Urdu Deccan

Monday, April 17, 2023

ثریا جبیں قادری

یوم پیدائش 08 اپریل 1941
نظم اردو زبان
مہہ لقا ، اے دل ربا ، اے ریختی تجھ کو سلام
مہہ جبیں، اے دل نشیں اے نازنیں تجھ کو سلام
تاجروں اور صوفیوں کے ساتھ عربی فارسی
ہند ساگر طے کیا پھر سنسکرت سے مل گئی
کچھ زبانیں ہند کی جب ہوگئی تھیں ایک ساتھ
گفتگو ہونے لگی تو بن گئی اردو زباں
شاعری ہو، نثر ہو یا پھر کوئی مضمون ہو
خوبصورت اس طرح ہونے لگی اردو زباں
میر نے اس کو سنوارا ، خسرو نے پالا اسے
جام و مینا بھر لیے غالب نے اس کے عشق میں
شاعری ، گیتوں کی دھن ، کہکشاں چنتی ہے یہ
نکہت و رعنائیاں آہ و بقا بنتی ہے یہ
مسکراتی چاندنی یا چلچلاتی دھوپ ہو
آنکھ میں آنسو بھرے پوں یا دلِ غمگین ہو
دوستو کی دوست ہو ، اہلِ وطن کی ہم نوا
دل میں بستی ہے سبھی کے ، جاوداں اس کی ادا
ہند میں پیدا ہوئی سارے جہاں کی لاڈلی
پھر بھی اب تک مل نہیں پایا اسے جائز مقام
کہہ رہی ہے اب جبیں ، صد آفریں اردو زباں
صد آفریں اردو زباں ، صد آفریں اردو زباں

ثریا جبیں قادری


 

راحیل فاروق

یوم پیدائش 08 اپریل 1986

پختہ ہونے نہ دیا خام بھی رہنے نہ دیا 
عشق نے خاص تو کیا عام بھی رہنے نہ دیا 

ہائے رے گردش ایام کہ اب کے تو نے 
شکوۂ گردش ایام بھی رہنے نہ دیا 

کوئی کیوں آئے گا دوبارہ تری جنت میں 
دانہ بھی چھین لیا دام بھی رہنے نہ دیا 

عیش میں پہلے کہاں اپنی بسر ہوتی تھی 
یاد نے دو گھڑی آرام بھی رہنے نہ دیا 

دل کو آوارگیاں دور بہت چھوڑ آئیں 
ذکر خیر ایک طرف نام بھی رہنے نہ دیا 

وہی زنجیر ہے تیرے بھی گلے میں راحیلؔ 
جس نے سورج کو لب بام بھی رہنے نہ دیا

راحیل فاروق




 

آغا ظفر احمد

یوم پیدائش 07 اپریل 1940

آج ان کی بزم میں اپنے ذرا لب کھولیے
ان سے کھل کر بات کیجے ، چپ نہ رہیے ، بولیے

سادگی سے کتنی ہم راہِ وفا پر ہولیے
وہ ملے تو ہنس لیے جب وہ گئے تو رولیے

جالیا ہم نے بھی منزل کو پر اس انداز سے
بے خودی میں چل پڑے جب ہوش آیا ہولیے

خوشنما تھے کس قدر وہ خار ، اکثر ہم نے جو
عشق کی راہوں سے چن کر اپنے دل میں بو لیے

آخرش دیوانگی کو ہم نے اپنا ہی لیا
آخرش عقل و خرد سے ہاتھ اپنے دھو لیے

ان کٹھن راہوں پہ بھی ہم مسکراتے ہی رہے
جب ہزاروں غم کے ساتھی ساتھ اپنے ہولیے

زندگی کی راہ میں جب آئے کچھ دلکش مقام
ہم ذرا سی دیر ٹھہرے اور آگے ہولیے

خار بن کے زندگی بھر روح میں چبھتے رہے
ہم نے رومانوں کی پھلواری سے غنچے جو لیے

آنسوؤں کے پاک سرچشموں پہ ہم نے بارہا
حسرتوں کے اور تمناؤں کے دامن دھو لیے

ان تضادوں سے ہی لطفِ زندگی قائم رہے
روتے روتے ہنس پڑے اور ہنستے ہنستے رولیے

فصلِ گل کے اوّلیں رنگیں شگوفوں میں ظفر
آپ بھی اپنی بیاضِ شاعری کو کھو لیے

آغا ظفر احمد


 

رضیہ صدیقی بصیر

یوم پیدائش 07 اپریل 1946

ممکن نہیں الفت کا ہو اظہار غزل میں
کرتی ہوں مگر بات میں ہر بار غزل میں

بھیجا تو ہے خط اس نے مگر سادہ ورق ہے
انکار غزل میں ہے نہ اقرار غزل میں

صحرا کا فسانہ ہو یا جنگل کی کہانی
یہ تذکرے بن جاتے ہیں گلزار غزل میں

اس دور کا حاصل ہے فقط ضبطِ قلم ہی
ہے سوز نہ اب ساز نہ جھنکار غزل میں

ہے غور طلب بات یہی بزمِ سخن میں
بازاروں میں غزلیں ہیں کہ بازار غزل میں

رضیہؔ ہو مبارک تمہیں معراجِ سخن یہ
فطرت کا نظر آتا ہے کردار غزل میں

رضیہ صدیقی بصیر


 

پونم یادو

یوم پیدائش 07 اپریل 1984

کوئی بھی ارمان نہیں ہے 
یوں جینا آسان نہیں ہے 

آہیں اندر گھٹ جاتی ہیں 
دل میں روشن دان نہیں ہیں 

چھوڑو بھی اب ان قصوں کو 
ان قصوں میں جان نہیں ہے 

بات چھپانا سیکھو صاحب 
کس گھر میں طوفان نہیں ہے 

اب بھی تیرا حصہ ہوں میں 
بس تجھ کو ہی دھیان نہیں ہے 

جب تب خواہش اگ آتی ہیں 
دل ہے ریگستان نہیں ہے 

میں اک ایسا افسانا ہوں 
جس کا کچھ عنوان نہیں ہے

پونم یادو


 

ابوزر ہاشمی

یوم پیدائش 06 اپریل1957

سلگتے صحرا کا میں مسافر مری غزل بھی ہے آتشیں سی
مہکتے لمحوں کا ذکر چاہو تو تم کو میرا سلام لوگو

ابوزر ہاشمی


 

شریش چند شوق

یوم پیدائش 05 اپریل 1938

ترے سلوک کا چاہا تھا تجزیہ کرنا
تمام عمر میں الجھا رہا سوالوں میں

شریش چند شوق


 

محمد علی طارق

یوم پیدائش 05 اپریل 1971

عشق میں اس کے مبتلا نہ ہوا
دل کا سودا ہوا ،ہوا نہ ہوا

وہ مسافر بھی کیا مسافر تھا
جو جدا ہو کے بھی جدا نہ ہوا

پارساؤں کے ساتھ رہ کر بھی
ہائے کمبخت پارسا نہ ہوا

کیسے تم اس کے ہوگئے یارو
جو مرا ہوکے بھی مرا نہ ہوا

راہِ دشوار اور تنہائی
پھر بھی کم دل کا حوصلہ نہ ہوا

محمد علی طارق



 

بلال راز

یوم پیدائش 05 اپریل 1994

کیا ہے بارہا اس کا بھی تجربہ ہم نے
بھلائی کرکے سُنا ہے بُرا بھلا ہم نے

زمانہ داغ ہمارے دکھا رہا تھا ہمیں
دکھا دیا ہے زمانے کو آئینہ ہم نے

ہماری راہ میں کانٹے بچھائے تھے جس نے
اُسی کو بھیجا ہے پھولوں کا ٹوکرا ہم نے

اندھیرے ہم سے خفا ہو گئے ہیں دنیا کے
کہ اک چراغ سے رشتہ بنا لیا ہم نے

تھے کیسے لوگ وطن سے جو کر گئے ہجرت
خطا تھی اُن کی مگر پائی ہے سزا ہم نے

تو اُس بدن کی مہک ساتھ کیوں نہیں لائی
تجھی کو سونپا تھا یہ کام اے صبا ہم نے  

ہمارے شعروں سے سب رازؔ کھُل گیا ورنہ
چُھپا کے رکھا تھا دل کا معاملہ ہم نے

بلال راز


 

عاصم عاصی

یوم پیدائش 04 اپریل 1976

ہر دل کی تڑپ روح کا سامان ہمِیں تھے 
اس شہرِ طلسمات کے سلطان ہمیں تھے 

ہر چشمِ فروزاں میں عیاں تاب تھی اپنی 
ہر اُلجھی ہوئی زُلف کے پُرسان ہمیں تھے 

کھِلتے تھے خزاں دیدہ چمن دیکھ کے جس کو 
اس نقشِ لطافت کی فقط جان ہمیں تھے 

ہر کوئی طلب گارِ جوئے مالِ غنیمت 
ویرانئ گلشن پہ پریشان ہمیں تھے 

آئے نہ سمجھ اپنی طبیعت کے تقاضے 
سب پا کے بھی اُس شہر میں ویران ہمیں تھے 

ہر پیکرِ ذیشان ہی سجدے میں پڑا تھا 
خوش فہمئ شیطان کا نقصان ہمِیں تھے 

سب لوگ ہی عاصیؔ تھے پُجاری تھے ہوس کے
بس حُسنِ طرح دار پہ قربان ہمیں تھے

عاصم عاصی


 

آزاد جرولی

یوم پیدائش 04 اپریل 

تیری محفل میں موجود سب ہیں ترے جام کے منتظر
ساقیا ہم مگر ہیں یہاں ایک گمنام کے منتظر

سچ ہے مدت سے انکی نہیں کچھ خبر ہے ملی ہاں مگر
یہ بھی سچ ہے سدا ہم رہے انکے پیغام کے منتظر

صبح سے پوچھتا ہوں میں ان سے مگر کچھ بتاتے نہیں
جانے کیا بات ہے آج ہیں صبح سے شام کے منتظر

حاکمِ وقت کے کان میں یہ خبر آپ ڈالیں ذرا
آج بھی شہر میں کتنے مزدور ہیں کام کے منتظر

کیا سبب ہے قمرآج نکلا نہیں بس یہی سوچ کر
ہم زمیں پر کھڑے کب سے ہیں رونق بام منتظر

آپ کا شکریہ آپ آئے تو یہ شام دلکش ہوئی
مدتوں سے تھے ہم ایسی ہی اک حسیں شام کے منتظر

دیکھیے کس کو آزاد ملتا ہے کیا اس کے دربار سے
لے کے حسرت کھڑے ہم بھی صف میں ہیں انعام کے منتظر

آزاد جرولی


 

Saturday, April 15, 2023

شاہدریاض عباس

یوم پیدائش 04 اپریل 1981

بے خطر سارا سفر اور بے ضرر سا راستہ
تم سمجھتے ہو کہ ہے یہ انبیا کا راستہ

چوک تم سےہو گئی ہے مصلحت کے چوک پر
سہل رستہ دیکھ کر چھوڑا جو سیدھا راستہ

کچھ سناؤ اس تذبذب کی گلی کی داستاں
کس نے رکھا یاد اور پھر کون بھولا راستہ؟

راہِ حق میں درہِ جاں سے گزر کر دوستو
ایک لمحے میں سمیٹو عمر بھر کا راستہ

ایک لمحے کیلئے خود موت سے جاکر ملو
زندگی سے پھر ملا دو زندگی کا راستہ

یاس کی شاموں میں جب تشکیک کی آندھی چلے
لا الہ کے نور سے پھر دیکھ لینا راستہ

دستِ موسی اور پھر زورِ عصا بھی چاہیے
ہر کس و نا کس کو کب دیتا ہے دریا راستہ

پیر ، ملا اور لیڈر کے مقلد کیا بنے
پھرنہ کھولیں اپنی آنکھیں پھر نہ دیکھا راستہ

شاہدریاض عباس



محمد فیضی

یوم پیدائش 04 اپریل

نقشہء خاک سجانے کے لئے آپؐ آئے
روح کی روح جگانے کے لئے آپؐ آئے 

بوجھ ایسا کہ پہاڑوں سے نہیں اٹھتا تھا
وہ کڑا بوجھ اٹھانے کے لئے آپؐ آئے

آپ آئے تو بہت تیرہ و تاریک تھے دل
نور پر نور دکھانے کے لئے آپؐ آئے 

آپؐ جب آئے تو پھر اور نہ آیا کوئی 
یعنی ہر ایک زمانے کے لئے آپؐ آئے 

ایک آدم کہ بنایا تھا خدا نے جس کو
اس کو انسان بنانے کے لئے آپؐ آئے 

محمد فیضی


 

بابر علی اسد

یوم پیدائش 04 اپریل 

ہر ایک لب پہ نہ آ ، سب کی التجاء تو نہ بن
تو مہربان بھلے رہ مگر خدا تو نہ بن 

طلب کی سانس پہ کھل اے مشام ِ جاں کی مہک 
یوں اپنا آپ نہ کھو شہر کی فضا تو نہ بن 

جو تجھ کو سوچ کے بولے ، ہو منکشف اس پر 
زباں دراز کسی شخص کا کہا تو نہ بن  

تجھے کہیں کا نہ چھوڑے گا انفراد کا شوق 
تو اپنے آپ سا لگ ، خود سے ماورا تو نہ بن 

بابر علی اسد


 

منظر نقوی

یوم پیدائش 04 اپریل 

سچ کو جھوٹ بنا جاتا ہے بعض اوقات 
بندہ ٹھوکر کھا جاتا ہے بعض اوقات 

گھر کی چھت پر رم جھم بارش جلتی دھوپ 
یہ موسم بھی آ جاتا ہے بعض اوقات 

اچھی قسمت اچھا موسم اچھے لوگ 
پھر بھی دل گھبرا جاتا ہے بعض اوقات 

روزانہ تو رات گئے گھر آتا ہے 
شام سے پہلے آ جاتا ہے بعض اوقات 

جیت کے مجھ سے اتنا کیوں اتراتے ہو 
ہار کے بھی جیتا جاتا ہے بعض اوقات 

تم نے ناحق رونے کا الزام دیا 
آنکھ میں پانی آ جاتا ہے بعض اوقات 

منظرؔ میٹھی باتیں بھی تو کرتا ہے 
کڑوے بول سنا جاتا ہے بعض اوقات

منظر نقوی


 

شازیہ قمر

یوم پیدائش 04 اپریل 

ہر ایک اہل چمن کیوں نہ پھر ہراس میں ہو
جب ایک سانپ کی آمد و رفت گھانس میں ہو

نگاہ شک کی ہر اک محترم پہ رکھنا ضرور
کوئی رجیم فرشتوں کے سے لباس میں ہو

نوازشات ، عنایات ، مہربانی کرم
غرض چھپی ہوئی شاید کہ التماس میں ہو

محل وہ رشتوں کا ہوگا نہیں کبھی زمیں بوس
خلوص و انس کا جذبہ اگر آساس میں ہو

دھیان رکھے گا قرب و جوار پر اپنے
طلب ہے جسکی وہ شاید کہ اس پاس میں ہو

غرور شازیہ کرتی ہوں اپنے بخت پہ جب 
مرا وجود کسی کی نگاہ خاص میں ہو

شازیہ قمر


 

اختر امام رضوی

یوم پیدائش 04 اپریل 1937

دنیا بھی پیش آئی بہت بے رخی کے ساتھ 
ہم نے بھی زخم کھائے بڑی سادگی کے ساتھ 

اک مشت خاک آگ کا دریا لہو کی لہر 
کیا کیا روایتیں ہیں یہاں آدمی کے ساتھ 

اپنوں کی چاہتوں نے بھی کیا کیا دیئے فریب 
روتے رہے لپٹ کے ہر اک اجنبی کے ساتھ 

جنگل کی دھوپ چھاؤں ہی جنگل کا حسن ہے 
سایوں کو بھی قبول کرو روشنی کے ساتھ 

تم راستے کی گرد نہ ہو جاؤ تو کہو 
دو چار گام چل کے تو دیکھو کسی کے ساتھ 

کوئی دھواں اٹھا نہ کوئی روشنی ہوئی 
جلتی رہی حیات بڑی خامشی کے ساتھ

اختر امام رضوی


 

عمران راقم

یوم پیدائش 02 اپریل 1973

وہ کیا کریں کہ اپنی حماقت سے تنگ ہیں 
جو لوگ میری ذات کی شہرت سے تنگ ہیں 

راہ طلب میں خیر و خبر کس کی کون لے 
سب لوگ اپنی اپنی ضرورت سے تنگ ہیں 

کترا رہا ہے ہر کوئی اپنوں سے غیر سے 
جو مل گئے تو سب کی شکایت سے تنگ ہیں 

تاریکیاں گھنیری ہیں جگنو بھی کیا کرے 
رستے اندھیری رات کی ظلمت سے تنگ ہیں 

کیا ہی مزے کی بات ہے راقمؔ یہاں کے لوگ 
خوددار آدمی کی شرافت سے تنگ ہیں 

عمران راقم



رمیشا قمر

یوم پیدائش 02 اپریل 

عجز و خلوص جب مرے پیکر میں آ گیا
سارا کمال پھر مرے دفتر میں آ گیا

دل کا تھا باب گرچہ مقفّل وہ اجنبی
"دستک دیے بغیر مرے گھر میں آگیا"

اس آسماں نے مجھ پہ مصیبت جو توڑ دی
میرا وجود کرب کے محور میں آگیا

میں منتظر رہی کوئی مشقِ ستم تو ہو
وہ مصلحت شناس کہ لشکر میں آگیا

میری وفا پہ تم کو جو کچھ اعتبار تھا
تو کیسا انقلاب یہ تیور میں آگیا؟

وہ میری زندگی کی تمنا، وہ میری جان
بگڑا تو پھر زمانے کی ٹھوکر میں آگیا

میرے ہر ایک لفظ، مری سوچ کا محل
بے لوث آج دامنِ دلبر میں آگیا

کس کو رمیشا ؔدرد کا انبار چاہیے
جتنا ہنود قسمتِ دختر میں آگیا

رمیشا قمر



سلمان منیر خاور

یوم پیدائش 02 اپریل 1992

کسی کا بدتر کسی کا اچھا گزر رہا ہے
یہ وقت ہے اور ازل سے ایسا گزر رہا ہے

ہزار عاشق خدا سے محوِ دعا ہوئے ہیں
فلک پہ ٹوٹا ہوا ستارا گزر رہا ہے

رقیب میرے نے اسکو ٹھکرا دیا ہے شاید
وہ آج میری گلی سے تنہا گزر رہا ہے

یہ نم تمہاری نگاہ سے بھی بہے گا اک دن
جو میری آنکھوں سے رفتہ رفتہ گزر رہا ہے

یہ ریل گاڑی کی چین کھینچو مجھے اتارو
یہ کیا مصیبت ہے میرا رستہ گزر رہا ہے

تمہیں پتا ہے تمہارا سلمان خوش نہیں ہے؟
تمہیں پتا ہے جو اس پہ صدمہ گزر رہا ہے؟

سلمان منیر خاور


 

آفتاب نعمانی

یوم پیدائش 01 اپریل 1970

شامِ غم کو رات بھر کا آسرا مل جائے گا
شہر میں کوئی نہ کوئی در کھلا مل جائے گا

سر سے پا تک اَٹ گیا ہوں راستے کی دھول میں
میں نے یہ سوچا تھا تیرا نقشِ پا مل جائے گا

شب گئے تک میں نہیں لوٹا تو میرے ہم سفر
غم کے خالی پن سے غم دہلیز کا مل جائے گا

میں نے کتنے موڑ کاٹے ہیں اسی امید پہ
زندگی شاید کہیں تیرا پتا مل جائے گا

غم کے دریاؤں کا رخ تنہا مری جانب نہیں 
اور بھی کوئی یہاں ہنستا ہوا مل جائے گا

 میں زمیں سے آسمانوں تک گیا ہوں آفتاب
کیا وہی جو پہلے میرے ساتھ تھا مل جائے گا

آفتاب نعمانی



سہیل عثمانی

یوم پیدائش 01 اپریل 1973

ہر گھڑی اک نئی سونامی ہے 
یہ سیاست بڑی حرامی ہے 

سہیل عثمانی


 

عطیہ داؤد

یوم پیدائش 01 اپریل 1958
نظم بھروسے کا قتل

مذہب کی تلوار بنا کر 
خواہشوں کے اندھے گھوڑے پر سوار 
میرے من آنگن کو روند ڈالا 
میرے بھروسے کو سولی پر ٹانگ کر 
تم نے دوسرا بیاہ رچا لیا
تمہارے سنگ گزارے پل پل کو 
میں نے اپنے ماس پر کھال کی طرح منڈھ لیا تھا 
تمہارے ساتھ آنچل باندھ کر 
بابا کا آنگن پار کر کے 
تمہارے لائے سانچے میں 
میں نے پایا تھا اپنا وجود 
پیار کیا ہے یہ نہیں جانتی 
پر تمہارے گھر نے بڑ کے پیڑ سی چھاؤں کی تھی مجھ پر 
بچایا تھا زمانے کے گناہوں کے 
تیروں کی بوچھاڑ سے 
اس سانچے میں رہنے کی خاطر 
میں اپنے وجود کو کاٹتی چھانٹتی تراشتی رہی 
تمہارے لہو کی بوند کو اپنے ماس میں جنم دیا 
اولاد بھی ہم دونوں کا بندھن نہ بن سکی 
بندھن کیا ہے یہ نہیں جانتی 
مجھے فقط ایک سبق پڑھایا گیا تھا 
تمہارا گھر میری آخری پناہ گاہ ہے 
میں نے کئی بار دیکھا ہے 
زمانے کی نگاہوں سے سنگسار ہوتے 
طلاق یافتہ عورت کو 
اس لیے بارش سے ڈری بلی کی طرح 
گھر کے ایک کونے اور تمہارے نام کے استعمال پر 
قناعت کیے بیٹھی رہی 
جنت کیا ہے جہنم کیا ہے یہ نہیں جانتی 
مگر اتنا یقین ہے 
جنت بھروسے سے بالاتر نہیں 
اور جہنم سوت کے قہقہوں سے بڑھ کر گراں نہیں 
طعنوں اور رحم بھری نظروں سے بڑھ کر مشکل 
کوئی پل صراط نہیں 
کبھی کبھی سوت کا چہرہ مجھے اپنا جیسا لگتا ہے 
اس کی پیشانی پر بھی 
میں نے بے اعتباری کی شکنیں دیکھی ہیں 
جب وہ مجھے دیکھتی ہے 
خوشی اس کے سینے میں 
ہاتھوں میں دبائے کبوتر کی طرح پھڑ پھڑا اٹھتی ہے 
میں ان سے لڑ نہیں سکتی 
ان میں تم شامل ہو 
میں تم سے لڑ نہیں سکتی 
مذہب قانون اور سماج تمہارے ساتھ ہیں 
ریتیں رسمیں تمہارے ہتھیار ہیں 
دل چاہتا ہے کہ زندگی کی کتاب سے 
وہ باب ہی پھاڑ کر پھینک دوں 
جو اپنے مفاد میں تم نے 
میرے مقدر میں لکھا ہے 
عطیہ داؤد 




 

آصف علی آصف

یوم پیدائش 01 اپریل 1988

دوسروں سے سوا سمجھتے ہیں
ہم تجھے با خدا سمجھتے ہیں

اور کچھ بھی سمجھ نہیں آتا
آپ کا ہر کہا سمجھتے ہیں

رب کی ساری نشانیوں میں ہم
آدمی کو بڑا سمجھتے ہیں

تو جو ہم پر ہے معترض واعظ
ہم ترا مسئلہ سمجھتے ہیں

جو لطافت ہے بزم رنداں میں
وہ کہاں پارسا سمجھتے ہیں

دل کو یکسر جو نور سے بھر دے
ہم اسے پیشوا سمجھتے ہیں

ہم میں آصف یہی برُائی ہے
ہم برے کو برا سمجھتے ہیں

آصف علی آصف



نصیر احمد ناصر

یوم پیدائش 01 اپریل 1954

ستارہ شام سے نکلا ہوا ہے
دیا بھی طاق میں رکھا ہوا ہے

کوئی نیندوں میں خوشبو گھولتا ہے
دریچہ خواب کا مہکا ہوا ہے

کہیں وہ رات بھی مہکی ہوئی ہے
کہیں وہ چاند بھی چمکا ہوا ہے

ابھی وہ آنکھ بھی سوئی نہیں ہے
ابھی وہ خواب بھی جاگا ہوا ہے

کسی بادل کو چھو کر آ رہی ہے
ہوا کا پیرہن بھیگا ہوا ہے

زمیں بے عکس ہو کر رہ گئی ہے
فلک کا آئنہ میلا ہوا ہے

خموشی جھانکتی ہے کھڑکیوں سے
گلی میں شور سا پھیلا ہوا ہے

ہوا گم صم کھڑی ہے راستے میں
مسافر سوچ میں ڈوبا ہوا ہے

کسی گزرے برس کی ڈائری میں
تمہارا نام بھی لکھا ہوا ہے

چراغ شام کی آنکھیں بجھی ہیں
ستارہ خواب کا ٹوٹا ہوا ہے

سفر کی رات ہے ناصرؔ دلوں میں
عجب اک درد سا ٹھہرا ہوا ہے

نصیر احمد ناصر


 

وسیم ساغر

یوم پیدائش 28 مارچ 1991

نہ شکوہ نہ برہم ہوا جانتی ہے
یہ ظرفِ وفا ہے ،دعا جانتی ہے

سفینہ مرا چُوم لوٹے گی آندھی
مرے حوصلوں کو ہوا جانتی ہے

جنوں اک طرف وصل کی آرزو کا
محبت روا ناروا جانتی ہے

در و بام واقف ہیں کلفت سے میری
مرے غم کی شدت دوا جانتی ہے

بہت نرم یوں ہی نہیں فصلِ گل پر
صبا رنگ و بو کی نوا جانتی ہے

وہی ساغرِ خستہ دامن ہوں لوگو
ستمگر جسے ماسوا جانتی ہے

وسیم ساغر


 

فیصل رضوان

یوم پیدائش 28 مارچ

زندگی کا خمار دیکھا ہے
سب کو یاں سوگوار دیکھا ہے

عشق سینہ فِگار دیکھا ہے
حسن کو لالہ زار دیکھاہے

خارزاروں کا ساتھ دینے میں
گل کا دامن ہی تار دیکھا ہے

سانس رکتے ہی اپنے پیاروں کا
میتوں میں شمار دیکھا ہے

بھول جانا جسے ضروری تھا
اس کو ہی بار بار دیکھا ہے

ساتھ دل ہے حباب سے آگے
زیست کا اعتبار دیکھا ہے

فیصل رضوان



سید حامد

یوم پیدائش 28 مارچ 1920

حق کسی کا ادا نہیں ہوتا 
ورنہ انساں سے کیا نہیں ہوتا 

دل کا جانا تو بات بعد کی ہے 
دل کا آنا برا نہیں ہوتا 

کیا ہوا دل کو مدتیں گزریں 
ذکر مہر و وفا نہیں ہوتا 

حسن کے ہیں ہزارہا پہلو
ایک پہلو ادا نہیں ہوتا 

خود پہ کیا کیا وہ ناز کرتے ہیں 
جب کوئی دیکھتا نہیں ہوتا 

دل بجھا ہو تو خندۂ گل بھی 
چبھتا ہے جاں فزا نہیں ہوتا 

ڈھونڈھ لاتی ہے ایک شوخ نگاہ 
لب پہ جو مدعا نہیں ہوتا 

خوں بہاتے ہیں بے گناہوں کا 
یہ کوئی خوں بہا نہیں ہوتا 

زندگی میں ہیں تلخیاں پھر بھی 
آدمی بے مزا نہیں ہوتا 

حق تو حامدؔ یہ ہے کہ حق کے سوا 
کوئی مشکل کشا نہیں ہوتا

سید حامد


 

شیما نظیر

یوم پیدائش 27 مارچ 1972

ایک مدت سے جو ٹھہری ہے ٹھہر جائے گی
ایسا لگتا ہے یونہی عمر گزر جائے گی

ہم کو تہذیب پہ اپنی تھا بہت ناز مگر
اب وہ تہذیب یوں بے موت ہی مرجائے گی

وقت یکساں نہیں رہتا ہے کسی کا بھی کبھی
کبھی ایسے کبھی ویسے بھی گزر جائے گی

عزم.مضبوط رکھو کوششیں کرکے دیکھو
زندگی بکھری بھی ہو گر تو سنور جائے گی

وہ دعا ہوگی یقیناً تری مقبول نظیرؔ
ساتھ اشکوں کے دعا تیری اگر جائے گی

شیما نظیر


 

سعید افسر

یوم پیدائش 26 مارچ 1941

دھوپ کو گرم نہ کہہ سایۂ دیوار نہ دیکھ 
تجھ کو چلنا ہے تو پھر وقت کی رفتار نہ دیکھ 

میری فکروں سے الجھ مجھ کو سمجھنے کے لئے 
دور سے موج میں الجھی ہوئی پتوار نہ دیکھ 

ان کی روحوں کو پرکھ آدمی ہیں بھی یا نہیں 
صرف صورت پہ نہ جا جبہ و دستار نہ دیکھ 

اپنے آنگن ہی میں کر فکر نموئے گلشن 
کوئی جنت بھی اگر ہے پس دیوار نہ دیکھ 

ان دمکتے ہوئے لمحات کے جادو سے نکل 
وقت کی چال سمجھ شوخئ رفتار نہ دیکھ 

غم سے لڑنا ہے تو پھر غم زدہ صورت نہ بنا 
زندہ رہنا ہے تو مردوں کے یہ اطوار نہ دیکھ 

میرے نغمات کو تفریح کے کانوں سے نہ سن 
رقص کی پیاس ہے آنکھوں میں تو پیکار نہ دیکھ 

قدردانی کو مراتب کے ترازو میں نہ تول
کون افسرؔ ہوا یوسف کا خریدار نہ دیکھ

سعید افسر


 

انجم عثمان

یوم پیدائش 29 مارچ

زر غبار کو آئینہ بار کر نہ سکے
نقوش عکس کو تصویر یار کر نہ سکے

ہے وحشتوں کا تلاطم پسِ نوائے سکوت
میان موجۂ گل ذکر یار کر نہ سکے

نہ اضطراب، نہ غوغائے گریہ و ماتم
شہاب غم بھی مجھے بے قرار کر نہ سکے

ٹپک نہ چشمِ ہم آہنگ سے اے قطرۂ خوں
کہ چارہ گر بھی تجھے شرمسار کر نہ سکے

ستارہ گیر تھا رخشِ ہنر مگر پھر بھی
طلسم حسن سخن بے کنار کر نہ سکے

ہزار زاویۂ حرف آشکار کیے
قبائے سرو غزل زرنگار کر نہ سکے

انجم عثمان


 

Tuesday, April 11, 2023

پروین صباء

یوم پیدائش 25 مارچ 1969

اپنی ہی راہ پہ ہر حال میں چلتے رہنا
وقت کے ساتھ نہ رفتار بدلتے رہنا

میری رسوائی کا باعث نہ کہیں بن جائے
رات بھر شمع کی مانند پگھلتے رہنا

عشق کی راہ میں شعلوں کے سوا کچھ بھی نہیں
پاؤں جل جائیں مگر آگ پہ چلتے رہنا

دو قدم بھی کوئی ہمراہ نہ چل پائے گا
میری قسمت میں ہے گر گر کے سنبھلتے رہنا

تجھ کو خوش آگئی دنیا ، ہے نصیبہ تیرا
ورنہ سورج کی بھی قسمت میں ہے ڈھلتے رہنا

کس قدر فرصتیں ہیں ، مجھ کو تو حیرت ہے صبا
کام ہے لوگوں کا بس زہر اگلتے رہنا

پروین صباء


 

آرتی کماری

یوم پیدائش 25 مارچ 1977

تری یاد میں جو گزارا گیا ہے 
وہی وقت اچھا ہمارا گیا ہے 

بھلا اور کیا اپنا پن وہ دکھائے 
ترا نام لے کر پکارا گیا ہے 

تمہیں میری حالت پتہ کیا چلے گی 
مرا جو گیا کب تمہارا گیا ہے 

عجب ہے محبت کا میدان یارو 
نہ جیتا گیا ہے نہ ہارا گیا ہے 

لکھا ریت پر نام میں نے تمہارا 
ندی میں بھی چہرہ نہارا گیا ہے 

ہے میری بھی عادت تمہارے ہی جیسی 
ہر اک رنگ مجھ پہ تمہارا گیا ہے 

آرتی کماری


 

ظہور بیگ حامی

یوم پیدائش 24 مارچ 2000

سمجھ یہ آئے نہ ہر کسی کی
سزا ملے گی جو سرکشی کی

وہ غرق دریا ھوا ھے لیکن 
وہ بات کرتا ھے تشنگی کی

وفا کے مفہوم سے تو عاری 
زباں پہ باتیں ہیں عاشقی کی

وہ ماں کو گھر سے نکال بیٹھے
یہ اک کہانی ہے بے حسی کی

کبھی نہ بھاگا خوشی کے پیچھے
ہمیشہ غم کی ہی پیروی کی

ظہور بیگ حامی


 

ضمیر اختر نقوی

یوم پیدائش 24 مارچ 1940

مرے وجود نے یوں تو ضمیر کیا نہ دیا
انا کی آگ میں جلنے کا حوصلہ نہ دیا

شمار اپنا بھی ہوجاتا عشق والوں میں
پیالہ زہر کا ہم کو بھی کیوں پلا نہ دیا

کچل نہ پائے گا پھر بھی ہمارا جذبۂ دل
جو حسن نے ہمیں اعزازِ باوفا نہ دیا

ضمیر ایسی غزل کو تو دور ہی سے سلام
کہ جس نے فکر کو میدانِ ارتقا نہ دیا

ضمیر اختر نقوی


ڈاکٹر وسیم راشد

یوم پیدائش 23 مارچ

تیرا خیال میری انجمن میں رہتا ہے
عجیب پھول ہے تنہا چمن میں رہتاہے

میں اس سے دور بھی جاؤں تو کس طرح جاؤں
وہ عطر بن کے میرے پیرہن میں رہتا ہے

وہ اپنی روح کے زخموں کو کس طرح گنتا 
ہمیشہ الجھا ہوا وہ بدن میں رہتا ہے

تری تلاش میں تھک جاتے ہیں قدم لیکن
سکون قلب بھی شامل تھکن میں رہتا ہے

یہ بات سچ ہے نظریات جس کے چھوٹے ہوں
بڑے مکان میں بھی وہ گھٹن میں رہتا ہے

وسیم ہند کی مٹی میں کیسا جادو ہے 
کہیں بھی جاؤں مرا دل وطن میں رہتا ہے

ڈاکٹر وسیم راشد


پرویز رحمانی

یوم پیدائش 23 مارچ 1952

اندر باہر اوپر نیچے خواب ہی خواب 
دائیں بائیں آگے پیچھے خواب ہی خواب 

خوشبو شبنم رنگ کی دنیا ایک فریب 
غنچے گل بوٹے باغیچے خواب ہی خواب 

آنکھیں چہرے چاند ستارے رات ہی رات 
دروازے دیوار دریچے خواب ہی خواب 

حسرت ٹہنی ٹہنی نیند میں ڈوبی تھی 
بکھرے تھے پیڑوں کے پیچھے خواب ہی خواب
 
کاش کہ زندہ ہوتے احساسات سبھی 
دیکھا کرتے آنکھیں میچے خواب ہی خواب 

امیدیں مہدی کے تلوے چاٹ گئیں 
دکھلاتے کب تک غالیچے خواب ہی خواب 

خواہش خواہش جو چاہو چن لو پرویزؔ 
چھوڑ چلے ہم اپنے پیچھے خواب ہی خواب

پرویز رحمانی


 

ریحانہ شبیر

یوم پیدائش 23 مارچ 1972
نظم اک جوگی
اک جوگی ڈھونڈ رہی ہوں میں
جو زہر نکالے سانپوں کا
ہر جانب پھن پھیلائے ہوئے
ہیں ڈھیروں کالے ناگ یہاں
کچھ ہوس زدہ، کچھ حرص زدہ
کچھ اس دھرتی کی مایا پہ
پھن کو پھیلائے بیٹھے ہیں
کچھ استحصال کے کنڈل میں
سب کو لپٹائے بیٹھے ہیں
کوئی ہمت والا جوگی ہو
نہ زر کا کوئی روگی ہو
اک جوگی ڈھونڈ رہی ہوں میں
جو زہر نکالے سانپوں کا
ہے لفظوں میں تاثیر بہت
اور لفظوں میں تریاق بھی ہے
ان لفظوں سے انساں بدلے
ان لفظوں سے قومیں بدلیں
یہ طاقت ور کو زیر کریں
اور بزدل کو بھی شیر کریں
الفاظ میں ایسی خوبی ہے
الفاظ میں ایسی طاقت ہے
اے میرے دیس کے سخن ورو!
اپنے الفاظ کی لاٹھی سے
کچلو سر کالے ناگوں کے
اور استحصال کی کنڈل کو
کھولو الفاظ کی قوت سے
مزدور کی ہمت بن جاؤ
مظلوم کی طاقت بن جاؤ
تم سب کے سب ہی جوگی ہو
اب بین بجاؤ لفظوں کی
اور زہر نکالو سانپوں کا

ریحانہ شبیر

 

غلام مرتضی راہی

یوم پیدائش 23 مارچ 1937

نایاب چیز کون سی بازار میں نہیں
لیکن میں ان کے چند خریدار میں نہیں

چھو کر بلندیوں کو پلٹنا ہے اب مجھے
کھانے کو میرے گھاس بھی کہسار میں نہیں

آتا تھا جس کو دیکھ کے تصویر کا خیال
اب تو وہ کیل بھی مری دیوار میں نہیں

عرفان و آگہی کی یہ ہم کس ہوا میں ہیں
جنبش تک اس کے پردۂ اسرار میں نہیں

اگلا سا مجھ میں شوق شہادت نہیں اگر
پہلی سی کاٹ بھی تری تلوار میں نہیں

غلام مرتضی راہی



ڈاکٹر مختار شممیم

یوم پیدائش 23 مارچ 1944

صبح رنگین و جواں شام سہانی مانگے 
دل بیتاب کہ تیری ہی کہانی مانگے 

کوئی دیکھے یہ مرا عالم‌ جولانی طبع 
جس طرح آب رواں آپ روانی مانگے 

خوگر عیش نہیں فطرت شوریدہ‌ سراں 
غم و اندوہ طلب سوز نہانی مانگے 

دشت غربت میں ان آنکھوں کی نمی یاد آئے 
تشنہ لب جیسے کوئی صحرا سے پانی مانگے 

شومیٔ زیست کہ یہ آج زلیخا کی طرح 
کاسۂ عمر میں لمحات جوانی مانگے 

اپنے خوابوں پہ ہے شرمندہ شب غم دیدہ 
صبح معصوم اسی شب کی کہانی مانگے 

غنچۂ شوق شمیمؔ آج کھلا ہے شاید 
دل وحشت زدہ خوننابہ نشانی مانگے

 ڈاکٹر مختار شممیم





فیاض حسین شاہ

یوم پیدائش 22 مارچ

ایسا نہیں کہ حیلے بہانے بناؤں گا
کشتی نہ بن سکی تو میں تنکے بناؤں گا

اک روز میں بناؤں گا دونوں جہاں میں ربط
اور موت کے علاوہ بھی رستے بناؤں گا

یہ دیکھ میرے ہاتھوں کی پامال انگلیاں
پردیس آ کے سوچا تھا پیسے بناؤں گا

اک تیری کائنات ہے اک میری کائنات
گر ہوسکا تو ان میں دریچے بناؤں گا

اک روز میں بناؤں گا کاغذ کی تتلیاں
اور سات آٹھ پھول بھی نیلے بناؤں گا

پہلے بناؤں گا کسی کاغذ پہ اپنی آنکھ
پھر اس میں تیرے خواب کے ریشے بناؤں گا

فیاض حسین شاہ


 

Saturday, April 8, 2023

آصفہ رومانی

یوم پیدائش 22 مارچ 1945

گھر کو کیسا بھی تم سجا رکھنا 
کہیں غم کا بھی داخلہ رکھنا 

گر کسی کو سمجھنا اپنا تم 
دھوکہ کھانے کا حوصلہ رکھنا 

اتنی قربت کسی سے مت رکھو 
کچھ ضروری ہے فاصلہ رکھنا 

ان کی ہر بات میٹھی ہوتی ہے 
جھوٹی باتوں کا مت گلہ رکھنا 

زندگی ایک بار ملتی ہے 
اس کو جینے کا حوصلہ رکھنا 

ناامیدی کو کفر کہتے ہیں 
رب سے امید آصفہؔ رکھنا 

آصفہ رومانی


 

نصرت عتیق

یوم پیدائش 22 مارچ 1975

یہ اور بات ہے کہ سہارا نہیں بنے 
لیکن کسی کی راہ کا کانٹا نہیں بنے 

یاروں کے ہم نے عیب چھپائے ہیں بارہا 
ان کو بچایا خود بھی تماشہ نہیں بنے 

دشوار راستوں کا انہیں تجربہ نہیں 
منزل جو لوگ بن گئے رستا نہیں بنے 

انسان ہی تو بن نہیں پائے جو اہم تھا 
ویسے تو لوگ بننے کو کیا کیا نہیں بنے 

تم سے بڑی امید لگا رکھی تھی مگر 
تم بھی تو میرے حق میں مسیحا نہیں بنے 

نصرتؔ وہ ہم سے اس لیے ناراض ہیں کہ ہم 
ان کی بلائی بھیڑ کا حصہ نہیں بنے 

نصرت عتیق


 

شمشاد شاد

یوم پیدائش 21 مارچ 1963

اللہ کرے درد ترا سب پہ عیاں ہو
اے دشمنِ جاں تیرے جگر کا بھی زیاں ہو

حاوی ترے اعصاب پہ ہو عشق کا آسیب
اطراف مرے ہونے کا تجھ کو بھی گماں ہو

کیا میں ہی ترے ہجر میں روتا رہوں پہیم
چشمہ تری آنکھوں سے بھی اشکوں کا رواں ہو

غافل نہ رہوں ظلم وستم سے کبھی تیرے
شعروں میں مرے تیری جفاؤں کا بیاں ہو

اک دوجے کے بن حال یہ ہو جائے ہمارا
جینا تو الگ بات ہے مرنا بھی گراں ہو

مرکوز مری آنکھ رہے چہرے پہ تیرے
تو ساتھ ہو جب روح نکلنے کا سماں ہو

ہیں شہرِ خموشاں میں بھی ہنگامے بہت شاد
لے چل مجھے اس جا کہ جہاں امن و اماں ہو

شمشاد شاد

 

 

مبارک علی انمول

یوم پیدائش 21 مارچ 1992

تجھ سے ملنا محال ہے پھر بھی
دل میں تیرا خیال ہے پھر بھی

ہم پہ آئے نہ کیوں زوال مگر
عشق تو لازوال ہے پھر بھی

جانتا ہوں کوئی جواب نہیں
ان لبوں پر سوال ہے پھر بھی

آنکھ روتی ہے خون کے آنسو
دل کے اندر ملال ہے پھر بھی

مبارک علی انمول


 

راجیش الفت

یوم پیدائش 21 مارچ 1961

کہہ دو دل میں جو بات باقی ہے 
یہ نہ سوچو کہ رات باقی ہے 

عشق کی بات ہے ابھی کر لو 
بھول جاؤ حیات باقی ہے 

ساری دنیا ہے پھر بھی تنہا ہوں 
اک تمہارا ہی ساتھ باقی ہے 

آج کہتے ہیں بس شراب شراب 
کل کہیں گے نجات باقی ہے 

پہلے لازم ہے جیتنا دل کا 
پھر کہاں کائنات باقی ہے

راجیش الفت


 

سعید الظفر صدیقی

یوم پیدائش 21 مارچ 1944

زیرِ زمیں کھلے کہ تہِ آسماں کھلے
میرےخداکہیں تومری داستاں کھلے

کھلتانہیں ہے بیٹھے بٹھائے کوئی یہاں
ہم نے زمین اوڑھ لی تب آسماں کھلے

مدت ہوئی ہے دونوں کوبچھڑےہوئےمگر
اب تک نہ ہم یہاں نہ وہ ابتک وہاں کھلے

وہ شہرِ دوستاں ہو کہ شہرِ ستم شعار
آوارگانِ عشق کسی پر کہاں کھلے

اب تک تو شہر مہر بلب ہے مرا سعید
شایدستم کچھ اوربڑھے تو زباں کھلے

سعید الظفر صدیقی


 

سعدشاہد

یوم پیدائش 20 مارچ 2002

ہرا بھرا تھا خزاں میں شجر اداسی کا
ہم اہلِ درد نے کھایا ثمر اداسی کا

دیارِ دل کسی خوش رنگ کے در آنے سے 
ہوا ہے بے سر و ساماں نگر اداسی کا 

ِادھر اُدھر ہیں بہاروں نے گھر بسائے ہوئے 
وہ شاخ پھول کھلائے کدھر اداسی کا 

میں خوش خیال تلاشِ خدا میں سمجھا ہوں 
وہی خدا ہے جو ہے چارہ گر اداسی کا

سعدشاہد


 

کنول نور پوری

یوم پیدائش 20 مارچ 1931

آغاز سے غرض ہے نہ انجام سے مجھے
اے عشق واسطہ ہے ترے نام سے مجھے

راحت نصیب ہوتی ہے آلام سے مجھے
کہنا ہے بس یہ گردشِ ایام سے مجھے

کتنا سکوں ہے حسرتِ ناکام سے مجھے
کانٹوں پہ نیند آگئی آرام سے مجھے

دیوانہ وار جل کے پتنگے نے شمع پر
آگاہ کردیا مرے انجام سے مجھے

میرے جنونِ عشق کا شاید ہے یہ اثر
دنیاپکارتی ہے ترے نام سے مجھے

کہنا ہو جو مجھے ، میں وہ کہتا ہوں برملا
تعریف سے غرض ہے نہ دشنام سے مجھے

اک بوند بھی خلوص کی جس میں نہیں کنول
راحت کبھی ملےگی نہ اس جام سے مجھے

کنول نور پوری


 

عالیہ بخآری ہالہ

یوم پیدائش 20 مارچ 1970

اس نے بھیجا ہے پیار کا تحفہ
اک دل بے قرار کا تحفہ

قسمتو ں سے کسی کو ملتا ہے
جانِ جاں وصلِ یار کا تحفہ

سرد موسم نے لی ہے انگڑائی
آ چکا ہے بہار کا تحفہ

میرے قدموں کو کیجیے مضبوط
دیجیے اعتبار کا تحفہ

تیرا غم یوں چھپائے پھرتے ہیں
 جیسے دیرینہ یار کا تحفہ

آپ کے روپ میں ہمیں ہالہؔ
مل گیا غمگسار کا تحفہ

عالیہ بخآری ہالہ


 

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...