یوم پیدائش 11 نومبر 1933
نظم آج کل
ہر سر میں امتحان کا سودا ہے آج کل
ہر دل میں فیل ہونے کا دھڑکا ہے آج کل
پرچوں کے آؤٹ ہونے کا چرچا ہے آج کل
کوئی نہیں کسی کی بھی سنتا ہے آج کل
منی کی آنکھ نم ہے تو منا کے دل میں غم
بے چینیوں میں کوئی کسی سے نہیں ہے کم
دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے کوئی کتاب
کوئی یہ سوچتا ہے کہ اب آئے گا عتاب
پڑھتا ہے رات بھر کوئی جغرافیہ کا باب
پنسل سے سوختہ پہ ہے لکھتا کوئی جواب
ہر ذی شعور کھیل کے میداں سے دور ہے
پڑھنے سے کوئی اور کوئی لکھنے سے چور ہے
انجم کی آنکھ نم ہے تو فردوس ہیں اداس
محسنؔ یہ سوچتے ہیں کہ ہوں گے یہ کیسے پاس
عذرا کی یہ دعا ہے کہ آ جائے رٹنا راس
ہر ذہن میں ہے خوف تو ہر دل میں ہے ہراس
کوئی نظر میں موت کا نقشہ لئے ہوئے
بیٹھا ہے کوئی ہاتھ میں بستہ لئے ہوئے
کھانے کی فکر ہے نہ ہے فٹ بال کا خیال
چہرے پہ ہر نفس کے ہے تحریر دل کا حال
اس بار فیل گر ہوئے جینا ہوا محال
ابو کے مار پیٹ سے اترے گی میری کھال
یاروں کو کس طرح سے منہ اپنا دکھائیں گے
اور کس طرح سے منزل امید پائیں گے
باقی کچھ ایسے لوگ بھی ہیں اس جہان میں
جو فرق آنے دیتے نہیں اپنی آن میں
سینے پھلا پھلا کے نکلتے ہیں شان میں
جیسے کہ کوئی خطرہ نہ ہو امتحان میں
یہ لوگ زندہ دل ہیں بہادر ہیں شیر ہیں
جو فیل ہو کے ہوتے ہیں خوش وہ دلیر ہیں
پڑھنے کا غم ہے ان کو نہ ہے ان کو فکر دوش
ہر وقت کھیلتے ہیں پڑھائی کا کس کو ہوش
آپس میں لڑ بھی لیتے ہیں جب آئے ان کو جوش
ہنستے ہیں امتحان کے دن یہ کتب فروش
ان کے لئے زمانہ میں کوئی بھی غم نہیں
چکنے گھڑے ہیں یہ انہیں کوئی الم نہیں
پروانہ رودولوی