Urdu Deccan

Sunday, January 31, 2021

جوش ملسیانی

 یوم پیدائش 01 فروری 1884


وطن کی سر زمیں سے عشق و الفت ہم بھی رکھتے ہیں

کھٹکتی جو رہے دل میں وہ حسرت ہم بھی رکھتے ہیں 


ضرورت ہو تو مر مٹنے کی ہمت ہم بھی رکھتے ہیں

یہ جرأت یہ شجاعت یہ بسالت ہم بھی رکھتے ہیں 


زمانے کو ہلا دینے کے دعوے باندھنے والو

زمانے کو ہلا دینے کی طاقت ہم بھی رکھتے ہیں 


بلا سے ہو اگر سارا جہاں ان کی حمایت پر

خدائے ہر دو عالم کی حمایت ہم بھی رکھتے ہیں 


بہار گلشن امید بھی سیراب ہو جائے

کرم کی آرزو اے ابر رحمت ہم بھی رکھتے ہیں 


گلہ نا مہربانی کا تو سب سے سن لیا تم نے

تمہاری مہربانی کی شکایت ہم بھی رکھتے ہیں 


بھلائی یہ کہ آزادی سے الفت تم بھی رکھتے ہو

برائی یہ کہ آزادی سے الفت ہم بھی رکھتے ہیں 


ہمارا نام بھی شاید گنہ گاروں میں شامل ہو

جناب جوشؔ سے صاحب سلامت ہم بھی رکھتے ہیں 


جوشؔ ملسیانی


عبد الحق قاسمی

 یوم پیدائش 01 فروری 1943


منزلیں بھی یہ شکستہ بال و پر بھی دیکھنا

تم سفر بھی دیکھنا رخت سفر بھی دیکھنا 


حال دل تو کھل چکا اس شہر میں ہر شخص پر

ہاں مگر اس شہر میں اک بے خبر بھی دیکھنا 


راستہ دیں یہ سلگتی بستیاں تو ایک دن

قریۂ جاں میں اترنا یہ نگر بھی دیکھنا 


چند لمحوں کی شناسائی مگر اب عمر بھر

تم شرر بھی دیکھنا رقص شرر بھی دیکھنا 


جس کی خاطر میں بھلا بیٹھا تھا اپنے آپ کو

اب اسی کے بھول جانے کا ہنر بھی دیکھنا 


یہ تو آداب محبت کے منافی ہے عطاؔ

روزن دیوار سے بیرون در بھی دیکھنا


عطاء الحق قاسمی


شاذ تمکنت

 یوم پیدائش 31 جنوری 1933


مرا ضمیر بہت ہے مجھے سزا کے لیے

تو دوست ہے تو نصیحت نہ کر خدا کے لیے 


وہ کشتیاں مری پتوار جن کے ٹوٹ گئے

وہ بادباں جو ترستے رہے ہوا کے لیے 


بس ایک ہوک سی دل سے اٹھے گھٹا کی طرح

کہ حرف و صوت ضروری نہیں دعا کے لیے 


جہاں میں رہ کے جہاں سے برابری کی یہ چوٹ

اک امتحان مسلسل مری انا کے لیے 


نمیدہ خو ہے یہ مٹی ہر ایک موسم میں

زمین دل ہے ترستی نہیں گھٹا کے لیے


میں تیرا دوست ہوں تو مجھ سے اس طرح تو نہ مل

برت یہ رسم کسی صورت آشنا کے لیے 


ملوں گا خاک میں اک روز بیج کے مانند

فنا پکار رہی ہے مجھے بقا کے لیے 


مہ و ستارہ و خورشید و چرخ ہفت اقلیم

یہ اہتمام مرے دست نارسا کے لیے 


جفا جفا ہی اگر ہے تو رنج کیا ہو شاذؔ

وفا کی پشت پناہی بھی ہو جفا کے لیے


شاذ تمکنت


Saturday, January 30, 2021

سرور بارہ بنکوی

 یوم پیدائش 30 جنوری 1919


اے جنوں کچھ تو کھلے آخر میں کس منزل میں ہوں 

ہوں جوار یار میں یا کوچۂ قاتل میں ہوں 


پا بہ جولاں اپنے شانوں پر لیے اپنی صلیب 

میں سفیر حق ہوں لیکن نرغۂ باطل میں ہوں 


جشن فردا کے تصور سے لہو گردش میں ہے 

حال میں ہوں اور زندہ اپنے مستقبل میں ہوں 


دم بخود ہوں اب سر مقتل یہ منظر دیکھ کر 

میں کہ خود مقتول ہوں لیکن صف قاتل میں ہوں 


اک زمانہ ہو گیا بچھڑے ہوئے جس سے سرورؔ 

آج اسی کے سامنے ہوں اور بھری محفل میں ہوں


سرور بارہ بنکوی 


مرتضیٰ برلاس

 یوم پیدائش 30 جنوری 1934


نہر جس لشکر کی نگرانی میں تب تھی اب بھی ہے 

خیمے والوں کی جو بستی تشنہ لب تھی اب بھی ہے 


اڑ رہے ہیں وقت کی رفتار سے مغرب کی سمت 

وقت آغاز سفر جو تیرہ شب تھی اب بھی ہے 


وقت جیسے ایک ہی ساعت پہ آ کے رک گیا 

پہلے جس شدت سے جو دل میں طلب تھی اب بھی ہے 


ہم شکایت آنکھ کی پلکوں سے کرتے کس طرح 

داستان ظلم ورنہ یاد سب تھی اب بھی ہے 


حسن میں فطری حجابانہ روش اب ہو نہ ہو 

عشق کے مسلک میں جو حد ادب تھی اب بھی ہے 


روز و شب بدلیں گے اپنے کس طرح آئے یقیں 

صورت حالات جو پہلے عجب تھی اب بھی ہے 


ہیں بقا کے وسوسے میں ابتدا سے مبتلا 

دل میں اک تشویش سی جو بے سبب تھی اب بھی ہے 


نام اس کا آمریت ہو کہ ہو جمہوریت 

منسلک فرعونیت مسند سے تب تھی اب بھی ہے


مرتضیٰ برلاس


Friday, January 29, 2021

مقسط ندیم

 یوم پیدائش 29 جنوری 1953


یہ آگہی ہے جو کرتی ہے مجھ کو ذات میں گم

پھر اس کے بعد میں ہوتا ہوں شش جہات میں گم 


یہ کائنات مری جان قفل ابجد ہے 

میں کھولتا ہوں اسے کر کے ممکنات میں گم 


یہ دائرے ہیں تمہیں پھر سے قید کر لیں گے

فنا سے نکلے تو ہو جاؤ گے ثبات میں گم 


میں کربلا ہوں مجھے دیکھ میری قامت دیکھ

زمانہ کر نہیں سکتا مجھے فرات میں گم 


تری جدائی کا نیلم الگ سے رکھا ہے

کیا نہیں اسے دنیا کے زیورات میں گم 


مرا بڑھاپا مری روح کی تلاش میں ہے

مری جوانی بدن کے لوازمات میں گم 


میں علم ہوں مجھے تسخیر کرنا آتا ہے

وہ جہل تھا جو ہوا تیری کائنات میں گم


مقسط ندیم


Thursday, January 28, 2021

اختر علوی

 یوم پیدائش کی مبارک باد

 29 جنوری 1945


بتوں کی طرح تراشے گئے ، سجائے گئے

 خدا بنا کے ہیں کچھ لوگ بھی بٹھائے گئے

 

جنہیں ہیں جوڑ کے ناموں سے معتبر کچھ لوگ 

وہ سب لقب ہیں ہمارے ہی جو چرائے گئے


ہمارا ہی تھا جگر ہنس کے سہہ لئے ہم نے

ہزار زخم ہر اک زخم پر لگائے گئے


ابھر رہے تھے نئے عزم نسل ِنو میں مگر

تھپک تھپک کے خرابات میں سلائے گئے


ہم اہل عشق و جنوں تھے نکل پڑے بے خوف 

ہماری راہ میں کانٹے تو تھے بچھائے گئے


ہم آفتاب تھے ڈوبے کہیں کہیں اُبھرے

یہ وہ چراغ ہیں اختر جو کب بجھائے گئے


اختر علوی


نعمان حیدر جامی

تم کبھی جو نہ آئی


میرے خوابوں کی دنیا میں 

اک لمحہ تم جو آ جاتے 

میری بکھری

لاکھوں یادوں کا دروازہ

چپکے چپکے 

سے کھل جاتا

تیری الفت

کے رنگوں میں 

میں خود اپنے اندر

سب کچھ ہی کھو جاتا

لیکن 

تو نہیں آئی

میں نے تیری خاطر

پھولوں کے بستر پر

اس گھر کی چوکھٹ پر

خود کو سجا کے

بیٹھی

شب بھر میری آنکھیں 

تیری راہیں تکتی تکتی 

پھر نہ جانے

حامیؔ  کی چاہت میں 

تو کبھی نہیں آئی

تو کبھی نہیں آئی


  نعمان حیدر حامیؔ


احسان عباس

 یوم پیدائش 28 جنوری


زہر اب آب و ہوا کا تو نہیں پِینا ہے 

ہم کو زندان میں ڈالو کہ ہمیں جِینا ہے


ہے مٙرٙض ایک ہی کیا شہر کے انسانوں کو   

جو بھی مرتا ہے وہ کیوں تھامے ہوئے سِینہ ہے


وسعتِ عالمِ امکان ذرا سوچیں تو 

یہ زمیں اس میں فقط ایک قرنطِینہ ہے


اے خداوند اُتارو بھی کوئی اِسکا علاج 

یہ وہ گھاؤ ہے جو دنیا نے نہیں سِینا ہے


آؤ کچھ سیرِ سماوات ہی کر لیں احسان 

جانبِ عرش لگاؤ جو کوئی زینہ ہے


احسان عبّاس


ڈاکٹر اختر صدیق

 یوم پیدائش 28 جنوری 1955

اب عشق میں وہ جراتِ اظہار نہیں ہے
ہوتا کوئی رسوا  سرِ بازار نہیں ہے

ا س دور میں مفقود ہوا جذبہ خودی کا
بک جاتا ہے جو صاحبِ کردار نہیں ہے

جاہل ہوکہ عالم کوئی ،ابدال کہ صوفی
ہے کون جو دنیا کا طلب گار نہیں ہے

ممکن نہیں گرداب  سے اب بچ کے نکلنا
دریا ہے چڑھا ، ہاتھ میں پتوار نہیں ہے

یہ کید ، دغا ، جور ، جفا ، قتل ، ہلاکت
اِ س پار  بہت ہے مگر اُ س پار  نہیں ہے


چڑھ سکتاہے ہنستے ہوئے وہ دار پہ ،لیکن
دب جائے جو باطل سے وہ فنکار نہیں ہے

بے لاگ جو حالات کی تصویر دکھا ئے
اس دور میں ایسا کوئی اخبار نہیں ہے

ہر سمت لگی نفرتوں کی آگ ہے "اختر "
اس وقت غزل جو کہے ، فنکار نہیں ہے
      
ڈاکٹراخترصدّیق

Wednesday, January 27, 2021

افضل خاکسار

 فکرِ آیندہ خطِ لوحِ جبیں پر رکھ دی

خُوئے تشکیک و گُماں طاقِ یقیں پر رکھ دی

حُسنِ ترتیب سے خالی رہا کمرا میرا
بے خیالی میں کوئی چیز کہیں پر رکھ دی

زندگی کا کوئی سارق نہ مجھے گردانے
میں نے جو چیز اُٹھائی تھی وہیں پر رکھ دی

حرفِ کُن کہہ کے مری میّتِ ہستی اُس نے
آسماں سے جو اُٹھائی تو زمیں پر رکھ دی

“ لَا “ کہا اور پھر “ اِلَّا “ سے کیا مستثنٰی
اُس نے اثبات کی بنیاد نہیں پر رکھ دی

جو اُٹھائی نہ گئی اہلِ فلک سے افضل
وہ امانت بھی مجھی خاک نشیں پر رکھ دی

افضل خاکسار
#urdupoetry #urdudeccan #اردودکن #اردو #شع


راء #birthday  #پیدائش #شاعری #اردوشاعری #اردوغزل #urdugazal #urdu #poetrylover #poetry #rekhta#شاعر #غزل #gazal

ضیاء شہزاد

 یوم پیدائش 27 جنوری 1942


دشمنِ جاں تھا مگر وہ جان سے پیارا لگا

ہجر کی شب میں مجھے امید کا تارا لگا


میں مسافر دھوپ کے رستے میں پیاسا ہی رہا

وہ سرابِ محض نکلا جو مجھے دریا لگا


چاند سے میں کیا کہوں دیتا ہے دھوکا یہ مجھے

چودھویں کی رات تھی کل چاند تم جیسا لگا


حسرتوں کے پھول بس کھلتے ہی مرجھانے لگے

یوں دغا دے کر گیا وہ دل میں کانٹا سا لگا


اک زرا سی بات سے رشتے بھی پہچانے گئے

خیر تھا وہ شخص کتنا جو مجھے اپنا لگا


یوں اٹھا شہزاد سارا اعتبارِ آدمی

مجھ کو اپنے آپ سے بھی جان کا دھڑکا لگا 


ضیاء شہزاد


معید رشیدی

 یوم پیدائش 27 جنوری 1988


یہ معجزہ ہے کہ میں رات کاٹ دیتا ہوں 

نہ جانے کیسے طلسمات کاٹ دیتا ہوں 


وہ چاہتے ہیں کہ ہر بات مان لی جائے 

اور ایک میں ہوں کہ ہر بات کاٹ دیتا ہوں 


نمی سی تیرتی رہتی ہے میری آنکھوں میں 

بہ اختیار میں برسات کاٹ دیتا ہوں 


ترا خیال ہی اب میرا اسم اعظم ہے 

اسی سے سارے خیالات کاٹ دیتا ہوں 


یہ رات کاٹتی رہتی ہے صبح تک مجھ کو 

نہ جانے کیسے میں ہر رات کاٹ دیتا ہوں 


معید رشیدی


Tuesday, January 26, 2021

گوہر بنارسی

 یوم پیدائش 26 جنوری 2002


قول مصطفی پر تم جان و دل لٹا دینا

الفت و محبت سے تم جہاں سجا دینا


مال و زر لٹا دینا پیار امن کی خاطر

پر نہ دشمن جاں سے تم کبھی صلہ لینا


بیویوں کی خواہش میں بیٹیوں کے چکر میں

اپنی بندگی کا حق یار مت بھلا دینا


حکم ہے نبی کا یہ دھیان سے سنو گوہر

سر جو کاٹنے آئے اس کو بھی دعا دینا


گوہر بنارسی


اجمل صدیقی

 یوم پیدائش 26 جنوری 1981


زندگی روز بناتی ہے بہانے کیا کیا

جانے رہتے ہیں ابھی کھیل دکھانے کیا کیا


صرف آنکھوں کی نمی ہی تو نہیں مظہر غم

کچھ تبسم بھی جتا دیتے ہیں جانے کیا کیا


کھٹکیں اس آنکھ میں تو دھڑکیں کبھی اس دل میں

در بدر ہو کے بھی اپنے ہیں ٹھکانے کیا کیا


بول پڑتا تو مری بات مری ہی رہتی

خامشی نے ہیں دئے سب کو فسانے کیا کیا


شہر میں رنگ جما گاؤں میں فصلیں اجڑیں

حشر اٹھایا بنا موسم کی گھٹا نے کیا کیا


خواب و امید کا حق، آہ کا فریاد کا حق

تجھ پہ وار آئے ہیں یہ تیرے دوانے کیا کیا


اجمل صدیقی


محمد محمود عالم

 پاتا نہیں میں جان کی اپنی یہاں اماں 

 جرٱت میں لب کشائی کی کیسے کروں میاں


کوئی نہیں ہے پوچھنے والا ترا یہاں 

" اس شہر بے چراغ میں جائے گا توکہاں " 


کہتا تھا ایک بوڑھا بھی  بڑھیا سے یہ میاں 

اپنے نصیب میں ہے فقط آہ اور فغاں 


نفرت کا بیج بونے سے پہلے ہی سوچ لو  

سائے میں اس درخت کے ممکن  سکوں کہاں 


خوشحال ہو  عوام نہیں کچھ  غرض انہیں 

دشمن بنی ہے ان کی حکومت یہاں وہاں 


محمد محمود عالم


Monday, January 25, 2021

میلہ رام وفا

 یوم پیدائش 26 جنوری 1895


محفل میں اِدھر اور اُدھر دیکھ رہے ہیں

ہم دیکھنے والوں کی نظر دیکھ رہے ہیں


عالم ہے ترے پَرتو رُخ سے یہ ہمارا

حیرت سے ہمیں شمس و قمر دیکھ رہے ہیں


بھاگے چلے جاتے ہیں اِدھر کو تو عجب کیا

رُخ لوگ ہواؤں کا جدھر دیکھ رہے ہیں


ہوگی نہ شبِ غم تو قیامت سے ادھر ختم

ہم شام ہی سے راہ سحر دیکھ رہے ہیں


وعدے پہ وہ آئیں یہ توقع نہیں ہم کو

رہ رہ کے مگر جانبِ در دیکھ رہے ہیں


شکوہ کریں غیروں کا تو کس منہ سے کریں ہم

بدلی ہوئی یاروں کی نظر دیکھ رہے ہیں


شاید کہ اسی میں ہو وفاؔ خیر ہماری

برپا جو یہ ہنگامۂ شر دیکھ رہے ہیں

 ​

میلہ رام وفاؔ


تحسین علی

 یوم پیدائش 25 جنوری1999


جب اُنکی نگاہوں کو ہم دیکھتے ہیں 

بڑے رشک سے جامِ جم دیکھتے ہیں 


کہاں اپنے ظلم و ستم دیکھتے ہیں 

وہ ہنس کر مری آنکھیں نم دیکھتے ہیں 


کبھی دیکھتے ہیں وہ مشکِ سکینہ 

کبھی آنکھ اُٹھا کر علم دیکھتے ہیں 


نہ ہو کیوں مجھے رشک قسمت پہ اُنکی 

جو ہر روز دیر و حرم دیکھتے ہیں  


بڑے چپکے چپکے بھری بزم میں ہم 

حسینوں کی زلفوں کے خم دیکھتے ہیں 


تحسین عل


فاطمہ حسن

 یوم پیدائش 25 جنوری 1953


کہنے کو اس سے عشق کی تفسیر ہے بہت 

پڑھ لے تو صرف آنکھ کی تحریر ہے بہت


تحلیل کرکے شِدّت ِاحساس رنگ میں

بن جائے گر تو ایک ہی تصویر ہے  بہت

 

دستک سے در کا فاصلہ ہے اعتماد کا 

پر لوٹ جانے کو یہی تاخیر ہے بہت 


بیٹھا رہا وہ پاس تو میں سوچتی رہی

خاموشیوں کی اپنی بھی تاثیر ہے بہت


تعمیر کر رہا ہے محبت کا وہ حصار

میرے لئے خلوص کی زنجیر ہے بہت


میں اس سے اپنی بات کہوں شعر لکھ سکوں

الفاظ دے وہ جن میں کہ تاثیر ہے بہت 


فاطمہ حسن


Sunday, January 24, 2021

فیضان فیضی

 یوم پیدائش 24 جنوری 1996


ذرا سا دل کو کریدا تو ایک داغ ملا

اسی سے ہجرِ مسلسل کا پھر سراغ ملا


کہیں چراغ سے جلتی ہوئی ہوا دیکھی

کہیں ہواؤں سے  جلتا ہوا چراغ ملا


نہ جانے کونسا مہمان آنے والا ہے

کئی منڈیریں اچھلتا سیاہ زاغ ملا


جناب آپ تو مدت سے اپنے حجرے میں

خدا کو ڈھونڈ رہے تھے، کوئی سراغ ملا؟


تمہاری یاد میں سانسیں تھکن سے چور ہوئیں

کبھی کہیں نہ کوئی لمحہ ء فراغ ملا


وہ جس کو پی کے ملے ہوش اور پیاس بڑھے

مجھے بدستِ قلندر وہی ایاغ ملا


 فیضان


فیضی 

کبیر بنارسی

 یوم پیدائش 24 جنوری 1957


دُشواریوں کی دھوپ ہر اِک رہگزر میں ہے

اِک چھاؤں عزم کی ہے جو راہِ سفر میں ہے۔


مانا اُمیدو یاس بھی خُوئے بشر میں ہے

لیکن عجیب وحشتِ تنہائی گھر میں ہے


بُجھنے لگے کبیر اُمیدوں کے سب چراغ

طوفاں اُداسیوں کا وہ پچھلے پہر میں ہے


کبیر بنارسی


Saturday, January 23, 2021

صغیر انصاری

 یوم پیدائش 24 جنوری 1962


 وہ لفظ کے پتھر سے جو گھائل نہیں ہوتا

  پھر کرنا غلط کام بھی مشکل نہیں ہوتا


لوگوں کے دل و جان میں شامل نہیں ہوتا 

کیوں رہنما وسواس کے قابل نہیں ہوتا


تم چاہتے ہو جس کو بنا دیتے ہو مجرم

یوں ٹی وی کے پردے پہ ٹرائل نہیں ہوتا


حساس ہوں باتوں کا اثر ہوتا ہے مجھ پر

پتھر کسی بھی حال میں گھائل نہیں ہوتا


جو تیر مری پشت پہ تم دیکھ رہے ہو

بچ جاتا میں یاروں سے جو غافل نہیں ہوتا


اسکول یہ بازار یہ اخبار یہ ٹی وی

 سب ہاتھ میں ہوتے جو تو جاہل نہیں ہوتا

 

صغیر انصاری


غلام مصطفےٰ زار

 یوم پیدائش 23 جنوری 1979


خودی کا خود سے سُراغ پایا

چراغ اندر چراغ پایا


وہیں سے کرنیں نکل رہی ہیں

بدن میں دل سا جو داغ پایا


کلی کلی پُر بہار دیکھی

پروں میں تتلی کے باغ پایا


نظر بھی اب تو نظر ہوئی ہے

نظر سے ایسا ایاغ پایا


کہیں کی باتیں کہیں سُنائیں

بلا کا ہم نے دماغ پایا 


غلام مصطفےٰ رازؔ 


سمن دھنگرا دگل

 یوم پیدائش 23 جنوری


نہ روک پائیں گئے دل کو خوشی منانے سے

ہماری خاک یہاں لگ گئی ٹھکانے سے


حضور آپ کے ہسنے سے مسکرانے سے

چمن میں پھول کھلے ہیں اسی بہانے سے


خوشی بہار سکون و قرار اور نیندیں

یہ ہم سے روٹھ گئے تیرے روٹھ جانے سے


میں عشق ہوں مجھے سب سے چھپا کے تم رکھنا

میری زمانے سے ان بن ہے اک زمانے سے


میں آج برق سے اتنا ضرور پوچھوں گی

کہ تیری کون سی رنجش ہے آشیانے سے


وطن پرستی کی یہ بھی تو ایک ضمانت ہے 

کہ ہم کو پیار ہے اقبال کے ترانے سے


سمن اگر یہ محبت نہیں تو پھر کیا ہے

میں اس کو آج بھی خاصر ہوں بھول جانے سے


سمن دھنگرا دگل


Friday, January 22, 2021

عارش نظام

 نظر جھکا کے ادب سے کلام کرتا ہوں

میں دشمنوں کا بڑا احترام کرتا ہوں


وہاں کے لوگ ترا ذکر چھیڑ دیتے ہیں 

ذرا سی دیر جہاں پر قیام کرتا ہوں


یہاں کے لوگ مرے اس لئے بھی دشمن ہیں 

میں تیرگی کو مٹانے کا کام کرتا ہوں


یہ میرے شعر یہ غزلیں یہ حُسن کی باتیں 

وہ جانتی ہے کہ میں کس کے نام کرتا ہوں


سنا ہے تم کو محبت کی اب ضرورت ہے 

ذرا کٹھِن ہے مگر انتظام کرتا ہوں


سوال کرتے ہوئے لب گلاب لگتے ہیں 

سو لوٹنے میں ہمیشہ ہی شام کرتا ہوں


یہاں کی ساری حسینائیں مجھ سے واقف ہیں 

میں بچپنے سے محبت کو عام کرتا ہوں


پھر اس کے بعد بہت درد ہے کہانی میں 

جو تاب لا نہ سکو اختتام کرتا ہوں


عارش نظام


نائلہ شعور

 یوم پیدائش 22 جنوری


میرے احساس شکستہ کرکے 

دن گیا ہے مجھے پسپا کرکے 


اک نئی دنیا میں لے جاتے ہیں 

خواب آنکھوں میں بسیرا کرکے 


یہ بتاؤ تمہیں ملتا کیا ہے 

اس طرح روز تماشا کر کے 


وہ جو پہلے سے ہی شرمندہ ہیں 

کیا ملے گا انہیں رسوا کرکے 


ہر طرف شور ہے تنہائی کا

یوں گیا کون پرایا کرکے 


مجھ میں رکھ جاتا ہے اکثر کوئی 

نائلہ زخم کو گہرا کرکے 


نائلہ شعور


مظہر قریشی

 یوم پیدائش 22 جنوری 1958


ہم سے نظریں جو ملاؤ تو غزل ہو جائے

اپنی پلکوں کو اٹھاؤ تو غزل ہو جائے


 سوئے احساس جگاؤ تو غزل ہو جائے

  آگ پانی میں لگاؤ تو غزل ہو جائے


میرے اشعار کو میٹھا سا ترنم دے کر 

اپنے ہونٹوں پہ سجاؤ تو غزل ہو جائے


اب تلک ہجر کی راتوں نے جلایا ہے مجھے 

وصل کی شمعیں جلاؤ تو غزل ہو جائے


شبِ تاباں کو ذرا اور نکھر جانے دو 

حوصلے اور بڑھاؤ تو غزل ہو جائے


حرف سے لفظ بنو ،لفظ سے اشعار بنو 

یوں تخیل کو سجاؤ تو غزل ہو جائے


مظہر قریشی


رہی شباہی

 یوم پیدائش 22 جنوری 1934


دل والے ہیں ہم رسم وفا ہم سے ملی ہے 

دنیا میں محبت کو بقا ہم سے ملی ہے 


وہ خندہ بہ لب ذکر گلستاں پہ یہ بولے 

غنچوں کو تبسم کی ادا ہم سے ملی ہے 


صدیوں سے ترستے ہوئے کانوں میں جو پہنچی 

تاریخ سے پوچھو وہ صدا ہم سے ملی ہے 


ہم وہ ہیں کہ خود پھونک دیئے اپنے نشیمن 

گلشن کے اندھیروں کو ضیا ہم سے ملی ہے 


کیا ایک ہی محور پہ ہے ٹھہری ہوئی دنیا 

وہ جب بھی ملی ہے تو خفا ہم سے ملی ہے 


وہ بت جو خدا آج بنے بیٹھے ہیں ان کو 

یہ شان خدائی بہ خدا ہم سے ملی ہے 


ہم ٹھہرے ہیں طوفان حوادث کے مقابل 

بڑھ بڑھ کے گلے موج بلا ہم سے ملی ہے 


سیکھا ہے جلانے کا چلن شمع نے تم سے 

پروانوں کو جلنے کی ادا ہم سے ملی ہے 


ہم اہل محبت ہیں لہو دیتے ہیں راہیؔ 

بے نور چراغوں کو ضیا ہم سے ملی ہے 


راہی شہابی


سکندر علی وجد

 یوم پیدائش 22جنوری 1914


خوش جمالوں کی یاد آتی ہے 

بے مثالوں کی یاد آتی ہے 


باعثِ رشک مہر و ماہ تھے جو 

ان ہلالوں کی یاد آتی ہے 


جن کی آنکھوں میں تھا سرورِ غزل 

ان غزالوں کی یاد آتی ہے 


جن سے دنیائے دل منّور تھی

ان اُجالوں کی یاد آتی ہے


سادگی لا جواب ہے جن کی 

ان سوالوں کی یاد آتی ہے 


ذکر سنتے ہی نوجوانی کا

کچھ خیالوں کی یاد آتی ہے


جانے والے کبھی نہیں آتے 

جانے والوں کی یاد آتی ہے 


وجدؔ لطفِ سخن مبارک ہو 

با کمالوں کی یاد آتی ہے


سکندر علی وجد


Wednesday, January 20, 2021

شرافت حسین

 یوم پیدائش 21 جنوری 1948


خلاصہ ہے گلوں کی داستاں کا

 رہا قبضہ بہاروں پر خزاں کا


مخالف سمت رہبر چل رہے ہیں

خدا حافظ ہمارے کارواں کا


ہمارے سر پہ جو سایہ فگن ہے

 یہ بادل ہے تعصب کے دھواں کا


وہ شعلوں کی زبانیں بولتا ہے

دہانہ ہے کسی آتش فشاں کا


ذرا سوچو یہ کیسا فاصلہ ہے

 ہمارے اور تمھارے درمیاں کا


اڑا کر لے گئیں دشمن ہوائیں 

ہر اک تنکا ہمارے آشیاں کا


شرافت حسین


پروندر شوخ

 یوم پیدائش 20 جنوری 1964


ذرا سوچا تو کیا کیا ذہن سے منظر نکل آئے 

مرے احساس کے کچھ کھنڈروں سے گھر نکل آئے 


لگیں دینے سبق وہ پھر پرندوں کو اڑانوں کا

ذرا سے شہر میں جب چینٹیوں کے پر نکل آئے 


یہ عالم ہے کہ جب بھی گھر میں کچھ ڈھونڈنے بیٹھا

پرانے کاغذوں سے یاد کے منظر نکل آئے  


دکھائی دے کبھی یہ معجزہ بھی مجھ کو الفت میں

کسی شب چاند بن کر وہ مری چھت پر نکل آئے 


ملے ہیں زخم جب سے شوخؔ وہ گلشن سے برتا ہے

بھروسہ کچھ نہیں کس پھول سے پتھر نکل آئے


پروندر شوخ


جمیل الدین عالی

 یوم پیدائش 20 جنوری 1925


بہت دنوں سے مجھے تیرا انتظار ہے آ جا

اور اب تو خاص وہی موسم بہار ہے آ جا 


کہاں یہ ہوش کہ اسلوب تازہ سے تجھے لکھوں

کہ روح تیرے لیے سخت بے قرار ہے آ جا 


گزر چلی ہیں بہت غم کی شورشیں بھی حدوں سے

مگر ابھی تو ترا سب پہ اختیار ہے آ جا 


وہ تیری یاد کہ اب تک سکون قلب تپاں تھی

تری قسم ہے کہ اب وہ بھی ناگوار ہے آ جا 


غزل کے شکوے غزل کے معاملات جدا ہیں

مری ہی طرح سے تو بھی وفا شعار ہے آ جا 


بدل رہا ہو زمانہ مگر جہان تمنا

ترے لیے تو ابد تک بھی سازگار ہے آ جا 


ہزار طرح کے افکار دل کو روند رہے ہیں

مقابلے میں ترے رنج روزگار ہے آ جا

 

جمیل الدین عالی


Tuesday, January 19, 2021

اکبر حیدرآبادی

 یوم پیدائش 20 جنوری 1925


گھٹن عذاب بدن کی نہ میری جان میں لا

بدل کے گھر مرا مجھ کو مرے مکان میں لا 


مری اکائی کو اظہار کا وسیلہ دے

مری نظر کو مرے دل کو امتحان میں لا 


سخی ہے وہ تو سخاوت کی لاج رکھ لے گا

سوال عرض طلب کا نہ درمیان میں لا 


دل وجود کو جو چیر کر گزر جائے

اک ایسا تیر تو اپنی کڑی کمان میں لا 


ہے وہ تو حد گرفت خیال سے بھی پرے

یہ سوچ کر ہی خیال اس کا اپنے دھیان میں لا 


بدن تمام اسی کی صدا سے گونج اٹھے

تلاطم ایسا کوئی آج میری جان میں لا 


چراغ راہ گزر لاکھ تابناک سہی

جلا کے اپنا دیا روشنی مکان میں لا 


بہ رنگ خواب سہی ساری کائنات اکبرؔ

وجود کل کو نہ اندیشۂ گمان میں لا


اکبر حیدرآبادی


Monday, January 18, 2021

چکبست برج نرائن

 یوم پیدائش 19 جنوری 1882

درد دل پاس وفا جذبۂ ایماں ہونا
آدمیت ہے یہی اور یہی انساں ہونا

نو گرفتار بلا طرز وفا کیا جانیں
کوئی نا شاد سکھا دے انہیں نالاں ہونا

روکے دنیا میں ہے یوں ترک ہوس کی کوشش
جس طرح اپنے ہی سائے سے گریزاں ہونا

زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب
موت کیا ہے انہیں اجزا کا پریشاں ہونا

دفتر حسن پہ مہر ید قدرت سمجھو
پھول کا خاک کے تودے سے نمایاں ہونا

دل اسیری میں بھی آزاد ہے آزادوں کا
ولولوں کے لیے ممکن نہیں زنداں ہونا

گل کو پامال نہ کر لعل و گہر کے مالک
ہے اسے طرۂ دستار غریباں ہونا

ہے مرا ضبط جنوں جوش جنوں سے بڑھ کر
ننگ ہے میرے لیے چاک گریباں ہونا

قید یوسف کو زلیخا نے کیا کچھ نہ کیا
دل یوسف کے لیے شرط تھا زنداں ہونا

چکبست برج نرائن


نعیم احمد نیم

 یوم پیدائش 18 جنوری 2000


جب مرا وہم و گماں سوئے سحر جاتا ہے

تب سیہ رات کا ڈر دل سے اتر جاتا ہے


وحشت و درد کے رستوں پہ تھکن اتنی ہے

جو میں چلتا ہوں تو پھر سایہ ٹھہر جاتا ہے


زندہ رہ سکتا نہیں کوٸ بھی تعبیر تلک

میری آنکھوں میں تو ہر خواب ہی مر جاتا ہے


ایسے ڈرتا ہوں ترے ہجر کی پرچھائیں سے

جیسے اک بچہ برے خواب سے ڈر جاتا ہے


جیسے آتش سے کیا جاتا ہے سونا کندن

ایسے دل درد کی لذت سے نکھر جاتا ہے


ایسی شمشیرِ اَنا ہم کو ملی ورثے میں

جب وہ چلتی ہے تو بس اپنا ہی سر جاتا ہے


بغض و نفرین کی آلودہ فضاٶں میں نعیم

سانس لینے سے مرا جسم مکر جاتا ہے


نعیم احمد نیم


تاباں واسطی

 یوم پیدائش 18 جنوری 1945


مری زندگی کے ورق ورق پہ ہے تیرا نام لکھا ہوا

مرے ہر نفس میں اے جانِ جاں ہے ترا نفس بھی گھُلا ہوا


ہے تُجھی سے رونقِ انجمن، تو ہی میری جاں تو ہی میرا من

مری آرزو کے چمن میں ہے تو ہی ایک پھول کھِلا ہوا


مری سادگی کی ہر اک ڈگر پہ ہے حسنِ ناز و نیاز تو

تری دوستی کا بھرم ہے یہ کہ چراغ ہوں میں جلا ہوا


ترے لمس کی وہ لطافتیں ہیں مرے دِماغ کی نُزہتیں

ہوں صبا کے سیلِ بہار میں تری رہ گذر پہ کھڑا ہوا


نہ جھٹک تو گیسوئے عنبریں، نہ لُٹا تو نکہتِ دلنشیں

بادب کہ آئینہ زیست کا تری زلف سے ہے بندھا ہوا


ہوں تری نگاہ میں معتبر،تو ہی دوست ہے تو ہی چارہ گر

لے خبر کہ موجِ فراق میں مرا قافلہ ہے پھنسا ہوا


میں شکستہ ساز ہوں منفرد، مرے آئینے میں تری اَدا

کوئی ڈھونڈے میری کتاب میں ترے غم کا موتی چھپا ہوا


ترے عارضوں کا گُلاب ہوں،میں ترے لبوں کی شراب ہوں

میں وہ ایک نخلِ حیات ہوں تری دھوپ میں جو ہرا ہوا


تاباں واسطی


صغریٰ عالم

 یوم پیدائش 18 جنوری 1938


دید کا اصرار موسیٰ لن ترانی کوہ طور

ہم نے آنکھیں بند کیں اور آ گئے تیرے حضور 


اب حنائی دست کی ہوں گی اجارہ داریاں

آنکھ میں شبنم جبیں کے نور میں رنگ شعور 


بات کرنا موسم برسات کی پہلی جھڑی

مسکرا کے دیکھنا قوس قزح کا ہے ظہور


پھول بستی میں چلیں ہمجولیوں کا ساتھ ہے

شہروں شہروں بڑھ گیا ہے سنگ زادوں کا فتور 


پیش خدمت ہے یہ اپنی بات اپنا ادعا

دیکھنا حرف سخن پر کس کو حاصل ہے فتور


صغریٰ عالم


مومن خان مومن

 یوم پیدائش 18 جنوری 1801


وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہی یعنی وعدہ نباہ کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو 


وہ جو لطف مجھ پہ تھے بیشتر وہ کرم کہ تھا مرے حال پر

مجھے سب ہے یاد ذرا ذرا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو 


وہ نئے گلے وہ شکایتیں وہ مزے مزے کی حکایتیں

وہ ہر ایک بات پہ روٹھنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو 


کبھی بیٹھے سب میں جو روبرو تو اشارتوں ہی سے گفتگو

وہ بیان شوق کا برملا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو 


ہوئے اتفاق سے گر بہم تو وفا جتانے کو دم بہ دم

گلۂ ملامت اقربا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو 


کوئی بات ایسی اگر ہوئی کہ تمہارے جی کو بری لگی

تو بیاں سے پہلے ہی بھولنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو 


کبھی ہم میں تم میں بھی چاہ تھی کبھی ہم سے تم سے بھی راہ تھی

کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو 


سنو ذکر ہے کئی سال کا کہ کیا اک آپ نے وعدہ تھا

سو نباہنے کا تو ذکر کیا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو 


کہا میں نے بات وہ کوٹھے کی مرے دل سے صاف اتر گئی

تو کہا کہ جانے مری بلا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو 


وہ بگڑنا وصل کی رات کا وہ نہ ماننا کسی بات کا

وہ نہیں نہیں کی ہر آن ادا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو 


جسے آپ گنتے تھے آشنا جسے آپ کہتے تھے با وفا

میں وہی ہوں مومنؔ مبتلا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو


مومن خاں مومن


Sunday, January 17, 2021

رضا نقوی واہی

 یوم پیدائش 18 جنوری 1914

اردو کی نسبندی


فیملی منصوبہ بندی کا کرشمہ دیکھ کر

بڑھتی آبادی گھٹانے کا یہ نسخہ دیکھ کر


قوم کو اردو کی نسبندی کا بھی آیا خیال

تاکہ رخصت ہو دلوں سے جلد یہ کافرِ جمال


مختلف ناموں سے نسبندی بَھون کھولے گئے

کچھ تو پہلے سے ہی تھے کچھ دفعتاً کھولے گئے


سربراہوں میں کچھ اپنے بھی تھے کچھ اغیار بھی

مصلحت پیشہ بھی کچھ تھے ان میں کچھ خونخوار بھی


فکر زنگ آلود سے نشترزنی ہونے لگی

زخم اپنا، اپنے ہی خوں سے زباں دھونے لگی


بعد آزادی تو یوں بھی تھی لبوں پر اس کے جاں

اک محقق نے کہا اردو ہے ترکوں کی زباں


یہ تو گھس  پیٹھی ہے بھارت ورش میں کیا اس کا کام

جلد دستورِ اساسی سے ہٹاؤ اس کا نام


غیر تو غیر ہیں اپنوں کا بھی سنئے ماجرا

جن کے پنجوں میں بیچاری کا دبا ہے نرخرا


آئے نسبندی بِھون کی سربراہی کے لیے

کھل گیا اک اور رستہ تاناشاہی کے لیے 


جب سے اپنے شہر میں قائم ہوا یہ ورکشاپ

پیر تسمہ پاکی صورت ہیں مسلط اس پہ آپ


کیمپ میں رکھی گئی کچھ ایسے نسبندوں کی ٹیم

چند دن میں عطائی چند کے جعلی حکیم


یوں غلط بخشی و حق تلفی کا گھن چکر چلا

سب کو یاد آیا پرانا قصہ بندر بانٹ کا


مستند فنکار ہوں یا نو نہالانِ ادب

ایک ہی لاٹھی سے ہانکے کے جا رہے ہیں سب کے سب


جی حضوری اور خوشامد کی تو سودا پٹ گیا

ورنہ نسبندی بَھون سے رشتہ ناتا کٹ گیا


جیسے نادر شاہ نے لوٹی تھی دلی کی بہار

فن ہو یا فنکار ناقدری کے ہیں یوں ہی شکار


گر کسی نے کردیا کچھ ان کی مرضی کے خلاف

غیر ممکن ہے کبھی کردیں بڑے صاحب معاف


جو بجٹ رکھا گیا تھا خوں چڑھانے کے لئے

یعنی اردو کو بچانے اور جِلانے کے لیے


بینک بیلنس اس رقم سے دن بدن بڑھتا گیا

شیر نے کھاکر جو چھوڑا گیدڑوں میں بٹ گیا


گڑ کھلانے سے اگر بیمار کا قصہ پاک ہو

اس کو ناحق زہر دیکر کیوں کیا جائے ہلاک


سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی دو ٹکڑے نہو

اس کو کہتے ہیں تدبر  اے ادیبو!  شاعرو


اس زبردستی کی نسبندی سے واہی عن قریب

جاں بحق تسلیم ہونے ہی کو ہے اردو غریب

رضا نقوی واہی


بھگوان مرے دل کو وہ زندہ تمنا دے

جو حرص کو بھڑکا دے اور جیب کو گرما دے

وادی ِسیاست کے اس ذرے کو چمکا دے

اس خادم ِادنی کو اک کرسی اعلی دے

اوروں کا جو حصہ ہے مجھ کو وہی داتا دے

محرومِ بتاشہ ہوں تو پوری و حلو دے

ہاں مرغ مسلم دے ہاں گرم پراٹھا دے

سوکھی ہوئی آنتوں کو فوراً ہی جو چکنا دے

تحریر میں چشتی دے تقریر میں گرمی دے

جنتا کو جو پھسلالے اور قوم کو بہکا دے

سکھلادے مجھے داتا وہ راز جہاں بانی

قطرے سے جو دریا لے دریا کو جو قطرہ دے

مفلس کی لنگوٹی تک باتوں میں اتروالوں

احسان کے پردے میں چوری کا سلیقہ دے

قاتل کی طعبیت کو بسمل کی ادا سکھلا

خونریزی کے جذبے کو ہمدردی کا پروا دے

تھوڑی سی جو غیرت ہے وہ بھی نہ رہے باقی

احساس حمیت کو اس دل سے نکلوا دے

القصہ مرے مالک تجھ سے یہ گزارش ہے

مرغی وہ عنایت ہو سونے کا جو انڈا دے


رضا نقوی واہی


حیدر دہلوی


 یوم پیدائش 17 جنوری 1906


برحق وہ بہت دور ہے نظارے کا ڈر ہے

کونین جسے کہتے ہیں آغوش ِنظر ہے


ہونٹوں پہ تبسم ہے گریباں پہ نظر ہے

آغوش میں تم ہو کہ گلستاں کی سحر ہے


کہتے ہیں کہ فریاد ہے تکذیبِ محبت

معلوم ہوا کفر تمنائے اثر ہے


تو چاہے تو اب ختم یہ سلسلہ ِشام

ظالم تری انگڑائی گریبانِ سحر ہے


ہم آنکھ اٹھاتے ہیں بہت دور پہنچکر

یہ بیخودی ِشوق نہیں راہ گزر ہے

 

اے ذوق طلب عشق سی سو حُسن عبارت

بر خیز کہ اب میرے لئے میری نظر ہے


کیوں محوِ جمال آئینہء زعم میں ہیں وہ

کیا میری نظر سے بھی بلند انکی نظر ہے


نومیدیِ نظارہ کے اسباب فنا کر

فریاد کہ فریاد بھی محروم اثر ہے


ہم تیرے بغیر اپنی حقیقت سے پرے تھے

یہ بے خبری اصل میں اپنی ہی خبر ہے


آسودہ کبھی حسن تھا شوق طلبی میں

وہ خواب ہے جس عشق سے تعبیر بشر ہے


کیوں نرگس ِمخمور سے مئے ڈھال رہے ہو

غلطیدہ ابھی گیسوئے شب تابہ کمر ہے

 

تو طور کا بھڑکا ہوا شعلہ دم ِرفتار

لہراتی ہوئی برق تری راہ گزر ہے


حیدر نہ ملی داد کبھی علم و ہنر کی

ہر اہل وطن میرے لئے تنگ نظر ہے 


حیدر دہلوی

منصور آفاق

 یوم پیدائش 17 جنوری 1962


سرد ٹھٹھری ہوئی لپٹی ہوئی صرصر کی طرح

زندگی مجھ سے ملی پچھلے دسمبر کی طرح 


کس طرح دیکھنا ممکن تھا کسی اور طرف

میں نے دیکھا ہے تجھے آخری منظر کی طرح 


ہاتھ رکھ لمس بھری تیز نظر کے آگے

چیرتی جاتی ہے سینہ مرا خنجر کی طرح 


بارشیں اس کا لب و لہجہ پہن لیتی تھیں

شور کرتی تھی وہ برسات میں جھانجھر کی طرح 


کچی مٹی کی مہک اوڑھ کے اتراتی تھی

میں اسے دیکھتا رہتا تھا سمندر کی طرح 


پلو گرتا ہوا ساڑی کا اٹھا کر منصورؔ

چلتی ہے چھلکی ہوئی دودھ کی گاگر کی طرح


منصور آفاق


حیدر دہلوی


 برحق وہ بہت دور ہے نظارے کا ڈر ہے

کونین جسے کہتے ہیں آغوش ِنظر ہے


ہونٹوں پہ تبسم ہے گریباں پہ نظر ہے

آغوش میں تم ہو کہ گلستاں کی سحر ہے


کہتے ہیں کہ فریاد ہے تکذیبِ محبت

معلوم ہوا کفر تمنائے اثر ہے


تو چاہے تو اب ختم یہ سلسلہ ِشام

ظالم تری انگڑائی گریبانِ سحر ہے


ہم آنکھ اٹھاتے ہیں بہت دور پہنچکر

یہ بیخودی ِشوق نہیں راہ گزر ہے

 

اے ذوق طلب عشق سی سو حُسن عبارت

بر خیز کہ اب میرے لئے میری نظر ہے


کیوں محوِ جمال آئینہء زعم میں ہیں وہ

کیا میری نظر سے بھی بلند انکی نظر ہے


نومیدی نظارہ کے اسباب فنا کر

فریاد کہ فریاد بھی محروم اثر ہے


ہم تیرے بغیر اپنی حقیقت سے پرے تھے

یہ بے خبری اصل میں اپنی ہی خبر ہے


آسودہ کبھی حسن تھا شوق طلبی میں

وہ خواب ہے جس عشق سے تعبیر بشر ہے


کیوں نرگس ِمخمور سے مئے ڈھال رہے ہو

غلطیدہ ابھی گیسوئے شب تابہ کمر ہے

 

تو طور کا بھڑکا ہوا شعلہ دم ِرفتار

لہراتی ہوئی برق تری راہ گزر ہے


حیدر نہ ملی داد کبھی علم و ہنر کی

ہر اہل وطن میرے لئے تنگ نظر ہے 


حیدر دہلوی

Saturday, January 16, 2021

جاوید اختر

 یوم پیدائش 17 جنوری 1945


تم کو دیکھا تو یہ خیال آیا

زندگی دھوپ تم گھنا سایہ


آج پھر دل نے اک تمنا کی

آج پھر دل کو ہم نے سمجھایا


تم چلے جاؤ گے تو سوچیں گے

ہم نے کیا کھویا ہم نے کیا پایا


ہم جسے گنگنا نہیں سکتے

وقت نے ایسا گیت کیوں گایا


(جاوید اختر)​


حبیب احمد صدیقی

 یوم پیدائش 15 جنوری 1908


خزاں نصیب کی حسرت بروئے کار نہ ہو

بہار شعبدۂ چشم انتظار نہ ہو 


فریب خوردۂ الفت سے پوچھئے کیا ہے

وہ ایک عہد محبت کہ استوار نہ ہو 


نظر کو تاب نظارہ نہ دل کو جرأت دید

جمال یار سے یوں کوئی شرمسار نہ ہو 


قبا دریدہ و دامان و آستیں خونیں

گلوں کے بھیس میں یہ کوئی دل فگار نہ ہو 


نہ ہو سکے گا وہ رمز آشنائے کیف حیات

جو قلب چشم تغافل کا رازدار نہ ہو 


طریق عشق پہ ہنستی تو ہے خرد لیکن

یہ گمرہی کہیں منزل سے ہمکنار نہ ہو 


نہ طعنہ زن ہو کوئی اہل ہوش مستوں پر

کہ زعم ہوش بھی اک عالم خمار نہ ہو 


وہ کیا بتائے کہ کیا شے امید ہوتی ہے

جسے نصیب کبھی شام انتظار نہ ہو 


یہ چشم لطف مبارک مگر دل ناداں

پیام عشوۂ رنگیں صلائے دار نہ ہو 


کسی کے لب پہ جو آئے نوید زیست بنے

وہی حدیث وفا جس پہ اعتبار نہ ہو 


جو دو جہان بھی مانگے تو میں نے کیا مانگا

وہ کیا طلب جو بقدر عطائے یار نہ ہو


حبیب احمد صدیقی


عبد الحفیظ نعیمی

 وم پیدائش 15 جنوری 1911

بہار بن کے خزاں کو نہ یوں دلاسا دے
نگاہیں پھیر لے اپنی نہ خود کو دھوکا دے

مصاف زیست ہے بھر دے لہو سے جام مرا
نہ مسکرا کے مجھے ساغر تمنا دے

کھڑا ہوا ہوں سر راہ منتظر کب سے
کہ کوئی گزرے تو غم کا یہ بوجھ اٹھوا دے

وہ آنکھ تھی کہ بدن کو جھلس گئی قربت
مگر وہ شعلہ نہیں روح کو جو گرما دے

ہجوم غم وہ رہا عمر بھر در دل پر
خوشی اسی میں رہی یہ ہجوم رستا دے

لکھا ہے کیا مرے چہرے پہ تو جو شرمایا
زبان سے نہ بتا آئنا ہی دکھلا دے

میں لڑکھڑا سا گیا ہوں وفا کے وعدے پر
پکڑ کے ہاتھ مجھے گھر تلک تو پہونچا دے

سکوت انجم و مہ نے چھپا لیا ہے جسے
جھکی نظر نہ کسی کو وہ راز بتلا دے

ہر ایک درد کا درماں ہے لوگ کہتے ہیں
مگر وہ درد نعیمیؔ جو خود مسیحا دے

عبد الحفیظ نعیمی

#urdupoetry #urdudeccan #اردودکن #اردو #


شعراء #birthday  #پیدائش #شاعری #اردوشاعری #اردوغزل #urdugazal #urdu #poetrylover #poetry #rekhta #شاعر #غزل #gazal

واصف علی واصف

 یوم پیدائش 15 جنوری 1929


اے رب ِسموات تیری ذات وار ہے

ہیبت سے تری کوہ ِگراں کاپ رہا ہے 


انسان بیچارہ تجھے کیا جان سکے گا

اِدراک کی دنیا میں تجھے ڈھونڈ رہا ہے


ہیں تیرے ہی انداز غریبی و امیری

دیتا ہے کبھی اور کبھی مانگ رہا ہے


معلوم ہے اتنا کہ ہمیں کچھ نہیں معلوم

جانا ہے کہ کیا جانے گا جو جان گیا ہے


ہر سمت ہے وَجُہ اللہ عیاں خالق احسن 

خود آئنہ خود دیدہء حیران ہوا ہے 


واصف علی واصف


ندیم بھابھہ



 یوم پیدائش 16 جنوری 1992


تمام عمر جلے اور روشنی نہیں کی

یہ زندگی ہے تو پھر ہم نے زندگی نہیں کی 


ستم تو یہ ہے کہ میرے خلاف بولتے ہیں

وہ لوگ جن سے کبھی میں نے بات بھی نہیں کی 


جو دل میں آتا گیا صدق دل سے لکھتا گیا

دعائیں مانگی ہیں میں نے تو شاعری نہیں کی 


بس اتنا ہے کہ مرا بخت ڈھل گیا اور پھر

مرے چراغ نے بھی مجھ پہ روشنی نہیں کی 


مری سپاہ سے دنیا لرزنے لگتی ہے

مگر تمہاری تو میں نے برابری نہیں کی


کچھ اس لیے بھی اکیلا سا ہو گیا ہوں ندیمؔ

سبھی کو دوست بنایا ہے دشمنی نہیں کی


ندیم بھابھہ

Friday, January 15, 2021

کاشف احسن کاش قنوجی

 زمانے بھر کی بلاؤں کو مات دیتی ہے

 یہ میری ماں کی دعا ہے جو ساتھ دیتی ہے 


دلوں میں رنج و الم بیٹھ جائے جب اکثر 

ہمیں سکون وہی پاک ذات دیتی ہے  


غموں کے دور میں ہر شخص ساتھ چھوڑ گیا

 میں اور بس میری تنہائی ساتھ دیتی ہے 


 بس ایک اس کے لئے جان بھی نچھاور ہے 

 جو ہر گھڑی میرے ہاتھوں میں ہاتھ دیتی ہے 


خدا کے آگے تہجّد میں گر پڑو "کاشف"

 کبھی جو دن نہیں دیتا وہ رات دیتی ہے 

 

کاشف احسن کاش قنّوجی


خالد محمود

 


یوم پیدائش 15 جنوری 1948


ٹھنڈی ٹھنڈی نرم ہوا کا جھونکا پیچھے چھوٹ گیا

جانے کس وحشت میں گھر کا رستہ پیچھے چھوٹ گیا 


بچے میری انگلی تھامے دھیرے دھیرے چلتے تھے

پھر وہ آگے دوڑ گئے میں تنہا پیچھے چھوٹ گیا 


عہد جوانی رو رو کاٹا میرؔ میاں سا حال ہوا

لیکن ان کے آگے اپنا قصہ پیچھے چھوٹ گیا 


پیچھے مڑ کر دیکھے گا تو آگے بڑھنا مشکل ہے

میں نے کتنی بار کہا تھا دیکھا؟ پیچھے چھوٹ گیا 


سر تا پا سیلاب تھے خالدؔ چاروں جانب دریا تھا

پیاس میں جس دن شدت آئی دریا پیچھے چھوٹ گیا


خالد محمود

احمد علوی میرٹھی


 یوم پیدائش 15 جنوری 1956


کیا جانے کہہ گئی ہے وہ کیا میرے کان میں

سر گوشیاں سی ہونے لگیں آسمان میں


دل کو کسی کی یاد سے خالی نہ کیجئے

آسیب رہنے لگتے ہیں خالی مکان میں


خوابوں کو بیچ دوں ابھی اتنا نہیں غریب

رکھی ہیں صرف آنکھیں ہی میں نے دوکان میں


سر کاٹ کر علم کی طرح خود اٹھا لیا 

کچھ فرق آ نہ جائے کہیں آن بان میں


جو کر سکے تو دل سے تعلق کی قدر کر

رشتوں کا اعتبار نہیں ہے جہان میں


سوغات پتھروں کی ملے گی پڑوس سے 

پھل دار کوئی پیڑ لگا لو مکان میں 


احمد علوی میرٹھی

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...