Urdu Deccan

Monday, August 9, 2021

شگفتہ شفیق

 یوم پیدائش 08 اگست


دل سے پیغام الفت مٹانے کے بعد

کھو دیا پھر تجھے ہم نے پانے کے بعد


وہ سلگتے رہے دل جلانے کے بعد

ہم تو پھر ہنس پڑے ٹوٹ جانے کے بعد


اب تو رستے بھی اپنے جدا ہو گئے

بات بنتی نہیں چوٹ کھانے کے بعد


جائیں جائیں ہمیں کچھ نہیں واسطہ

دل لگی نہ کریں دل جلانے کے بعد


ہم کو اس سے کہاں کوئی انکار ہے

گھر بنا ہے مکاں تیرے جانے کے بعد


جانتی ہوں کہ اس کا ہے شیوہ یہی

وہ رلائے گا ہم کو ہنسانے کے بعد


شادماں وہ نظر آ رہے تھے بہت

کیفیت اپنی غم کی چھپا نے کے بعد


سوچتی ہوں شگفتہؔ عجب بات ہے

ہم نے پایا ہے اس کو گنوانے کے بعد


شگفتہ شفیق


صدام حسین

 ہر ایک لمحہ جنوں میں اپنی مثال ہو گا یہ طے ہوا تھا

بدن کے زخموں سے خون رسنا خیال ہو گا یہ طے ہوا تھا


یہاں جدا ہونے والوں کے درمیان رنجش تو عام شے ہے

مرا تمہارا مگر تعلق مثال ہوگا یہ طے ہوا تھا


تُو عہد کو توڑ کر بھی چاہے ہے کچھ نہ پوچھوں میں اِس کی بابت

کوئی بھی پیچھے ہٹا تو اُس سے سوال ہوگا یہ طے ہوا تھا


تو کیوں مری جاں اداس ہوں میں اگر تُو مسرور لگ رہا ہے

بچھڑ کے دونوں کا ایک جیسا ہی حال ہوگا یہ طے ہوا تھا


کسی کے دل میں بس ایک لمحے کو بھی خیالِ جفا گر آئے

تو رہتی سانسوں تک اُس گھڑی کا ملال ہوگا یہ طے ہوا تھا


جو پھر سے اب ربط جڑ رہے ہیں تو بیچ میں یہ خلا سا کیوں ہے

جہاں سے ٹوٹا وہیں سے رشتہ بحال ہوگا یہ طے ہوا تھا


وہ زخم در زخم دے رہے ہیں تو کوئی پوچھے حسیؔن اُن سے

پرانے زخموں کا پہلے کچھ اندمال ہوگا یہ طے ہوا تھا


صدام حسیٙن


نوشاد اشہر اعظمی

 یوم پیدائش 09 اگست 1968


کھینچے ہے اس طرح سے جنونِ سفر مجھے

وحشت سے تک رہی ہیں سبھی رہگزر مجھے


ہجراں نصیب شب نے کیا ہے یوں بے اماں

"تاروں کی چھاؤں لگتی ہے اب دوپہر مجھے" 


بے اعتبار کرنے لگا ہے جہانِ شوق

آ اے غمِ حیات بنا معتبر مجھے


وہ حالِ بے خیالیء حالت ہے کیا کہوں

ملتی ہے دوسروں سے اب اپنی خبر مجھے


دستارِ عز و جاہ بچا لوں گا ہے یقیں 

دینا مگر پڑے گا بدل میں یہ سر مجھے


آلامِ روزگارِ جہاں سے بچا اگر 

زنجیرِ پا کرینگے یہ دیوار و در مجھے


زخموں نے میرے بخشا عروجِ کمالِ فن

ڈھونڈیں گے میرے بعد سبھی چارہ گر مجھے


آنکھوں میں ان کی میرا اجالا ہے آج بھی

جو کہہ رہے تھے دودِ چراغِ سحر مجھے


نوشاد اشہر اعظمی


اقبال خاور

 یوم پیدائش 09 اگست


کیا برا ہے اگر برا ہوں میں 

آدمی ہوں کوئی خدا ہوں میں


اپنے بارے میں بات کر کوئی 

ہاں مجھے چھوڑ مسئلہ ہوں میں


دل تقاضے تو ایسے کرتا ہے 

جیسے دنیا کا ہوگیا ہوں میں

 

اس کو چھوکر ہوا ہے اندازہ 

خواب سچے بھی دیکھتا ہوں میں


وہی منظر وہی ہے ویرانی 

خود سے باہر بھی آگیا ہوں میں


تو مرا کل ہے آنے والا کل 

خود کو اب تجھ میں دیکھتا ہوں میں


مجھ پہ شاید نظر پڑے کوئی 

بھیڑ سے بچ کے چل رہا ہوں میں


تم نے آنے میں دیر کردی ہے 

اب تو خود میں الجھ گیا ہوں میں


وہ ضروری تھا کس قدر خاور 

وہ نہیں ہے تو سوچتا ہوں میں 


اقبال خاور


فضل الرحمن اعظمی

 یوم پیدائش 09 اگست 1927


بنے بنائے سے رستوں کا سلسلہ نکلا

نیا سفر بھی بہت ہی گریز پا نکلا


نہ جانے کس کی ہمیں عمر بھر تلاش رہی

جسے قریب سے دیکھا وہ دوسرا نکلا


ہمیں تو راس نہ آئی کسی کی محفل بھی

کوئی خدا کوئی ہم سایۂ خدا نکلا


ہزار طرح کی مے پی ہزار طرح کے زہر

نہ پیاس ہی بجھی اپنی نہ حوصلہ نکلا


ہمارے پاس سے گزری تھی ایک پرچھائیں

پکارا ہم نے تو صدیوں کا فاصلہ نکلا


اب اپنے آپ کو ڈھونڈیں کہاں کہاں جا کر

عدم سے تا بہ عدم اپنا نقش پا نکلا


خلیل الرحمن اعظمی


راشید شئینٹر راشد

 یوم پیدائش 08 اگست


آدمی کا غرور بیجا ہے

جو کرے یہ قصور بیجا ہے

    

 میں ہی دنیا سنوار سکتا ہوں

یہ دماغی فطور بیجا ہے

    

 شاعری کو جو کھیل سمجھے ہیں,

  انکا سارا شعور بیجا ہے

    

لالی پؤڈر پسند ہے جنکی

اُنکے چہرے کا نور بیجا ہے


مسخری میں یہ زندگی گزری

ماننا اب قصور بیجا ہے


شکریہ دوست تیرے احساں کا

اس کرم کا ظہور بیجا ہے


 ذرے ذرے میں ہے وہ جلوہ گر

میری خواہش کا طور بیجا ہے


جو شریکِ حیات ہے "راشد"

 اُ سکے آ گے تو حور بیجا ہے

 

راشد پئینٹر "راشد"


مرزا فیصل

 یوم پیدائش 08 اگست


جس نے کی اس سے بھی نہ نفرت کی

کیا کہیں بات ہے طبیعت کی


ہم فسانے میں بھی نہیں ہوں گے

جب سمجھ آئے گی حقیقت کی


میرا اس شہر میں نہیں ہے کوئی

میں نے دیوار سے شکایت کی


دل پہ اک زخم کی جگہ بھی نہیں

اس نے مجھ پر بڑی عنایت کی


صرف تنہائی کاٹنے والو

کون دیتا ہے داد ہمت کی


اس کے حاصل سے شوق جاتا رہا

میں تو مشکل میں ہوں سہولت کی


قید کر لی سیاہ آنکھوں میں 

ایک لڑکی سفید رنگت کی


زندگی سے گئی نہیں فیصل

اک گھڑی آئی تھی مصیبت کی


مرزا فیصل


بلال آدر

 سیاہ رات کے بارے میں سوچتے ہی نہیں 

جو حادثات کے بارے میں سوچتے ہی نہیں


مسافرانِ جنوں موت کے سمندر میں 

کبھی حیات کے بارے میں سوچتے ہی نہیں


ہمارے بس میں میاں گھر تلک بنا لینا 

سو کائنات کے بارے میں سوچتے ہی نہیں


محبتوں کا حسیں کھیل کھیلنے والے 

وبالِ مات کے بارے میں سوچتے ہی نہیں


جہانِ غم میں وہی کامیاب ہیں آدر 

جو اپنی ذات کے بارے میں سوچتے ہی نہیں


بلال آدر


ادریس آزاد

 یوم پیدائش 07 اگست 1969


ہماری لاش کی تصویر بھی اُتاری گئی

پھر اُس کے پاؤں سے زنجیر بھی اُتاری گئی


شہید ہونے کا پہلے ہُنر اُتارا گیا

پھر آسمان سے شمشیر بھی اُتاری گئی


ثمر کو عزم ِ مصمم کے ساتھ جوڑا گیا

قلم اُٹھانے پہ تحریر بھی اُتاری گئی


فقط بدن ہی گھسیٹا نہیں سر ِبازار

ہمارے خواب سے تعبیر بھی اُتاری گئی


جب آسماں سے محبت کا جرم اُترا تھا

تب انتظار کی تعزیر بھی اتاری گئی


گلے میں ڈالی گئی پہلے نام کی تختی

پھر ایک ایک کی تصویر بھی اُتاری گئی


ہمارے جیسوں کو دیوانگی عطاکرکے

دوائے تلخی ِ تقدیر بھی اُتاری گئی


ادریس آزاد


احمد امتیاز

 یوم پیدائش 08 اگست 1949


جواب ایک سا ہے اور سوال ایک سا ہے

یہ کیا ہوا ہے کہ دونوں کا حال ایک سا ہے


بلندیوں کا وہاں ہے تو پستیوں کا یہاں 

بس آسمان و زمیں کا کمال ایک سا ہے


ہر ایک شخص کا انجام رائیگانی ہے

یہ زندگی ہے تو سب پہ وبال ایک سا ہے


جدائی آنکھ میں آنسو ہیں ملنا خندہ بہ لب

فراق ایک سا سب کا وصال ایک سا ہے


کوئی بھی ساعت خوش رنگ آج تک نہ ملی

ہمارے واسطے ہر ایک سال ایک سا ہے


احمد امتیاز


نجیب احمد

 یوم پیدائش 08 اگست 1948


عشق آباد فقیروں کی ادا رکھتے ہیں

اور کیا اس کے سوا اہل انا رکھتے ہیں


ہم تہی دست کچھ ایسے بھی تہی دست نہیں

کچھ نہیں رکھتے مگر پاس وفا رکھتے ہیں


زندگی بھر کی کمائی یہ تعلق ہی تو ہے

کچھ بچے یا نہ بچے اس کو بچا رکھتے ہیں


شعر میں پھوٹتے ہیں اپنی زباں کے چھالے

نطق رکھتے ہیں مگر سب سے جدا رکھتے ہیں


ہم نہیں صاحب تکریم تو حیرت کیسی

سر پہ دستار نہ پیکر پہ عبا رکھتے ہیں


شہر آواز کی جھلمل سے دمک اٹھیں گے

شب خاموش کی رخ شمع نوا رکھتے ہیں


اک تری یاد گلے ایسے پڑی ہے کہ نجیبؔ

آج کا کام بھی ہم کل پہ اٹھا رکھتے ہیں


نجیب احمد


مجید اختر

 یوم پیدائش 08 اگست


بخش دے کچھ تو اعتبار مجھے

پیار سے دیکھ چشم یار مجھے


رات بھی چاند بھی سمندر بھی

مل گئے کتنے غم گسار مجھے


روشنی اور کچھ بڑھا جاؤں

سوز غم اور بھی نکھار مجھے


کچھ ہی دن میں بہار آ جاتی

اور کرنا تھا انتظار مجھے


دیکھ دنیا یہ پینترے نہ بدل

دیکھ شیشے میں مت اتار مجھے


آئینے میں نظر نہیں آتا

اپنا چہرہ کبھی کبھار مجھے


کس قدر شوخ ہو کے تکتا تھا

رات بند قبائے یار مجھے


دیکھ میں ساعت مسرت ہوں

اتنی عجلت سے مت گزار مجھے


مرکب خاک پر سوار ہوں میں

دیکھ اے شہر زر نگار مجھے


رزق مقسوم کھا کے جینا تھا

کھا گئی فکر روزگار مجھے


مجید اختر


عابد علی عابد حافظ آباد

 گرچہ وعدہ ترا وفا نہ ہوا

پیار کا ختم سلسلہ نہ ہوا


میں بھلا دوں تجھے کہ یاد رکھوں

آج تک یہ ہی فیصلہ نہ ہوا


بیچ دریا کے ڈوبی ہے کشتی

تم سے کچھ بھی تو نا خدا نہ ہوا


پیار کا میں نے کردیا اظہار

یہ ہے افسوس برملا نہ ہوا


سامنے وہ تھا ساتھ غیروں کے

مجھ سے طے وہ بھی فاصلہ نہ ہوا


زندگی سے میں تنگ آیا جب

پھر کبھی کوئی  حادثہ نہ ہوا


رند میخانہ پی گیا سارا

شومئ بخت کہ نشہ نہ ہوا


دل جلوں میں نہیں کوئی ایسا

تیرے کوچے کا جو گدا نہ ہوا


عشق کے سارے دور میں عابد

خوشگوار اک بھی واقعہ نہ ہوا


عابد علی عابد حافظ آباد


محمد حذیفہ

 یوم پیدائش 07 اگست


عجیب شخص ہے مجھ سے خفا نہیں ہوتا 

میرے ستانے سے اب فائدہ نہیں ہوتا 


تمہارے شہر کے حالات دیکھ آیا ہوں وہاں تو کوئی کسی کا سَگا نہیں ہوتا 


برا جو کہتے ہیں کچھ لوگ ان کو کہنے دو

کسی کے کہنے سے کوئی برا نہیں ہوتا۔


تمہارے عشق میں مجھکو ملا وفورِ غم وگرنہ رنج میں ایسے گِھرا نہیں ہوتا


حصولِ علم میں ہیں محنتیں بہت ناصح

کسی کو علم و ہنر یوں عطا نہیں ہوتا 


کہیں پہ گر ہو محبت کی بات، سنتا ہوں

مزاج میرا یونہی عشقیہ نہیں ہوتا 


 محمد حذیفہ


شائستہ کنول عالی

 یوم پیدائش 07 اگست


مجھ پر ترے خیال کا جوہر نہیں کھلا 

دل جیسے بادشہ پہ گداگر نہیں کھلا 


کھلنے لگیں دھمال کے چکر کی خوبیاں

کیسے کہوں کہ رازِ قلندر نہیں کھلا 


نظریں جمائے بیٹھی رہی مشتری پہ میں 

ایسے میں برج قوس کا اختر نہیں کھلا 


اسرارِ بے خودی میں فقط اس قدر ہوا   

قطرہ تو کھل چکا تھا سمندر نہیں کھلا 


تن کو جلا کے راکھ بنانے لگی خودی 

در دردِ دل کا ذات کے اندر نہیں کھلا 


پردے سے پڑ گئے مری آنکھوں پہ درد سے 

اشکوں میں تیرے پیار کا منظر نہیں کھلا 


اس با حجاب حسن کا جلوہ چھپا رہا 

بازارِ شوق میں رخِ انور نہیں کھلا 


صد شکر تیری ذات کا پردہ ہی رہ گیا  

عالی ترے گناہوں کا دفتر نہیں کھلا 


شائستہ کنول عالی


نگار صہبائی

 یوم پیدائش 07 اگست 1926


من کا سورج کب چمکے گا کتنی دور سویرا ہے

چنتا بن میں گھور اندھیرا پنچھی بہت اکیلا ہے


بادل کے پردے میں چھپ کر جس نے امرت چھڑکا ہے

ساون کی مہندی سے لکھ کر روپ سندیسہ بھیجا ہے

بند کواڑے کھل جاتے ہیں ایسا گیت بھی آتا ہے

میلے کپڑوں میں کیا ملنا سوچ کے من شرماتا ہے


اپنی اور سے دور بھی جاکر اپنی اور ہی پہنچے ہیں

جان و تن کے بیچ ہے کوئی کھوج میں جس کی پھرتے ہیں

ایک اتھاہ ساگر ہے تن میں جو امبر سے اترا ہے

من کا گاگر جتنا بھر لے اتنا جل تو میٹھا ہے


پنگھٹ پنگھٹ ایک ندی سے کتنے تن دھل جاتے ہیں

ایک منش پہ آٹھ کواڑے پل چھن میں کھل جاتے ہیں

کتنا کٹھن ہے اپنا ملنا میں نے جب بھی سوچا ہے

باڑھ آتی ہے وہ خوشبو کی ساگر بھر جاتا ہے 


چنتا بن میں گھور اندھیرا پنچھی بہت اکیلا ہے


نگار صہبائی


شباب للت

 یوم پیدائش 03 اگست 1933


حد ستم نہ کر کہ زمانہ خراب ہے

ظالم خدا سے ڈر کہ زمانہ خراب ہے


اتنا نہ بن سنور کہ زمانہ خراب ہے

میلی نظر سے ڈر کہ زمانہ خراب ہے


بہنا پڑے گا وقت کے دھارے کے ساتھ ساتھ

بن اس کا ہم سفر کہ زمانہ خراب ہے


پھسلن قدم قدم پہ ہے بازار شوق میں

چل دیکھ بھال کر کہ زمانہ خراب ہے


کچھ ان پہ غور کر جو تقاضے ہیں وقت کے

ان سے نباہ کر کہ زمانہ خراب ہے


آ غرق جام کر دیں ملے ہیں جو رنج و غم

پیمانہ میرا بھر کہ زمانہ خراب ہے


گر بے ٹھکانہ ہیں تو نہیں شرمسار ہم

اب کیا بنائیں گھر کہ زمانہ خراب ہے


محنت شعور تجربہ تعلیم و تربیت

سب کچھ ہے بے اثر کہ زمانہ خراب ہے


دو روٹیاں نہیں نہ سہی ایک ہی سہی

اس پر ہی صبر کر کہ زمانہ خراب ہے


شباب للت


محمد عارف

 مِری آنکھوں میں کبھی جھانک کے دیکھا نہ کرو

باتوں باتوں میں مجھے ایسے کُریدا نہ کرو


مانا، جذبوں کی تمہیں قدر نہیں ہے پھر بھی

پُھول جیسے مِرے جذبات ہیں، کُچلا نہ کرو


مجھ سے نفرت کرو تقسیم جو کرنا ہو مجھے

مجھ کو میزانِِ محبت سے تو مِنہا نہ کرو


تم کو چاہت نہیں منظور جو میری، نہ سہی

میرے پِندارِ محبت کو تو رُسوا نہ کرو


دل میں جو بات ہے لے آؤ زباں پر اپنی

روز مجھکو نئے انداز سے پرکھا نہ کرو


چاہتے ہو یہ اگر تم کو زمانہ چاہے

خود میں رہتے ہوئے خود کو کبھی تنہا نہ کرو


نہ ملو مجھ سے مگر اپنی اَ نا کی خاطر

مِری چاہت مِرے اِخلاص کا سودا نہ کرو


پُھول کِھلتے ہی مزاروں کیلئے ہیں عارف

لے کے ہاتھوں میں اِنہیں اِس طرح مَسلا نہ کرو


محمد عارف


احسان داور شیر گھاٹوی

 یومِ پیدائش 06  اگست 

 

چاہت میں ہاے! زخمِ جگر کون دے گیا 

الفت سے بے  خبر، کو خبر کون دے گیا

 

کٹتے تھے صبح  و شام جو خوشیوں میں ہرگھڑی  

غم سے بھری یہ شام و سحر کون دے گیا 


لیلیٰ و قیس ، ہیر کا رستہ ہے یہ میاں 

لٹ جاتے ہیں جہاں وہ ڈگر کون دے گیا 


بنتے تھے تاج و قصر محبّت میں کوہ کن 

"پتھر تراشنے کا ہنر کون دے گیا "


سب نے دئیں تھے پھول لحد پر مری مگر 

کانٹوں بھری  یہ شاخِ شجر کون دے گیا 


اٹھتے ہی ہاتھ دامنِ امید بھر گئی 

بےجان سی دعا میں اثر کون دے گیا 


سن کر  مری غزل وہ یہ حیرت سے کہہ اٹھا 

شعر و سخن کا تم کو ہنر کون دے گیا 


احسان داوؔر شیرگھاٹوی


ڈاکٹر عنبر عابد

 کچھ اس لئے بھی وہ مجھے اچھا بہت لگا

اس کا ہر ایک عیب تھا تم سا بہت لگا


تیرے بغیر عید تو تھی ہی بے لطف و کیف

تیرے بغیر چاند بھی دھندلا بہت لگا


ہنس کر اگرچہ ٹال دی میں نے تمہاری بات

دل کو تمہاری بات سے دھکا بہت لگا


جو شخص اپنے آپ میں اک انجمن تھا کل

آج ایک انجمن میں وہ تنہا بہت لگا


اک جھوٹ اس نے بولا تھا سچ کے سپورٹ میں

وہ شخص مجھکو اس لئے سچا بہت لگا


حالانکہ میرے حق میں تھی ہر بات آپکی

لہجہ نہ جانے کیوں مجھے روکھا بہت لگا


جو واقعہ سنایا ہے عنبر کو آپ نے

وہ واقعہ تو کم لگا قصہ بہت لگا


ڈاکٹر عنبر عابد


آفاق حاشر

 یوم پیدائش 05 اگست


گھٹن میں تازگی کو گھولتا ہوں

میں جب بھی بند کھڑکی کھولتا ہوں


بگڑتا ہے توازن زلزلوں سے

زمیں ڈولے تو میں بھی ڈولتا ہوں


میں خاموشی ہٹا کر راستے سے

نٸی آواز کے در کھولتا ہوں


تری قیمت کا اندازہ ہے مجھ کو

تجھے میزانِ دل میں تولتا ہوں


آفاق حاشر


اسد لاہوری

 شہرِ وفا کی دید ہے، بندے کی آرزو

محبوب کے مقام کو تکنے کی آرزو


آداب، اے حضور! کہ لازم ہے کچھ شعور

ہے شہرِ دلربا میں جو جینے کی آرزو


یہ وہ مقامِ ناز ہے جس کے عروج پر

ملتی ہے ہر عروج کو ڈھلنے کی آرزو


قربت میں ان کی آئے، تو حالت عجب ہے اب

"ہر گام پر جبیں کو ہے سجدے کی آرزو"


ڈانٹیں ہمیں، یا دور ہی جانے کا حکم دیں

کانوں کو ہے جناب کے لہجے کی آرزو


ان کا وصال ہم کو اگر ہو کبھی نصیب

پوری ہو جائے موت پہ قبضے کی آرزو


اسعد جی! آپ یاس میں کاٹیں نہ کل حیات

زندہ رکھیں بچھڑ کے بھی ملنے کی آرزو


اسعدلاہوری


خورشید بھارتی

 یوم پیدائش 05 اگست


عشق کرنے کا صلہ دربار میں رکھا ہوا ہے

جسم اس کا آج بھی دیوار میں رکھا ہوا ہے


پڑھ کے خبریں آنکھوں سے میری ٹپکتا ہے لہو اب

حادثہ در حادثہ اخبار میں رکھا ہوا ہے


جلوہء پرنور دیکھا آپ کا تو دل یہ بولا

چاند جیسے کاٹ کر رخسار میں رکھا ہوا ہے


دوستو سچ بولنے کا میں نے یہ انعام پایا

سر قلم کر کے مرا دربار میں رکھا ہوا ہے 


خورشید بھارتی


لطیف ساجد

 یوم پیدائش 05 اگست


کانپتے ہونٹ ہیں آواز میں دھیما پن ہے

کتنا دشوار کنیزوں کا کنوارا پن ہے


یہ کسی ایک کہانی سے نہیں اَخذ شدہ

جھوٹ تاریخ کا مجموعی کمینہ پن ہے


اشک ہیں نُوری خزینوں کے نگینے جیسے

تیرے غمگین کی آنکھوں میں اچھوتا پن ہے


معذرت آپ کی آواز نہیں سُن پایا

میرے ہمراہ کئی سال سے بہرا پن ہے


ہم خد و خال سے اندازہ لگا لیتے ہیں

واقعی دشت ہے یا ذہن کا سُوکھا پن ہے


جلتے خیموں کا دھواں ساتھ لیے پھرتا ہوں

غم کا احساس مری ذات کا کڑوا پن ہے


خوبصورت ہے مگر شک میں گھری ہے ساجد

جیسے دنیا کسی مٹیار کا سُونا پن ہے


لطیف ساجد


جلیل نظامی

 یوم پیدائش 05 اگست 1957


سر پھر نہ اٹھا پاؤں ترے در پہ جھکا کر

اتنی تو بلندی مجھے اللہ عطا کر


رکھوں ترے ہر غم کو میں سینے سے لگا کر

چھوڑے گی یہ خواہش مجھے دیوانہ بنا کر


آنسو ہوں تو کردے کسی دامن کے حوالے

موتی ہوں تو رکھ لے مجھے پلکوں پہ سجا کر


آئینہ دکھانا تو حریفوں کا عمل ہے

ائے دوست نصیحت نہیں امداد کیا کر


ہم پیاس بجھانے میں رہے دشت بلا کی

وہ آ بھی گئے جاکے سمندر کو جلا کر


آزردگئی شوق کی روداد مفصل

ہم اور بھی رسوا ہوئے یاروں کو سناکر


قدموں سے لپٹ جاتی ہے کمبخت یہ دنیا

دھتکاروں جلیل اس کو جو نظروں سے گرا کر


 جلیل نظامی


منظر ایوبی

 یوم پیدائش 04 اگست 1932


وصال و ہجر کے قصے نہ یوں سناؤ ہمیں

اب اس عذاب شب و روز سے بچاؤ ہمیں


کسی بھی گھر میں سہی روشنی تو ہے ہم سے

نمود صبح سے پہلے تو مت بجھاؤ ہمیں


نہیں ہے خون شہیداں کی کوئی قدر یہاں

لگا کے داؤ پہ ہم کو نہ یوں گنواؤ ہمیں


تمام عمر کا سودا ہے ایک پل کا نہیں

بہت ہی سوچ سمجھ کر گلے لگاؤ ہمیں


گزر چکے ہیں مقام جنوں سے دیوانے

یہ جان لینا اگر کل یہاں نہ پاؤ ہمیں


ہمارے خوں سے نکھر جائے غم تو کیا کہنا

بڑھاؤ دست ستم دار پر چڑھاؤ ہمیں


کرشمہ سازیٔ فکر و نظر سے کیا حاصل

بنے ہو خضر تو پھر راستہ دکھاؤ ہمیں


یہ لمحہ بھر کا تصور تو جان لیوا ہے

جو یاد آؤ تو تا عمر یاد آؤ ہمیں


کتاب عشق ہیں لیکن نہ اتنی فرسودہ

کہ بے پڑھے ہی فقط میز پر سجاؤ ہمیں


اجڑ نہ جائے عروس سخن کی مانگ کہیں

خیال و فن کی نئی جنگ سے بچاؤ ہمیں


منظر ایوبی


اختر انصاری اکبرآبادی

 یوم پیدائش 05 جولائی 1920


دور تک روشنی ہے غور سے دیکھ

موت بھی زندگی ہے غور سے دیکھ


ان چراغوں کے بعد اے دنیا

کس قدر تیرگی ہے غور سے دیکھ


رہنماؤں کا جذبۂ ایثار

یہ بھی اک رہزنی ہے غور سے دیکھ


دشمنی کو برا نہ کہہ اے دوست

دیکھ کیا دوستی ہے غور سے دیکھ


ترک تدبیر و جستجو کے بعد

زندگی زندگی ہے غور سے دیکھ


گر یہ شبنم کا رنگ لایا ہے

ہر طرف تازگی ہے غور سے دیکھ


ہیں تحیر میں وہ بھی اے اخترؔ

کیا تری شاعری ہے غور سے دیکھ


اختر انصاری اکبرآبادی


ایس ڈی عابد

 عقل ہے تو گیان بھی ہو گا 

ہے زباں تو بیان بھی ہو گا


جانے والے کو ۔۔ ڈھونڈ لوں گا میں

کچھ کہیں تو نشان بھی ہو گا


سوچ لینا تُو پہلے کرنے سے 

عشق میں امتحان بھی ہو گا


آج محفل ہے حُسن والوں کی

صاحبِ صاحبان بھی ہو گا


سارے دشمن نہیں زمانے میں 

کوئی تو مہربان بھی ہو گا


شہر سارا تو بدزبان نہیں  

ایک تو خوش گمان بھی ہو گا


اِن دنوں جو فقط کہانی ہے 

کل وہی داستان بھی ہو گا


قتل پُھولوں کا کرنے والوں میں

دیکھنا باغبان بھی ہو گا


عشق میں سب تو مر نہیں جاتے

کوئی تو نیم جان بھی ہوگا 


مانتا ہوں کہ سارے طالب ہیں 

طالبِ طالبان بھی ہو گا 


حشر کے دن کی ایک خوبی ہے 

سیّدِ سیّدان بھی ہو گا 


حُسن ہے یہ حساب کے دن کا

جلوہ گر لامکان بھی ہوگا 


عاجزی جس نے عابدؔ اپنا لی

ایک دن کامران بھی ہو گا


 ایس،ڈی،عابدؔ


فرید پربتی

 یوم پیدائش 04 اگست 1961


اور کچھ اس کے سوا اہل نظر جانتے ہیں

پگڑیاں اپنی بچانے کا ہنر جانتے ہیں


اک ستارے کو ضیا بار دکھانے کے لئے

وہ بجھائیں گے سبھی شمس و قمر جانتے ہیں


خواب میں دیکھتے ہیں کھڑکیاں ہر گھر کی کھلی

دور ہو جائے گا اب شہر سے ڈر جانتے ہیں


میزبانی تھی کبھی جن میں میسر تیری

پلٹ آئیں گے وہی شام و سحر جانتے ہیں


تری جھولی میں ستارے یہ نہیں گرنے کے

ہر طلب گار کا وہ طرز نظر جانتے ہیں


یہ جو سستانے یہاں آتے ہیں صاحب اک دن

سائے کے ساتھ وہ مانگیں گے شجر جانتے ہیں


تیز آندھی سے دیے سارے بچانے کو فریدؔ

خود کو رکھے گا سر راہ گزر جانتے ہیں


فرید پربتی


ارشد سراغ

 یوم پیدائش 04 اگست


دم بہ دم جاری سفر ہے اپنے پیارے کی طرف 

جا رہا ہوں جاودانی استعارے کی طرف 


دھڑکنیں بھی تیز ہونے لگ گئیں گاڑی کے ساتھ  

اس نے جاتے وقت کب دیکھا اشارے کی طرف 


آ رہی ہے ایک آندھی رنج و غم کی شہر میں

جاں بچانے کو سبھی دوڑے سہارے کی طرف


اپنے بچوں کو تھا سمجھانا مجھے مفہوم عشق

 اس لیے میں چل دیا تھا بہتے دھارے کی طرف

  

ساری دنیا کی توجہ ۔۔۔چاند سے چہرے پہ تھی 

میری نظریں تھی چمکتے اک ستارے کی طرف


ایک بچہ چپ کھڑا ہے عرش میں گاڑے نظر  

دیکھتا ہے کتنی حسرت سے غبارے کی طرف


اس کی آنکھوں میں لکھی تھی آخری خواہش سُراغ 

ڈوبنے والے کا چہرہ تھا کنارے کی طرف


ارشد سراغ


احسان علی احسان

 یوم پیدائش 04 اگست


رات بھر بھوک فاقہ کھلاتی رہی 

مفلسی شادمانی کو کھاتی رہی 


فاصلے قربتوں کا مقدر ہوئے

زندگی وحشتوں کو جگاتی رہی  


آج فرطِ قلق کا وہ ہنگام تھا 

میرے دل کو اداسی ڈراتی رہی


بند ہونے لگی آس کی کھڑکیاں 

زندگی پہ مری بے ثباتی رہی


آئی آزار کھینچے ہوئے زندگی

اور نگاہِ رمیده رلاتی رہی 


آگ نے میرے دل کو بھی جھلسا دیا

راکھ سی زندگانی اڑاتی رہی


میرے گلشن میں اتری ہوئی چاندنی 

نغمہ ہائے اجل گنگناتی رہی


احسان علی احسان


روحی کنجاہی

 یوم پیدائش 04 اگست 1936


ہر تلخ حقیقت کا اظہار بھی کرنا ہے

دنیا میں محبت کا پرچار بھی کرنا ہے


بے خوابیٔ پیہم سے بیزار بھی کرنا ہے

بستی کو کسی صورت بیدار بھی کرنا ہے


دشمن کے نشانے پر کب تک یونہی بیٹھیں گے

خود کو بھی بچانا ہے اور وار بھی کرنا ہے


شفاف بھی رکھنا ہے گلشن کی فضاؤں کو

ہر برگ گل تر کو تلوار بھی کرنا ہے


کانٹوں سے الجھنے کی خواہش بھی نہیں رکھتے

پھولوں سے محبت کا اظہار بھی کرنا ہے


اس جرم کی نوعیت معلوم نہیں کیا ہے

انکار بھی کرنا ہے اقرار بھی کرنا ہے


ہونے بھی نہیں دینا بحران کوئی پیدا

موقف پہ ہمیں اپنے اصرار بھی کرنا ہے


طے لمحوں میں کر ڈالیں صدیوں کا سفر لیکن

اس راہ کو اے روحیؔ ہموار بھی کرنا ہے


 

روحی کنجاہی


باصر سلطان کاغ

 یوم پیدائش 04 اگست 1953


یہ نہیں ہے کہ تجھے میں نے پکارا کم ہے

میرے نالوں کو ہواؤں کا سہارا کم ہے


اس قدر ہجر میں کی نجم شماری ہم نے

جان لیتے ہیں کہاں کوئی ستارا کم ہے


دوستی میں تو کوئی شک نہیں اس کی پر وہ

دوست دشمن کا زیادہ ہے ہمارا کم ہے


صاف اظہار ہو اور وہ بھی کم از کم دو بار

ہم وہ عاقل ہیں جنہیں ایک اشارا کم ہے


ایک رخسار پہ دیکھا ہے وہ تل ہم نے بھی

ہو سمرقند مقابل کہ بخارا کم ہے


اتنی جلدی نہ بنا رائے مرے بارے میں

ہم نے ہم راہ ابھی وقت گزارا کم ہے


باغ اک ہم کو ملا تھا مگر اس کو افسوس

ہم نے جی بھر کے بگاڑا ہے سنوارا کم ہے


آج تک اپنی سمجھ میں نہیں آیا باصرؔ

کون سا کام ہے وہ جس میں خسارا کم ہے


باصر سلطان کاظمی


یوسف اعظمی

 یوم پیدائش 04 اگست 1944


ہونٹوں کے صحیفوں پہ ہے آواز کا چہرہ

سایہ سا نظر آتا ہے ہر ساز کا چہرہ


آنکھوں کی گپھاؤں میں تڑپتی ہے خموشی

خوابوں کی دھنک ہے مرے ہم راز کا چہرہ


میں وقت کے کہرام میں کھو جاؤں تو کیا غم

ڈھونڈے گا زمانہ مری آواز کا چہرہ


سورج کے بدن سے نکل آئے ہیں ستارے

انجام میں بیدار ہے آغاز کا چہرہ


پلکیں ہیں کہ سرگوشی میں خوشبو کا سفر ہے

آنکھوں کی خموشی ہے کہ آواز کا چہرہ


یوسف اعظمی


اشرف رفیع

 یوم پیدائش 04 اگست 1940


پردے مری نگاہ کے بھی درمیاں نہ تھے

کیا کہیے ان کے جلوے کہاں تھے کہاں نہ تھے


جس راستے سے لے گئی تھی مجھ کو بے خودی

اس راہ میں کسی کے قدم کے نشاں نہ تھے


راز آشنا ہے میری نظر یا پھر آئنہ

ورنہ وہ اپنے حسن کے خود رازداں نہ تھے


کچھ بے صدا سے لفظ نظر کہہ گئی ضرور

مانا لب خموش رہین بیاں نہ تھے


آئے تو یوں کہ جیسے ہمیشہ تھے مہرباں

بھولے تو یوں کہ جیسے کبھی مہرباں نہ تھے


اشرفؔ فریب زیست ہے کب امتحاں سے کم

اس کے سوا تو اور یہاں امتحاں نہ تھے


اشرف رفیع


امجد اسلام امجد

 یوم پیدائش 04 اگست 1944


کہاں آ کے رکنے تھے راستے کہاں موڑ تھا اسے بھول جا

وہ جو مل گیا اسے یاد رکھ جو نہیں ملا اسے بھول جا


وہ ترے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں

دل بے خبر مری بات سن اسے بھول جا اسے بھول جا


میں تو گم تھا تیرے ہی دھیان میں تری آس تیرے گمان میں

صبا کہہ گئی مرے کان میں مرے ساتھ آ اسے بھول جا


کسی آنکھ میں نہیں اشک غم ترے بعد کچھ بھی نہیں ہے کم

تجھے زندگی نے بھلا دیا تو بھی مسکرا اسے بھول جا


کہیں چاک جاں کا رفو نہیں کسی آستیں پہ لہو نہیں

کہ شہید راہ ملال کا نہیں خوں بہا اسے بھول جا


کیوں اٹا ہوا ہے غبار میں غم زندگی کے فشار میں

وہ جو درد تھا ترے بخت میں سو وہ ہو گیا اسے بھول جا


تجھے چاند بن کے ملا تھا جو ترے ساحلوں پہ کھلا تھا جو

وہ تھا ایک دریا وصال کا سو اتر گیا اسے بھول جا


امجد اسلام امجد


صوفی تبسم

 یوم پیدائش 04 اگسٹ 1899


ہزار گردش شام و سحر سے گزرے ہیں

وہ قافلے جو تری رہ گزر سے گزرے ہیں


ابھی ہوس کو میسر نہیں دلوں کا گداز

ابھی یہ لوگ مقام نظر سے گزرے ہیں


ہر ایک نقش پہ تھا تیرے نقش پا گماں

قدم قدم پہ تری رہ گزر سے گزرے ہیں


نہ جانے کون سی منزل پہ جا کے رک جائیں

نظر کے قافلے دیوار و در سے گزرے ہیں


رحیل شوق سے لرزاں تھا زندگی کا شعور

نہ جانے کس لیے ہم بے خبر سے گزرے ہیں


کچھ اور پھیل گئیں درد کی کٹھن راہیں

غم فراق کے مارے جدھر سے گزرے ہیں


جہاں سرور میسر تھا جام و مے کے بغیر

وہ مے کدے بھی ہماری نظر سے گزرے ہیں


صوفی تبسّم


شکیب کلگانوی

 دل کی اجڑی ہوئی بستی کو بسانے کے لیے

تم چلے آؤ کسی روز ہنسانے کے لیے


خالی خالی ہیں مرے دل کی نشستیں جاناں

منتظر ہوں میں تمھیں اس پہ بٹھانے کے لیے


اب ترے بعد مجھے کوئی نہیں ہے شکوہ

پر بچا کچھ نہ مرے پاس گنوانے کے لیے


درد پوشیدہ ہوا جاتا ہے آنکھوں سے عیاں

اور دلِ ناداں مصِر اسکو چھپانے کے لیے


آرزو خون سے میرے ہوئی پوری ان کی

پھول بالوں میں فقط ان کے سجانے کے لیے


ضرب سہہ سہہ کے وہ آمادہ بغاوت پہ ہوا

کوششیں خوب ہوئیں دل کو مٹانے لے لئے


نرم گفتار مری سب کا کھلونا ہے بنی

دستِ ہستی میں شکیبؔ اب تو ہنسانے کے لئے


 شکیبؔ کلگانوی


راحیل ثقلینی


 یوم پیدائش 03 اگست 1967


شوق آنکھوں کا نہیں چلتا یہاں

دوسرا چہرا نہیں چلتا یہاں


ورنہ پیروں سے کچل دیتے ہیں لوگ

بھیڑ میں رکنا نہیں چلتا یہاں


اپنے دکھ میں ہنسنے کی عادت بھی ڈال

ہر گھڑی رونا نہیں چلتا یہاں


جانے من یہ جسم کا بازار ہے 

عشق کا سکہ نہیں چلتا یہاں


دشمنوں کو کر لیا دل سے قبول


اب کوئی جھگڑا نہیں چلتا یہاں


یوں تو سب راحیل چلتا ہے مگر

بس تیرے جیسا نہیں چلتا یہاں


راحیل ثقلینی

ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی

 یاد رفتگاں : بیاد شکیل بدایونی بمناسبت یوم تولد

03 اگست 1916


رونق شہر بدایوں تھے شکیل

ان کا فن ہے ان کی عظمت کی دلیل


ان کی ہےمرہون اردو شاعری 

روح پرور ان کی ہے فکر جمیل


ان کی غزلیں ہیں حدیث دلبری

وہ ستم دیدہ دلوں کے تھے وکیل


ان کے نغمے ہیں سرود سرمدی

فلمی دنیا میں شکل سلسبیل


عزم تھا ان کا بہت کچھ وہ کریں

لے کے آٸے تھے مگر عمر قلیل


دے جزاٸے خیر انھیں اس کی خدا

کارنامے ان کے ہیں برقی جلیل


احمد علی برقی اعظمی 


ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی

 یاد رفتگاں : بیاد ممتاز ماہر لسانیات اردو پروفیسر نصیر احمد خان مرحوم

تاریخ وفات : 3 اگست ٢٠٢١


جہاں سےہوگئے رخصت نصیر احمد خاں

لسانیات پہ جن کی کتب ہیں ورد زباں


تھی ان کی ذات گرامی وقار جے این یو

تھے ان کے کام سے واقف تمام اہل جہاں


انھیں زبان وبیاں پر عبور تھا حاصل

نگارشات سے ان کی عیاں ہے روح زماں


لسانیات پہ ان کی کتب ہیں لاثانی

تھے اج عصری ادب میں وہ جس کی روح رواں


کئے جو کام ہیں تاریخ ساز اردو میں

تھا ان کا رخش قلم عمر بھر رواں و دواں


ہو ان کی روح کو حاصل سکون جنت میں

خدا کے فضل سے راس آئے ان کو باغ جناں


تھےایسے ماہر اسلوبیات وہ برقی

وفات جن کی ہے اردو کا اک عظیم زیاں


احمد علی برقی اعظمی 


جاذب قریشی

 یوم پیدائش 03 اگست 1940


جب تمہیں یاد کیا رنج ہوا بھول گئے

ہم اندھیروں میں اجالے کی فضا بھول گئے


تم سے بچھڑے تھے تو جینے کا چلن یاد نہ تھا

تم کو دیکھا ہے تو مرنے کی دعا بھول گئے


تیرے آنسو تھے کہ بے داغ ستاروں کے چراغ

عمر بھر کے لئے ہم اپنی سزا بھول گئے


ہم خیالوں میں تمہیں یاد کئے جاتے ہیں

اور تم دل کے دھڑکنے کی صدا بھول گئے


پیار میں کوئی فصیلیں جو اٹھائے بھی تو کیا

تم تو خود لذت اسلوب وفا بھول گئے


کسی مہکی ہوئی چھاؤں میں ٹھہر کے ہم بھی

سنگ دل وقت کا انداز جفا بھول گئے


کتنے نادان ہیں وہ اہل محبت جاذبؔ

جو ہر اک بات محبت کے سوا بھول گئے


جاذب قریشی


توصیف تبسم

 یوم پیدائش 03 اگست 1928


کاش اک شب کے لیے خود کو میسر ہو جائیں

فرش شبنم سے اٹھیں اور گل تر ہو جائیں


دیکھنے والی اگر آنکھ کو پہچان سکیں

رنگ خود پردۂ تصویر سے باہر ہو جائیں


تشنگی جسم کے صحرا میں رواں رہتی ہے

خود میں یہ موج سمو لیں تو سمندر ہو جائیں


وہ بھی دن آئیں یہ بے کار گزرتے شب و روز

تیری آنکھیں ترے بازو ترا پیکر ہو جائیں


اپنی پلکوں سے جنہیں نوچ کے پھینکا ہے ابھی

کیا کرو گے جو یہی خواب مقدر ہو جائیں


جو بھی نرمی ہے خیالوں میں نہ ہونے سے ہے

خواب آنکھوں سے نکل جائیں تو پتھر ہو جائیں


توصیف تبسم


شکیل بدایونی

 یوم پیدائش 03 اگست 1916


بے خودی میں کیا بتائیں ہم کہ ہم نے کیا کیا

جس طرف جلوہ تیرا آیا نظر سجدہ کیا 


کر کے نالہ ہجر طیبہ میں مجھے رُسوا کیا 

اضطرابِ دردِ دل یہ ہائے تو نے کیا کِیا 


جلوہء در پردہ دیکھا ہو گئے بے خود کلیم 

عرش پر دیدارِ حق آقا نے بے پردہ کیا 


بت گرے بتخانے ٹوٹے کلمہ توحید سے 

حشر تم نے کائناتِ کفر میں برپا کیا 


خلوتِ عرش بریں سے تم نے آ کر دہر میں 

دین کی تبلیغ کی اسلام کا چرچا کیا 


چشمے پتھر سے اُبلنا عین فطرت ہے کلیم 

دستِ رحمت سے رواں سرکار نے دریا کیا 


دیکھ کر ہم عاصیوں پر لطف و رحمت کی نظر 

بخششِ اُمت کا حق نے آپ سے وعدہ کیا 


آج بھی ہے اے خوشا قسمت امید مغفرت 

محو دل سے تیری رحمت نے غمِ فردا کیا 


جلوہء روئے نبی نے دل میں آ کر اے شکیلؔ 

عرش کے انوار سے روشن میرا سینہ کیا 


شکیل بدایونی


انوری بیگم


 یوم پیدائش 15 مارچ 1959


جانے کیوں کر اس قدر سہما ہوا ہے آئینہ

آئینے کو دیکھ کر بھی ڈر رہا ہے آئینہ


کیا کوئی معصوم سی صورت نظر میں آ گئی

کیوں سوالوں میں الجھ کر رہ گیا ہے آئینہ


آپ اپنے آپ کو اس سے چھپا سکتے نہیں

آپ کی اک اک ادا سے آشنا ہے آئینہ


خواہشوں کے جال میں الجھا ہوا ہے ہر بشر

کون کتنا بے غرض ہے جانتا ہے آئینہ


آشیاں میرا جلایا نوچ ڈالے پر مرے

آپ کو اس حال میں بھی دیکھتا ہے آئینہ


اس لئے سب نے نگاہوں سے گرایا ہے اسے

جس کی جیسی شکل ہے وہ بولتا ہے آئینہ


ہاتھ میں پتھر لئے کیوں بڑھ رہے ہو اس طرف

چوٹ کھا کر خود بھی پتھر بن چکا ہے آئینہ


ظلم کی تلوار کے سائے میں بھی ہوں سجدہ ریز

انوریؔ ہر حال میں پہچانتا ہے آئینہ


انوری بیگم

علی افتخار جعفری

 یوم پیدائش 02 آگسٹ 1969


رنگ محفل سے فزوں تر مری حیرانی ہے

پیرہن باعث عزت ہے نہ عریانی ہے


نیند آتی ہے مگر جاگ رہا ہوں سر خواب

آنکھ لگتی ہے تو یہ عمر گزر جانی ہے


اور کیا ہے تری دنیا میں سوائے من و تو

منت غیر کی ذلت ہے جہاں بانی ہے


چوم لو اس کو اسی عالم مدہوشی میں

آخر خواب وہی بے سر و سامانی ہے


اپنے ساماں میں تصاویر بتاں ہیں یہ خطوط

کچھ لکیریں ہیں کف دست ہے پیشانی ہے


علی افتخار جعفری


محمد شرف الدین ساحل

یوم پیدائش 02 آگسٹ 1950


ہجوم غم میں بہر حال مسکرانا ہے 

ہوا کے رخ پہ چراغ یقیں جلانا ہے 


ہے دل خراش بہت یاد میرے ماضی کی 

اسے حریم غزل میں مجھے سجانا ہے 


گنہ کے خوف سے انسان کانپ جاتا تھا 

یہ واقعہ تو ہے لیکن بہت پرانا ہے 


تمام شہر پہ حاکم کا جبر ہے غالب 

یہ کیا کہ ناز بھی اس کا ہمیں اٹھانا ہے 


جدید دور میں اصحاب کہف کے مانند 

قدیم دور کا سکہ ہمیں چلانا ہے 


جنہیں ہے زعم بہت اپنی بے گناہی پر 

انہیں بھی چل کے ذرا آئینہ دکھانا ہے 


چراغ عزم کا تم ساتھ لے چلو ساحلؔ 

ہوا کے زور مسلسل کو آزمانا ہے


محمد شرف الدین ساحل


زین احترام

 یوم پیدائش 22 اگسٹ


اٹھاتا کون ہے نخرے ہمارے

کسے فرصت سنے قصّے ہمارے


گلے ملتے اچانک رک گیا وہ

پرانے دیکھ کر کپڑے ہمارے


وہ ہلکے زندگی کے بوجھ سے تھے

کتابوں سے بھرے بستے ہمارے


نئے اس سال سوچا تھا ملیں گے

مگر آئے نہ دن اچھّے ہمارے


یہ بہتر ہے کہانی موڑ لیں ہم 

نہیں ملتے اگر رستے ہمارے


انا کی ضد کہاں تک لے گئ ہے

ذرا سی دیر کے جھگڑے ہمارے


ٹھہر جا زین کب سے ہے سفر میں

صدا دینے لگے جوتے ہمارے


زین احترام


زبیر قلزم

 ہمیں بھی تو محبت ہو گئی تھی

نہ پوچھو کیا قیامت ہو گئی تھی


ہمیں جب عشق نے قیدی رکھا تھا

تو جاں دے کر ضمانت ہو گئی تھی


نبھا کا وعدہ کہتے بھول جائیں

جوانی میں حماقت ہو گئی تھی


اٹھائے پھر رہا ہوں لاش اپنی

مری مجھ سے ہلاکت ہو گئی تھی


یہ تم نے کیسے بدلی ہے بتاؤ

تمہیں بھی میری عادت ہو گئی تھی


میں جب تک لوٹا اپنے پاس تب تک

مرے اندر بغاوت ہو گئی تھی


اجل آئی ہے میں صدقے میں واری

اذیت میری قسمت ہو گئی تھی 


بچھڑتے وقت یہ بھی دکھ تھا قلزم

وہ کتنی خوبصورت ہو گئی تھی


زبیر قلزم


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...