Urdu Deccan

Friday, April 30, 2021

اشفاق احمد صائم

 سُکھ چین ، اضطراب سے پہلے کی بات ہے

یہ پیار کے عذاب سے پہلے کی بات ہے


دو سے نکالو ایک تو بچتا تھا ایک ہی

یہ عشق کے حساب سے پہلے کی بات ہے 


پڑھتے رہے وفاؤں کا مطلب خلوص ہم

یہ ہجر کے نصاب سے پہلے کی بات ہے


پہلے میں کہہ رہا تھا فقط پھول ہی تو ہے

تیرے دیے گلاب سے پہلے کی بات ہے


خوشبو طواف کرتی تھی پلکوں کا نصف شب

آنکھوں میں تیرے خواب سے پہلے کی بات ہے


پہلے تکلفات میں ہم ، تم رہا مگر

یہ آپ اور جناب سے پہلے کی بات ہے.


صدیوں خمار کا رہا الزام آنکھ پر

دنیا میں یہ شراب سے پہلے کی بات ہے


اشفاق احمد صائم


Thursday, April 29, 2021

ریاض ساغر

 میں ظلمتوں کو چیر کے لایا ہوں روشنی

اس شوق میں دھواں بھی نگلنا پڑا مجھے


  "ریاض ساغر"


نظر علی

 یوم پیدائش 30 اپریل 1962


جدھر دیکھو ادھر دہشت کھڑی ہے

 خدارا خير ہو مشکل بڑی ہے

 

خموشی اس قدر چھائی ہے ہر سو

نگر کی ہر گلی سونی پڑی ہے


پرندے ناتواں ہیں آشیاں میں

نگاه باز ہر جاں پر گڑی ہے 


 جہاں پر بھائی چارے کی ضیا تھی

 وہاں اب تیرگی پھیلی پڑی ہے

 

محبت آئے تو آئے کدھر سے

عداوت راستہ روکے کھڑی ہے


بنایا کارواں کا جن کو رہبر

شرارت ان کے تاجوں میں جڑی ہے


حکومت ہے جہاں میں نفرتوں کی

نظر یہ بھی سیاست کی کڑی ہے


نظرعلی


نیاز سواتی

 یوم پیدائش 29 اپریل 1941


حسینوں سے تمہاری دوستی اچھی نہیں لگتی

بڑھاپے میں یہ عشق و عاشقی اچھی نہیں لگتی


مزا کچھ اور ہی تھا پی ڈبلیو ڈی کی سروس کا

ہمیں اب اور کوئی نوکری اچھی نہیں لگتی


الیکشن میں تو ہر ووٹر پر اپنی جاں چھڑکتے تھے

اب ان سے رہنماؤ بے رخی اچھی نہیں لگتی


کھلائے جو بھی حلوا تم اسی کا ساتھ دیتے ہو

ہمیں واعظ تمہاری پالیسی اچھی نہیں لگتی


رگڑنا پڑ رہا ہے سر ہر اک ووٹر کے پاؤں پر

اسی باعث تو ہم کو ممبری اچھی نہیں لگتی


نیاز سواتی


عظیم امروہوی

 یوم پیدائش 29 اپریل 1954


انبیاء جتنے ہیں ان کا مرتبہ کچھ اور ہے

عظمتِ حضرت محمد مصطفےؐ کچھ اور ہے


نیل کے پانی میں جو رستہ بنا کچھ اور ہے 

آسمانوں سے جو گزرا راستہ کچھ اور ہے 


چاند ہے سورج ہے تارا ہے نہ ہے کوئی چراغ

آمنہ کے گھر میں یہ جلوہ نما کچھ اور ہے 


ہوگی جنت بھی تری معبود کافی پُر فضا

میری نظروں میں مدینے کی فضا کچھ اور ہے


تھا خدا مطلوب موسیٰؐ کو تو پہنچے طور پر

جس کو بلوایا وہ محبوب خدا کچھ اور ہے


کوئی گزرے گا فلک سے چاند بھی آج خوش

اور تاروں کے چمکنے کی ادا کچھ اور ہے


ہیں محمدؐ تو مدینہ علم کا حیدر ؓ ہیں در

ماسوا حیدر ؓ کہیں سے راستہ کچھ اور ہے


شاعری کا لطف ہر صنف سخن میں ہے عظیم

نعت کہنے کا حقیقت میں مزا کچھ اور ہے 


عظیم امروہوی


Wednesday, April 28, 2021

مبارک عظیم آبادی

 یوم پیدائش 29 اپریل 1829


درد دل یار رہا درد سے یاری نہ گئی

زندگی ہم سے تو بے لطف گزاری نہ گئی


دن کے نالے نہ گئے رات کی زاری نہ گئی

نہ گئی دل سے کبھی یاد تمہاری نہ گئی


ہم تو خوں گشتہ تمناؤں کے ماتم میں رہے

سینہ کوبی نہ گئی سینہ فگاری نہ گئی


انتظار آپ کا کب لطف سے خالی نکلا

رائیگاں رات کسی روز ہماری نہ گئی


بخشوایا مجھے تم نے تو خدا نے بخشا

نہ گئی روز جزا بات تمہاری نہ گئی


لوگ کہتے ہیں بدلتا ہے زمانہ لیکن

دن ہمارا نہ گیا رات ہماری نہ گئی


مبارک عظیم آبادی


اجے سحاب

 یوم پیدائش 29 اپریل 1969


جب بھی ملتے ہیں تو جینے کی دعا دیتے ہیں

جانے کس بات کی وہ ہم کو سزا دیتے ہیں


حادثے جان تو لیتے ہیں مگر سچ یہ ہے

حادثے ہی ہمیں جینا بھی سکھا دیتے ہیں


رات آئی تو تڑپتے ہیں چراغوں کے لیے

صبح ہوتے ہی جنہیں لوگ بجھا دیتے ہیں


ہوش میں ہو کے بھی ساقی کا بھرم رکھنے کو

لڑکھڑانے کی ہم افواہ اڑا دیتے ہیں


کیوں نہ لوٹے وہ اداسی کا مسافر یارو

زخم سینہ کے اسے روز سدا دیتے ہیں


اجے سحاب


راز علیمی



اک تماشا بنا کے لاتے ہیں
خط ہمارا جلا کے لاتے ہیں

جب جوانی کی یاد آتی ہے
مَے کدے سے اُٹھا کے لاتے ہیں

روٹھ کر جا رہی ہے جانِ بہار
باغباں! چل منا کے لاتے ہیں

میں تقاضائِے دِید کرتا ہوں
عُذر وہ رنگِ ،، نَا ،، کے لاتے ہیں

دل تو بَیعُ و شِرا کی چیز نہیں
اس لیے ہم چُرا کے لاتے ہیں

جب گلابوں کی بات ہوتی ہے
اس کی صورت بنا کے لاتے ہیں

میں سویرے وفا کے لاتا ہوں
وہ اندھیرے دغا کے لاتے ہیں

اس کے بِن بزم سونی سونی ہے
چل ذرا ورغلا کے لاتے ہیں

قریۂِ دل سے راز اُمیدوں کی
ساری شمعیں بجھا کے لاتے ہیں

راز علیمیؔ

محمد وقار احمد نوری

 سرفروشی چاہنا ہے لازمی

وقت آیا جاگنا ہے لازمی


ہندو مسلم سکھ عسائی ایک ہوں

بند آنکھیں کھولنا ہے لازمی


قصر باطل کے ہلانے کے لیے

قلبِ مومن کی صدا ہے لازمی


صحبت صالح کرو تم اختیار

نیک بننا اب ذرا ہے لازمی


زندگی رنگیں بنانے کے لیے

الفتوں سے رابطہ ہے لازمی


ہے اگر رہنا محبت سے سدا

نفرتوں کا خاتمہ ہے لازمی


مختصر ہے زندگی اے دوستو

چار دن میں لوٹنا ہے لازمی


پوچھتے ہو کیا ہمیں تم ظالمو

دل میں خود کے جھانکنا ہے لازمی


آنچ ایماں پر اگر آئے کبھی

سر کٹانا کاٹنا ہے لازمی


قل ھواللہ احد کی اے وقار

رزمِ باطل میں نوا ہے لازمی


محمد وقار احمد نوری


Tuesday, April 27, 2021

محمد قاسم

 گہری ہوئی ہے دل کی کتابوں پہ دھول سب

اور سوکھنے لگے تری یادوں کے پھول سب


دنیا و آخرت کو اگر ہے سنوارنا

احکامِ کبریا کرو دل سے قبول سب


قائم ہے اب بھی حوصلہ، حالانکہ ہوگئے

رستے کی سختیوں سے مسافر ملول سب


بچوں کے کاندھے میرے برابر جو آ گئے

چلنے لگے ہیں ان کے ہی گھر میں اصول سب


چھوڑا ہے ہم نے جب سے بزرگوں کا راستہ

اڑنے لگی ہمارے ہی چہرے پہ دھول سب


دورِ جدید کی یہ چکا چوند دیکھ کر

ہم نے ہی توڑڈالے ہیں اپنے اصول سب


اوروں کے کام آنا ہی قاسم ہے زندگی

ورنہ ہے جینا مرنا تمھارا فضول سب


 محمد قاسم


ڈاکٹر طارق عزیز

تعبیروں کے درد اٹھا کر کیا کرنا ہے
کیا کرنا ہے خواب سجا کر کیا کرنا ہے

اس کی صورت اس کی باتیں بھول گئے ہیں
پھر سوچا ، خود دھوکا کھا کر کیا کرنا ہے

آپ نے جب لفظوں کے معنی بدل دئیے ہیں
آپ کو اپنا دوست بناکر کیا کرنا ہے

جب کرنوں نے سب ہاتھوں کو دیکھ لیا
پھر سورج سے اوس چھپا کر کیا کرنا ہے

کیا لینا ہے سڑکوں پر آوارہ پھر کر
اتنی جلدی گھر بھی جاکر کیا کرنا ہے

ڈاکٹر طارق عزیز

بدنام نظر

 یوم پیدائش 27 اپریل 1941


حیات ڈھونڈ رہا ہوں قضا کی راہوں میں

پناہ مانگنے آیا ہوں بے پناہوں میں


بدن ممی تھا نظر برف سانس کافوری

تمام رات گزاری ہے سرد بانہوں میں


اب ان میں شعلے جہنم کے رقص کرتے ہیں

بسے تھے کتنے ہی فردوس جن نگاہوں میں


بجھی جو رات تو اپنی گلی کی یاد آئی

الجھ گیا تھا میں رنگین شاہراہوں میں


نہ جانے کیا ہوا اپنا بھی اب نہیں ہے وہ

جو ایک عمر تھا دنیا کے خیر خواہوں میں


مری تلاش کو جس علم سے قرار آئے

نہ خانقاہوں میں پائی نہ درس گاہوں میں


بدنام نظر


شجاع حیدر

 ہر شخص ہو گیا ہے جُدا کون ساتھ ہے

یا رب جہاں میں تیرے سوا کون ساتھ ہے


"تنہائیوں میں کہتا ہے قرآن یہ "میں ہوں"

جب جب بھی میں نے رو کے کہا کون ساتھ ہے


جھولے سے ایک بچے نے خود کو گرا لیا

میداں میں باپ نے جو کہا کون ساتھ ہے


اک ماں دعائیں دیتی تھی وہ بھی نہیں رہی

اب زیست میں سوائے بلا کون ساتھ ہے


دولت کے پیچھے بھاگ رہا تھا غرور سے

اک روز آ کے بولی قضا کون ساتھ ہے


آئے ہیں میری صف میں مجھے تیر مار کر

جب دوستوں نے مجھ سے سنا کون ساتھ ہے


لے کر حسین چل پڑے پھر خاندان کو

جب دین کی بقا نے کہا کون ساتھ ہے


ہر ایک بے وفا سے وفا جب نبھا چُکا

کہنے لگی یہ مجھ سے وفا کون ساتھ ہے


دنیا میں جتنے اچھے تھے تم ان سے پوچھ لو

آخر میں سب کو کہنا پڑا کون ساتھ ہے


حیدر ہر ایک دوست کی ہجرت کی یاد میں

دیوار و در سے کہتا رہا کون ساتھ ہے


شجاع حیدر

شمش پورولیاوی

 یوم پیدائش 27 اپریل 1978


بڑھتا چلا گیا ہے یہ لاشوں کا سلسلہ

ماتم بپا کہیں، کہیں آہوں کا سلسلہ


ایسی وبا ہے پھیلی کہ جسکی دوا نہیں

رکتا نہیں ہے پھر بھی چناؤں کا سلسلہ


بےشک جہاں میں قید ہے، شیطان ان دنوں

ہرگز نہیں رکا ہے، گناہوں کا سلسلہ


پہنچا سفر نہ اپنا کبھی، اختتام تک

حد نظر ہے اب بھی سرابوں کا سلسلہ


کس کو خدا نواز دے، ماہِ صیام میں

جاری رہے اگر یہ، دعاؤں کا سلسلہ


شامل رہے گا شمس، خرافات میں اگر

نازل رہے گا تجھ پہ عذابوں کا سلسلہ


شمس پورولیاوی


پریہ درشی ٹھاکر خیال

 یوم پیدائش 27 اپریل 1946


فاصلہ دیر و حرم کے درمیاں رہ جائے گا

چاک سل جائیں گے یہ زخم نہاں رہ جائے گا


ہاتھ سے اپنے تو دھو لے گا لہو کے داغ تو

دیوتا کا پاک دامن خوں فشاں رہ جائے گا


چاند تھوڑی دیر میں چل دے گا اپنے راستے

پھر ستاروں کے سہارے آسماں رہ جائے گا


جانے والے کو میسر ہو گئی غم سے نجات

غم تو اس کے ہو رہیں گے جو یہاں رہ جائے گا


راکھ سے میری چتا کی اس کی آنکھوں میں خیالؔ

اور یہ دو چار دن شور فغاں رہ جائے گا


پریہ درشی ٹھا کرخیال


محمد عمران بشیر

 آبشاروں سے دوستی کرلی

سب کناروں سے دوستی کرلی


دوستا تجھ سے دوستی کرکے

سب خساروں سے دوستی کرلی


ہم خلا میں کسی جگہ پر تھے

پھر سیاروں سے دوستی کرلی


چاند کو چھوڑ کر سبھی نے ہی

کیوں ستاروں سے دوستی کرلی


آپ اپنی تلاش میں ہم نے

غم کہ ماروں سے دوستی کرلی


محمد عمران بشیر


رونق شہری

 یوم پیدائش 26 اپریل 1952


کج عمارت کی تو بنیاد ہی رکھی گئی ہے

منہدم ہونے کی میعاد ہی رکھی گئی ہے


آنکھ سے دل میں اترنے کا ہنر جانتا ہے

اہلیت اسمیں خداداد ہی رکھی گئی ہے


روز اجڑنے کے عمل سے بڑی ہلچل سی ہے

دل کی بستی مری آباد ہی رکھی گئی ہے


اس جگہ تزکرۂ نان جویں ہوگا ہی

جس جگہ خلقت ناشاد ہی رکھی گئی ہے


ظلم اور صبر کی تحدید نہیں ہو سکتی

جب معلق مری فریاد ہی رکھی گئی ہے


یہ کسی سمت کی محتاج نہیں ہے رونق

من کی چڑیا ہے جو آزاد ہی رکھی گئی ہے


رونق شہری


ندیم اعجاز

 کس سے رونا روئے کوئی اپنے ٹوٹے خوابوں کا

کب تک زندہ رہ لے کوئی بوجھ اٹھائے وعدوں کا


کل کی فکر مسلط سب پر کل جانے کیا ہو جائے

سر پر بوجھ لیے پھرتے ہو کیوں کل کے اندازوں کا


سہنے والے لوگ بہت ہیں کہنے والا کوئی نہیں

دیکھو کیسے کال پڑا ہے بستی میں آوازوں کا


فیاضی کیا خوب دکھائی ہے صیاد نے کیا کہنے

کاٹے بال و پر پنچھی کے حکم دیا پروازوں کا


مست نظر ساقی کی ہم پر بادل برکھا سب کچھ ہے

پھر ٹوٹے گا آج بھرم لو اپنے سبھی ارادوں کا


شامیں سرد ہوئیں ہیں پھر سے درد پرانے جاگیں گے

لوٹ آیا ہے پھر سے موسم بھولی بسری یادوں کا


دنیا داری کیسے گزری یہ بھی تو پوچھے گا وہ ندیم

حشر میں خالی کب پوچھے گا روزے اور نمازوں کا


ندیم اعجاز


سمیع احمد ثمر

 نہیں زور اتنا بلاؤں میں ہے 

اثر جتنا ماں کی دعاؤں میں ہے


 کیا کرتے ہیں جملہ بازی بہت

یہی وصف تو رہنماؤں میں ہے


 وہ گرویدہ سب کو بنانے لگا

بڑی دلکشی ان اداؤں میں ہے


 بناتی ہیں شاداب کھیتوں کو وہ

یہ طاقت فلک کی گھٹاؤں میں ہے


ثمرؔ جاں سے پیارا لگے ہے مجھے

فضا امن کی میرے گاؤں میں ہے


سمیع احمد ثمر


محمد ولی صادقؔ

 یوم پیدائش 25 اپریل


ہوائے تیز کبھی دھوپ سخت جھیلتا ہوں

مصیبتوں کو مثالِ درخت جھیلتا ہوں


خدا نے کڑوی دواؤں میں ہے شفا رکھی

بڑوں کا اس لئے لہجہ کرخت جھیلتا ہوں


شَجَر کے سائے میں ہوتا تھا وصل دونوں کا

سو آج ہجر بھی زیرِ درخت جھیلتا ہوں


سکونِ قلب نہ آسائشوں میں ڈھونڈ کبھی

فقیر مست زمیں پر٬ میں تخت جھیلتا ہوں


تو جانتا ہے میں کیوں خون تھوکتا ہوں یہاں؟

وہ صدمۂ جگرِ لخت لخت جھیلتا ہوں


سکوت٬ ہجر٬ اداسی٬ سیاہ رات کا دکھ

یہ درد وہ ہیں جو میں تیرہ بخت جھیلتا ہوں


بھٹک رہا ہوں لیئے جسمِ نا تواں صادقؔ

تھکن سے چور بدن پر میں رخت جھیلتا ہوں


محمد ولی صادقؔ


Saturday, April 24, 2021

اسامہ طاہر

 کہ ہم سے بے سہاروں کو اذیت ڈھانپ لیتی ہے 

وہاں سے بچ نکل آئیں تو وحشت ڈھانپ لیتی ہے 


کسی کی یاد ایسی ہے ہمیں ہنسنے نہیں دیتی 

ہماری ساری خوشیاں تو محبت ڈھانپ لیتی ہے 


کسی سے بھی گلہ کرتا نہیں تیرے رونے کا 

اُداسی کو یہ دنیاوی تھکاوٹ ڈھانپ لیتی ہے 


کوئی مرتا نہیں ہے دور جانے پر کسی کے اب 

یہاں سب کو کوئی نہ کوئی چاہت ڈھانپ لیتی ہے 


ہماری تو وفاداری بھی جھوٹی لگتی دنیا کو 

تمہاری بیوفائی کو نزاکت ڈھانپ لیتی ہے 


یہاں پر لوگ بکتے ہیں جسے چاہو خریدو تم 

یہاں پر سب گناہوں کو یہ دولت ڈھانپ لیتی ہے 


ہماری زندگی ہے اس قدر سچی اداکاری 

فسانے سے نکلتے ہیں حقیقت ڈھانپ لیتی ہے 


 اُسامہ طاہر


واحد کشمیری

 بڑے لاچار ہیں کیا مانگتے ہیں

سکوں کے ساتھ جینا مانگتے ہیں


نہ کچھ تیرا نہ میرا مانگتے ہیں

یہ خود پر اپنا قبضہ مانگتے ہیں


نہ کرسی نا خزینہ مانگتے ہیں

یہ محنت کش پسینہ مانگتے ہیں


بڑ ی مدت سے دھر نا چل رہا ہے

کرشی قانون ٹلنا مانگتے ہیں


کسانوں سے زمینیں چھین لو اب

یہ اپنا اپنا حصّہ مانگتے ہیں


یہ غیرت اور عزت سے ہمیشہ

بڑی خوشحال دُنیا مانگتے ہیں


کرے پرواہ کوئی بھی نہ واحد

یہ بچے ہیں کھلونا مانگتے ہیں


واحد کشمیری


زاہد فتح پوری

 چھوڑئیے قصۂ ماضی کو نہ اب یاد کر یں

آئیے پھر دلِ ویراں کو ہم آباد کر میں


قدر آزادئ گلشن کی نہ جانی ہم نے

ہم کو کب حق ہے کہ ہم شکوۂ صیاد کریں


پوچھتے ہیں سبھی تاراجیء گلشن کا سبب

ہم تو خاموش ہیں کچھ آپ ہی ارشاد کریں


غم کے ماروں کو ہے اک موجِ تبسم کافی

آپ چاہیں تو علاجِ دل ناشاد کریں


زندگی اپنی کچھ اس طرح گزار اے زاہد

بھولنے والے بھی تاعمر تجھے یاد کریں


زاہد فتح پوری


ستیہ پال آنند

 نظم:- انّا للٰہ و انّا الیہ راجعون


ایک مردہ تھا جسے میں خود اکیلا

اپنے کندھوں پر اٹھائے

آج آخر دفن کر کے آ گیا ہوں

بوجھ بھاری تھا مگر اپنی رہائی کے لیے

بے حد ضروری تھا کہ اپنے آپ ہی اس کو اٹھاؤں

اور گھر سے دور جا کر دفن کر دوں


یہ حقیقت تھی کہ کوئی واہمہ تھا

پر یہ بدبو دار لاشہ

صرف مجھ کو ہی نظر آتا تھا، جیسے

ایک نادیدہ چھلاوا ہو مرے پیچھے لگا ہو

میرے کنبے کے سبھی افراد اس کی

ہر جگہ موجودگی سے بے خبر تھے

صرف میں ہی تھا جسے یہ

ٹکٹکی باندھے ہوئے بے نور آنکھوں سے ہمیشہ گھورتا تھا


آج جب میں

اپنے ماضی کا یہ مردہ دفن کر کے آ گیا ہوں


کیوں یہ لگتا ہے کہ میرا

حال بھی جیسے تڑپتا لمحہ لمحہ مر رہا ہو

اور مستقبل میں جب یہ حال بھی ماضی بنے گا

مجھ کو پھر اک بار اس مردے کو کندھوں پر اٹھائے

دفن کرنے کے لیے جانا پڑے گا


ستیہ پال آنند


تارا اقبال

 یوم پیدائش 24 اپریل


ہم سفر تھا ہی نہیں رخت سفر تھا ہی نہیں

کچھ گنوانے کا مجھے خوف و خطر تھا ہی نہیں


مجھ کو ہر شام جہاں لے کے توقع آئی

در و دیوار تو موجود تھے گھر تھا ہی نہیں


انگلیاں زخمی ہوئیں تب مجھے احساس ہوا

دستکیں دی تھیں جہاں پر وہاں در تھا ہی نہیں


مجھ سے ہی پوچھا کیے میرے بکھرنے کا سبب

اہل دانش میں کوئی اہل نظر تھا ہی نہیں


دھول اڑائی جہاں خوابوں میں مسلسل میں نے

کسی نقشے میں کہیں پر وہ نگر تھا ہی نہیں


کس پہ الزام رکھیں کس پہ لگائیں تہمت

میری مٹی میں سمٹنے کا ہنر تھا ہی نہیں


یاد اک شخص تھا اک نام ہی ازبر تاراؔ

سوا اس کے کوئی تا حد نظر تھا ہی نہیں


تارا اقبال


منیش شکلا

 یوم پیدائش 24 اپریل 1971


تو مجھ کو سن رہا ہے تو سنائی کیوں نہیں دیتا 

یہ کچھ الزام ہیں میرے صفائی کیوں نہیں دیتا 


مرے ہنستے ہوئے لہجے سے دھوکا کھا رہے ہو تم 

مرا اترا ہوا چہرہ دکھائی کیوں نہیں دیتا 


نظر انداز کر رکھا ہے دنیا نے تجھے کب سے 

کسی دن اپنے ہونے کی دہائی کیوں نہیں دیتا 


میں تجھ کو دیکھنے سے کس لیے محروم رہتا ہوں 

عطا کرتا ہے جب نظریں رسائی کیوں نہیں دیتا 


کئی لمحے چرا کر رکھ لیے تو نے الگ مجھ سے 

تو مجھ کو زندگی بھر کی کمائی کیوں نہیں دیتا 


خود اپنے آپ کو ہی گھیر کر بیٹھا ہے تو کب سے 

اب اپنے آپ سے خود کو رہائی کیوں نہیں دیتا 


میں تجھ کو جیت جانے کی مبارک باد دیتا ہوں 

تو مجھ کو ہار جانے کی بدھائی کیوں نہیں دیتا 


منیش شکلا


خلیل مرزا

 نظم........ محبت 

محبت عزم ہوتی ہے سراپا بزم ہوتی ہے

محبت ہی دلوں میں چاہتوں کی بزم ہوتی ہے

محبت دل کی دھڑکن ہے محبت ایک آہٹ ہے

محبت خوف کے لمحوں میں کوئی سنسناہٹ ہے

محبت کے شناسا پر محبت قرض ہوتی ہے

اگر ایمان ہو جائے محبت فرض ہوتی ہے 

محبت تیز ہوتی ہے بڑی بے لاگ ہوتی ہے 

محبت سرد ہوتی ہے مگر یہ آگ ہوتی ہے

محبت غم,محبت نم یہ بن کے پیاس آتی ہے

کسی کو توڑ دیتی ہے کسی کو راس آتی ہے

محبت آب ہے ایسا کسی کے زخم دھوتا ہے

کوئی ہنستا ہے الفت میں کوئی غمگین روتا ہے 

محبت بند کمرے میں بھی اکثر سانس لیتی ہے

یہی انجان لوگوں کو بھی خود میں پھانس لیتی ہے 

محبت استعارا ہے وفاوں کا جفاوں کا

سمندر میں اترتی کشتیوں کے ناخداوں کا

محبت روح کا مندر محبت من کے اندر بھی

محبت قطرہ بھی ہے اور اک گہرا سمندر بھی

محبت, قیس کو صحراوں میں لیلی دکھائی دے

یہی فرہاد کو کہسار میں رستہ دکھائی دے

محبت آئینہ ہے ہیر کو رانجھا دکھائی دے

محبت ہے تو سوہنی کو کہاں دریا دکھائی دے

محبت گنگناتی ہے محبت جھومتی بھی ہے

محبت زندگی کے دائرے میں گھومتی بھی ہے

محبت ایسی ناگن ہے جو تنہائی میں ڈستی ہے

یہ شہرِ عشق کے افراد کے ہر گھر میں بستی ہے

محبت امن کے لشکر کے ہر دل کی کہانی ہے

محبت عقلِ کامل بھی محبت اک دیوانی ہے

یہی ایمان سازی ہے یہی کردار سازی ہے

ہمیشہ جیت ہو جسکی محبت ایسی بازی ہے


خلیل مرزا


رشید علی مرکھیانی

 یوم پیدائش 23 اپریل


جس کی تحویل میں ٹوٹا تھا ستارہ دل کا

حال تک اس نے نہیں پوچھا دوبارہ دل کا


میں محبت کے سمندر میں اُتر آیا ہوں

ڈوب جانے کو ہے اب مجھ میں کنارہ دل کا


کاش کچھ وقت تُو رُک جائے مری محفل میں

کاش اے دوست سمجھ لے تُو اشارہ دل کا


میں نہ کہتا تھا محبت میں نہیں حاصل کچھ

میں نہ کہتا تھا کہ ہے عشق خسارہ دل کا


تجھ پہ مرتا ہے تو اس دل کو پشیمان نہ کر

کچھ بھرم رکھ لے محبت میں خدارا دل کا


یہ جو دنیا ہے! صحیفہ ہے کوئی دھیان سے پڑھ

یہ زمیں اصل میں ہے ایک سپارہ دل کا


ہم نے جتنا بھی کہا دل سے کہا ہے راشد

شعر میں لفظ نہیں خون اُتارا دل کا


راشد علی مرکھیانی


کفیل آزر امروہوی

 یوم پیدائش 23 اپریل 1940


اس کی آنکھوں میں اتر جانے کو جی چاہتا ہے

شام ہوتی ہے تو گھر جانے کو جی چاہتا ہے


کسی کم ظرف کو با ظرف اگر کہنا پڑے

ایسے جینے سے تو مر جانے کو جی چاہتا ہے


ایک اک بات میں سچائی ہے اس کی لیکن

اپنے وعدوں سے مکر جانے کو جی چاہتا ہے


قرض ٹوٹے ہوئے خوابوں کا ادا ہو جائے

ذات میں اپنی بکھر جانے کو جی چاہتا ہے


اپنی پلکوں پہ سجائے ہوئے یادوں کے دیے

اس کی نیندوں سے گزر جانے کو جی چاہتا ہے


ایک اجڑے ہوئے ویران کھنڈر میں آذرؔ

نا مناسب ہے مگر جانے کو جی چاہتا ہے


کفیل آزر امروہوی


رضی اختر شوق

 یوم پیدائش 23 اپریل 1933


جس نے بنایا ہر آئینہ میں ہی تھا

اور پھر اس میں اپنا تماشہ میں ہی تھا


میرے قتل کا جشن منایا دنیا نے

پھر دنیا نے دیکھا زندہ میں ہی تھا


محل سرا کے سب چہروں کو جانتا ہوں

جس سے گئے تھے دل تک راستہ میں ہی تھا


دیکھ لیا زندانوں کی دیواروں نے

ان سے قد میں بلند و بالا میں ہی تھا


میں ہی نہیں تو کون سے لوگ اور کیسے لوگ

کون سی دنیا صاحب دنیا میں ہی تھا


ملکوں ملکوں پھر کر خالی ہاتھ میاں

لوٹنے والا وہ شہزادہ میں ہی تھا


دنیا تو نے خالی ہاتھ مجھے جانا

ظالم تیرا سب سرمایہ میں ہی تھا


میرا سراغ لگانے والے جانتے ہیں

جب تک تھا میں اپنا حوالہ میں ہی تھا


رضی اختر شوق


احمد عاری

 جتنے میٹھے ہو اُتنے کھارے ہو

کون سے شہر کے دلارے ہو


کون دیکھے گا اب محبت سے

کون بولے گا تم ہمارے ہو

 

کس لیے ہم یقیں دلائیں تمہیں

تم ہمارے تھے تم ہمارے ہو


ساری جھیلیں تمہارے واسطے ہیں

اور سمندر کے تم کنارے ہو


معصومانہ تیری ادائیں ہیں 

اور سچ مچ میں کتنے پیارے ہو 


تم زمانے کی بھوک ہو مری جاں

اور غریبوں کے تم سہارے ہو


 احمد عاری


حنیف مانوس

 یوم پیدائش 22 اپریل 1952


تو میرا ہی ہوا نہیں

میں اتنا بھی برا نہیں


بہار ہے صبا بھی ہے

تو اک نہیں مزا نہیں


تو کائنات ہے فقط

خدا کی ہے، خدا نہیں


زمین میرے دل میں تھا

وہ آسماں دکھا نہیں


بلا کا رد ہے چپ مری

خموش ہوں برا نہیں


مرے نصیب کا دے تو

تو سیٹھ ہے خدا نہیں


یہ عشق کا تقاضا ہے

ترا نہیں مرا نہیں


بھرا ہے دفترِ گناہ

یہ دل مگر بھرا نہیں


وہ چاک پر خیال ہے

جو شعر میں ڈھلا نہیں


حنیف مانوس


ناوک حمزہ پوری

 یوم پیدائش 21 اپریل 1933


منکر کہتے ہیں اتفاقی ہے خدا

مذہب والوں کی خوش مذاقی ہے خدا

موت آئے گی سامنے تو ہوگا معلوم 

فانی ہر ایک چیز باقی ہے خدا

ناوک حمزہ پوری


بس ایک خدا سب کا خدا ہے بخدا

بس ایک وہی ہے لائق حمد و ثنا

دامن پھیلائیے اسی کے آگے

دینے والا نہیں کوئی اس کے سوا

ناوک حمزہ پوری


سورج کی شعاعوں میں ہے تیرا جلوہ

مہتاب میں عکس تجلی تیرا

کوئی نہیں ہاں کوئی نہیں تیرا شریک

اے خالق جن و بشر و ارض و سما

ناوک حمزہ پوری


بے صوت و صدا ہوئی نوائے مسلم

اللہ سے کٹ گئی ادائے مسلم

یورپ ہو کہ ایشیاء عرب ہو کہ عجم

بے وجہ نہیں اکھڑی ہوائے مسلم 

ناوک حمزہ پوری


سید احتشام حسین

 یوم پیدائش 21 اپریل 1912


کچھ مرے شوق نے در پردہ کہا ہو جیسے

آج تم اور ہی تصویر حیا ہو جیسے


یوں گزرتا ہے تری یاد کی وادی میں خیال

خارزاروں میں کوئی برہنہ پا ہو جیسے


ساز نفرت کے ترانوں سے بہلتے نہیں کیوں

یہ بھی کچھ اہل محبت کی خطا ہو جیسے


وقت کے شور میں یوں چیخ رہے ہیں لمحے

بہتے پانی میں کوئی ڈوب رہا ہو جیسے


کیسی گل رنگ ہے مشرق کا افق دیکھ ندیم

ندی کا خوں رات کی چوکھٹ پہ بہا ہو جیسے


یا مجھے وہم ہے سنتا نہیں کوئی میری

یا یہ دنیا ہی کوئی کوہ ندا ہو جیسے


بحر ظلمات جنوں میں بھی نکل آئی ہے راہ

عشق کے ہاتھ میں موسیٰ کا عصا ہو جیسے


دل نے چپکے سے کہا کوشش ناکام کے بعد

زہر ہی درد محبت کی دوا ہو جیسے


دیکھیں بچ جاتی ہے یا ڈوبتی ہے کشتئ شوق

ساحل فکر پہ اک حشر بپا ہو جیسے


سیداحتشام حسین


عارف امام

 یوم پیدائش 21 اپریل 1956


کیا کیجیے سخن یہاں سجدہ کیے بغیر

مانا گیا ہمیں کوئی دعویٰ کیے بغیر


یکتائی اُس سے پوچھ کہ اک عمر تک جسے

تنہا رکھا گیا ہو اکیلا کیے بغیر


پل بھر کو بھی نظر نہ ہٹی چارہ ساز سے

اُس نے بھی آنکھ پھیری نہ اچّھا کیے بغیر


رقصِ نشاطِ دید میں جاں سے گزر گیے

برسوں پڑے رہے تھے تماشا کیے بغیر


اُس نے بھی کب نگاہ میں تولا تھا کوئی اور

ہم بھی غلام ہوگیے سودا کیے بغیر


وحشت میں بھی لحاظ ہے تہذیبِ عشق کا

مَیلے ہوئے ہیں داغ کو دھبّا کیے بغیر


بہتا رہے لہو تو اُکھڑتا نہیں ہے دم

جیتے نہیں ہیں زخم کو گہرا کیے بغیر


اونچا ہوئے بغیر بریدہ نہیں ہے سر

بجھتا نہیں چراغ اجالا کیے بغیر


کس خارِ نوک دار سے پھوڑا نہ آبلہ؟

چھوڑا کوئی ببول نہ غنچہ کیے بغیر


مردِ نبرد ہے وہ علم دارِ موزُوں قد

لڑتا نہیں کفن کو پھریرا کیے بغیر


دربار میں خطاب یہ کس بے ردا کا تھا؟

سنتے تھے سب نگاہ کو اونچا کیے بغیر


سینچی نہ وہ زمیں جو ہماری نہ ہوسکی

باندھا کوئی خیال نہ اپنا کیے بغیر


پلٹی ہے جانماز نہ پھیرا کبھی سلام

شکرِ خدا بغیر نہ گریہ کیے بغیر


 عارف امام


جمال احسانی

 وہ لوگ میرے بہت پیار کرنے والے تھے

گزر گئے ہیں جو موسم گزرنے والے تھے


نئی رتوں میں دکھوں کے بھی سلسلے ہیں نئے

وہ زخم تازہ ہوئے ہیں جو بھرنے والے تھے


یہ کس مقام پہ سوجھی تجھے بچھڑنے کی

کہ اب تو جا کے کہیں دن سنورنے والے تھے


ہزار مجھ سے وہ پیمان وصل کرتا رہا

پر اس کے طور طریقے مکرنے والے تھے


تمہیں تو فخر تھا شیرازہ بندیٔ جاں پر

ہمارا کیا ہے کہ ہم تو بکھرنے والے تھے


تمام رات نہایا تھا شہر بارش میں

وہ رنگ اتر ہی گئے جو اترنے والے تھے


اس ایک چھوٹے سے قصبے پہ ریل ٹھہری نہیں

وہاں بھی چند مسافر اترنے والے تھے


جمال احسانی


ایس ڈی عابد

 صبحِ مغرور کو ہے شام بھی ہوتے دیکھا

نامور شخص کو گمنام بھی ہوتے دیکھا


حُسن سے آنکھ ملانے کی حماقت کر کے

ہم نے انسان کو نیلام بھی ہوتے دیکھا 


جس کی امید کبھی تھی ہی نہیں ہونے کی

اپنی آنکھوں سے وہی کام بھی ہوتے دیکھا


جو زمانے میں کبھی خاص ہوئے پھرتے تھے

پھر زمانے نے اُنہیں عام بھی ہوتے دیکھا 


جو سمجھتے تھے کہ ناکام نہیں ہو سکتے

شہر بھر نے انہیں ناکام بھی ہوتے دیکھا 


کتنا دلکش تھا یہ آغازِ محبت لیکن  

اے محبت ترا انجام بھی ہوتے دیکھا 


اک زمانے میں جو انمول تھے عابدؔ میں نے  

ایسے اشخاص کو بے دام بھی ہوتے دیکھا 


 ایس،ڈی،عابدؔ


پیر اسد کمال

 یوم پیدائش 20 اپریل 1982

 

کہانی کار کہتا ہے سبھی کردار بکتے ہیں 

سبھی کردار بکتے ہیں کہانی کار بکتے ہیں 


فقط اتنا بتا دیجے کہ صاحب کیا خریدیں گے

یہاں مضمون بکتے ہیں یہاں اشعار بکتے ہیں


میں اپنے اشک پیتا ہوں بہت مشکل سے جیتا ہوں 

محبت ظلم ڈھاتی ہے مرے اعزار بکتے ہیں 


اگر فن روگ بن جائے بدن کا سوگ بن جائے 

تو پھر حالات کے ہاتھوں سبھی فنکار بکتے ہیں 


ہمارے عکس حیرت کی نئی تعبیر ہیں صاحب

ہمارے آئنہ خانے پسِ زنگار بکتے ہیں 


میں کس جنگل کا باسی ہوں اسد ہوں یا میں آسی ہوں 

کہ میرے سامنے اکثر میرے اشجار بکتے ہیں


پیر اسد کمال


جاوید جدون

 یوم پیدائش 20 اپریل 1977


کہ جیسے ایک چنگاری جلائے راکھ ہونے تک

نہیں جھکتی یوں ہی گردن ہماری خاک ہونے تک


ابھی ہوں اس قدر سادہ محبت کر نہیں سکتا

تو میری سادگی پہ مر مرے چالاک ہونے تک


نہ جانے رو پڑا وہ کیوں لہو میرا جو ٹپکا تو

ستم جس نے کیے مجھ پر جگر کے چاک ہونے تک


بہا کر لے گئے آنسو تجھے تیرے ٹھکانے سے

بسا تھا تو ان آنکھوں میں مگر نمناک ہونے تک


جو مجھ کو کاٹنے میں ہر گھڑی مصروف تھے ان کو

دیا ہے سائباں میں نے خس و خاشاک ہونے تک


ابھی روشن تو ہیں لیکن اُجالے ہم نہ لے پائے

یہ شمعیں بجھ چکی ہوں گی ہمیں ادراک ہونے تک


دعاٶں میں اثر ہو تو پہنچتی ہیں وہاں فوراً

نہیں لگتا انہیں اک پل پسِ افلاک ہونے تک


تجھے پہنائی ہے بیٹی تو اِس کی لاج بھی رکھنا

یہ میرے سر کی پگڑی تھی تری پوشاک ہونے تک


جاویدجدون


اختر ہوشیارپوری

 منزلوں کے فاصلے دیوار و در میں رہ گئے

کیا سفر تھا میرے سارے خواب گھر میں رہ گئے


اب کوئی تصویر بھی اپنی جگہ قائم نہیں

اب ہوا کے رنگ ہی میری نظر میں رہ گئے


جتنے منظر تھے مرے ہمراہ گھر تک آئے ہیں

اور پس منظر سواد رہ گزر میں رہ گئے


اپنے قدموں کے نشاں بھی بند کمروں میں رہے

طاقچوں پر بھی دیئے خالی نگر میں رہ گئے


کر گئی ہے نام سے غافل ہمیں اپنی شناخت

صرف آوازوں کے سائے ہی خبر میں رہ گئے


ناخداؤں نے پلٹ کر جانے کیوں دیکھا نہیں

کشتیوں کے تو کئی تختے بھنور میں رہ گئے


کیسی کیسی آہٹیں الفاظ کا پیکر بنیں

کیسے کیسے عکس میری چشم تر میں رہ گئے


ہاتھ کی ساری لکیریں پاؤں کے تلووں میں تھیں

اور میرے ہم سفر گرد سفر میں رہ گئے


کیا ہجوم رنگ اخترؔ کیا فروغ بوئے گل

موسموں کے ذائقے بوڑھے شجر میں رہ گئے


اختر ہوشیارپوری


اشفاق احمد صائم

 منزلوں کی اور جاتے سب اشارے مر گئے

آنکھ کی دہلیز پر جب خواب سارے مر گئے


لمحہ بھر کو چاند مٹھی میں چھپا کے رکھ لیا

لمحہ بھر میں دیکھ تو کتنے ستارے مر گئے


اُس نے جب اک پھول کے رخسار پر بوسہ دیا

تم نے دیکھا ہی نہیں کتنے نظارے مرگئے


پانیوں کی چاہ میں اُس کے قدم اُٹھے تو پھر

ہو گیا دریا سمندر اور کنارے مر گئے


اُس نے جب سر کو مرے کاندھے پہ آ کے رکھ دیا

پھر شجر دیوار و در اور سب سہارے مر گئے 


وقتِ رخصت حوصلہ جانے کہاں گم ہو گیا 

سوچ پاگل ہو گئی ، الفاظ سارے مر گئے 


اِس طرح صدقے اتارے اس نے اپنی ذات کے

اُس نے اپنے سر سے جتنے لوگ وارے مر گئے


اشفاق احمد صائم


ذاکر حسین ذاکر ہلسنکی

 دل شجر ہو جاۓگا جب بے اثر

وہ رہےگا بے محبت بے ثمر 


زخم ان کو میں دکھانے آ گیا

جو لئے نشتر کھڑے تھے منتظر


آنکھ سے ٹپکا تھا میرے ہی لہو

جان کر بنتے رہے وہ بے خبر 


میں رہا بت سادگی کا بن کے ہی

وہ اداکاری میں ٹھہرے خوب تر


ایک لغزش کیا ہوئ تھی راہ میں 

ہو گیا ہر راستہ ہی پر خطر


بھول کر مجھ کو گئ جو زندگی

میں رہوں ذاؔکر اسی کا عمر بھر


ذاکر حسین ذاکر ہلسنگی


ذوالفقار علی ذلفی

 زخم پر زخم کھانے کی عادت نہیں

اب مجھے دل لگانے کی عادت نہیں


میں تمہارا یقیں اب کروں کِس طرح

خود کو پاگل بنانے کی عادت نہیں


جو بُھلا دے اُسے بُھول جاتا ہوں میں

اپنے دل کو جلانے کی عادت نہیں


گر کِسی سے بھلائی نہ کر پاٶں تو

مجھ کو دل بھی دُکھانے کی عادت نہیں


رات دن سوچتا ہوں فقط میں تمہیں

مجھ کو سارے زمانے کی عادت نہیں


میں تو لِکھتا ہوں غزلیں تمہارے لئے

ہر کِسی کو سنانے کی عادت نہیں


ساتھ میرا مصیبت میں جو چھوڑ دے

اُس کو پھر آزمانے کی عادت نہیں


ہے وفا کی توقع اُسی سے مجھے

جِس کو وعدہ نِبھانے کی عادت نہیں


تھی طبیعت گلابوں سی پر اب مجھے

بِن ترے مسکرانے کی عادت نہیں


بُھول جاتا ہوں ذُلفی زمانے کو میں

ایک تجھ کو بُھلانے کی عادت نہیں


ذوالفقار علی ذُلفی


Friday, April 23, 2021

مبین ناظر

 جیتے رہنا ہی جینے کا ہرجانہ ہے 

مر ہی جاتے مگر جرم مر جانا ہے


بےرخی اپنی کب تک چھپاے ہوا

ٹوٹا شیشہ تو اک دن بکھر جانا ہے


جیسا بھی ہو سفر کاٹنا ہے ہمیں 

اور پھر لوٹ کے اپنے گھر جانا ہے 


کہنے کو ہے سفر یہ تمہارا مگر 

جاں وہ دیگا اشارہ ادھر جانا ہے 


چھوٹا سا مرحلہ زندگی ہے مگر

تا قیامت رہے نام کر جانا ہے


کون کب تک بسا کس کے دل میں مبین

ایک دن تجھ کو دل سے اتر جانا ہے


مبین ناظر


ریحانء محمد

 مسجد ہو یا مندر ہو کیا؟

تم میرا حتمی گھر ہو کیا؟


یہ حوریں تم سے جلتی ہیں؟

اچھا اتنی سندر ہو کیا؟


ہائے اتنا میٹھا لہجہ

تم اردو کی ٹیچر ہو کیا؟


یہ تیری پوجا کرتی ہیں

تم پریوں کی رہبر ہو کیا؟


اتنی میٹھی چائے جاناں

شوگر مل میں ورکر ہو کیا؟


اف دوزخ سے دھمکاتی ہو

تم عالم کی دختر ہو کیا؟


تم سے پوچھیں تو کھلتے ہیں

تم پھولوں کی افسر ہو کیا؟


تم سے پوچھیں گے سب حانی

تم شاعر کی ہمسر ہو کیا؟


ریحانءمحمد


محمد ہارون علی ماجد

 ترا خیال نہ کردے کہیں فنا ہم کو

اے یار اتنا مسلسل نہ یاد آ ہم کو


نئے مزاج نئی سوچ کے ہوے حامل

بدلتے وقت نے کتنا بدل دیا ہم کو


نشاطِ روح ودل کی تھی آروزو لیکن

سوائے درد کے کچھ بھی نہیں ملا ہم


کبھی تھے موم کی صورت پگھلنے والے ہم

فریبِ زیست نے پتھر بنا دیا ہم کو


قصور اتنا تھا حق کے لئے زباں کھولی 

ملی نا کردہ گناہوں کی پھر سزا ہم کو


بکھرنا طئے تھا ہمارا کہ قرب سے تیرے

ملا ہے جینے کا اے یار حوصلہ ہم کو


ہوئیں خطائیں بہت ہم سے روز وشب ماجد

کہ جبکہ اچھے برے کا شعور تھا ہم کو


محمد ہارون علی ماجد 


شائستہ کنول عالی

 ظلمت شب سے کہیں دور اجالا مچلے   

چاند مچلے تو کہیں چاند کا ہالہ مچلے 


روح کی بالکنی میں کوئی خوشبو پھیلے  

دل کے صحرا و بیابان میں لالہ مچلے 


فکر روشن ہو کسی پیار کے افسانے کی   

نوک خامہ میں کوئی مست مقالہ مچلے 


کوئی دلدار ملے "کے ٹو" کی چوٹی جیسا 

دل کے آنگن میں کوئی عشق ہمالہ مچلے 


مرے دل میں مرے بابا کی محبت دھڑکے 

میرے ماتھے پہ میری ماں کا حوالہ مچلے  


وجد میں جام دھمالی ہو صبوحی ناچے 

مے کدہ رقص کرے مے کا پیالہ مچلے  


آج خاموشی میں طوفان چھپا ہے عالی 

برف کے بوجھ تلے جیسے جوالا مچلے 


شائستہ کنول عالی


ماہ لقا چندا

 یوم پیدائش 18 اپریل 1768


گل کے ہونے کی توقع پہ جئے بیٹھی ہے

ہر کلی جان کو مٹھی میں لیے بیٹھی ہے


کبھی صیاد کا کھٹکا ہے کبھی خوف خزاں

بلبل اب جان ہتھیلی پہ لیے بیٹھی ہے


تیر و شمشیر سے بڑھ کر ہے تری ترچھی نگاہ

سیکڑوں عاشقوں کا خون کیے بیٹھی ہے


تیرے رخسار سے تشبیہ اسے دوں کیوں کر

شمع تو چربی کو آنکھوں میں دیئے بیٹھی ہے


تشنہ لب کیوں رہے اے ساقیٔ کوثر چنداؔ

یہ ترے جام محبت کو پیے بیٹھی ہے


ماہ لقا چندا


فرید جاوید

 یوم پیدائش 18 اپریل 1927


یہ کہاں سے موج طرب اٹھی کہ ملال دل سے نکل گئے

وہی صبح و شام جو تھے گراں نفس بہار میں ڈھل گئے


یہ دیار شوق ہے ہم نشیں یہاں لغزشوں میں بھی حسن ہے

جو مٹے وہ اور ابھر گئے جو گرے وہ اور سنبھل گئے


حسیں زندگی کی تلاش تھی ہمیں سر خوشی کی تلاش تھی

ہوئے زندگی سے جو آشنا تو جراحتوں سے بہل گئے


ترے سوگواروں کی زندگی کبھی مطمئن نہ گزر سکی

جو بجھی کبھی کوئی تشنگی کئی اور درد مچل گئے


مری آرزوؤں کے خواب تھے کہ فضائے حسن و شباب تھے

کہیں نکہتوں میں بکھر گئے کہیں رنگ و نور میں ڈھل گئے


انہیں راحتوں کا خیال ہے نہ صعوبتوں کا ملال ہے

جو تری تلاش میں چل پڑے جو تری طلب میں نکل گئے


ہے بھری بہار تو کیا کروں نہ ملے قرار تو کیا کروں

مرے سامنے ہیں وہ آشیاں جو بھری بہار میں جل گئے


فرید جاوید


نیاز احمد عاطر

 چھن گیا سائباں دربدر ہو گیا

مرگئی جب سے ماں دربدر ہو گیا


شہر بھی ہے وہی لوگ بھی ہیں وہی

ڈھونڈتے آشیاں دربدر ہو گیا


ہر گلی ہر سڑک دیکھی بھالی مری

ہاۓ قسمت کہاں دربدر ہو گیا


کوئلوں بلبلوں کا جو تھا ہم نوا

دیکھ لے باغباں دربدر ہو گیا


جھڑکیوں ہچکیوں کے سفر میں رہا

بخت کے درمیاں دربدر ہو گیا


اوڑھ کر وحشتیں پھرتا ہوں کوبہ کو

ٹھہروں میں اب کہاں در بدر ہو گیا


دکھ بھری زندگی لٹ گئی ہر خوشی

بول کر داستاں دربدر ہو گیا


اپنے حالات کا ستایا ہوا

آج مالک مکاں دربدر ہو گیا


نیاز احمد عاطر


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...