Urdu Deccan

Sunday, December 25, 2022

آرزو سہارنپوری

یوم وفات 25 دسمبر 1983

کس قیامت کا ہے بازار ترے کوچے میں
بکنے آتے ہیں خریدار ترے کوچے میں

تو وہ عیسیٰ ہے کہ اے نبض شناس کونین
ابن مریم بھی ہے بیمار ترے کوچے میں

اذن دیدار تو ہے عام مگر کیا کہیے
چشم بینا بھی ہے بے کار ترے کوچے میں

جس نے دیکھا ہو نظر بھر کے ترا حسن تمام
کوئی ایسا بھی ہے اے یار ترے کوچے میں

آرزوؔ سا کبھی دیکھا ہے کوئی کافر عشق
یوں تو ہیں سینکڑوں دیں دار ترے کوچے میں

آرزو سہارنپوری


 

فیروز اختر

یوم پیدائش 25 دسمبر 1958

جمود ٹوٹے یہاں کوئی انتشار تو ہو
برس بھی جائے کہ موسم کا اعتبار تو ہو

فیروز اختر



سید اعجاز احمد رضوی

یوم پیدائش 25 دسمبر 1950

جو ہونا ہے وہی ہوتا رہے گا 
کبھی ہنستا کبھی روتا رہے گا 

بچا کوئی مکافات عمل سے 
وہی کاٹے گا جو بوتا رہے گا 

کچھ اپنا ہی بگاڑے گا اگر تو 
بھرم اپنا میاں کھوتا رہے گا 

ترے اعدا نکل جائیں گے آگے 
اگر تو رات دن سوتا رہے گا 

تو اپنا بار عصیاں کم سے کم کر 
کہاں تک بوجھ یہ ڈھوتا رہے گا 

کوئی حد بھی ہے آخر آنسوؤں سے 
کہاں تک اپنا منہ دھوتا رہے گا 

کہیں تدبیر سے ٹلتا ہے رضویؔ 
لکھا تقدیر کا ہوتا رہے گا 

سید اعجاز احمد رضوی



فرزانہ فرحت

یوم پیدائش 25 دسمبر 

اشکوں میں ڈھلا پر یہ زباں تک نہیں آیا
 ورنہ تو یہ طوفان کہاں تک نہیں آیا
 
دنیا نے بہت کچھ ہے لکھا اہلِ جنوں پر
لیکن کوئی الزام یہاں تک نہیں آیا

جب تیرا عدو تیرے نشا نے پہ کھڑا تھا
اچھا ہے ترا تیر کماں تک نہیں آیا

وہ عشق کی آتش تھی کہ جلتا رہا یہ جسم
شعلوں کا دھواں دل کے مکاں تک نہیں آیا

وہ میرے تعاقب میں تو آتا رہا برسوں
میں آج جہاں ہوں وہ وہاں تک نہیں آیا

رکھتا ہے مرے دل کے خرابوں کو جو آباد
نام اس کا کبھی میری زباں تک نہیں آیا

دل میں مرے کچھ وہم بھی آتے رہے فرحت 
پر اس سے بچھڑنے کا گماں تک نہیں آیا

فرزانہ فرحت


 

صوفیہ بیدار

یوم پیدائش 25 دسمبر 1964

اک درد کہن آنکھ سے دھویا نہیں جاتا 
جب رنج زیادہ ہو تو رویا نہیں جاتا 

مٹ جانے کی خواہش کو مٹایا نہیں کرتے 
کھو دینے کے ارمان کو کھویا نہیں جاتا 

جلتے ہوئے کھلیان میں اگتی نہیں فصلیں 
خوابوں کو کبھی آگ میں بویا نہیں جاتا 

جب حد سے گزرتے ہیں تو غم غم نہیں رہتے 
اور ایسی زبوں حالی میں رویا نہیں جاتا 

تحریر میں بنتی نہیں جو بات ہے دل میں 
کیا درد ہے شعروں میں سمویا نہیں جاتا 

سلگی ہیں مری آنکھ میں اک عمر کی نیندیں 
آنگن میں لگے آگ تو سویا نہیں جاتا 

یوں چھو کے در دل کو پلٹ آتا ہے واپس 
اک وہم محبت کا کہ گویا نہیں جاتا 

اب صوفیہؔ اس طرح سے دل پہ نہیں بنتی 
اب اشکوں سے آنچل کو بھگویا نہیں جاتا 

صوفیہ بیدار



شہزاد اظہر

یوم پیدائش 25 دسمبر 1972

کہاں کا ہوں مجھے اپنے اب وجد کی خبر کیا
معلق آئینہ ہوں قامت و قد کی خبر کیا

معانی ہیکلِ مستور ہے لیکن کہاں ہے
کسی کو ان کہے لفظوں کے معبد کی خبر کیا

زمانہ دل کے سائے میں پڑا سستا رہا ہے
گیانی کو ملی گوتم سے برگد کی خبر کیا 

کجی کوئی بیانِ روز و شب میں آ گئی تھی
پہنچ پائی نہیں حرفِ قلمزد کی خبر کیا

ہوا کی مٹھیوں میں ہوں ابد آباد تک میں
پرِکاهِ سخن ہوں مجھ کو مرقد کی خبر کیا

شہزاد اظہر


 

مصطفے غزالی

یوم پیدائش 25 دسمبر 

خدا نے ہرکسی کو اک نیا اندازبخشا ہے
کسی کو سوز بخشا ہے،کسی کو سازبخشا ہے

عطا کرکے کسی کو رنگ و رونق ، دلکشی ، شوخی
جمال و حسن کا بے مثل اک اعجاز بخشا ہے 

ترنم سے نوازا ہے کسی کو ربِ اکبرنے
کسی کو ماہرِ فن خوشنما شہباز بخشا ہے

گلوں کو رنگ و بو سے کس قدر شاداب رکھتا ہے
پرندوں کو عجب بال و پر پرواز بخشا ہے

فرشتوں کو ادائے بندگی سکھلائی ہے رب نے
مگر حوروں کو اس نے صورتِ شہنازبخشا ہے

رضائے رب جسے چاہے عطا کر دے نیا منصب
اسی نے ہر کسی کو ذلت و اعزاز بخشا ہے

وفا کا رنگ دنیا میں دیا عشّاق کو جس نے 
حسینوں کو اسی نے دلبری کا ناز بخشا ہے

کسی کو بے سہارا وہ کبھی کرتا نہیں ہرگز
ضرورت مند کو اس نے سدا دمساز بخشا ہے 

وہی محفوظ رکھتا ہے چُبھن سے خار کی لیکن
جِسے گُل کی تمنا ہے اُسے گُلناز بخشا ہے 

ادا کیسے کروں میں شکر اپنے ربِ اعظم کا
مجھےجس نے بہت اعلیٰ ،حسیں ہمرازبخشا ہے

زمانے کی نزاکت کو بھلا مجھے نہیں کیسے
دلِ شاعر کو قدرت نے شعورِ راز بخشا ہے

خدا چاہےگا تو پھر خوب تر انجام بھی ہوگا
مجھے ذوقِ سخن کا اس نے جب آغازبخشا ہے

کروں کیسے بیاں رب کی عطا کردہ نوازش کا
اسی نے فن میں خود منصب مجھے ممتاز بخشا ہے

خیالی دیوتاؤں پر کسی کو فخر ہے تو کیا ؟
غزالی کو محمد مصطفےٰﷺ پر ناز بخشا ہے

مصطفے غزالی



عبد القیوم افسر انصاری

یوم پیدائش 25 دسمبر 1977

توفیق اگر ہوگی چاہت کی دعا دینا
آساں ہے بہت ورنہ شعلوں کو ہوا دینا

اب لوگ کہاں جانیں تاثیر محبت کی
لوگوں کو تو آتا ہے الزام لگا دینا

لہروں سے بھی آئیں گی تحسین کی آوازیں
کاغذ مری غزلوں کا دریا میں بہا دینا

اب میری نگاہوں میں یہ کام عبادت ہے
گرتے کو اٹھا دینا، روتے کو ہنسا دینا

محفل کی اداسی کا بس ایک مداوا ہے
جب کوئی نہیں ہوگا افسرؔ کو صدا دینا

عبد القیوم افسر انصاری



ممتاز راشد

یوم پیدائش 25 دسمبر 1944

رنگ الفاظ کا الفاظ سے گہرا چاہوں 
بات کرنے کے لیے اپنا ہی لہجہ چاہوں 

ہے تھکن ایسی مرا پار اترنا ہے محال 
تشنگی وہ ہے کہ بہتا ہوا دریا چاہوں 

کم نظر ہے جو کرے تیری ستائش محدود 
تو وہ شہکار ہے میں جس کو سراپا چاہوں 

تجھ پہ روشن مرے حالات کی زنجیریں ہیں 
روک لینا جو کبھی تجھ سے بچھڑنا چاہوں 

مفلسی لاکھ سہی دولت نایاب ہے یہ 
میں ترے غم کے عوض کیوں غم دنیا چاہوں 

غم ہے سناٹوں میں قدموں کے نشاں تک راشدؔ 
وہ اندھیرا ہے کہ دیواروں سے رستا چاہوں

ممتاز راشد


 

سید اظہر فرید

یوم پیدائش 25 دسمبر

ایک خواہش تھی کوئی خواب معطر جاگے
  میری بستی میں تو ہر لمحہ ستم گر جاگے

تم نے پایا ہے اسے گزرا حوالہ دے کر
 اب نہ آنکھوں میں تمہاری یہ تکبر جاگے

  کیا پتہ تم کو دعاؤں کا ثمر مل جائے
تم قدم ریت پہ رکھ دو تو سمندر جاگے

  موسمِ ہجر نے آنے کو کہا ہے اظہر
   کیا خبر رات اندھیری کا مقدر جاگے

 سید اظہر فرید



ثمینہ گل

یوم پیدائش 25 دسمبر 1965

کھینچتا ہے کون آخر دائرے در دائرے 
دائرے ہی دائرے ہیں دائروں پر دائرے 

پانیوں کی کوکھ سے بھی پھوٹتا ہے دائرہ 
دیر تک پھر گھومتے رہتے ہیں اکثر دائرے 

اس کتاب زیست کے بھی آخری صفحے تلک 
کھینچ ڈالے قوس نے بھی زندگی پر دائرے 

جانے کیا کیا گھومتا ہے گرد کی آغوش میں 
جھانکتے ہیں آسمانوں سے سراسر دائرے 

آنکھ میں بھی دائرہ ہے دائرے میں دائرہ 
زندگانی دیکھتی ہے کیا برابر دائرے 

ثمینہ گل 


 

احمد علی برقی اعظمی

یوم پیدائش 25 دسمبر 1954

نہ آئے کام کسی کے جو زندگی کیا ہے
بشر نواز نہ ہو جو وہ آدمی کیا ہے

زمانہ ساز ہیں جو وہ ہیں مصلحت اندیش
جو ہو خلوص سے عاری وہ دوستی کیا ہے

پس از وفات نہ لیں جس کا نام اس کے عزیز
تونگری ہے اگر یہ تو مفلسی کیا ہے

کرو نہ دست درازی خدا کے بندوں پر
ہے نام اس کا شجاعت تو بزدلی کیا ہے

حقیقی دوستی وہ ہے ہو جس میں جوش و خروش
نشاط روح نہ ہو جس میں خوش دلی کیا ہے

عزیز تر ہیں مجھے خود سے بھی حسن چشتی
بتاؤں آپ کو کیا بندہ پروری کیا ہے

نہ ہو جو قاری و سامع پہ کچھ اثر انداز
فریب محض ہے برقیؔ وہ شاعری کیا ہے

احمد علی برقی اعظمی



رضوان لطیف خان

یوم پیدائش 25 دسمبر 1958

جب رنگِ عاجزی مرے تیور میں آگیا
میں کمترین سے صفِ برتر میں آگیا

دل وہ سپاہ گر ہے سرِ رزم گاہِ شوق
لشکر سے ہٹ گیا کبھی لشکر میں آگیا

دنیا کی ٹھوکروں سے تو بہتر یہی رہا
یعنی میں اپنے یار کی ٹھوکر میں آگیا

طیبہ میں حاضری کا بلاوا ملا مجھے
یہ خوش نصیب دن بھی مقدر میں آگیا

صحنِ حرم میں پہنچا تو ایسا لگا مجھے
جیسے کہ رحمتوں کے سمندر میں آگیا

فضلِ خدا سے رحمت و برکت کا سلسلہ
"دستک دیے بغیر مرے گھر میں آگیا"

رضوان میری زیست کا عنواں بدل گیا
میں جب سے اُنؐ کے شہرِ منور میں آگیا

رضوان لطیف خان



محی الدین قادری زور

یوم پیدائش 25 دسمبر 1905

کیسے بے دردو بداندیش یہاں ہیں کچھ لوگ
جو سمجھتے نہیں پابند فغاں ہیں کچھ لوگ

پینے والے مئے و مینا پہ نظر رکھتے ہیں 
چشم ساقی کی طرف کیوں نگراں ہیں کچھ لوگ

ہم غریبوں پہ امیروں کی خدائی چلتی
باعث برہمی بزم بتاں ہیں کچھ لوگ

قافلے چل بھی پڑے لے کے شعور فروا
اور بھی مست مئے خواب گراں ہیں کچھ لوگ

طرح افسانہ و افسوں کی حقیقت معلوم
درپس کار گہ شیشہ گراں ہیں کچھ لوگ

ایک نگاہ غلط انداز سہی دیکھ تو لیں 
آپ کے چاہنے والوں میں یہاں ہیں کچھ لوگ

زندہ زندہ دلی، ذوق طلب، شوق عمل
عہد پیری میں بھی اے زورؔ جواں ہیں کچھ لوگ

محی الدین قادری زور



 

‏ فیصل فارانی

یوم پیدائش 25 دسمبر 

جو آئنے میں نظر آئے ، ہُوبہُو تُو ہے
‏یہ اپنے سامنے مَیں ہوں کہ رُوبرُو توُ ہے

‏چمن میں یاد کے مہکے جو چاندنی کی طرح
‏وہ میری رات کی رانی وہ مُشک بُو تُو ہے

‏تلاش اصْل میں اپنی ، تلاش اپنی نہیں
‏کہ خوار مُجھ کو جو رکھّے وہ جُستجُو تُو ہے

جو تیرے در سے اُٹھوں بھی تو اُٹھ کے جاؤں کہاں 
‏جبِیں جُھکی رہے جس میں وہ آرزو تُو ہے

‏یہ کس مقام پہ لایا ہے تیرا عِشق مُجھے
‏کہ مَیں کہِیں بھی نہیں اور کُو بہ کُو تُو ہے

‏یہ تیرا ہِجر ہے کیسا عجیب ہِجر کہ مَیں
‏اکیلا بیٹھا ہوں اور میرے رُوبرُو تُو ہے

‏ فیصل فارانی 


قمر گوالیار

یوم پیدائش 25 دسمبر 1938

انسان کو انساں سے کچھ کام نہیں ہوتا 
دنیا میں محبت کا جب نام نہیں ہوتا 

یہ کیسی حقیقت ہے اے دوست محبت میں 
آغاز تو ہوتا ہے انجام نہیں ہوتا 

تم سے تو نہ کچھ ہوگا اے چارہ گرو جاؤ 
بیمار محبت کو آرام نہیں ہوتا 

یہ منزل آخر ہے آ جاؤ عیادت کو 
آ جانے سے ایسے میں الزام نہیں ہوتا 

لازم ہے سمجھ لینا نظروں کی زباں صاحب 
لفظوں سے محبت میں کچھ کام نہیں ہوتا 

بڑھتے ہوئے دھارے ہوں برپا ہو قمرؔ طوفاں 
ہمت سے جو بڑھ جائے ناکام نہیں ہوتا 

قمر گوالیار



کلیم ساکن

یوم پیدائش 24 دسمبر 1990

ہے سب کو یہاں پر ملا تیرے صدقے 
کہ زندہ ہے ہر اک گدا تیرے صدقے 

ہمیں کب خبر تھی کہ مالک ہے کوئی 
عیاں ہو گیا ہے خدا تیرے صدقے 

علؓی ہیں حسؓن ہیں حسینی ہے عالَم 
ہے پنجتن گھرانہ سجا تیرے صدقے 

محبت کروں میں تو بڑھتا ہے رتبہ 
کہ قرنی صحابی ہوا تیرے صدقے 

کہوں گا محمّد محمّد ہی ہر دم 
ہے اندر کا گلشن ہرا تیرے صدقے 

نہ ساکن کی کوئی بھی سنتا تھا لیکن 
خدا تک گئی ہے صدا تیرے صدقے 

کلیم ساکن 





مراق مرزا

یوم پیدائش 24 دسمبر 1962

مشکل تری اڑان ہے سورج نظر میں رکھ 
تاریک آسمان ہے سورج نظر میں رکھ 

جانا ہے روشنی کی طرف لوٹ کر تجھے 
دو پل کا یہ جہان ہے سورج نظر میں رکھ 

بے رنگ اس کے پھول ہیں بے نور ہر شجر 
جنگل یہ گلستان ہے سورج نظر میں رکھ 

یہ ارض بے ثبات ہے ہر موڑ پر یہاں 
ظلمت کا ارسلان ہے سورج نظر میں رکھ 

ہر رہ گزر میں ظلم و ستم کا ہی راج ہے 
یہ شہر بے امان ہے سورج نظر میں رکھ 

دنیا پل صراط سے کچھ کم نہیں مراقؔ 
ہر پل اک امتحان ہے سورج نظر میں رکھ

مراق مرزا



تبسم فیضی

یوم پیدائش 23 دسمبر 2000

کچھ اصولوں سے بغاوت نہیں کی
دل بہت چاہا محبت نہیں کی

عیش و عشرت میں گزارے گئے دن
سو کسی لڑکی کی چاہت نہیں کی

اہل ہو کوئی نہ ہو ہم کو کیا
حد سے بڑ کر کبھی الفت نہیں کی

دوستی اپنی علم والوں سے
صنف نازک کی اطاعت نہیں کی

چاند تارے کہاں اپنے بس میں
ان کو چھونے کی حماقت نہیں کی

لاکھ درجے وہ حسیں ہوگی مگر
عشق کی فیضی نے حسرت نہیں کی
 
تبسم فیضی



حماد زیف

یوم پیدائش 23 دسمبر 

کچھ دیر اور روکا گیا گر بیان سے
میں بد زباں چھلکنے لگوں گا زبان سے

میں کس لیے لڑائی کروں آسمان سے
جب کائنات چلتی ہے میرے گمان سے

منظر بدل دیا ہے کسی خوش خصال نے
دل پھینکنے لگے ہیں سپاہی کمان سے

یہ انہدام پہلا قدم ہے نمود کا
پر کاٹنے لگا ہوں رگڑ کر چٹان سے

ممکن ہے خواہشوں کا گلا گھونٹنا پڑے
کچھ خواب سر اٹھا رہے ہیں خواب دان سے

 چلمن کی تیلیوں سے سرکتے ہوئے وجود
حماد دیکھ پھول نکلتے، مچان سے

حماد زیف


 

سنجیدہ نشاط

یوم پیدائش 23 دسمبر 1980

تری انجمن کی نرالی ہے صحبت
کوئی غمزدہ ہے کوئی محوِ حیرت

خدا کی عبادت نہ سجدے کی حاجت
تصور میں تم ہو نگاہوں کی صورت

فنا ہوگیا ہے وجود اب ہمارا
سبب بن گئی ہے تمھاری محبت

امیدوں پہ قائم یہ دنیا ہے لیکن
ضرورت ہے کرتا رہے تو بھی محنت

کھلے رازِ ہستی جو پنہاں تھے اب تک
خرد نے دکھائی جب اپنی کرامت

غزل ہے ہی میری سراپا تمھارا
مرے آئینے میں تمھاری ہے صورت

صنم مل گیا ہے نشاط اب جہاں سے
تعلق ہے کوئی نہ ہے کوئی الفت

سنجیدہ نشاط



یاسمین یاس

یوم پیدائش 23 دسمبر 1974

محبت سے بھی نفرت ہوگئی ہے
عجب وحشت سی وحشت ہوگئی ہے

فنا کر ڈالوں خود کو اور سب کو
بتاؤں کیا جو حالت ہوگئی ہے

جو رکھے یاد اس کو یاد رکھو
محبت اب تجارت ہوگئی ہے

زمانے بھر میں رسوا ہورہے ہیں
یقیناً ہم سے غفلت ہوگئی ہے

کسی پر زندگی قربان کردیں
وہ چاہت ایک حسرت ہوگئی ہے

کبھی وحشت تھی جس دیوانگی سے
وہی اب میری قسمت ہوگئی ہے

یاسمین یاس



اختر رانچوری

یوم پیدائش 23 دسمبر 1954

حیا کی چلمن گری ہوئی ہے ، نظر کا شعلہ جگا ہوا ہے
کہ میرے دل میں تمھاری یادوں کا ایک میلہ لگا ہوا ہے

مرے صنم تو یقین کرلے کہ توہی ہے میرے دل کا محور
جگہ جگہ پر مری کتابوں پہ نام تیرا لکھا ہوا ہے

زمانہ کوشش ہزار کرلے نہ توڑ پائے گا کوئی اس کو
تمھارے دل سے ہمارے دل کا جو ایک رشتہ بنا ہوا ہے

ہمارے ارماں کا خون کر کے نہ اٹھ کے جاؤ ابھی یہاں سے
ابھی تو محفِل سجی ہوئی ہے ابھی تو پیالہ بھرا ہوا ہے

نہ کوئی مونس نہ کوئی ہمدم نہ کوئی غم خوار ہے خدایا
جو میرے دل سے گزر رہا تھا وہ قافلہ تو لٹا ہوا ہے

فرشتے حیران ہو رہے ہیں کہ بزمِ محشر میں آج اختر
کوئی گنہگار رو رہا ہے کِسی کا چہرہ کِھلا ہوا ہے

اختر رانچوری



عبداللہ ناظر

یوم پیدائش 23 دسمبر 1932

کر لیا تھا مرگِ قبل از مرگ نے مائل مجھے
لے چلی ہے موجِ طوفاں جانبِ ساحل مجھے

آسرا دے اے شعورِ سعیِ لاحاصل مجھے
وجہِ سرگرمی ہے وہمِ دوری منزل مجھے

جلوۂ جاناں سے کب دیکھا گیا غافل مجھے
سایۂ ابرِ رواں تھا پردۂ محمل مجھے

کیا ستم ڈھایا ترا گرنا مری آغوش میں
تجھ کو قاتل کہنے والے کہہ پڑے قاتل مجھے

شمعِ بزمِ بیخودی اک آس تھی سو بجھ گئی
ظلمتِ تنہائی میں اب چھوڑ دے اے دل مجھے

اپنے گیسوئے پریشاں کی طرح برہم نہ ہو
صدمۂ یک جنبشِ لب ہو گیا مشکل مجھے

یوں تو حیراں ہے زمانہ رقصِ بسمل دیکھ کر
"بڑھ کے سینے سے نہ لپٹا لے مرا قاتل مجھے "

روز صبح و شام خنداں ہیں مزاجِ حال پر
دور کرتا جا رہا ہے میرا مستقبل مجھے

شوقِ اظہارِ تمنا پھر اجاگر ہو گیا
پھر کوئی آواز دیتا ہے سرِ محفل مجھے

جوئے خوں نے رکھ لیا ناظرؔ کی آنکھوں کا بھرم
جانِ جاں تم نے تو سمجھا پیار کے قابل مجھے

عبداللہ ناظر



پروین کیف

یوم پیدائش 23 دسمبر 

خدا بچائے محبت کی اس بلا سے بھی 
کہ درد دل نہیں جاتا کسی دوا سے بھی 

جلا رکھے ہیں مری زندگی میں سانسوں نے 
چراغ ایسے کہ بجھتے نہیں ہوا سے بھی 

مرے لئے مرا اللہ کون سا کم ہے 
مجھے تو کام نہیں ہے کسی خدا سے بھی 

چراغ راہ بنایا ہے تم نے کس کس کو 
کبھی ملے ہو محمدؐکے نقش پا سے بھی 

ہم اپنی جان اسی پر نثار کرتے ہیں 
ہمیں وہ قتل کرے چاہے جس ادا سے بھی 

اسی چمن میں جو میرا چمن ہے میرا چمن 
بہت سے پیڑ مرے خون کے ہیں پیاسے بھی 

ستم کسی پہ وہ کرتے نہیں ہمارے سوا 
جفا تو ہے یہ مگر کم نہیں وفا سے بھی 

دھڑکتے شعر سنے ہم نے بنت کیفؔ سے آج 
ملے ہم ایک محبت کی شاعرہ سے بھی

پروین کیف



نعمان غازی

یوم پیدائش 22 دسمبر 1992

کس کو خیال یار نے رکھا اداس ہے
یہ کس کی پیاس کے لیے دریا اداس ہے

اب قہقہوں کی بھیٹر میں اندازہ کیا لگے
کوئی اداس ہے بھی تو کتنا اداس ہے

دہلیز پر شعور کی رکھ تو دیا قدم
لیکن وہ یونیفارم پہ بستہ اداس ہے

شاعر بنا کے لائیے کچھ مسخروں کو اب
مدت سے شاعری کی یہ دنیا اداس ہے

کاغذ پہ خاک ڈال دی تصویر بن گئی
تصویر ایسی جس کا کہ چہرہ اداس ہے

نعمان غازی



Friday, December 23, 2022

عابد پیشاوری

یوم پیدائش 22 دسمبر 1936

کیوں کہوں میں تری بے داد سے دل دکھتا ہے
آسمانِ ستم ایجاد سے دل دکھتا ہے

ٹھوکریں کھائی ہیں وہ راہِ وفا میں ہم نے
اب تو ہر چھوٹی سی اُفتاد سے دل دکھتا ہے

جب ستم تھا تو سکوں کا کوئی پہلو بھی تو تھا
جب نہیں کچھ بھی تو فریاد سے دل دکھتا ہے

ہائے وہ یاد کہ دیتی تھی کچھ اس دل کو قرار
اب یہ حالت کہ اسی یاد سے دل دکھتا ہے

خود بھی خوش رہ کے تجھے دیکھ کے خوش ہو دنیا
ایک ناشاد کا ناشاد سے دل دکھتا ہے

چار دن عمر تری وہ بھی کٹے رو رو کر
اے جوانی تری بنیاد سے دل دکھتا ہے

عابد پیشاوری


 

رفیق درد

یوم پیدائش 22 دسمبر 1932

ترا حسنِ لم یزل ہے مری آرزو ہے فانی
مری زندگی ہے پل کی‘ تری عمر جاودانی

کڑی دھوپ کیا کرے گی‘ مرا جسم کیا جلے گا
میں ہوا پہ لکھ رہا ہوں تری زلف کی کہانی

مرے زخم کے لبوں پر وہی سرخیاں ہیں اب تک
مجھے ڈر ہے ڈھل نہ جایے کہیں پھول کی جوانی

یہ زمین دردؔ کیا دے ہمیں شانتی کے پودے
کہیں حادثوں کا میلہ‘ کہیں خون کی روانی

رفیق درد



مدثر انیس

یوم پیدائش 21 دسمبر 2003

ہم سب کو تیرگی سے بچایا رسولؐ نے
دنیا کو دین حق کا سکھایا رسولؐ نے 

شہرِمدینہ مجھ سے گلے مل کے رو پڑا
جیسے ہی مجھ کو پاس بلایا رسولؐ نے 

کعبہ تھا اور کفر تھا بت بھی تھے بےشمار
کعبے سے یہ نظام مٹایا رسولؐ نے 

جیسےکہ تیرگی کو مٹاتی ہے روشنی
باطل کو اس طرح سے مٹایا رسولؐ نے 

اس نے خدا کے نور کو دیکھا ہے آپؐ میں
چہرہ جسےبھی اپنا دکھایا رسولؐ نے 

بھٹکے نہ ان کے بعد کوئی بھی انیس شخص
طائف میں اپنا خون بہایا رسولؐ نے 

مدثر انیس



زاہد ابرول

یوم پیدائش 20 دسمبر 1950

دل ربا دل دار دل آرا نہ تھا 
شہر میں کوئی ترے جیسا نہ تھا 

نا خدائی کا وہ رتبہ لے گیا 
عمر بھر پانی میں جو اترا نہ تھا 

کرشن نے کنکر بہت پھینکے مگر 
اب کے رادھا کا گھڑا کچا نہ تھا 

ختم کر بیٹھا ہے خود کو بھیڑ میں 
جب تلک تنہا تھا وہ مرتا نہ تھا 

عکس ظاہر تھا مگر تھا اک سراب 
نقش دھندلا تھا مگر مٹتا نہ تھا 

میں جیا ہوں اس سمندر کی طرح 
جس کی قسمت میں کوئی دریا نہ تھا 

گرد آلود آنکھ تھی زاہدؔ مری 
ورنہ آئینہ تو وہ میلا نہ تھا

زاہد ابرول


 

رفیق صدیقی

یوم پیدائش 20 دسمبر 1953

فضا میں اڑتی ہیں سازش کی کرچیاں ہرسو
تم ایک پل کے لیے بھی نہ بے خبر رہنا

رفیق صدیقی 
 

کلیم حاذق

یوم پیدائش 20 دسمبر 1961

ہم ترے وصل کی ہر بات بتانے سے رہے
پر رقیبوں سے ترے بھید چھپانے سے رہے

کیسا قصہ تھا کہ سنتے ہی اسے نیند آئی
وہ جو سویا تو پھر ہم اس کو جگانے سے رہے

ہم نبھائیں تو بھلا کس طرح دنیا داری
دل کسی سے تو کہیں ہاتھ ملانے سے رہے

رات کٹتی نہیں اور قصہء شب ختم ہوا
چلئے کچھ روز یہ سورج بھی ٹھکانے سے رہے

مشکلوں میں اسے دیتے جو صدائیں دل سے
غیر ممکن ہے وہ بندوں کو بچانے سے رہے 

کلیم حاذق


 

رام بھگوان داس

یوم پیدائش 20 دسمبر 1942

جمالِ دو عالم تری ذاتِ عالی​
دو عالم کی رونق تری خوش جمالی​

خدا کا جو نائب ہوا ہے یہ انسان​
یہ سب کچھ ہے تری ستودہ خخصالی

تو فیاضِ عالم ہے دانائے اعظم​
مبارک ترے در کا ہر اِک سوالی​

نگاہِ کرم ہو نواسوں کا صدقہ​
ترے در پہ آیا ہوں بن کے سوالی ​

میں جلوے کا طالب ہوں ، اے جان عالم!​
دکھادے ،دکھادے وہ شانِ جمالی ​

ترے آستانہ پہ میں جان دوں گا ​
نہ جاوٗں ، نہ جاوٗں ، نہ جاوٗں گا خالی ​

تجھے واسطہ حضرتِ فاطمہ کا​
میری لاج رکھ لے دو عالم کے والی ​

نہ مایوس ہونا یہ کہتا ہے بھگوان ​
کہ جودِ محمد ہے سب سے نرالی

رام بھگوان داس



فرزانہ پروین

یوم پیدائش 19 دسمبر 

پانے کا ذکر کیا کہ گنوانا بہت ہوا
دل اس کی بے رخی کا نشانہ بہت ہوا

خوابوں کی گٹھری لاد کے کب تک جئیں گے ہم
پلکوں پہ ان کا بار اٹھانا بہت ہوا

ہوتا ہے درد، جب کبھی آ جائے اس کا ذکر
گو زخمِ دل ہمارا پرانا بہت ہوا

مجھ کو نہیں قبول تمہارا کوئی جواز
اب روز روز کا یہ بہانہ بہت ہوا

اوروں کے درد و غم کا پتا چل گیا ہے نا
اب تو ہنسو کہ رونا رلانا بہت ہوا

تعبیر چاہیے مجھے، تدبیر کیجئے
آنکھوں کو خواب واب دکھانا بہت ہوا

فرزاؔنہ کوئی بات غزل میں نئی کہو
ذکرِ وصال و ہجر پرانا بہت ہوا

فرزانہ پروین



سید صغیر صفی

یوم پیدائش 18 دسمبر 1983

کیا بھروسہ ہے انہیں چھوڑ کے لاچار نہ جا 
بن ترے مر ہی نہ جائیں ترے بیمار نہ جا 

مجھ کو روکا تھا سبھی نے کہ ترے کوچے میں 
جو بھی جاتا ہے وہ ہوتا ہے گرفتار نہ جا 

ناخدا سے بھی مراسم نہیں اچھے تیرے 
اور ٹوٹے ہوئے کشتی کے بھی پتوار نہ جا 

جلتے صحرا کا سفر ہے یہ محبت جس میں 
کوئی بادل نہ کہیں سایۂ اشجار نہ جا 

بن ہمارے نہ ترے ناز اٹھائے گا کوئی 
سوچ لے چھوڑ کے ہم ایسے پرستار نہ جا

سید صغیر صفی



احتشام فاروقی

یوم پیدائش 18 دسمبر 1994

عجب سی کشمکش رہی ہے قلبِ عذر خواہ میں
مفاہمت نہ آ سکی مراسم نباہ میں

اُجاڑ کر کے دل مِرا کہا یہ اس نے ناز سے
نہ بن سکے گا آشیاں اب اس دلِ تباہ میں

یہ میکشی ہزار کوششوں کے باوجود بھی
نہ دے سکی وہ اک مزا جو تھا کسی نگاہ میں

وہ رمز جو کے جھانکتا ہے اب نگاہِ یاس سے
ہیں حسرتیں جو گر گئی ہیں آگہی کی تھاه میں

مرے لیے تو اتنا ہی ہے زندگی کا فلسفہ 
یہ مختصر سا اک سفر ہے خواہشوں کی چاہ میں

احتشام فاروقی



عاطف کمال رانا

یوم پیدائش 18 دسمبر 1970

تو جو کہتا ہے کہ آسان سمجھ جائے گا
کیا مرا چاک گریبان سمجھ جائے گا؟

میری خوشبو نہیں گھر میں تو میاں میں بھی نہیں
گھر میں آیا ہوا مہمان سمجھ جائے گا

اور کچھ دیر میں اس شخص نے آ جانا ہے
کب مہکتا ہے یہ دالان سمجھ جائے گا

شہر کا شہر مجھے اچھی طرح جانتا ہے
یہ مرا فائدہ نقصان سمجھ جائے گا

تم بھلے چپ ہی رہو اور سمجھنے والا
کون سے بت میں ہے انسان سمجھ جائے گا 

اس کو دیکھے گا تو کھل جائیں گی أنکھیں تیری
باغ کیا شے ہے بیابان سمجھ جائے گا

عشق سینے سے نکلتا ہوا لاوا ہے دوست
دل کا کمزور یہ طوفان سمجھ جائے گا

عاطف کمال رانا



علی اعجاز تمیمی

یوم پیدائش 17 دسمبر 

جستجو کرنا بھی آرام بھی کرتے رہنا
ذکرِ سرکارؐ صبح و شام بھی کرتے رہنا

پڑھتے ہی جانا اسی عالمِ مستی میں درود
یہ علاجِ دلِ ناکام بھی کرتے رہنا

تاکہ گستاخِ نبی کر ہی نہ پائے جرات
دعوہ ٕ عشق سرِ عام بھی کرتے رہنا

سنتِ حضرتِ حسانؓ میں لکھنا نعتیں
شعر گوٸی میں بڑا نام بھی کرتے رہنا

روز ہی کرنا مدینے کا خیالوں میں سفر
شکوہ ٕ گردشِ ایام بھی کرتے رہنا

کیمیا ہے کہ ہے اعجاز مدینے کا فراق
زر بھی کر دینا ہمیں خام بھی کرتے رہنا

علی اعجاز تمیمی 



ذرہ حیدرآبادی

یوم پیدائش 17 دسمبر 1970

یہ فریبی سیاست نہیں چاہیے
اب خیالوں کی جنت نہیں چاہیے

تم ترقی فحاشی کو کہتے رہو
ہم کو غیرت کی قیمت نہیں چاہیے

قتل ہونے کو کہتے ہو تم حادثہ
 ایسی جھوٹی حقیقت نہیں چاہیے
 
عام کرتے ہو جو جام و ساغر کو تم
ان گناہوں کی لذت نہیں چاہیے

صدر صاحب سے کہہ دو یہ ذرہ زرا
کوئی تازہ مصیبت نہیں چاہیے

ذرہ حیدرآبادی 



سعید احسن

یوم پیدائش 17 دسمبر 1963

کتنی مشکل ہے کہ مشکل کی طرف جانا ہے 
خود سے چل کر مجھے قاتل کی طرف جانا ہے 

دل یہ کہتا ہے کہ گرداب میں لے چل کشتی 
ذہن کہتا ہے کہ ساحل کی طرف جانا ہے 

راہ دشوار ہے تو عزم سلامت ہے مرا 
مجھ کو ہر حال میں منزل کی طرف جانا ہے 

مجھ سے دیکھا نہیں جائے گا تڑپنا جس کا 
کیا ستم ہے اسی بسمل کی طرف جانا ہے 

بڑھتی جاتی ہے مسلسل ہی یہ وحشت دل کی 
کیا مجھے طوق و سلاسل کی طرف جانا ہے 

راہ بر ہوگا نہ رستے میں لٹیرے ہوں گے 
لے کے اعمال ہی منزل کی طرف جانا ہے 

منزل کرب و بلا اس سے ہے آگے احسنؔ 
لوٹ جائے جسے باطل کی طرف جانا ہے

سعید احسن


 

سبحانی آکاش

یوم پیدائش 16 دسمبر 1967

معاملاتِ محبت کو دل لگی نہ سمجھ 
مرے مزاج، مجھے خود سے اجنبی نہ سمجھ 

نظر وہی ہے جسے حد کی کوئی قید نہ ہو
بدن میں سانس کی مہلت کو زندگی نہ سمجھ 

وہ زیست اور ہے جس کو نہ آئے موت کبھی 
بدن میں سانس کی مہلت کو زندگی نہ سمجھ 

یہ کائنات بنائی گئی ہے میرے لیے 
کوئی بھی چیز یہاں مجھ سے قیمتی نہ سمجھ 

بچا رکھا ہے اگر تو نے کوئی داو ابھی 
یہ چال میری طرف سے بھی آخری نہ سمجھ 

یہ امتحان کے لمحات ہیں سبھی آکاش 
سو غم کو غم نہ سمجھ اور خوشی، خوشی نہ سمجھ 

سبحانی آکاش



فرزانہ نیناں

یوم پیدائش 16 دسمبر 

اس کو احساس کی خوشبو سے رہا کرنا تھا 
پھول کو شاخ سے کھلتے ہی جدا کرنا تھا 

پوچھ بارش سے وہ ہنستے ہوئے روئی کیوں ہے 
موسم اس نے تو نشہ بار ذرا کرنا تھا 

تلخ لمحے نہیں دیتے ہیں کبھی پیاسوں کو 
سانس کے ساتھ نہ زہراب روا کرنا تھا 

کس قدر غم ہے یہ شاموں کی خنک رنگینی 
مجھ کو لو سے کسی چہرے پہ روا کرنا تھا 

چاند پورا تھا اسے یوں بھی نہ تکتے شب بھر 
یوں بھی یادوں کا ہر اک زخم ہرا کرنا تھا 

دونوں سمتوں کو ہی مڑنا تھا مخالف جانب 
ساتھ اپنا ہمیں شعروں میں لکھا کرنا تھا 

کرب سے آئی ہے نیناں میں یہ نیلاہٹ بھی 
درد کی نیلی رگیں دل میں رکھا کرنا تھا

فرزانہ نیناں



عبد الباسط طاہر

یوم پیدائش 16 دسمبر 1966

راز اپنے میں خود سنا بیٹھا
ایک پردہ جو تھا اٹھا بیٹھا

مجھ کو توبہ تھی میکشی سے مگر
ہائے ساقی نظر ملا بیٹھا

لطف و راحت بہشت کے آدم
ایک لذت پہ ہی گنوا بیٹھا

دل کے جنگل میں اس قدر بھٹکا
واپسی کے نشاں مٹا بیٹھا

رت ہے سردی بہار آئے گی
دل کے ارمان سب جگا بیٹھا

سرد موسم پہاڑ برفوں کے
بیج پھولوں کے میں دبا بیٹھا

جسم کا اک طبیب ڈھونڈوں گا
روح کے زخم اب چھپا بیٹھا

دیکھتا کم ہوں کم ہی سنتا ہوں
جب سے آہٹ پہ دل لگا بیٹھا

عبد الباسط طاہر


 

نصرت زہرا

یوم پیدائش 16 دسمبر 1978

نہ رمز میں کسی معنی میں نہ سوال میں ہے 
یہ میرا کھویا ہوا دل ترے خیال میں ہے 

نہ اب سکون ملے نا اسے قرار کہیں 
نہ اب خموش ہے دل اور نہ عرض حال میں ہے 

تری جبیں پہ جو اک بار جگمگایا تھا 
وہ اک ستارہ میرے لمحۂ وصال میں ہے 

پلٹ کے تو نے جو دیکھا تو یوں لگا مجھ کو 
کہ مرے پیار کا حاصل ترے کمال میں ہے 

جو بیقرار تھی کہنے کو وہ زباں گنگ ہے 
نہ زیست رہ گئی اس میں نہ یہ ملال

نصرت زہرا


 

اعظم نصر

یوم پیدائش 16 دسمبر 1958

اس کو عادت تھی مسکرانے کی
بے وجہ بات کو بڑھانے کی

لٹ گئے ہم رہی غلط فہمی
یہ حقیقت تھی اس فسانے کی

اب تو عادت سی ہوگئی جیسے
خوامخواہ اس گلی میں جانے کی

اک تماشہ بنا لیا خود کو
دل لگی بن گئے زمانے کی

عشق میں بھول اک ہوئی اعظم 
اپنی اوقات بھول جانے کی 

اعظم نصر


 

ڈاکٹر خالد جمیل

یوم پیدائش 16 دسمبر 1956

دل بھی خوش ہو کبھی،  یہ آس لیے
لوگ ہنستے ہیں دل  اداس لیے
 
کہہ رہا ہے کٹھن ہے سچ کا مقام
زہر سقراط کا گلاس لیے
 
غم بھی دیتے ہیں اور ہنستے ہوئے
گفتگو میں بڑی مٹھاس لیے

تلخیئے آسماں  پلا دے اُسے
دل سمندر ہے اک پیاس لیے
 
جب بھی پڑتی ہے چوٹ دل پہ مرے
ساز  بجتے ہیں دُھن  اداس لیے
 
دیکھ خاؔلد نہال ہے یہ  چمن
پھول خوشبو ہے آس  پاس لیے

ڈاکٹر خالد جمیل



Thursday, December 22, 2022

خالد رضوی امروہوی

یوم پیدائش 15 دسمبر 1952

مصروفِ ثنا میں ہے ثناخوانِ محمدؐ
ہے نغمہ سرا بلبل بستانِ محمدؐ

خوش رنگ گُل وغنچہ معطّر ہیں فضائیں
صد رشکِ بہاراں ہے گلستانِ محمدؐ

رضواں درِ جنت پہ ہمیں دیکھ کے بولا
آنے دو انہیں یہ ہیں غلامانِ محمدؐ

محشر میں گنہگاروں کی بن جائے گی بگڑی
مل جائے اگر سایۂ دامانِ محمدؐ

معراجِ نبی عرش کی عظمت کا سبب ہے
یوں کہیے یہ ہے عرش پہ احسانِ محمدؐ

رضوی یہ تقاضا ہے غلامی کا نبیؐ کی
جو کچھ بھی لکھو، لکھو بہ عنوانِ محمدؐ

خالد رضوی امروہوی


 

محمد عظیم حاذق

یوم پیدائش 15 دسمبر 1980

نعت
کیا ارض کیا سما ہےکیا ہے ملک ملک
محوِ ثنا ہے ذرہ ذرہ پلک پلک

ظلمت کدہ چمک کر روشن کدہ ہوا
لہرائی جب جہاں میں نازاں الک الک

پائے ہیں تیری شفقت و رحمت کے سائباں
اقصیٰ سے لا مکانی سدرہ تلک تلک

تجھ سے حسین ؓ ہیں اور تو ہے حسین ؓ سے
آ لِ حسین میں بھی تیری جھلک جھلک

بیٹھے ہیں خود زمیں پر چیتھڑ لباس میں
نعلین جن کی ہے یہ سر با فلک فلک

تیری عطا مبارک سب کو مبارکاں ہے
پتھربھی پا گئے ہیں تجھ سے ڈلک ڈلک

سرزور پُر تشدد سرسرنگوں ہوئے
نخوت پہ چھائی ایسی رمز للک للک

آتے ہیں یاد جب بھی حاذق کو وقت وہ
بے ساختہ پڑیں یہ آ نکھیں چھلک چھلک

محمد عظیم حاذق 


 

خالد سجاد

یوم پیدائش 15 دسمبر 1961

جنہیں سفر کے لیے حوصلہ نہیں ملتا 
ہجوم میں بھی انہیں راستہ نہیں ملتا 

برا نہ مان اگر دیکھنے لگا ہوں تجھے 
میں کیا کروں کہ مجھے آئنہ نہیں ملتا 

لگی ہوئی ہے یوں ہی دل کو حرص دنیا کی 
وگرنہ ان سے جو مانگوں تو کیا نہیں ملتا 

میں اپنے گھر سے نکل کر کہاں چلا آیا 
کہ شہر بھر میں کوئی آشنا نہیں ملتا 

عذاب جان بنا ہے یہ شور شہر فشار 
سکوں کے واسطے اب میکدہ نہیں ملتا 

میں کیا کہوں کہ ہوا ہی خلاف ہے میرے 
پلٹ کے آؤں تو در بھی کھلا نہیں ملتا 

کہیں سے روشنی لا دو وگرنہ اب خالدؔ 
وہ گھر جلائیں گے جن کو دیا نہیں ملتا

خالد سجاد



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...