میں ڈالی

وگرنہ اس کا کوئی پختہ معترف نہیں تھا


نئی خزاں نے جگہ لے لی تھی گذشتہ کی

تمہارا غم غمِ دنیا سے مختلف نہیں تھا


یہ کائنات تضادات کا شکار ہوئی

ازل سے دیکھیں تو یہ دہر منخسف نہیں تھا


جو روبرو بھی تھا یکسر نہاں بھی رہتا تھا

خدا کے بعد کوئی ایسا منکشف نہیں تھا


مزاج مذہبی اور سوچ غیر مذہبی تھی

قدیم شخص سمجھدار معتکف نہیں تھا


توحید زیب



Friday, April 15, 2022

فرتاش سید

 یوم پیدائش 15 اپریل 1967


برسرِ کوچہء اغیار اٹھا لائے ہیں

یہ کہاں مجھ کو مرے یار اٹھا لائے ہیں


آپ پر وار ہوئے، میں نےوہ سینے پہ لیے

اور اب آپ بھی تلوار اٹھا لائے ہیں


ان کے اسلوبِ فضیلت سے پتا چلتا ہے

یہ کسی اور کی دستار اٹھا لائے ہیں


جب کھلا نامہء اعمال ، تو ہم پر یہ کھلا

جو اٹھا لائے ہیں بے کار اٹھا لائے ہیں


ریت میں پھول کھلانا ہمیں آتا ہے ، سو ہم

عرصہء دشت میں گھر بار اٹھا لائے 


اک ذرا سا بھی نہیں بارِ ندامت دل پر

زر نہیں ، دولتِ کردار اٹھا لائے ہیں


میں نہ یوسف ہوں، نہ سجاد ہوں فرتاش یہ لوگ

کیوں مجھے برسرِبازار اٹھا لائے ہیں


فرتاش سید



Thursday, April 14, 2022

محمد نعیم اللہ خیالی

 یوم پیدائش 15 اپریل 1920


ستم کی تیغ چلی تیر بھی جفا کے چلے 

جو بات حق تھی سر دار ہم سنا کے چلے 


کچھ ایسی دور نہ تھیں منزلیں محبت کی 

وفور شوق میں ہم فاصلے بڑھا کے چلے 


جو آب و دانہ چمن سے اٹھا چمن والو 

ہر اک شاخ پہ ہم آشیاں بنا کے چلے 


اٹھے تو محفل رنداں سے تشنہ کام مگر 

قدم قدم پہ ہم ایک مے کدہ بنا کے چلے 


سلگ سلگ کے رہے جو دیا بجھا نہ سکے 

گئے تو جاتے ہوئے آگ وہ لگا کے چلے 


خیالیؔ شعر ہے کیا یہ تو اہل فن جانیں 

ہم اپنے دل کی بہ شکل غزل سنا کے چلے


محمد نعیم اللہ خیالی


ریشمہ زیدی

 یوم پیدائش 15 اپریل


حالات کے ماروں سے یوں موجِ بلا الجھے

جیسے کہ چراغوں سے رہ رہ کے ہوا الجھے


کچھ نظمِ چمن بدلے ہنگامہ بھی ہو برپا

گر شعلہ بیانوں سے بے بس کی صدا الجھے


خوشبو ہو فضاؤں میں خوش رنگ نظارے ہوں

دامانِ گلِ تر سے جب بادِ صبا الجھے


ہر شام اٹھاتی ہے سر تیرہ شبی اپنا

ہر رات اندھیرے سے شمعوں کی ضیا الجھے


یوں حرف نہ آجائے گلشن میں بہاروں پر

اب اور نہ پھولوں سے کانٹوں کی ردا الجھے۔


کیا ہوگا ذرا سوچو *ریشم* سرِ محفل جب

خود دار طبیعت سے گیسوۓ انا الجھے


ریشمہ زیدی



زبیر رضوی

 یوم پیدائش 15 اپریل 1935


بچھڑتے دامنوں میں پھول کی کچھ پتیاں رکھ دو

تعلق کی گرانباری میں تھوڑی نرمیاں رکھ دو


بھٹک جاتی ہیں تم سے دور چہروں کے تعاقب میں

جو تم چاہو مری آنکھوں پہ اپنی انگلیاں رکھ دو


برستے بادلوں سے گھر کا آنگن ڈوب تو جائے

ابھی کچھ دیر کاغذ کی بنی یہ کشتیاں رکھ دو


دھواں سگرٹ کا بوتل کا نشہ سب دشمن جاں ہیں

کوئی کہتا ہے اپنے ہاتھ سے یہ تلخیاں رکھ دو


بہت اچھا ہے یارو محفلوں میں ٹوٹ کر ملنا

کوئی بڑھتی ہوئی دوری بھی اپنے درمیاں رکھ دو


نقوش خال و خد میں دل نوازی کی ادا کم ہے

حجاب آمیز آنکھوں میں بھی تھوڑی شوخیاں رکھ دو


ہمیں پر ختم کیوں ہو داستان خانہ ویرانی

جو گھر صحرا نظر آئے تو اس میں بجلیاں رکھ دو


زبیر رضوی


ساجد امجد

 یوم پیدائش 14 اپریل 1949


شکستہ دل تھے ترا اعتبار کیا کرتے 

جو اعتبار بھی کرتے تو پیار کیا کرتے 


ذرا سی دیر کو بیٹھے تھے پھر اٹھا نہ گیا 

شجر ہی ایسا تھا وہ سایہ دار کیا کرتے 


شب انتظار میں دن یاد یار میں کاٹے 

اب اور عزت لیل و نہار کیا کرتے 


کبھی قدم سفر شوق میں رکے ہی نہیں 

تو سنگ میل بھلا ہم شمار کیا کرتے 


ستم شناس محبت تو جاں پہ کھیل گئے 

نشانۂ ستم روزگار کیا کرتے 


ہماری آنکھ میں آنسو نہ اس کے لب پہ ہنسی 

خیال خاطر ابر بہار کیا کرتے 


وہ ناپسند تھا لیکن اسے بھلایا نہیں 

جو بات بس میں نہ تھی اختیار کیا کرتے 


درون خانۂ دل کیسا شور ہے ساجدؔ 

ہمیں خبر تھی مگر آشکار کیا کرتے


ساجد امجد



شاھین کاظمی

 یوم پیدائش 14 اپریل


جب سے پلٹا تھا تُو من میں رنجش لیے

 دل سلگتا رہا ایک تابش لیے


کھا گئی لفظ لہجے کی تلخی مگر

معنی بیٹھے رہے بس گزارش لیے


آنکھ دامن میں بھر کے مناظر سبھی

 چل پڑی ساتھ صدیوں کی بارش لیے


رات بہتی رہی پھر اُفق تا اُفق

اِک مرادوں بھرے دن کی خواہش لیے


وقت کا دائرہ ٹوٹتا ہی نہیں

لمحہ لمحہ، نئی آزمائش لیے


شاھین کاظمی


میتالی راج تیواری

 یوم پیدائش 11 اپریل 1995


مکمل موت سے پہلے مرا تم خواب ہو جاؤ 

مری آنکھوں کے کوروں پر ٹھہرتا آب ہو جاؤ 


تمہیں بس دیکھنے بھر کو جگر چوکھٹ پہ رکھنا ہو 

اجازت رب سے لینی ہو یوں تم نایاب ہو جاؤ 


کوئی دیکھے نہیں تم کو کوئی چھو بھی نہیں پائے 

مرے سینے میں چھپ جاؤ مرا گرداب ہو جاؤ  


مرا آغاز ہو تم سے تمہیں پر ختم ہوؤں میں 

محبت کے صحیفے میں وفا کا باب ہو جاؤ


میتالی راج تیواری


شبنم عشائی

 یوم پیدائش 12 اپریل 1962


نظم زندگی کی سگریٹ 


تمہارے ساتھ پینے کی خاطر 

میں نے اپنے سوچنے کی صلاحیت 

تمہارے نام کر دی تھی 

اور وہ تمام مکھوٹے 

تمہارے کمرے میں سجا دئے تھے 

جنہیں تم نے عمر بھر 

شکار کیا تھا 

میں اپنی ساری خوشبوئیں 

خرچ کر کے 

تمہارا پورا درد خرید رہی تھی 

لیکن تم نے آنکھوں پر ہی نہیں 

دماغ پر بھی پٹی باندھ رکھی تھی 

سڑک حادثے کے بعد 

میرا پلستر چڑھتے سمے 

جو تم نے ایک لمحے کو 

اپنی آنکھوں کی پٹی کھول دی تھی 

تمہارا سر جھک گیا تھا 

مجھے معلوم تھا میں تمہیں کھو دوں گی 

جو کھو جاتا ہے 

اس کے کھونے کا افسوس گانٹھ بن جاتا ہے 

میں اگرچہ ہل نہیں سکتی تھی 

سوچنے سے محروم نہیں تھی 

اور دنیا سوچنے سے عبارت ہے 

میری آنکھیں سوج گئی تھیں بند نہیں تھیں 

اور کانوں میں وہ سب آوازیں آ رہی تھیں 

جب تم میرے حافظے کے مفلوج ہو جانے کا اعلان کر رہے تھے 

میں دیکھ رہی تھی 

لوگ تمہاری طرف متوجہ ہوئے تھے 

لیکن تمہارے دماغ پہ لگائی ہوئی پٹی 

سب کو نظر آ گئی تھی 

تم جان لو کہ دنیا سوچنے سے عبارت ہے 

اب زندگی کی سگریٹ صرف میں پیوں گی 

اور تم سگریٹ کی راکھ کی طرح 

میری انگلیوں سے جھڑتے رہوگے 


 


شبنم عشائی

ممتاز عزیز نازاں

 یوم پیدائش 11 اپریل 1964


تا عمر سفر کر کے یہ ہم نے کمایا ہے

دو قطرے ہیں شبنم کے اک دھوپ کا ٹکڑا ہے


بخشے ہیں مقدر نے ہم کو جو ستارے دو

اک مہر کا پرتو ہے اک چاند کا سایا ہے


الفت ہو کہ نفرت ہو تصویر کے دو رخ ہیں

دم توڑتی الفت نے نفرت کو جگایا ہے


خوشیاں نہ سہی غم ہی اپنا ہی تھا کہنے کو

اب یہ بھی بھرم ٹوٹا صحرا ہے نہ سایا ہے


ممتاز عزیز نازاں



معین گریڈ یہوی

 یوم پیدائش 12اپریل 1969


بنائےہرطرف ایسی فضا دیکھو

ہونفرت کی محبت ہی دوا دیکھو


اکیلے گھر سے نہ نکلا کرو تم

بہت بگڑی ہے دنیا کی ہوا دیکھو


کسی کو پوچھنے والا نہیں کوئی

زمانہ ہو گیا کتنا برا دیکھو


عدالت سے رہائی پاگیا ظالم

یہاں مظلوم سولی پر چڑھا دیکھو


کبھی پردیس میں بھوکا نہیں سویا

رہی شامل مری ماں کی دعاء دیکھو


یہ میرے عہد کا بیٹا ارے بابا

کہے وہ ماں کو بڑھیا‘ بے حیا دیکھو


وطن کے واسطے میں سر کٹا دوں گا

جہاں والو! یہ میرا حوصلہ دیکھو


کدھر اخلاق ملت ڈھونڈھتے ہو تم

’’ادھر آؤ فریب ارتقاء دیکھو


محبت پیار کی باتیں نہیں چھیڑو

مجھے چھوڑو جی کوئی دوسرا دیکھو


معین گریڈ یہوی




غنی غیور

 یوم پیدائش 12 اپریل 1962


باغی حدود سے بہت آگے نکل گئے 

سورج چھوا نہ تھا کہ مرے ہاتھ جل گئے 


یہ حیرتوں کے بیچ میں حیرت زدہ نقوش 

کیسے تماشبین تھے پتھر میں ڈھل گئے 


جذبات میں کچھ اس طرح اس کا بدن تھا سرخ 

زنجیر آہنی کے کڑے ہی پگھل گئے 


بگلوں سے ان کے روپ بھگت بن کے آئے کچھ 

مکھی کو یار چھوڑ کے ہاتھی نگل گئے 


ٹیلے سے قہقہوں کی پھواروں میں تھے غنیؔ 

تیر ایک آنکھ والے اچانک اچھل گئے


غنی غیور۔ 




سید معراج جامی

 یوم پیدائش 12 اپریل 1955


زندگی کیا ہر قدم پر اک نئی دیوار ہے 

تیرگی دیوار تھی اب روشنی دیوار ہے 


کیوں بھٹکتے پھر رہے ہیں آج ارباب خرد 

کیا جنوں کے راستے میں آگہی دیوار ہے 


بچ نہیں سکتی تغیر کے اثر سے کوئی شے 

پہلے سنتی تھی مگر اب دیکھتی دیوار ہے 


ہم تو وابستہ ہیں ایسے دور سے جس دور میں 

آدمی کے راستے میں آدمی دیوار ہے 


جذبۂ جہد و عمل سے زندگی کوہ گراں 

بے عمل ہو زندگی تو ریت کی دیوار ہے 


آج اپنے دشمنوں سے کھل کے لڑ سکتا نہیں 

دشمنی کے راستے میں دوستی دیوار ہے 


روح کیوں مضطر نہ ہو جامیؔ حریم جسم میں 

جس طرف بھی دیکھتی ہے آہنی دیوار ہے


سید معراج جامی



عابد عمر

 یوم پیدائش 12 اپریل 1977


یقیں نہیں تھا کسی پہ مجھ کو سو راستے میں ٹھہر گیا ہوں

وگرنہ ماضی میں جس نے مجھ سے جدھر کہا میں ادھر گیا ہوں


میں بے وجہ تو نہیں چھپاتا جہان بھر سے شناخت اپنی

ہزار عیبوں سے واسطہ ہے تبھی تو خود سے مکر گیا ہوں


تلاشِ بسیار پر بھی دھڑکن کا مل سکا نہ سراغ کوئی

ہوں ایک مدت سے مخمصے میں ابھی ہوں زندہ کہ مر گیا ہوں


عمر حقائق سے آشنائی عجب اذیت سی دے رہی ہے

وہ آئینے سے ڈرا ہوا ہے میں اپنے سائے سے ڈر گیا ہوں


عابد عمر




واحد نظیر

 یوم پیدائش 12 اپریل 1968


آج میں ایسے حمد زار میں تھا 

اک تحیّر ہر اک نگار میں تھا 


چھو کے جس گل کو لوگ راکھ ہوئے 

میں بقا کی اسی قطار میں تھا


عزم تھا قافلے کے قدموں میں 

دشت روندا ہوا غبار میں تھا


گیسوؤں میں بھی بے نمک ہی رہا

 آبِ شور ایسا آبشار میں تھا 


شہر پاگل تھا شہر یاروں میں 

میں وہاں کب کسی شمار میں تھا


فتح دنیا کو کر رہا تھا میں

اور یمیں نرغۂ یسار میں تھا 


خلق تھی دامِ اعتبار میں اور

شاہ مصروف لوٹ مار میں تھا 


گردشِ آسماں نہ تھی اب کے 

آسماں خود ہی گردبار میں تھا 


حرف تفصیل کے اشارے تھے

کیا ہنر اس کے اختصار میں تھا


عکس تھے اس کے آئنہ تمثال

شعر پھر میر کے دیار میں تھا


 یوں کہیں گے کبھی نظیر نظر

کچھ سلیقہ تو خاکسار میں تھا


واحد نظیر 



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...