یوم پیدائش 29 نومبر 1852
پھری ہوئی مری آنکھیں ہیں تیغ زن کی طرف
چلا ہے چھوڑ کے بسمل مجھے ہرن کی طرف
بنایا توڑ کے آئینہ آئینہ خانہ
نہ دیکھی راہ جو خلوت سے انجمن کی طرف
رہ وفا کو نہ چھوڑا وہ عندلیب ہوں میں
چھٹا قفس سے تو پرواز کی چمن کی طرف
گریز چاہئے طول امل سے سالک کو
سنا ہے راہ یہ جاتی ہے راہزن کی طرف
سرائے دہر میں سوؤ گے غافلو کب تک
اٹھو تو کیا تمہیں جانا نہیں وطن کی طرف
جو اہل دل ہیں الگ ہیں وہ اہل ظاہر سے
نہ میں ہوں شیخ کی جانب نہ برہمن کی طرف
جہان حادثہ آگین میں بشر کا ورود
گزر حباب کا دریائے موجزن کی طرف
اسی امید پہ ہم دن خزاں کے کاٹتے ہیں
کبھی تو باد بہار آئے گی چمن کی طرف
بچھڑ کے تجھ سے مجھے ہے امید ملنے کی
سنا ہے روح کو آنا ہے پھر بدن کی طرف
گواہ کون مرے قتل کا ہو محشر میں
ابھی سے سارا زمانہ ہے تیغ زن کی طرف
خبر دی اٹھ کے قیامت نے اس کے آنے کی
خدا ہی خیر کرے رخ ہے انجمن کی طرف
وہ اپنے رخ کی صباحت کو آپ دیکھتے ہیں
جھکے ہوئے گل نرگس ہیں یاسمن کی طرف
تمام بزم ہے کیا محو اس کی باتوں میں
نظر دہن کی طرف کان ہے سخن کی طرف
اسیر ہو گیا دل گیسوؤں میں خوب ہوا
چلا تھا ڈوب کے مرنے چہ ذقن کی طرف
یہ میکشوں کی ادا ابر تر بھی سیکھ گئے
کنار جو سے جو اٹھے چلے چمن کی طرف
زہے نصیب جو ہو کربلا کی موت اے نظمؔ
کہ اڑ کے خاک شفا آئے خود کفن کی طرف
نظم طباطبائی