Urdu Deccan

Wednesday, November 30, 2022

سعید اختر

یوم پیدائش 30 نومبر 1921

رنگِ تصویر غمِ عشق نے بھرنے نہ دیا
اِس کا رونا ہے لہو دیدۂ تر نے نہ دیا

روشنی جتنی امیدِ شبِ تاریک میں تھی
ہائے اتنا بھی اجالا تو سحر نے نہ دیا

تشنگی بجھ نہ سکی پھر بھی تری خاکِ وطن
خون کتنوں کا تجھے لختِ جگر نے نہ دیا

اتنی نفرت بھی نہ کرنی تھی تجھے اخترؔ سے
اپنی یادوں کی بھی گلیوں سے گزرنے نہ دیا

سعید اختر



سلیم جاوید

یوم پیدائش 30 نومبر 1965

لبوں کے حصے میں آئی ہنسی طلاق شدہ
ہمارے ساتھ ہے اک زندگی طلاق شدہ

حلالہ کر کے مرے پاس پھر چلی آئی 
تُمھاری یاد ہے جیسے کوئی طلاق شدہ

براہِ راست دکھوں سے ہمارا رشتہ ہے
کہیں کہیں پہ ملی ہے خوشی طلاق شدہ

تُمھارے جانے سے ویران ہو گیا سب کچھ
ہر اک گلی لگی اس شہر کی طلاق شدہ

کبھی نکال چکا تھا میں جِس اداسی کو
دوبارہ آگئی گھر میں وہی طلاق شدہ

نہ سرد سرد ہوائیں نہ چاند تارے ہیں 
سیاہ رات بھی مجھ کو لگی طلاق شدہ

سلیم تیرہ شبی کو یہی شکایت ہے
تمھارے جسم میں ہے روشنی طلاق شدہ

سلیم جاوید



سیدہ نسرین نقاش

یوم پیدائش 30 نومبر 1963

ہم نے ہونٹوں پہ تبسم کو سجا کر دیکھا 
یعنی زخموں کو پھر اک بار ہرا کر دیکھا 

ساری دنیا میں نظر آنے لگے تیرے نقوش 
پردہ جب چشم بصیرت سے اٹھا کر دیکھا

دور پھر بھی نہ ہوئی قلب و نظر کی ظلمت 
ہم نے خوں اپنا چراغوں میں جلا کر دیکھا 

اپنا چہرہ نظر آیا مجھے اس چہرے میں 
اس کے چہرے سے جو چہرے کو ہٹا کر دیکھا 

وہ تعلق تری اک ذات سے جو تھا مجھ کو 
اس تعلق کو بہر حال نبھا کر دیکھا 

برف ہی برف نظر آتی ہے تا حد نظر 
زندگی ہم نے تری کھوج میں جا کر دیکھا 

جاوداں ہو گیا ہر نغمۂ پر درد مرا 
میرے ہونٹوں سے زمانے نے چرا کر دیکھا 

سیدہ نسرین نقاش



خوشبو پروین

یوم پیدائش 30 نومبر 

عجب طرح کے ہیں حالات زندگی کے لیے 
ہر ایک سانس ہے آمادہ خودکشی کے لیے 

لوءیں ہوا کی سیاست کے ساز باز میں ہیں
  چراغ خود ہی ترستا ہے روشنی کے لیے

نئے فریب کی معیادِ غم تو ختم کروں
 بہت مواد اکٹھا ہے شاعری کے لئے 

تمہیں سجانی نئی سیج ہے تو جاؤ نا
  میں اپنے آپ میں کافی ہوں* آپ ہی* کے لیے

تعلقات کو شرطوں میں کیوں نبھاؤں میں
انا کو رکھا ہے ہمراہ بے بسی کے لیے

تمہارے ساتھ اکیلی میں جی نہیں پائی
تمہیں ہے جینا تو جی لو نا ہر کسی کے لیے

اسے خبر ہی نہیں میرے عزم کی خوشبو
 وہ چاہتا ہے کہ میں سوچوں خود کشی کے لئے

خوشبو پروین



سید محمد عبد الغفور شہباز

یوم وفات 30 نومبر 1908

انجام خوشی کا دنیا میں سچ کہتے ہو غم ہوتا ہے 
ثابت ہے گل اور شبنم سے جو ہنستا ہے وہ روتا ہے 

ہم شوق کا نامہ لکھتے ہیں کہ صبر اے دل کیوں روتا ہے 
یہ کیا ترکیب ہے اے ظالم ہم لکھتے ہیں تو دھوتا ہے 

ہے دل اک مرد آخر بیں اپنے اعمال پر روتا ہے 
گر ڈوب کے دیکھو اشک نہیں موتی سے کچھ یہ پروتا ہے 

گھر اس سے عشق کا بنتا ہے دل سختی سے کیوں گھبرائے 
شیریں یہ محل اٹھواتی ہے فرہاد یہ پتھر ڈھوتا ہے 

ٹھکرا کر نعش ہر عیسیٰ کہتا ہے ناز سے ہو برہم 
اٹھ جلد کھڑے ہیں دیر سے ہم کن نیندوں غافل سوتا ہے 

ہم رو رو اشک بہاتے ہیں وہ طوفاں بیٹھے اٹھاتے ہیں 
یوں ہنس ہنس کر فرماتے ہیں کیوں مرد کا نام ڈبوتا ہے 

کیا سنگ دلی ہے الفت میں ہم جس کی جان سے جاتے ہیں 
انجان وہ بن کر کہتا ہے کیوں جان یہ اپنی کھوتا ہے 

لے دے کے سارے عالم میں ہمدرد جو پوچھو اک دل ہے
میں دل کے حال پہ روتا ہوں دل میرے حال پہ روتا ہے 

دکھ درد نے ایسا زار کیا اک گام بھی چلنا دوبھر ہے 
چلئے تو جسم زار اپنا خود راہ میں کانٹے بوتا ہے 

وہ امنگ کہاں وہ شباب کہاں ہوئے دونوں نذر عشق مژہ 
پوچھو مت عالم دل کا مرے نشتر سا کوئی چبھوتا ہے

سید محمد عبد الغفور شہباز


 

Tuesday, November 29, 2022

سعدیہ صدف

یوم پیدائش 29 نومبر

توبہ توبہ کیسی گھڑی ہے
سب کو اپنی اپنی پڑی ہے

ہجر کی رات آئی تو جانا
شب یہ قیامت سے بھی بڑی ہے

کون یہاں فریاد سنے گا
کاسہ بکف دنیا ہی کھڑی ہے

دکھ کی رُت میں رونے والو!
دکھ بھی جیون کی ہی کڑی ہے

میرے جیون کے آنچل میں
آشاؤں کی لیس جڑی ہے

ہرسو چراغاں کرتی رہوں گی
آندھی اگرچہ ضد پہ اڑی ہے

ہاتھ نہ آیا ساحل تو کیا
سعدیہ طوفانوں سے لڑی ہے

سعدیہ صدف



نجمی بیگم مراد

یوم پیدائش 29 نومبر 1917

تاثیر نہ آہوں میں نہ فریاد فغاں میں
اور میں ہوں کہ نالوں میں اثر ڈھونڈ رہی ہوں

دریائے تخیل کی ابھی تہہ نہ پہنچی
میں قطرے کے سینے میں گہر ڈھونڈ رہی ہوں

کیا خوب ہے میری بھی یہ ناکام تمنا
شامِ غمِ ہجراں کی سحر ڈھونڈ رہی ہوں

جس در کی تمنا میں ہوں ناکامِ تمنا
اک سجدے کی خاطر وہی در ڈھونڈ رہی ہوں

نجمی بیگم مراد


 

عاصم اعجاز

یوم پیدائش 29 نومبر 1971

دل کو چہرہ بنا لیا اُس نے
یعنی رستہ بنا لیا اُس نے

پہلے وہ یونہی بد گمان رہا
پھر وتیرہ بنا لیا اُس نے

آئینہ دیکھنا نہیں پڑتا
خود کو ایسا بنا لیا اُس نے

خشک دریا کے نقش کیا کھینچے
ایک صحرا بنا لیا اُس نے

یہ بھی تو اُس کی مہربانی ہے
اپنے جیسا بنا لیا اُس نے

عاصم اعجاز



Monday, November 28, 2022

الیاس بابر عوان

یوم پیدائش 28 نبر 1976

آنکھ کھلے گی بات ادھوری رہ جائے گی
ورنہ آج مری مزدوری رہ جائے گی

جی بھر جائے گا بس اُس کو تکتے تکتے
کچی لسی میٹھی چُوری رہ جائے گی

اُس سے ملنے مجھ کو پھر سے جانا ہوگا
دیکھنا پھر سے بات ضروری رہ جائے گی

تھوڑی دیر میں خواب پرندہ بن جائے گا
میرے ہاتھوں پر کستوری رہ جائے گی

تم تصویر کے ساتھ مکمل ہو جاؤ گے
لیکن میری عمر ادھوری رہ جائے گی

الیاس بابر عوان


 

اختر امام انجم

یوم پیدائش 28 نومبر 1964

محبت کو ہمیشہ سے شریک کار دیکھا ہے 
عداوت سے ہر اک رشتہ یہاں دشوار دیکھا ہے 

یہاں آپس میں ہم آہنگ ہونا ہے بہت مشکل 
کبھی مفلس بھی دیکھا ہے کبھی زردار دیکھا ہے 

اچھالی جا رہی ہیں پگڑیاں الزام ہے سر پر 
نہیں گردن پہ سر جس کے وہی سردار دیکھا ہے 

مسائل دوسروں کے حل جو کرتے ہیں حقیقت ہے 
انہیں کے گھر میں اٹھتے بیچ میں دیوار دیکھا ہے 

عجب ہے حال اب کس پر بھروسہ ہم کریں انجمؔ 
یہاں پر لوٹنے والوں کو پہرے دار دیکھا ہے 

اختر امام انجم



ظہور عنبر قریشی

یوم پیدائش 28 نومبر 1937

منزل پہ پہنچ کر بھی منزل نہیں پاتے ہو
تم کیسے مسافر ہو رکتے ہو نہ جاتے ہو 

آئے نہ عیادت کو جب سانس تھی کچھ باقی 
مرنے پہ عقیدت کے کیوں پھول چڑھاتے ہو 

پہلے مری نفرت پر مائل بہ کرم تھے تم 
اب میری محبت پر برہم نظر آتے ہو 

مے نوشی کا پھر مجھ پر الزام نہ آ جائے 
آنکھوں میں لئے مستی کیوں سامنے آتے ہو 

عنبرؔ تو ازل سے ہی رسوائے زمانہ ہے 
کیوں اور اسے اپنی نظروں سے گراتے ہو

ظہور عنبر قریشی


 

مقبول قریشی

یوم پیدائش 28 نومبر 1928

جنھیں حقیر سمجھ کر بجھا دیا تم نے 
وہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی
 
مقبول قریشی


 

بیخود موہانی

یوم وفات 27 نومبر 1940

کیوں اے خیال یار تجھے کیا خبر نہیں 
میں کیوں بتاؤں درد کدھر ہے کدھر نہیں 

نشتر کا کام کیا ہے اب اچھا ہے درد دل 
صدقے ترے نہیں نہیں اے چارہ گر نہیں 

کہتی ہے اہل ذوق سے بیتابیٔ خیال 
جس میں یہ اضطراب کی خو ہو بشر نہیں 

ہستی کا قافلہ سر منزل پہنچ گیا 
اور ہم کہا کیے ابھی وقت سفر نہیں 

دیوان گان عشق پہ کیا جانے کیا بنی 
وارفتگیٔ حسن کو اپنی خبر نہیں 

دنیائے درد دل ہے تو دنیائے شوق روح 
ہوں اور بھی جہاں مجھے کچھ بھی خبر نہیں 

صحرائے عشق و ہستئ موہوم و راز حسن 
ان منزلوں میں دل سا کوئی راہبر نہیں 

ہر ذرہ جس سے اک دل مضطر نہ بن سکے 
وہ کوئی اور چیز ہے تیری نظر نہیں 

اس بے دلی سے کہنے کا بیخودؔ مآل کیا 
الفاظ کچھ ہیں جمع معانی مگر نہیں

بیخود موہانی


راشد انور راشد

یوم پیدائش 27 نومبر 1971

یوں نہ بیگانہ رہو گیت سناتی ہے ہوا 
دل کی سرگوشی سنو گیت سناتی ہے ہوا 

زندگی ساز ہے اس ساز پہ نغمے چھیڑو 
تم بھی کچھ خواب بنو گیت سناتی ہے ہوا 

رات کے پچھلے پہر خواب لبادہ تج کر 
آج تم خود سے ملو گیت سناتی ہے ہوا 

راہ میں آئیں گی چٹانیں بہت سی لیکن 
موج کے ساتھ بہو گیت سناتی ہے ہوا 

شب کے ساحل پہ کئی جگنو دکھائی دیں گے 
کوئی غمگین نہ ہو گیت سناتی ہے ہوا 

ایسی چاہت میں نہیں کوئی قباحت لیکن 
اپنا بھی دھیان رکھو گیت سناتی ہے ہوا 

خوشبوؤں کو کوئی تقسیم کہاں کر پایا 
سرحدیں توڑ بھی دو گیت سناتی ہے ہوا 

منزلیں بڑھ کے ترے قدموں کا بوسہ لیں گی 
یہ سفر طے تو کرو گیت سناتی ہے ہوا 

تھک کے جو بیٹھے تو ٹولی سے بچھڑ جاؤ گے 
آگے ہی بڑھتے چلو گیت سناتی ہے ہوا 

راشد انور راشد



عزیز حمزہ پوری

یوم پیدائش 26 نومبر 1960

زمیں پہ کوستے رہتے ہو جو شراروں کو
کہاں سے ڈھونڈ کے لاؤگے چاند تاروں کو

بھروسا کر لے ہتھیلی کے جگنوؤں پہ مگر
بجھا کے طاق کی شمعیں نہ دیکھ تاروں کو

نگاہیں رکھنا کہیں پر بجز نشان ہدف
سمجھتا خوب ہے وہ میرے استعاروں کو

چمن میں تیرے اگر پھول کوئی کھل نہ سکا
خزاں کے رت میں نہ اب دوش دے بہاروں کو

نہ جانے کیا ہوا منظر نہیں رہے دلکش
نظر یہ کس کی لگی دلنشیں نظاروں کو

حجاب عقل پہ ان کے پڑا ہے کیا کیجے
خدا دے عقل کہ سمجھیں وہ گل کو، خاروں کو

قدم ہے جو بھی مخالف کا ذد پہ تم ہی ہو
عزیر سمجھو اگر وقت کے اشاروں کو

عزیز حمزہ پوری


 

شین کاف نظام

یوم پیدائش 26 نومبر 1947

وہی نہ ملنے کا غم اور وہی گلا ہوگا 
میں جانتا ہوں مجھے اس نے کیا لکھا ہوگا 

کواڑوں پر لکھی ابجد گواہی دیتی ہے 
وہ ہفت رنگی کہیں چاک ڈھونڈھتا ہوگا 

پرانے وقتوں کا ہے قصر زندگی میری 
تمہارا نام بھی اس میں کہیں لکھا ہوگا 

چبھن یہ پیٹھ میں کیسی ہے مڑ کے دیکھ تو لے 
کہیں کوئی تجھے پیچھے سے دیکھتا ہوگا

گلی کے موڑ سے گھر تک اندھیرا کیوں ہے نظامؔ 
چراغ یاد کا اس نے بجھا دیا ہوگا

شین کاف نظام


 

شرر فتح پوری

یوم پیدائش 26 نومبر 1932

صحرا صحرا گلشن گلشن 
گرد تمنا دامن دامن 

نقش تحیر چہرہ چہرہ 
حسن کرامت جوبن جوبن 

ایک ہی صورت جلوہ جلوہ 
ایک ہی مورت درپن درپن 

شانہ شانہ گیسو گیسو 
خوشبو چندن بن چندن بن 

ابرو ابرو کڑی کمانیں 
خنجر خنجر چتون چتون 

کاجل کاجل جھلمل جھلمل 
افشاں افشاں روشن روشن 

روپ کی ٹھنڈک چاندی چاندی 
تن کا سونا کندن کندن 

رس میں ڈوبی سانس کی سرگم 
نغمہ نغمہ دھڑکن دھڑکن 

چھم چھم چھم چھم زینہ زینہ 
آنگن آنگن چھن چھن چھن چھن 

گھونگھٹ گھونگھٹ مکھڑا مکھڑا 
کوندا کوندا چلمن چلمن 

سجدہ سجدہ کعبہ کعبہ 
پریم شوالا درشن درشن 

کیسے رشتے کیسے ناتے 
جینا مرنا بندھن بندھن 

دل میں جوالا آنکھ میں آنسو 
آگ کی برکھا ساون ساون 

جوگن آنکھیں درس کی پیاسی 
من بیراگی بھٹکے بن بن

شرر فتح پوری


مطیع اللہ نازش

یوم پیدائش 25 نومبر 1985

ہے الجھنوں کی بھیڑ زمانہ خراب ہے
یہ زندگی ہماری لگے اک عذاب ہے

جاہل اگر سوال کرے تم سے جب کبھی
خاموشی اس کی باتوں کا واحد جواب ہے

میں نے تکلفات کے پردے اٹھا دیے
پھر درمیاں ہمارے یہ کیسا حجاب ہے

تعبیر ڈھونڈتا ہوں میں نازشؔ ابھی تلک 
پلکوں پہ میری ٹھہرا سنہرا جو خواب ہے

مطیع اللہ نازش


 

روبینہ ممتاز روبی

یوم پیدائش 25 نومبر 1964

دھوکے پہ دھوکہ اس طرح کھاتے چلے گئے 
ہم دشمنوں کو دوست بناتے چلے گئے 

ہر زخم زندگی کو گلے سے لگا لیا 
ہم زندگی سے یوں ہی نبھاتے چلے گئے 

وہ نفرتوں کا بوجھ لیے گھومتے رہے 
ہم چاہتوں کو ان پہ لٹاتے چلے گئے 

جو خواب زندگی کی حقیقت نہ بن سکا 
اس کے حسیں فریب میں آتے چلے گئے 

روبیؔ چھپانا درد کو آساں نہ تھا مگر 
ہم آڑ میں ہنسی کی چھپاتے چلے گئے

روبینہ ممتاز روبی


 

سلیم کاوش

یوم پیدائش 24 نومبر 1962

تم یقیں ہو گمان سے نکلو
تیر بن کر کمان سے نکلو

اشک ہو تو بہو نا آنکھوں سے
نالہ ہوتو زبان سے نکلو

میں ستارہ بنالوں قسمت کا
تم ذرا آسمان سے نکلو

آخری وقت کیوں پریشاں ہو
تم مری جاں ہو جان سے نکلو

مجھ کو اپنی تلاش ہے کاوش
تم نہ میرے دھیان سے نکلو

سلیم کاوش



بیتاب کیفی

یومِ پیدائش 24 نومبر 1949

زمیں کی بات نہ میں آسماں کی بات کروں 
لگن ہے دل میں کہ تسخیر کائنات کروں 

فریب کھانا تو منظور ہے مگر یا رب 
مرا مزاج نہیں ہے کہ میں بھی گھات کروں 

مجھے ملے ہیں عجیب و غریب ہمسائے 
نہ گفتگو ہی نہ ترک تعلقات کروں 

پھر اس کے بعد ہی راحت کی بات سوچوں گا 
میں پہلے پار تعصب کے جنگلات کروں 

ہر ایک لمحہ نیا زخم دے کے جاتا ہے 
بیان کیسے میں بیتابؔ کربِ ذات کروں

بیتاب کیفی


 

حاذق انصاری

یوم وفات 23 نومبر 1976

کمالِ عشق تو دیکھو کہ دیکھنے والے
سمجھ رہے ہیں کہ تصویرِ حسنِ یار ہوں میں

حاذق انصاری


 

شاہ نصیر

یوم وفات 23 نومبر 1838

بے مہر و وفا ہے وہ دل آرام ہمارا 
کیا جانے کیا ہووے گا انجام ہمارا 

کیا قہر ہے اوروں سے وہ ملتا پھرے ظالم 
اور مفت میں اب نام ہے بد نام ہمارا 

اے آب دم تیغ ستم کیش بجھا پیاس 
ہوتا ہے تری چاہ میں اب کام ہمارا 

لبریز کر اس دور میں اے ساقیٔ کم ظرف 
مت رکھ مئے گلگوں سے تہی جام ہمارا 

کس طرح نکل بھاگوں میں اب آنکھ بچا کر 
صد چشم سے یاں ہے نگراں دام ہمارا 

یہ زلف و رخ یار ہے اے شیخ و برہمن 
باللہ یہاں کفر اور اسلام ہمارا 

بیعت کا ارادہ ہے ترے سلسلے میں جوں 
شانہ ہے اب اے زلف سیہ فام ہمارا 

اس شوخ تلک کوئی نہ پہنچا سکا ہمدم 
جز حقہ یہاں بوسہ بہ پیغام ہمارا 

کیا کہئے کس انداز سے شرمائے ہے وہ شوخ 
تقریباً اگر لے ہے کوئی نام ہمارا 

صیاد سے کہتے تھے کہ بے بال و پری میں 
آزاد نہ کر بد ہے کچھ انجام ہمارا 

پرواز کی طاقت نہیں یاں تا سر دیوار 
کیوں کر ہو پہنچنا بہ لب بام ہمارا 

اس عشق میں جیتے نہیں بچنے کے نصیرؔ آہ 
ہو جائے گا اک روز یوں ہی کام ہمارا

شاہ نصیر



آفتاب اجمیری

یوم پیدائش 23 نومبر 1959

صبح جب سورج اگا تو آگ برسانے لگا
پھول اپنے مسکرانے کی سزا پانے لگا

اس سے پہلے تو مری دنیا بہت بے کیف تھی
آپ کو دیکھا ہے جس دن سے نشہ چھانے لگا

ہم مکمل تھے مگر اب ریزہ ریزہ ہوگئے
نفرتوں کا بیج دل میں کیا جگہ پانے لگا

آدمی نے آدمی پر وہ ستم ڈھایا کہ بس
کانپ اٹھی ہے زمیں آکاش تھرانے لگا

آج کا انسان کتنا ہوگیا ہے بے ضمیر
بھول کر خوفِ خدا جھوٹی قسم کھانے لگا

آفتاب اجمیری

 

احمد الیاس

یوم پیدائش 23 نومبر 1934

یہ عہد چھوڑے گا اپنی نشانیاں کیا کیا
سُنیں گے لوگ ہماری کہانیاں کیا کیا

نہ جانے کیسے تھے وہ سب مقامِ عارض و لب
جہاں پہ خاک ہوئی ہیں جوانیاں کیا کیا

ہمارے قتل پہ سب نوحہ خواں بُلائے گئے
ستم کے بعد ہوئیں مہربا نیاں کیا کیا

ترے قریب کبھی دل کا حال یہ تو نہ تھا
بچھڑ کے تُجھ سے ہوئیں بد گمانیاں کیا کیا

ہمیں تو تنگیِ داماں کی داد بھی نہ ملی
سُنی تھیں ہم نے تری مہربانیاں کیا کیا

جو دیکھنا ہو تو آ ئو چراغِ شام کے بعد
دکھائیں اشکوں کی ہم بھی روانیاں کیا کیا

شکست وریخت کےآگے بھی مرحلے ہیں کئی
کروگے شیشہ گرو نوحہ خوانیاں کیا کیا

احمد الیاس



شاکر کلکتوی

یوم پیدائش 23 نومبر 1920

بے پردہ اس کا چہرۂ پر نور تو ہوا 
کچھ دیر شعبدہ سا سر طور تو ہوا 

اچھا کیا کہ میں نے کیا ترک آرزو 
بے صبر دل کو صبر کا مقدور تو ہوا 

گو اس میں اب نہیں ہیں لڑکپن کی شوخیاں 
لیکن شباب آنے سے مغرور تو ہوا 

اب اور التفات سے مقصد ہے کیا ترا 
بس اے نگاہ مست کہ میں چور تو ہوا 

تم نے اگر سنا نہیں یہ اور بات ہے 
افسانہ میرے عشق کا مشہور تو ہوا 

سنتا ہوں حسن مائل مہر و وفا ہے اب 
اے اختیار عشق وہ مجبور تو ہوا 

شاکرؔ کو ہے نصیب سے کس بات کا گلا 
دنیائے شاعری میں وہ مشہور تو ہوا

شاکر کلکتوی


 

Wednesday, November 23, 2022

یاسمین معز

یوم پیدائش 22 نومبر 

راہِ الفت پہ چلی تیرا نظارہ کر کے
بیٹھی سائے میں تری یاد سہارا کر کے

بڑھتی جاتی ہے محبت کی لگن کچھ ایسے
جیسے تو سامنے ہو، خود کو ستارہ کر کے

دکھ تو سارے ہی لکھے تھے مری قسمت میں سدا
زندگی گزری، گزاروں پہ گزارا کر کے

دل کے داغوں کو چھپاتی تھی ہمیشہ سب سے
اور رکھتی تھی انھیں جان سے پیارا کر کے

تجھ کو بھولوں گی تو خود میں بھی نہ بچ پاؤں گی 
مجھ کو جینا ہے اسی درد کو پارہ کر کے

میں جو بیٹھی ہوں، تری یاد سے بیگانی ہوں؟
"تو سمجھتا ہے ترا ہجر گوارا کر کے"

یاسمیں! چین محبت میں کہاں ملتا ہے؟
جینا پڑتا ہے یونہی خون فوارہ کر کے

یاسمین معز


 

انجم رانا

یوم پیدائش 22 نومبر 

محبت میں ایسا روا تو نہیں نا
وفاؤں کا بدلہ جفا تو نہیں نا

پرستش کو میری وہ سمجھے تو کیسے
وہ ماٹی کا بت ہے خدا تو نہیں نا

وہ چلمن کو پیچھے ہٹا کر ہنسے گا
یہ ممکن ہے لیکن.... ہوا تو نہیں نا

یہ کہہ کر فسانہ سمیٹا ہے اس نے 
جدائی کا مطلب.. جدا تو نہیں نا

تغیر.... تقاضا ہے فطرت کا لیکن
جو غنچے جلا دے صبا تو نہیں نا

میں انجم اسے بھول جاؤں تو کیسے
چھنے جو لبوں سے دعا تو نہیں نا

انجم رانا



کامران غنی صبا

یوم پیدائش 22 نومبر 1989

سنے گا کون یہاں میری ایک ذات کا شور
ہے میرے چاروں طرف بس توقعات کا شور

یہ اور بات کہ باہر بہت خموشی ہے
مرے وجود میں پنہاں ہے کائنات کا شور

میں دن کے شور سے محفوظ تو نکل آیا
مگر میں جاؤں کہاں سامنے ہے رات کا شور

صدائے فکر کو خدشہ ہے، ایک ہی خدشہ
اسے دبا کے نہ رکھ دے یہ "فاعلات" کا شور

پتہ چلا کہ یہی آخری حقیقت ہے
بس ایک ہچکی میں ضم ہو گیا حیات کا شور

مجھے بچائو! کہ بڑھتا ہی جا رہا ہے صباؔ
مرے وجود کے ملبے پہ سانحات کا شور

کامران غنی صبا


 

سیدہ مہناز وارثی

یوم پیدائش 22 نومبر 1969

دادِ جفا وفا ہے دیے جارہی ہوں میں
اُن سے مگر نباہ کیے جارہی ہوں میں

خونِ دل و جگر ہو کہ ہوں میرے اشکِ غم
اُن کا ہی نام لے کے پیے جارہی ہوں میں

پت جھڑ کی رُت پہ بھی کوئی دیکھے مرا ہنر
دامانِ تارتار سیے جارہی ہوں میں

وارفتگی کہوں اِسے یا بے خودی کہوں
بس آپ ہی کا نام لیے جارہی ہوں میں

شاید کہ زندگی کے کسی موڑ پر ملوں
یہ سوچتی ہوں اور جیے جارہی ہوں میں

کیا رنگ لائے خدمتِ مخلوق دیکھیے
خدمت کا حوصلہ ہے ، کیے جارہی ہوں میں

مہنازؔ وہ بھی یاد کریں گے مری وفا
دل دے کے اُن سے درد لیے جارہی ہوں میں

سیدہ مہناز وارثی



دلاور علی آزر

یوم پیدائش 21 نومبر 1984

عجیب رنگ عجب حال میں پڑے ہوئے ہیں
ہم اپنے عہد کے پاتال میں پڑے ہوئے ہیں

سخن سرائی کوئی سہل کام تهوڑی ہے
یہ لوگ کس لیے جنجال میں پڑے ہوئے ہیں

وہ تو کہ اپنے تئیں کر چکا ہمیں تکمیل
یہ ہم کہ فکرِ خد و خال میں پڑے ہوئے ہیں

جہاں بھی چاہوں مَیں منظر اُٹھا کے لے جاؤں
کہ خواب دیدۂ اموال میں پڑے ہوئے ہیں

اُٹها کے ہاتھ پہ دنیا کو دیکھ سکتا ہوں
سبهی نظارے بس اِک تهال میں پڑے ہوئے ہیں

مَیں شام ہوتے ہی گردُوں پہ ڈال آتا ہوں
ستارے لپٹی ہوئی شال میں پڑے ہوئے ہیں

اسی لیے یہ وطن چھوڑ کر نہیں جاتے
کہ ہم تصورِ اقبال میں پڑے ہوئے ہیں

ثواب ہی تو نہیں جن کا پھل ملے گا مجھے
گناہ بھی مرے اعمال میں پڑے ہوئے ہیں

تمام عکس مِری دست رس میں ہیں آزر
یہ آئنے مری تمثال میں پڑے ہوئے ہیں

دلاور علی آزر


 

حسن عباس رضا

یوم پیدائش 20 نومبر 1951

ہمیں تو خواہش دنیا نے رسوا کر دیا ہے 
بہت تنہا تھے اس نے اور تنہا کر دیا ہے 

اب اکثر آئینے میں اپنا چہرہ ڈھونڈتے ہیں 
ہم ایسے تو نہیں تھے تو نے جیسا کر دیا ہے 

دھڑکتی قربتوں کے خواب سے جاگے تو جانا 
ذرا سے وصل نے کتنا اکیلا کر دیا ہے 

اگرچہ دل میں گنجائش نہیں تھی پھر بھی ہم نے 
ترے غم کے لیے اس کو کشادہ کر دیا ہے 

ترے دکھ میں ہمارے بال چاندی ہو گئے ہیں 
اور اس چاندی نے قبل از وقت بوڑھا کر دیا ہے 

غم دنیا غم جاں سے جدا ہونے لگا تھا 
حسنؔ ہم نے مگر دونوں کو یکجا کر دیا ہے

حسن عباس رضا



تشنہ بریلوی

یوم پیدائش 20 نومبر 1931

چمن میں برق کبھی آشیاں سے دور نہیں 
زمیں پہ ہم ہیں مگر آسماں سے دور نہیں 

جگا سکو تو جگاؤ کہ ناخدا دیکھے 
طواف موج بلا بادباں سے دور نہیں 

یہ عالم بشریت بکھرنے والا ہے 
کوئی مکان بھی اب لا مکاں سے دور نہیں 

قریب آ نہ سکا میں ترے مگر خوش ہوں 
کہ میرا ذکر تری داستاں سے دور نہیں 

ذرا سی اور مہارت ہو تیر زن کو عطا 
نشانہ اب مرے دل کے نشاں سے دور نہیں 

یہ ہے دوام کی منزل کہ ہے فنا کا کھنڈر 
یہ راز آج مرے رخش جاں سے دور نہیں 

میں اپنے دل کا فسانہ لکھوں تو کیوں نہ لکھوں 
کہ قصہ گوئی میں میں موپساںؔ سے دور نہیں 

نہ کر اے تشنہ مدارات میں تکلف کچھ 
کہ گھر کا حال ترے میہماں سے دور نہیں

تشنہ بریلوی



محمد سجاد راہیؔ

یوم پیدائش 17 نومبر 2000

اپنوں سے تھا گلہ تجھے ، غیروں سے جا ملا
سب کی نظر میں خود کو گرایا تو کیا ملا

حالٍ فسردہ جس کو سنانے گیا تھا میں
وہ خود کسی کے درد میں ڈوبا ہوا ملا

مجھ سے زیادہ لوگ پریشاں ہیں شہر میں
یہ جان کر بڑا ہی مجھے حوصلہ ملا

راحت تو خیر ہم کو کہیں سے نہیں ملی
ہاں غم مگر ہمیشہ ہمیں جا بجا ملا

اوروں کی بے بسی پہ جو ہنستا تھا ایک شخص
راہی کل اتفاق سے روتا ہوا ملا

محمد سجاد راہیؔ


مبارک علی شمسی

یوم پیدائش 16 نومبر 1986

ہم پہ خالق نے کرم جب سے ہی فرمایا ہے
 ہم کو کچھ لفظ سجانے کا ہنر آیا ہے 

مدحتِ آل محمد میں مودت کی ہے 
حرف کی شکل میں نایاب گہر آیا ہے

 آل یسٰین سے کی میں نے مودت جب سے
 میرے حصے میں بھی فردوس کا گھر آیا ہے

 یا علی کہہ کے پکارا ہے جو نصرت کیلئے
 میری امداد کو وہ شام و سحر آیا ہے 

خوش نصیبی ہے یہ شمسی میری کتنی دیکھو
در احمد کی طرف عزمِ سفر آیا ہے

مبارک علی شمسی



حسین ماجد

یوم پیدائش 15 نومبر 1947

دھول بھری آندھی میں سب کو چہرہ روشن رکھنا ہے
بستی پیچھے رہ جائے گی آگے آگے صحرا ہے

ایک ذرا سی بات پہ اس نے دل کا رشتہ توڑ دیا
ہم نے جس کا تنہائی میں برسوں رستہ دیکھا ہے

پیار محبت آہ و زاری لفظوں کی تصویریں ہیں
کس کے پیچھے بھاگ رہے ہو دریا بہتا رہتا ہے

پھول پرندے خوشبو بادل سب اس کا سایہ ٹھہرے
اس نے جب سے آئینے میں غور سے خود کو دیکھا ہے

مجھ کو خوشبو ڈھونڈنے آئے مرے پیچھے چاند پھرے
آج ہوا نے مجھ سے پوچھا کیا ایسا بھی ہوتا ہے

کل جو میں نے جھانک کے دیکھا اس کی نیلی آنکھوں میں
اس کے دل کا زخم تو ماجدؔ ساگر سے بھی گہرا ہے

حسین ماجد



شائستہ کنول عالی

اپنا دل عبقری اپنی جاں عبقری 
دل کا گل عبقری گلستاں عبقری 

عشقِ اول کا ہر اک ستارہ ملا 
عصرِحاضر کی ہے کہکشاں عبقری 

عقل گرچہ مشیرِخصوصی ہوئی 
عشق پھر بھی ہوا مہرباں عبقری 

ان کی آواز یوں بن گئی زندگی 
لہجہ ، الفاظ ، حسنِ بیاں عبقری 

حسنِ کردار وجہِ فضیلت رہے  
حسنِ سيرت کی ہے داستاں عبقری 

ایسا ممکن نہیں میری جاں دلنشیں 
حسنِ صورت رہے جاوداں عبقری

آج مہکے ہوئے ہیں در و بامِ کن 
دل کے باغوں کا ہے باغباں عبقری 

اپنی چادر ہے وہ محرمِ رازِ دل 
سر پہ قائم رہے آسماں عبقری 

ہو مبارک عزیزانِ قلب و نظر 
طائرانِ چمن آشیاں عبقری 

پھوٹتے ہی گئے آبلے ہجر کے 
درد سارے ہوئے گلفشاں عبقری 

ہو مبارک جسے مل گیا صاحبو  
چاہتوں سے بھرا آشیاں عبقری

گونجتے ہی رہیں پیار کے زمزمے 
تیرا عالی رہے آستاں عبقری 

شائستہ کنول عالی


حاجی لق لق

یوم پیدائش 14 نومبر 1897
نظم آمدنی اور خرچ 

کرایہ مکاں کا ادا کرنے جاؤں 
کہ بزاز و خیاط کا بل چکاؤں 
دوا لاؤں یا ڈاکٹر کو بلاؤں 
کہ میں ٹیکس والوں سے پیچھا چھڑاؤں 
خدارا بتاؤ کہاں بھاگ جاؤں 
میں اس ڈیڑھ آنے میں کیا کیا بناؤں 
بہت بڑھ گیا ہے مکاں کا کرایہ 
ادھر نل کے آب رواں کا کرایہ 
بقایا ہے 'برق تپاں' کا کرایہ 
زمیں پر ہے اب آسماں کا کرایہ 

ہے بچوں کی فیس اور چندہ ضروری 
کتب کاپیوں کا پلندہ ضروری 
شکم پروری کا ہے دھندہ ضروری 
یہ آدم کی ایجاد بندہ ضروری 
بلا کے مصارف ہیں کیا تاب لاؤں 
میں اس ڈیڑھ آنے میں کیا کیا بناؤں 
عزیزوں کی امداد مہماں نوازی 
غریبوں کو خیرات احساں طرازی 
خوراک اور پوشاک میں دنیا سازی 
ادھر فلم کا شوق اور ادھر عشق بازی 
ضروری یہاں سگریٹ اور پان بھی ہے 
عدالت میں جانے کا امکان بھی ہے 
ہے بھنگی بھی دھوبی بھی دربان بھی ہے 
اور اک ساڑی والے کی دوکان بھی ہے 
کہاں جاؤں کس کس سے پیچھا چھڑاؤں 
میں اس ڈیڑھ آنے میں کیا کیا بناؤں 
ہیں میلے بھی اسلامی تہوار بھی ہیں 
ہم ایسے مواقع پہ خوددار بھی ہیں 
بہت خرچ کرنے کو تیار بھی ہیں 
بلا سے جو بے برگ و بے بار بھی ہیں 
کسے داستان مصارف سناؤں 
میں اس ڈیڑھ آنے میں کیا کیا بناؤں

حاجی لق لق



ڈاکٹر احسان اکبر

یوم پیدائش 14 نومبر 1943

سورج سے بھی آگے کا جہاں دیکھ رہا ہے 
اس دور کا انسان کہاں دیکھ رہا ہے 

حالات نے جس کے سبھی پر کاٹ دئے ہیں 
وہ آج بھی منزل کا نشاں دیکھ رہا ہے 

عیار بہت ہے یہاں تخریب کا موجد 
وہ برف کے جنگل میں دھواں دیکھ رہا ہے 

اک روز پکڑ لے گا وہ قاتل کا گریباں 
جو وقت کی رفتار زباں دیکھ رہا ہے 

صدیوں کے تعلق کا یہ احساس ہے شاید 
صحرا میں حقیقت کو عیاں دیکھ رہا ہے 

اس سرپھرے موسم کا بھروسہ نہیں ثاقبؔ 
ماحول کا سب بار گراں دیکھ رہا ہے

ڈاکٹر احسان اکبر



سید اسلم صدا آمری

یوم پیدائش 14 نومبر 1955

نظر نواز نظارہ نظر میں رہتا ہے
وہ ہم سفر ہے مرا ہر سفر میں رہتا ہے

قدم قدم پہ کسی حادثے کا خدشہ ہے
یہ کس کا خوف ہر اک رہگزر میں رہتا ہے

جو سنگ کو بھی بنادے تراش کر ہیرا
یہی کمال تو اہل ہنر میں رہتا ہے

مرے مزاج کے برعکس ہے مزاج اس کا
وہ شخص پھر بھی مرے ساتھ گھر میں رہتا ہے

ہرایک برگِ شجر سے ثمر کی آئے مہک
اثر پدر کا یقیناً پسر میں رہتا ہے

ہمارا نام ”صدا“ بن کے سرخئ اخبار
لو آئے دن کسی تازہ خبر میں رہتا ہے

سید اسلم صدا آمری



غزل جعفری

یوم پیدائش 14 نومبر 1960

آج اس کا مجھے اظہار تو کر لینے دو 
پیار ہے تم سے مجھے پیار تو کر لینے دو 

تم نہیں ہو تو ادھوری ہے ابھی میری حیات 
آج اس بات کا اقرار تو کر لینے دو 

اس کو شاید کبھی اپنا بھی خیال آتا ہو 
اس بہانے ہمیں سنگھار تو کر لینے دو 

عمر بھر میں نے تراشے ہیں جو پتھر کے صنم 
ان سے تم پیار کا اظہار تو کر لینے دو

اپنی ہستی کو لٹایا ہے غزلؔ جس کے لئے 
آج اس شخص کا دیدار تو کر لینے دو

غزل جعفری


 

احمد ظفر

یوم پیدائش 13 نومبر 1926

اور کیا میرے لیے عرصۂ محشر ہوگا 
میں شجر ہوں گا ترے ہاتھ میں پتھر ہوگا 

یوں بھی گزریں گی ترے ہجر میں راتیں میری 
چاند بھی جیسے مرے سینے میں خنجر ہوگا 

زندگی کیا ہے کئی بار یہ سوچا میں نے 
خواب سے پہلے کسی خواب کا منظر ہوگا 

ہاتھ پھیلائے ہوئے شام جہاں آئے گی 
بند ہوتا ہوا دروازۂ خاور ہوگا 

میں کسی پاس کے صحرا میں بکھر جاؤں گا 
تو کسی دور کے ساحل کا سمندر ہوگا 

وہ مرا شہر نہیں شہر خموشاں کی طرح 
جس میں ہر شخص کا مرنا ہی مقدر ہوگا 

کون ڈوبے گا کسے پار اترنا ہے ظفرؔ 
فیصلہ وقت کے دریا میں اتر کر ہوگا

احمد ظفر



سبھاش گپتا شفیق

یوم پیدائش 12 نومبر 1956

کبھی وہ میری وفاؤں کو پروقار کرے
یہ اک دعا ہے جو دن رات خاکسار کرے

وہ میرے سامنے خنجر لیے کھڑا کیوں ہے
جو مارنا ہی ہے مجھ کو تو مجھ پہ وار کرے

وہ بے خبر ہے کہ اس کے لیے کوئی کتنے
پہاڑ سر کرے اور کتنے دریا پار کرے

نہیں ہے کوئی یہاں اس کو پوچھنے والا
وہ جس کو چاہے جہاں چاہے سنگ سار کرے

ہمارے عہد کا ہے ایک المیہ یہ بھی
وہی ہے لوٹنے والا جو ہوشیار کرے

اب آدمی کو فقط آدمی سے ڈر ہے شفیق
کہ آدمی کا یہاں آدمی شکار کرے

سبھاش گپتا شفیق



اکبر حسین اکبر

یوم پیدائش 12 نومبر 1958

کشتیاں اب پانیوں کی منتظر ہیں ریت پر
ابر کیوں خاموش ہے سیلاب کو کیا ہوگیا

اکبر حسین اکبر



عاکف غنی

یوم پیدائش 12 نومبر 1971

ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے 
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے 

دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون 
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے 

بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو 
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے 

دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف 
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے

عاکف غنی


راجیندر منچندا بانی

یوم پیدائش 12 نومبر 1932

زماں مکاں تھے مرے سامنے بکھرتے ہوئے 
میں ڈھیر ہو گیا طول سفر سے ڈرتے ہوئے 

دکھا کے لمحۂ خالی کا عکس لاتفسیر 
یہ مجھ میں کون ہے مجھ سے فرار کرتے ہوئے 

بس ایک زخم تھا دل میں جگہ بناتا ہوا 
ہزار غم تھے مگر بھولتے بسرتے ہوئے 

وہ ٹوٹتے ہوئے رشتوں کا حسن آخر تھا 
کہ چپ سی لگ گئی دونوں کو بات کرتے ہوئے 

عجب نظارا تھا بستی کا اس کنارے پر 
سبھی بچھڑ گئے دریا سے پار اترتے ہوئے 

میں ایک حادثہ بن کر کھڑا تھا رستے میں 
عجب زمانے مرے سر سے تھے گزرتے ہوئے 

وہی ہوا کہ تکلف کا حسن بیچ میں تھا 
بدن تھے قرب تہی لمس سے بکھرتے ہوئے

راجیندر منچندا بانی



Tuesday, November 22, 2022

عاجز ماتوی

یوم پیدائش 12 نومبر 1932

اک بار اپنا ظرف نظر دیکھ لیجئے
پھر چاہے جس کے عیب و ہنر دیکھ لیجئے

کیا جانے کس مقام پہ کس شے کی ہو طلب
چلنے سے پہلے زاد سفر دیکھ لیجئے

ہو جائے گا خود آپ کو احساس بے رخی
گر آپ میرا زخم جگر دیکھ لیجئے

سب کی طرف ہے آپ کی چشم نوازشات
کاش ایک بار آپ ادھر دیکھ لیجئے

تارے میں توڑ لاؤں گا آکاش سے مگر
شفقت سے آپ بازو و پر دیکھ لیجئے

جمہوریت کا درس اگر چاہتے ہیں آپ
کوئی بھی سایہ دار شجر دیکھ لیجئے

ہو جائے گی حقیقت شمس و قمر عیاں
ان کو نگاہ بھر کے اگر دیکھ لیجئے

یہ برق حادثات بھی کیا ظلم ڈھائے گی
اٹھنے لگے گلوں سے شرر دیکھ لیجئے

عاجزؔ چلی ہیں ایسی تعصب کی آندھیاں
اجڑے ہوئے نگر کے نگر دیکھ لیجئے

عاجز ماتوی


 

فیاض رفعت

یوم پیدائش 11 نومبر 1940
(نظم احتساب)

جنہیں چاہتے ہو پسند کرتے ہو 
ان کی روحوں کو ٹٹولو 
سچائیوں کی گرہوں کو کھولو 
وہاں بھی اندھیرے کھنڈر ہیں 
وہاں بھی ویران منظر ہیں 
وہاں بھی زخموں کے بسیرے ہیں 
وہاں بھی تنہائیوں کے ڈیرے ہیں 
وہ بس ہنستے ہیں نمائش کے لئے 
ان کی زہر‌ خند ہنسی کو سمجھو 
گوشۂ عافیت انہیں ملا ہے 
نہ تمہیں ملے گا 
کہ وہ بھی عاصی خواہشوں کے 
کہ تم بھی عاصی آرزؤں کے 
جنہیں چاہتے ہو پسند کرتے ہو 
ان کی روحوں کو ٹٹولو 
سچائیوں کی گرہوں کو کھولو

فیاض رفعت



پروانہ رودولوی

یوم پیدائش 11 نومبر 1933
نظم آج کل

ہر سر میں امتحان کا سودا ہے آج کل 
ہر دل میں فیل ہونے کا دھڑکا ہے آج کل 
پرچوں کے آؤٹ ہونے کا چرچا ہے آج کل 
کوئی نہیں کسی کی بھی سنتا ہے آج کل 
منی کی آنکھ نم ہے تو منا کے دل میں غم 
بے چینیوں میں کوئی کسی سے نہیں ہے کم 
دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے کوئی کتاب 
کوئی یہ سوچتا ہے کہ اب آئے گا عتاب 
پڑھتا ہے رات بھر کوئی جغرافیہ کا باب 
پنسل سے سوختہ پہ ہے لکھتا کوئی جواب 
ہر ذی شعور کھیل کے میداں سے دور ہے 
پڑھنے سے کوئی اور کوئی لکھنے سے چور ہے 
انجم کی آنکھ نم ہے تو فردوس ہیں اداس 
محسنؔ یہ سوچتے ہیں کہ ہوں گے یہ کیسے پاس 
عذرا کی یہ دعا ہے کہ آ جائے رٹنا راس 
ہر ذہن میں ہے خوف تو ہر دل میں ہے ہراس 
کوئی نظر میں موت کا نقشہ لئے ہوئے 
بیٹھا ہے کوئی ہاتھ میں بستہ لئے ہوئے 
کھانے کی فکر ہے نہ ہے فٹ بال کا خیال 
چہرے پہ ہر نفس کے ہے تحریر دل کا حال 
اس بار فیل گر ہوئے جینا ہوا محال 
ابو کے مار پیٹ سے اترے گی میری کھال 
یاروں کو کس طرح سے منہ اپنا دکھائیں گے 
اور کس طرح سے منزل امید پائیں گے 
باقی کچھ ایسے لوگ بھی ہیں اس جہان میں 
جو فرق آنے دیتے نہیں اپنی آن میں 
سینے پھلا پھلا کے نکلتے ہیں شان میں 
جیسے کہ کوئی خطرہ نہ ہو امتحان میں 
یہ لوگ زندہ دل ہیں بہادر ہیں شیر ہیں 
جو فیل ہو کے ہوتے ہیں خوش وہ دلیر ہیں 
پڑھنے کا غم ہے ان کو نہ ہے ان کو فکر دوش 
ہر وقت کھیلتے ہیں پڑھائی کا کس کو ہوش 
آپس میں لڑ بھی لیتے ہیں جب آئے ان کو جوش 
ہنستے ہیں امتحان کے دن یہ کتب فروش 
ان کے لئے زمانہ میں کوئی بھی غم نہیں 
چکنے گھڑے ہیں یہ انہیں کوئی الم نہیں

پروانہ رودولوی


 

علی زریون

یوم پیدائش 11 نومبر 1983

ادائے عشق ہوں پوری انا کے ساتھ ہوں میں 
خود اپنے ساتھ ہوں یعنی خدا کے ساتھ ہوں میں 

مجاوران ہوس تنگ ہیں کہ یوں کیسے 
بغیر شرم و حیا بھی حیا کے ساتھ ہوں میں 

سفر شروع تو ہونے دے اپنے ساتھ مرا 
تو خود کہے گا یہ کیسی بلا کے ساتھ ہوں میں 

میں چھو گیا تو ترا رنگ کاٹ ڈالوں گا 
سو اپنے آپ سے تجھ کو بچا کے ساتھ ہوں میں 

درود بر دل وحشی سلام بر تپ عشق 
خود اپنی حمد خود اپنی ثنا کے ساتھ ہوں میں 

یہی تو فرق ہے میرے اور ان کے حل کے بیچ 
شکایتیں ہیں انہیں اور رضا کے ساتھ ہوں میں 

میں اولین کی عزت میں آخرین کا نور 
وہ انتہا ہوں کہ ہر ابتدا کے ساتھ ہوں میں 

دکھائی دوں بھی تو کیسے سنائی دوں بھی تو کیوں 
ورائے نقش و نوا ہوں فنا کے ساتھ ہوں میں 

بہ حکم یار لویں قبض کرنے آتی ہے 
بجھا رہی ہے؟ بجھائے ہوا کے ساتھ ہوں میں 

یہ صابرین محبت یہ کاشفین جنوں 
انہی کے سنگ انہیں اولیا کے ساتھ ہوں میں 

کسی کے ساتھ نہیں ہوں مگر جمال الہ 
تری قسم ترے ہر مبتلا کے ساتھ ہوں میں 

زمانے بھر کو پتا ہے میں کس طریق پہ ہوں 
سبھی کو علم ہے کس دل ربا کے ساتھ ہوں میں 

منافقین تصوف کی موت ہوں میں علیؔ 
ہر اک اصیل ہر اک بے ریا کے ساتھ ہوں میں

علی زریون



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...