Urdu Deccan

Tuesday, November 30, 2021

عاصم اعجاز

 یوم پیدائش 29 نومبر 1971


ترے بیمار سے الجھا ہوا ہے 

مرے محسن کو جانے کیا ہوا ہے 


سفینہ ساحلوں تک آ تو جائے 

ہوا نے راستہ بدلا ہوا ہے 


فضا میں تشنگی پھیلی ہوئی ہے 

مسافر دشت میں ٹھہرا ہوا ہے 


اکٹھے گھومتے ہیں قیس و لیلیٰ 

زمانہ اسقدر بدلا ہوا ہے 


میں اب تک گر گیا ہوتا زمیں پر 

کسی کے ہاتھ نے تھاما ہوا ہے 


تری جانب قدم اٹھتے نہیں ہیں 

مجھے حالات نے روکا ہوا ہے 


ادھوری خواہشیں کب تک سمیٹوں 

یہ ملبہ دور تک بکھرا ہوا ہے 


 اندھیروں کا ہمارے گھر کے عاصمؔ 

پس دیوار بھی چرچا ہوا ہے


عاصم اعجاز


ظریف جبلپوری

 یوم پیدائش 30 نومبر 1913


نمائش کا سجدہ


فرشتوں کو جب سے عداوت نہیں ہے

محبت ابھی تک محبت نہیں ہے 


اگر عاشقی میں سیاست نہیں ہے

حسینوں کے دل پر حکومت نہیں ہے


جھکانے کو ہر درد پہ سر تو جھکا دوں

نمائش کا سجدہ عبادت نہیں ہے


میں عاشق ہو مفلس ہوں ہے چاکدامن

مگر میرے چہرے پہ وحشت نہیں ہے


وہ اتوار کو مجھ سے مل جائیں آکر

سنیچر کے دن نیک ساعت نہیں ہے


مجھے میرے سرکار دفتر ہے پیارا 

مجھے دل لگانے کی فرصت نہیں ہے


عجب کار فرما ہے ان کا تصور

کہ فرقت بھی رنج فرقت نہیں ہے


مجھے ناز بردار اپنا بنا لو

تمہاری سمجھ میں نزاکت نہیں ہے


میرے غم کدے میں نہ بجلی نہ بتی

دل جل رہا ہے تو ظلمت نہیں ہے


الٹ دیں امیروں کا یہ تخت شاہی

فقیروں کی ڈنڈے میں طاقت نہیں ہے


تمہاری ہی خاطر یہ قربانیاں ہیں

رقیبوں سے بھی مجھ کو عداوت نہیں ہے


لکھا نام اپنا وردی پہن جنگ پر جا

ذرا تجھ کو شوق شہادت نہیں ہے


اٹھالے بیاباں وحشت کو سر پر 

محبت میں کیا اتنی طاقت نہیں ہے


مرا خانہء دل دیکھا تو بولے

ہے ویسے تو اچھا کھلی چھت نہیں ہے


ظریف ایسی الفت سے باز آئے ہم تو

کہ جسمیں مصیبت ہے راحت نہیں ہے


ظریف جبلپوری


مولانا عامر عثمانی

 یوم پیدائش 30 نومبر 1920


عشق کے مراحل میں وہ بھی وقت آتا ہے

آفتیں برستی ہیں دل سکون پاتا ہے


آزمائشیں اے دل سخت ہی سہی لیکن

یہ نصیب کیا کم ہے کوئی آزماتا ہے


عمر جتنی بڑھتی ہے اور گھٹتی جاتی ہے

سانس جو بھی آتا ہے لاش بن کے جاتا ہے


آبلوں کا شکوہ کیا ٹھوکروں کا غم کیسا

آدمی محبت میں سب کو بھول جاتا ہے


کارزار ہستی میں عز و جاہ کی دولت

بھیک بھی نہیں ملتی آدمی کماتا ہے


اپنی قبر میں تنہا آج تک گیا ہے کون

دفتر عمل عامرؔ ساتھ ساتھ جاتا ہے


عامر عثمانی


زین احترام

 چار دن کی یہ زندگانی ہے

موت بر حق ہے سب کو آنی ہے


پھر یہ طاقت نہیں رہے شاید

 کر لے سجدے ابھی جوانی ہے


عقل کہتی رہی خسارہ ہے

عشق نے بات کس کی مانی ہے


 گفتگو نے بتا دیا اس کی

مفلسی میں بھی خاندانی ہے


زین تو روح کو سنوارا کر

روح باقی ہے جسم فانی ہے


زین احترام


کاشف ظریف

 یوم پیدائش 29 نومبر 


لقمہ ذرا حرام کا ٹھونسا نہ پیٹ میں

اس نے ہوس تو ڈالنی چاہی پلیٹ میں


اس کے لبوں کا میٹھا مِرے منہ میں بھر گیا

اتنی نہیں مٹھاس ملی چاکلیٹ میں


میں آگ ہوں جو مجھ کو سمجھتا ہے آبِ جو

آئے گا ایک روز وہ میری لپیٹ میں


پرکھوں کی یادگار ہے سونے سا ظرف یہ

اور مانگتے ہو تم اسے پیتل کے ریٹ میں


اس کو کھنڈر نہ جان یہی تھا کبھی محل

چمگادڑیں ہو دیکھتے جس خستہ گیٹ میں


وہ ہٹ گیا رسولِ محبت کی راہ سے

انسانیت کا قتل جو کرتا ہے ہیٹ میں


کاشف ظریف


سید مرتضی بسمل

 یوم پیدائش 29 نومبر


درد ہے وحشت ہے اور دل کا عذاب

ہر طرف ظلمت ہے اور دل کا عذاب


کچھ خزانہ ہے نہیں اس کے بغیر

دیکھ لو، فرقت ہے اور دل کا عذاب


یہ اذیت ختم ہو سکتی نہیں

تا ابد آفت ہے اور دل کا عذاب


پاس میرے نوکری جب ہے نہیں

لازمی ذلّت ہے اور دل کا عذاب


ہے اثاثہ زندگی کا بس یہی

یاد ہے خلوت ہے اور دل کا عذاب


یہ عذابِ مرگ بسمل کچھ نہیں

بس کٹھن چاہت ہے اور دل کا عذاب


سید مرتضیٰ بسمل


آنس معین

 یوم پیدائش 29 نومبر 1960


یہ قرض تو میرا ہے چکائے گا کوئی اور

دکھ مجھ کو ہے اور نیر بہائے گا کوئی اور


کیا پھر یوں ہی دی جائے گی اجرت پہ گواہی

کیا تیری سزا اب کے بھی پائے گا کوئی اور


انجام کو پہنچوں گا میں انجام سے پہلے

خود میری کہانی بھی سنائے گا کوئی اور


تب ہوگی خبر کتنی ہے رفتار تغیر

جب شام ڈھلے لوٹ کے آئے گا کوئی اور


امید سحر بھی تو وراثت میں ہے شامل

شاید کہ دیا اب کے جلائے گا کوئی اور


کب بار تبسم مرے ہونٹوں سے اٹھے گا

یہ بوجھ بھی لگتا ہے اٹھائے گا کوئی اور


اس بار ہوں دشمن کی رسائی سے بہت دور

اس بار مگر زخم لگائے گا کوئی اور


شامل پس پردہ بھی ہیں اس کھیل میں کچھ لوگ

بولے گا کوئی ہونٹ ہلائے گا کوئی اور


آنس معین


افسر میرٹھی

 یوم پیدائش 29 نومبر 1895


رونقوں پر ہیں بہاریں ترے دیوانوں سے

پھول ہنستے ہوئے نکلے ہیں نہاں خانوں سے


لاکھ ارمانوں کے اجڑے ہوئے گھر ہیں دل میں

یہ وہ بستی ہے کہ آباد ہے ویرانوں سے


لالہ زاروں میں جب آتی ہیں بہاریں ساقی

آگ لگ جاتی ہے ظالم ترے پیمانوں سے


اب کوئی دیر میں الفت کا طلب گار نہیں

اٹھ گئی رسم وفا ہائے صنم خانوں سے


پاس آتے گئے جس درجہ بیابانوں کے

دور ہوتے گئے ہم اور بیابانوں سے


اب کے ہم راہ گزاریں گے جنوں کا موسم

دامنوں کی یہ تمنا ہے گریبانوں سے


اس زمانے کے وہ مے نوش وہ بدمست ہیں ہم

پارسا ہو کے نکلتے ہیں جو مے خانوں سے


ہائے کیا چیز ہے کیفیت سوز الفت

کوئی پوچھے یہ ترے سوختہ سامانوں سے


پھر بہار آئی جنوں خیز ہوائیں لے کر

پھر بلاوے مجھے آتے ہیں بیابانوں سے


خاک کس مست محبت کی ہے ساقی ان میں

کہ مجھے بوئے وفا آتی ہے پیمانوں سے


غیر کی موت پہ وہ روتے ہیں اور ہم افسرؔ

زہر پیتے ہیں چھلکتے ہوئے پیمانوں سے


افسر میرٹھی


نعیم طباطبائی

 یوم پیدائش 29 نومبر 1852


پھری ہوئی مری آنکھیں ہیں تیغ زن کی طرف

چلا ہے چھوڑ کے بسمل مجھے ہرن کی طرف


بنایا توڑ کے آئینہ آئینہ خانہ

نہ دیکھی راہ جو خلوت سے انجمن کی طرف


رہ وفا کو نہ چھوڑا وہ عندلیب ہوں میں

چھٹا قفس سے تو پرواز کی چمن کی طرف


گریز چاہئے طول امل سے سالک کو

سنا ہے راہ یہ جاتی ہے راہزن کی طرف


سرائے دہر میں سوؤ گے غافلو کب تک

اٹھو تو کیا تمہیں جانا نہیں وطن کی طرف


جو اہل دل ہیں الگ ہیں وہ اہل ظاہر سے

نہ میں ہوں شیخ کی جانب نہ برہمن کی طرف


جہان حادثہ آگین میں بشر کا ورود

گزر حباب کا دریائے موجزن کی طرف


اسی امید پہ ہم دن خزاں کے کاٹتے ہیں

کبھی تو باد بہار آئے گی چمن کی طرف


بچھڑ کے تجھ سے مجھے ہے امید ملنے کی

سنا ہے روح کو آنا ہے پھر بدن کی طرف


گواہ کون مرے قتل کا ہو محشر میں

ابھی سے سارا زمانہ ہے تیغ زن کی طرف


خبر دی اٹھ کے قیامت نے اس کے آنے کی

خدا ہی خیر کرے رخ ہے انجمن کی طرف


وہ اپنے رخ کی صباحت کو آپ دیکھتے ہیں

جھکے ہوئے گل نرگس ہیں یاسمن کی طرف


تمام بزم ہے کیا محو اس کی باتوں میں

نظر دہن کی طرف کان ہے سخن کی طرف


اسیر ہو گیا دل گیسوؤں میں خوب ہوا

چلا تھا ڈوب کے مرنے چہ ذقن کی طرف


یہ میکشوں کی ادا ابر تر بھی سیکھ گئے

کنار جو سے جو اٹھے چلے چمن کی طرف


زہے نصیب جو ہو کربلا کی موت اے نظمؔ

کہ اڑ کے خاک شفا آئے خود کفن کی طرف


نظم طباطبائی


علی سردار جعفری

 یوم پیدائش 29 نومبر 1913


کام اب کوئی نہ آئے گا بس اک دل کے سوا

راستے بند ہیں سب کوچۂ قاتل کے سوا


باعث رشک ہے تنہا رویٔ رہ رو شوق

ہم سفر کوئی نہیں دورئ منزل کے سوا


ہم نے دنیا کی ہر اک شے سے اٹھایا دل کو

لیکن ایک شوخ کے ہنگامۂ محفل کے سوا


تیغ منصف ہو جہاں دار و رسن ہوں شاہد

بے گنہ کون ہے اس شہر میں قاتل کے سوا


جانے کس رنگ سے آئی ہے گلستاں میں بہار

کوئی نغمہ ہی نہیں شور سلاسل کے سوا


علی سردار جعفری


شہاب الدین شاہ قنوجی

 یوم پیدائش 28 نومبر


نعتِ رسولِ مقبولﷺ 


نہیں   ہے   نہیں   ہے   زمیں  آسماں میں 

نہیں آپﷺ  جیسا کوئی دو جہاں میں


تھیں عرشِ  بریں  پر   وہ  دونوں ہی ذاتیں

نہ تھا اور  کوئی  وہاں  درمیاں  میں


محمدﷺ  سا کوئی ہوا  ہے نہ  ہو  گا

وہ بستے ہیں دائم مرے جسم و جاں میں


محمدﷺ  ہیں  احمد  ہیں  قاسم  مدثر 

خدا کے ہیں محبوب وہ دو جہاں میں


جاوید قیصرانی


جاوید قیصرانی

 یوم پیدائش 28 نومبر


نعتِ رسولِ مقبولﷺ 


نہیں ہے نہیں ہے زمیں آسماں میں 

نہیں آپﷺ جیسا کوئی دو جہاں میں


تھیں عرشِ بریں پر وہ دونوں ہی ذاتیں

نہ تھا اور کوئی وہاں درمیاں میں


محمدﷺ سا کوئی ہوا ہے نہ ہو گا

وہ بستے ہیں دائم مرے جسم و جاں میں


محمدﷺ ہیں احمد ہیں قاسم مدثر 

خدا کے ہیں محبوب وہ دو جہاں میں


جاوید قیصرانی


درویش ڈار

 یوم پیدائش 28 نومبر 1968


مثلِ زندان بخت ہے شاید

زندگی لخت لخت ہے شاید


ساکنانِ وطن پریشاں ہیں

حلقہِ طوق سخت ہے شاید


شوقِ گفتار ہے مگر خاموش

شوخ لہجہ کرخت ہے شاید


طائرانِ چمن سے لگتا ہے

ایک بوڑھا درخت ہے شاید


بے نیازی ہے یا غنا ، ورنہ

حاصلِ عمر تخت ہے شاید


قافلہ کوچ کرنے والا ہے

ختم ہونے کو رخت ہے شاید


حسرتِ عمر مر گئی درویش

یہ جبیں تیرہ بخت ہے شاید


درویش ڈار


منظور فائز

 یوم پیدائش 27 نومبر


سو کے پتھر پہ کبھی دیکھ کہ سونا کیا ہے 

تاکہ معلوم تجھے ہو یہ بچھونا کیا ہے 


میری تنہائی کسی روز جو مجھ سے کھیلے 

عین ممکن ہے سمجھ جاوں کھلونا کیا ہے  


بیج کوئی بھی ہو وہ جڑ تو پکڑ ہی لے گا

طے یہ کرنا ہے کہ نم خاک میں بونا کیا ہے


یوں نہ ہونے پہ مرے تجھ کو نہ حیرت ہو گی 

میں اگر تجھ کو بتا دوں کہ یہ ہونا کیا ہے 


ذکر وحشت میں اگر ٹوٹ گری ہے فائز 

چھوڑ تسبیح کے دانوں کو پرونا کیا ہے


منظور فائز


غلام سرور

 تم نے اہلِ وطن کو ہے دھوکا دیا

جھوٹ پر جھوٹ تم نے ہمیشہ کہا


تو وفادار ہے کہتے تھے یہ سبھی

جا نتے تھے تجھے تو فرشتہ سبھی 


جو دیا تھا تجھے اب وہ بھی نہ بچا

واسطے رب کے اب جھوٹ نہ ہی رچا


تیرے کرموں سے غافل رہا نہ کوئی

سب سمجھتے ہیں ، جاہل رہا نہ کوئی


بیچ کر تم نے ایمان، سودا کیا

 اپنے وعدےکو ہر گز نہ پورا کیا


سانس لینا یہاں آج دشوار ہے

 ہر طرف ظلم ہے ایسی سرکار ہے


غلام سرور


اظہر اقبال

 یوم پیدائش 28 نومبر 1978


گھٹن سی ہونے لگی اس کے پاس جاتے ہوئے 

میں خود سے روٹھ گیا ہوں اسے مناتے ہوئے 


یہ زخم زخم مناظر لہو لہو چہرہ 

کہاں چلے گئے وہ لوگ ہنستے گاتے ہوئے 


نہ جانے ختم ہوئی کب ہماری آزادی 

تعلقات کی پابندیاں نبھاتے ہوئے 


ہے اب بھی بستر جاں پر ترے بدن کی شکن 

میں خود ہی مٹنے لگا ہوں اسے مٹاتے ہوئے 


تمہارے آنے کی امید بر نہیں آتی 

میں راکھ ہونے لگا ہوں دئیے جلاتے ہوئے


اظہر اقبال


نور جہاں ثروت

 یوم پیدائش 28 نومبر 1940


پیاس جو بجھ نہ سکی اس کی نشانی ہوگی

ریت پر لکھی ہوئی میری کہانی ہوگی


وقت الفاظ کا مفہوم بدل دیتا ہے

دیکھتے دیکھتے ہر بات پرانی ہوگی


کر گئی جو مری پلکوں کے ستارے روشن

وہ بکھرتے ہوئے سورج کی نشانی ہوگی


پھر اندھیرے میں نہ کھو جائے کہیں اس کی صدا

دل کے آنگن میں نئی شمع جلانی ہوگی


اپنے خوابوں کی طرح شاخ سے ٹوٹے ہوئے پھول

چن رہی ہوں کوئی تصویر سجانی ہوگی


بے زباں کر گیا مجھ کو تو سوالوں کا ہجوم

زندگی آج تجھے بات بنانی ہوگی


کر رہی ہے جو مرے عکس کو دھندلا ثروتؔ

میں نے دنیا کی کوئی بات نہ مانی ہوگی


نور جہاں ثروت


Monday, November 29, 2021

کرشن موہن

 یوم پیدائش 28 نومبر 1922


بھٹک کے راہ سے ہم سب کو آزما آئے

فریب دے گئے جتنے بھی رہنما آئے


ہم ان کو حال دل زار بھی سنا آئے

کمال جرات اظہار بھی دکھا آئے


کریں تو کس سے کریں ذکر خانہ ویرانی

کہ ہم تو آگ نشیمن کو خود لگا آئے


خیال وصل میں رہتے ہیں رات بھر بیدار

تمہارے ہجر کے ماروں کو نیند کیا آئے


رہین عیش و طرب ہیں جو روز و شب ان کو

پسند کیسے مرے غم کا ماجرا آئے


کبھی ہمیں بھی میسر ہو روٹھنا ان سے

کبھی ہمارے بھی دل میں یہ حوصلہ آئے


ہر اک سے پوچھتے ہیں حال کرشن موہنؔ کا

جسے ادائے ستم سے وہ خود مٹا آئے


کرشن موہن


شمشاد شاد

 فلک سے لے کے اجالے زمیں پہ رک جانا

مگر ہو شام جہاں بھی وہیں پہ رک جانا


گراں گزرتا ہے مجھ پر ترا یہ طرز سفر

سفر کے بیچ یکایک کہیں پہ رک جانا


جہاں ضمیر اشارہ کرے ٹھہرنے کا

قدم نہ آگے بڑھانا وہیں پہ رک جانا


تو آس پاس کے منظر بھی دیکھنا لیکن

اے چشمِ شوق رخِ نازنیں پہ رک جانا


اے نامہ بر مرا پیغام یار کو دے کر

جواب لینے تلک تو وہیں پہ رک جانا


جو مجھ سے پہلے سفر پر نکلنا پڑ جائے 

تو میں جہاں بھی پکاروں وہیں پہ رک جانا


وہاں تو شور مسلسل ہے شاؔد سانسوں کا

یہاں سکون بہت ہے، یہیں پہ رک جانا


شمشاد شاؔد، ناگپور (انڈیا)



طالب باغپتی

 یوم پیدائش 27 نومبر 1903


یوں بھی ترا احسان ہے آنے کے لیے آ

اے دوست کسی روز نہ جانے کے لیے آ


ہر چند نہیں شوق کو یارائے تماشا

خود کو نہ سہی مجھ کو دکھانے کے لیے آ


یہ عمر، یہ برسات، یہ بھیگی ہوئی راتیں

ان راتوں کو افسانہ بنانے کے لیے آ


جیسے تجھے آتے ہیں نہ آنے کے بہانے

ایسے ہی بہانے سے نہ جانے کے لیے آ


مانا کہ محبت کا چھپانا ہے محبت

چپکے سے کسی روز جتانے کے لیے آ


تقدیر بھی مجبور ہے، تدبیر بھی مجبور

اس کہنہ عقیدے کو مٹانے کے لیے آ


عارض پہ شفق، دامن مژگاں میں ستارے

یوں عشق کی توقیر بڑھانے کے لیے آ


طالبؔ کو یہ کیا علم، کرم ہے کہ ستم ہے

جانے کے لیے روٹھ، منانے کے لیے آ


طالب باغپتی


سلیم احمد

 یوم پیدائش 27 نومبر 1927


زندگی موت کے پہلو میں بھلی لگتی ہے

گھاس اس قبر پہ کچھ اور ہری لگتی ہے


روز کاغذ پہ بناتا ہوں میں قدموں کے نقوش

کوئی چلتا نہیں اور ہم سفری لگتی ہے


آنکھ مانوس تماشا نہیں ہونے پاتی

کیسی صورت ہے کہ ہر روز نئی لگتی ہے


گھاس میں جذب ہوئے ہوں گے زمیں کے آنسو

پاؤں رکھتا ہوں تو ہلکی سی نمی لگتی ہے


سچ تو کہہ دوں مگر اس دور کے انسانوں کو

بات جو دل سے نکلتی ہے بری لگتی ہے


میرے شیشے میں اتر آئی ہے جو شام فراق

وہ کسی شہر نگاراں کی پری لگتی ہے


بوند بھر اشک بھی ٹپکا نہ کسی کے غم میں

آج ہر آنکھ کوئی ابر تہی لگتی ہے


شور طفلاں بھی نہیں ہے نہ رقیبوں کا ہجوم

لوٹ آؤ یہ کوئی اور گلی لگتی ہے


گھر میں کچھ کم ہے یہ احساس بھی ہوتا ہے سلیمؔ

یہ بھی کھلتا نہیں کس شے کی کمی لگتی ہے


سلیم احمد


شائستہ کنول علی

 ظلمت شب سے کہیں دور اجالا مچلے   

چاند مچلے تو کہیں چاند کا ہالہ مچلے 


روح کی بالکنی میں کوئی خوشبو پھیلے  

دل کے صحرا و بیابان میں لالہ مچلے 


فکر روشن ہو کسی پیار کے افسانے کی   

نوک خامہ میں کوئی مست مقالہ مچلے 


کوئی دلدار ملے "کے ٹو" کی چوٹی جیسا 

دل کے آنگن میں کوئی عشق ہمالہ مچلے 


مرے دل میں مرے بابا کی محبت دھڑکے 

میرے ماتھے پہ میری ماں کا حوالہ مچلے  


وجد میں جام دھمالی ہو صبوحی ناچے 

مے کدہ رقص کرے مے کا پیالہ مچلے  


آج خاموشی میں طوفان چھپا ہے عالی 

برف کے بوجھ تلے جیسے جوالا مچلے 


شائستہ کنول عالی


منور رانا

 یوم پیدائش 26 نومبر 1952


مٹی میں ملا دے کہ جدا ہو نہیں سکتا

اب اس سے زیادہ میں ترا ہو نہیں سکتا


دہلیز پہ رکھ دی ہیں کسی شخص نے آنکھیں

روشن کبھی اتنا تو دیا ہو نہیں سکتا


بس تو مری آواز سے آواز ملا دے

پھر دیکھ کہ اس شہر میں کیا ہو نہیں سکتا


اے موت مجھے تو نے مصیبت سے نکالا

صیاد سمجھتا تھا رہا ہو نہیں سکتا


اس خاک بدن کو کبھی پہنچا دے وہاں بھی

کیا اتنا کرم باد صبا ہو نہیں سکتا


پیشانی کو سجدے بھی عطا کر مرے مولیٰ

آنکھوں سے تو یہ قرض ادا ہو نہیں سکتا


دربار میں جانا مرا دشوار بہت ہے

جو شخص قلندر ہو گدا ہو نہیں سکتا


منور رانا


فاروق محور

 یوم پیدائش 25 نومبر


تری زلف کا میں اسیر ہوں ترے حسن کا میں فقیر ہوں 

وہ ادیب جس کی غزل ہے تو کہ خیال تیرے مجاز ہیں 


فاروق محور


ریاض ساغر


 یہ خواہشوں کے سمندر تمہیں ڈبو دیں گے

تم ان سے پیاس بجھانے کی التجا نہ کرو


ریاض ساغر

بقی استوری

 یوم پیدائش 25 نومبر


کسی اجنبی کے دیار پر نہیں جاؤں گا

میں خزاں رسیدہ بہار پر نہیں جاؤں گا


میں سوار ہو کے ہوا کے دوش پہ آؤں گا

میں یہ راستوں کے حصار پر نہیں جاؤں گا


مری خستہ حالی دلیل ہے مرے عشق کی

میں یقیں دلانے کو دار پر نہیں جاؤں گا


کسی آشنا کی جو ہو صدا تو چلیں بقی

کسی اجنبی کی پکار پر نہیں جاؤں گا


بقی استوری


غلام صمدانی عافی

 یوم پیدائش 25 نومبر


فاتحہ پڑھنے کو آتے ہیں ملک صبح و مسا

ہے جہاں روضہ ترا شاہ ھدا کیا کہنے


غلام صمدانی عافی


خاطر غزنوی

 یوم پیدائش 25 نومبر 1925


گو ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے

لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے


گرمئ محفل فقط اک نعرۂ مستانہ ہے

اور وہ خوش ہیں کہ اس محفل سے دیوانے گئے


میں اسے شہرت کہوں یا اپنی رسوائی کہوں

مجھ سے پہلے اس گلی میں میرے افسانے گئے


وحشتیں کچھ اس طرح اپنا مقدر بن گئیں

ہم جہاں پہنچے ہمارے ساتھ ویرانے گئے


یوں تو وہ میری رگ جاں سے بھی تھے نزدیک تر

آنسوؤں کی دھند میں لیکن نہ پہچانے گئے


اب بھی ان یادوں کی خوشبو ذہن میں محفوظ ہے

بارہا ہم جن سے گلزاروں کو مہکانے گئے


کیا قیامت ہے کہ خاطرؔ کشتۂ شب تھے بھی ہم

صبح بھی آئی تو مجرم ہم ہی گردانے گئے


خاطر غزنوی


نذیر بنارسی

 یوم پیدائش 25 نومبر 1909


یہ کریں اور وہ کریں ایسا کریں ویسا کریں

زندگی دو دن کی ہے دو دن میں ہم کیا کیا کریں


دوسروں سے کب تلک ہم پیاس کا شکوہ کریں

لاؤ تیشہ ایک دریا دوسرا پیدا کریں


حسن خود آئے طواف عشق کرنے کے لیے

عشق والے زندگی میں حسن تو پیدا کریں


چڑھ کے سولی پر خریدیں گے خریدار آپ کو

آپ اپنے حسن کا بازار تو اونچا کریں


جی میں آتا ہے کہ دیں پردے سے پردے کا جواب

ہم سے وہ پردہ کریں دنیا سے ہم پردا کریں


سن رہا ہوں کچھ لٹیرے آ گئے ہیں شہر میں

آپ جلدی بند اپنے گھر کا دروازہ کریں


کیجئے گا رہزنی کب تک بہ نام رہبری

اب سے بہتر آپ کوئی دوسرا دھندا کریں


اس پرانی بے وفا دنیا کا رونا کب تلک

آئیے مل جل کے اک دنیا نئی پیدا کریں


دل ہمیں تڑپائے تو کیسے نہ ہم تڑپیں نذیرؔ

دوسرے کے بس میں رہ کر اپنی والی کیا کریں


نذیر بنارسی


عفران امجد

 یوم پیدائش 24 نومبر 1959


عجب تھا زعم کہ بزم عزا سجائیں گے

مرے حریف لہو کے دیئے جلائیں گے


میں تجربوں کی اذیت کسے کسے سمجھاؤں

کہ تیرے بعد بھی مجھ پر عذاب آئیں گے


بس ایک سجدۂ تعظیم کے تقابل میں

کہاں کہاں وہ جبین طلب جھکائیں گے


عطش عطش کی صدائیں اٹھیں سمندر سے

تو دشت پیاس کے چشمے کہاں لگائیں گے


چھپا کے رکھ تو لیا ہے شرار بو لہبی

دھواں اٹھا تو نظر تک ملا نہ پائیں گے


دراز کرتے رہو دست حق شناس اپنا

بہت ہوا تو وہ نیزے پہ سر اٹھائیں گے


نواح لفظ و معانی میں گونج ہے کس کی

کوئی بتائے یہ امجدؔ کہ ہم بتائیں گے


غفران امجد


احمد علی برقی اعظمی

 بیاد پروین شاکر بمناسبت یوم تولد

نسائی احساسات و جذبات کی ترجمان شہرۂ آفاق شاعرہ پروین شاکر کی نذر


بجھی ناوقت شمعِ زندگی پروین شاکر کی

مگر باقی ہے اب تک روشنی پروین شاکر کی


غزلخواں ہے عروسِ فکر و فن اشعار میں اُس کے

نہایت دلنشیں ہے شاعری پروین شاکر کی


غزل بن کر دھڑکتی ہے دلوں میں اہل دل کے وہ

نہ کم ہوگی کبھی بھی دلکشی پروین شاکر کی


بنالیتی ہے اپنے فکر و فن کا سب کو گرویدہ

غزل میں ہے جو عصری آگہی پروین شاکر کی


ترو تازہ ہیں گلہائے مضامیں آج بھی اُس کے

یونہی قایم رہے گی تازگی پروین شاکر کی


علمبردار تھی وہ جذبۂ احساسِ نسواں کی

نمایاں ہے کتابِ زندگی پروین شاکر کی


دلوں پر نقش ہیں برقیؔ نقوشِ جاوداں اُس کے

ہے عصری معنویت آج بھی پروین شاکر کی


احمد علی برقیؔ اعظمی


اسحاق وردگ

 یوم پیدائش 24 نومبر 1977


مری ہستی سزا ہونے سے پہلے 

میں مر جاتا بڑا ہونے سے پہلے 


وہ قبلہ اس گلی سے جا چکا تھا 

نماز دل ادا ہونے سے پہلے 


محبت اک مسلسل حادثہ تھی 

ہمارے بے وفا ہونے سے پہلے 


میں اپنی ذات سے نا آشنا تھا 

خدا سے آشنا ہونے سے پہلے 


خزاں میں پھول سا لگتا تھا مجھ کو 

وہ پتھر آئینہ ہونے سے پہلے 


بہت مضبوط سی دیوار تھا میں 

کسی کا راستا ہونے سے پہلے


اسحاق وردگ


حمیرا رحمان

 یوم پیدائش 24 نومبر 1957


حروف چند مری شاعری کے چاروں طرف

کہ جیسے پانی ہو تشنہ لبی کے چاروں طرف


ہزار بار بجھی آنکھ پھر ہوئی روشن

کچھ آئینے بھی تھے بے چہرگی کے چاروں طرف


بہت سے خواب تھے رنگین اس کے تھیلے میں

سو لوگ بیٹھ گئے اجنبی کے چاروں طرف 


ہوا بدلنے کی آنے لگی ہے خوش خبری

بہت دھواں تھا گزرتی گھڑی کے چاروں طرف


ہم آنے والے زمانوں سے دور کیوں نہ رکھیں

جو الجھنیں ہیں ہماری صدی کے چاروں طرف 


یہ کھیل آنکھ مچولی کا دادا پوتے میں

ہنسی کا ہالہ ہے سنجیدگی کے چاروں طرف


جزیرے چھوٹے بڑے ہیں کسی تسلی کے

مری نگاہ میں ٹہری نمی کے چاروں طرف


مکان کھولا گیا گھر میں آنے والوں پر

شجر لگائے گئے بے گھری کے چاروں طرف


چلو حمیراؔ کوئی نیک کام کرتے ہیں

امنگ بوتے ہیں مردہ دلی کے چاروں طرف


حمیرا رحمان


شاہدہ حسن

 یوم پیدائش 24 نومبر 1953


سلیقہ عشق میں میرا بڑے کمال کا تھا

کہ اختیار بھی دل پر عجب مثال کا تھا


میں اپنے نقش بناتی تھی جس میں بچپن سے

وہ آئینہ تو کسی اور خط و خال کا تھا


رفو میں کرتی رہی پیرہن کو اور ادھر

گماں اسے مرے زخموں کے اندمال کا تھا


یہ اور بات کہ اب چشم پوش ہو جائے

کبھی تو علم اسے بھی ہمارے حال کا تھا


محبتوں میں میں قائل تھی لب نہ کھلنے کی

جواب ورنہ مرے پاس ہر سوال کا تھا


درخت جڑ سے اکھڑنے کے موسموں میں بھی

ہوا کا پیار شجر سے عجب کمال کا تھا


کتاب کس کی مسافت کی لکھ رہی ہے ہوا

یہ قرض اس کی طرف کس کے ماہ و سال کا تھا


شاہدہ حسن


پروین شاکر

 یوم پیدائش 24 نومبر 1952


دھنک دھنک مری پوروں کے خواب کر دے گا

وہ لمس میرے بدن کو گلاب کر دے گا


قبائے جسم کے ہر تار سے گزرتا ہوا

کرن کا پیار مجھے آفتاب کر دے گا


جنوں پسند ہے دل اور تجھ تک آنے میں

بدن کو ناؤ لہو کو چناب کر دے گا


میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی

وہ جھوٹ بولے گا اور لا جواب کر دے گا


انا پرست ہے اتنا کہ بات سے پہلے

وہ اٹھ کے بند مری ہر کتاب کر دے گا


سکوت شہر سخن میں وہ پھول سا لہجہ

سماعتوں کی فضا خواب خواب کر دے گا


اسی طرح سے اگر چاہتا رہا پیہم

سخن وری میں مجھے انتخاب کر دے گا


مری طرح سے کوئی ہے جو زندگی اپنی

تمہاری یاد کے نام انتساب کر دے گا


پروین شاکر


عبداللہ خالد

 ماحولِ دلِ زار ابھی کیا تھا ابھی کیا ہے

یہ شہر بھی حیرت کدہء ہوش ربا ہے


اک وہ ہیں کہ اسبابِ زمانہ ہیں ملازم

اک ہم کہ میسر نہ دوا ہے نہ دعا ہے


سب کام دلیلوں سے نہیں چلتے جہاں میں

گر ہم کو یقیں ہے کہ خدا ہے تو خدا ہے


تصویر مکمل ہوں مگر میرا مصور

لگتا ہے یہاں رکھ کے مجھے بھول گیا ہے


بیکار ہے دیواروں سے سر پھوڑنا خالد

کچھ داد رسی ہو تو شکایت بھی بجا ہے


عبداللہ خالد


پرتو روہیلہ

 یوم پیدائش 23 نومبر 1932


اس دشت‌ ہلاکت سے گزر کون کرے گا

بے امن خرابوں میں سفر کون کرے گا


خورشید جو ڈوبیں گے ابھرنے ہی سے پہلے

اس تیرگیٔ شب کی سحر کون کرے گا


چھن جائیں سر راہ جہاں چادریں سر کی

اس ظلم کی نگری میں بسر کون کرے گا


جس دور میں ہو بے ہنری وجہ سیادت

اس دور میں تشہیر ہنر کون کرے گا


اڑ جائیں گے جنگل کی طرف سارے پرندے

مینارۂ لرزاں پہ بسر کون کرے گا


اس خوف مسلسل میں گزر ہوگی تو کیوں کر

سولی پہ ہر اک رات بسر کون کرے گا


مژدہ مجھے جینے کا بھلا کس نے دیا تھا

مجھ کو مرے مرنے کی خبر کون کرے گا


پرتو روہیلہ


سلطان سکون

 یوم پیدائش 23 نومبر 1932


ہوا نہیں ہے ابھی منحرف زبان سے وہ

ستارے توڑ کے لائے گا آسمان سے وہ


نہ ہم کو پار اتارا نہ آپ ہی اترا

لپٹ کے بیٹھا ہے پتوار و بادبان سے وہ


ہماری خیر ہے عادی ہیں دھوپ سہنے کے ہم

ہوا ہے آپ بھی محروم سائبان سے وہ


تمام بزم پہ چھایا ہوا ہے سناٹا

اٹھا ہے شخص کوئی اپنے درمیان سے وہ


ابھی تو رفعتیں کیا کیا تھیں منتظر اس کی

ابھی پلٹ کے بھی آیا نہ تھا اڑان سے وہ


ہزار میلا کیا دل کو اس کی جانب سے

کسی بھی طور اترتا نہیں ہے دھیان سے وہ


اب اس کی یاد اب اس کا ملال کیسا ہے

نکل گیا جو پرے سرحد گمان سے وہ


وہ جس سکونؔ کا اب آپ پوچھنے آئے

چلا گیا ہے کہیں اٹھ کے اس مکان سے وہ


سلطان سکون


شازیہ نیازی

 وحشت جب التجاؤں کے حصے میں آگئی

زاری پھٹی رداؤں کے حصے میں آگئی


اک شہر تیرے نام سے منسوب ہوگیا

تہذیب میرے گاؤں کے حصے میں آگئی


ایڑی رگڑ کے ہار گئے آج کے عوام

اور جیت رہمناؤں کے حصے میں آگئی


عشق و وفا کی راہ تباہی شعار ہے

میں کس طرح بلاؤں کے حصے میں آگئی


ناداں سپاہی جنگ میں دل ہار کر گیا

تلوار میرے پاؤں کے حصے میں آگئی


اک بیج کی، شکم میں جو بنیاد پڑگئی

دولت وفا کی ، ماؤں کے حصے میں آگئی


شازیہ نیازی


ضیاء المصطفیٰ ترک

 یوم پیدائش 29 اگست 1976


آئنہ اس کو اور خیال مجھے

عیب جیسا ہے یہ کمال مجھے


نام لے کر پکارتے ہیں رنگ 

روک لیتی ہے ڈال ڈال مجھے 


یاد ہو کوئی دن بھلا کیسے 

بھول جاتے ہیں ماہ و سال مجھے


جانے پھر کس طرف نکل جاؤں

ارے آزردگی! سنبھال مجھے 


یہی میں ہوں اگر بفرض ِ محال

خوش نہیں آئے خدّو خال مجھے


دیکھ تو کتنا تنگ ہے مجھ کو 

اس بدن سے کہیں نکال مجھے 


اوڑھ رکھا ہے مجھ کو گدڑی نے

ہے بچھائے ہوئے پیال مجھے 


کہیں بارش میں رکھ گھڑی بھر کو

دھوپ میں تھوڑی دیر ڈال مجھے


ماند پڑنے لگی ہے میری چمک 

اپنے ہاتھوں میں رکھ ، اُجال مجھ


ضیاء المصطفیٰ ترک


انا دہلوی

 کون کہتا ہے زمانے کے لئے زندہ ہوں

میں تو بس آپ کو پانے کے لئے زندہ ہوں


آپ فرمائیں ستم شوق سے پھر بھی میں تو

آپ کے ناز اٹھانے کے لئے زندہ ہوں


کون اس دور میں ہوتا ہے کسی کا ساتھی

زندگی تجھ کو نبھانے کے لئے زندہ ہوں


جو ترے پیار کا صدیوں سے ہے واجب مجھ پر 

ہاں وہی قرض چکانے کے لئے زندہ ہوں


حاکم وقت نے جو آگ لگائی ہے یہاں

میں وہی آگ بجھانے کے لئے زندہ ہوں


جو ترقی پہ نئے لوگوں کی جلتے ہیں اناؔ

میں انہیں ہوش میں لانے کے لئے زندہ ہوں


انا دہلوی


بشری اعجاز

 محبت میں کوئی صدمہ اٹھانا چاہئے تھا

بھلایا تھا جسے وہ یاد آنا چاہئے تھا


گری تھیں گھر کی دیواریں تو صحن دل میں ہم کو

گھروندے کا کوئی نقشہ بنانا چاہئے تھا


اٹھانا چاہئے تھی راکھ شہر آرزو کی

پھر اس کے بعد اک طوفان اٹھانا چاہئے تھا


کوئی تو بات کرنا چاہئے تھی خود سے آخر

کہیں تو مجھ کو بھی یہ دل لگانا چاہئے تھا


کبھی تو اہتمام آرزو بھی تھا ضروری

کوئی تو زیست کرنے کا بہانا چاہئے تھا


مری اپنی اور اس کی آرزو میں فرق یہ تھا

مجھے بس وہ اسے سارا زمانہ چاہئے تھا


بشریٰ اعجاز


بشری فرخ

 بظاہر تجھ سے ملنے کا کوئی امکاں نہیں ہے

دلاسوں سے بہلتا یہ دل ناداں نہیں ہے


چمن میں لاکھ بھی برسے اگر ابر بہاراں

تو نخل دل ہرا ہونے کا کچھ امکاں نہیں ہے


وہ اک دیوار ہے حائل ہمارے درمیاں جو

کسی روزن کا اس میں اب کوئی امکاں نہیں ہے


اگرچہ کھا گئی دیمک غموں کی بام و در کو

مگر ٹوٹی ابھی تک یہ فصیل جاں نہیں ہے


تمہاری روح بشریؔ قید ہے تن کے قفس میں

اسے آزاد کرنا معجزہ آساں نہیں ہے


بشریٰ فرخ


ساغر صدیقی

 یہ جو دیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں

ان میں کچھ صاحب اسرار نظر آتے ہیں


تیری محفل کا بھرم رکھتے ہیں سو جاتے ہیں

ورنہ یہ لوگ تو بیدار نظر آتے ہیں


دور تک کوئی ستارہ ہے نہ کوئی جگنو

مرگ امید کے آثار نظر آتے ہیں


مرے دامن میں شراروں کے سوا کچھ بھی نہیں

آپ پھولوں کے خریدار نظر آتے ہیں


کل جنہیں چھو نہیں سکتی تھی فرشتوں کی نظر

آج وہ رونق بازار نظر آتے ہیں


حشر میں کون گواہی مری دے گا ساغرؔ

سب تمہارے ہی طرفدار نظر آتے ہیں


ساغر صدیقی


حسن عباس رضا

 یوم پیدائش 20 نومبر 1951


آنکھوں سے خواب دل سے تمنا تمام شد

تم کیا گئے کہ شوق نظارہ تمام شد


کل تیرے تشنگاں سے یہ کیا معجزہ ہوا

دریا پہ ہونٹ رکھے تو دریا تمام شد


دنیا تو ایک برف کی سل سے سوا نہ تھی

پہنچی دکھوں کی آنچ تو دنیا تمام شد


شہر دل تباہ میں پہنچوں تو کچھ کھلے

کیا بچ گیا ہے راکھ میں اور کیا تمام شد


عشاق پر یہ اب کے عجب وقت آ پڑا

مجنوں کے دل سے حسرت لیلیٰ تمام شد


ہم شہر جاں میں آخری نغمہ سنا چلے

سمجھو کہ اب ہمارا تماشا تمام شد


اک یاد یار ہی تو پس انداز ہے حسنؔ

ورنہ وہ کار عشق تو کب کا تمام شد


حسن عباس رضا


خواجہ ساجد

 یوم پیدائش 21 نومبر 1968


کوئی شیشہ نہ در سلامت ہے 

گھر مرا دشت کی امانت ہے 


سارے جذبوں کے باندھ ٹوٹ گئے 

اس نے بس یہ کہا اجازت ہے 


جان کر فاصلے سے ملنا بھی 

آشنائی کی اک علامت ہے 


اس سے ہر رسم و راہ توڑ تو دی 

دل کو لیکن بہت ندامت ہے 


روبرو اس کے ایک شب جو ہوئے 

ہم نے جانا کہ کیا عنایت ہے 


دو قدم ساتھ چل کے جان لیا 

کیا سفر اور کیا مسافت ہے 


کل سیاست میں بھی محبت تھی 

اب محبت میں بھی سیاست ہے 


رات پلکوں پہ دل دھڑکتا تھا 

تیرا وعدہ بھی کیا قیامت ہے


خواجہ ساجد


نائلہ راٹھور

 یوم پیدائش 21 نومبر


تیری قربت کی جستجو کی ہے 

کیا عجب دل نے آرزو کی ہے 


بات جو بھی تھی روبرو کی ہے 

کب پس پشت گفتگو کی ہے 


میں نے خود کو اگر نہیں بدلا 

ترک کب تو نے اپنی خو کی ہے 


سوچ تیری جدا ہے گر مجھ سے

کیوں پھر اتنی بھی گفتگو کی ہے 


زندگی جی کے تھک چکے ہیں ہم

موت کی اب تو آرزو کی ہے

  

عرش کو چھو کے کیوں نہیں آتی 

جب دعا کی ہے باوضو کی ہے 


بھول جانا تیری ضرورت تھی 

پوری تیری ہی آرزو کی ہے

 

تو نے کب مجھ سے بیوفائی کی 

بات ساری تو اس لہو کی ہے

 

نائلہ راٹھور


Saturday, November 20, 2021

شازیہ طارق

 یوم پیدائش 21 نومبر 1975


آرزو اے دل کا پیکر دل فریب

کیا بتائیں اے گلِ تر دل فریب


حالتِ ابتر کو میری دیکھ کر

رو پڑا پھولوں سا پیکر دل فریب


دے گیا دشمن کو ہائے تقویت

ڈوبنے کا میرے منظر دل فریب


بے خیالی میں ہو ئ مجھ سے خطا

جو پہن لی میں نے جھانجر دل فریب


سوزِ دل کا اب سبب مت پوچھیے

کیجیے بس ذکرِ دلبر دل فریب


بعد مدت کے کھلی دل کی کلی

دیکھ کے پھولوں سا پیکر دل فریب


شازیہ علم و ہنر کی گود سے

چن لو کچھ نایاب گوہر دل فریب


شازیہ طارق


نادیہ سحر

 تجھ سے اک کیا ہوئی شناسائی

آنکھ ہر ہو گئی تماشائی


تو بھی اپنا نہیں تھا دوست مرے

بات یہ دیر سے سمجھ آئی


بھول جانے پہ تھا بہت موقوف

پر تجھے بھول ہی نہیں پائی


نام تیرا لیا کسی نے کہیں 

آنکھ اشکوں سے میری بھر آئی


میرےکمرے میں دو ہی چیزیں ہیں 

ایک میں ایک میری تنہائی


ہم جہاں سے چلے تھے دکھ لے کر 

زندگی کیوں ہمیں وہیں لائی


ہم محبت کسی سے کر بیٹھے 

ہم نے اس جرم کی سزا پائی


بین کرتا ہے دل کسی کا سحر 

بج رہی ہے کہیں پہ شہنائی 


نادیہ سحر


دیشمکھ ابن مقصود مہروی

 ٹیپو سلطان کی یوم پیدائش کے حوالے سے ایک مطلع۔۔۔۔


تاریخ کے اوراق میں تابندہ رہیں گے 

مرجائیں گے، دنیا میں مگر زندہ رہیں گے 


دیشمکھ ابن مقصود مہروی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...