Urdu Deccan

Friday, December 31, 2021

عزم بہزاد

 یوم پیدائش 31 دسمبر 1958


کتنے موسم سرگرداں تھے مجھ سے ہاتھ ملانے میں

میں نے شاید دیر لگا دی خود سے باہر آنے میں


ایک نگاہ کا سناٹا ہے اک آواز کا بنجر پن

میں کتنا تنہا بیٹھا ہوں قربت کے ویرانے میں


آج اس پھول کی خوشبو مجھ میں پیہم شور مچاتی ہے

جس نے بے حد عجلت برتی کھلنے اور مرجھانے میں


ایک ملال کی گرد سمیٹے میں نے خود کو پار کیا

کیسے کیسے وصل گزارے ہجر کا زخم چھپانے میں


جتنے دکھ تھے جتنی امیدیں سب سے برابر کام لیا

میں نے اپنے آئندہ کی اک تصویر بنانے میں


ایک وضاحت کے لمحے میں مجھ پر یہ احوال کھلا

کتنی مشکل پیش آتی ہے اپنا حال بتانے میں


پہلے دل کو آس دلا کر بے پروا ہو جاتا تھا

اب تو عزمؔ بکھر جاتا ہوں میں خود کو بہلانے میں


عزم بہزاد


(عزم بہزاد نے تیسرا شعر اپنی بیٹی کے لئے کہا تھا ، جس کا کم عمری میں ہی ایکسیڈنٹ کی وجہ سے انتقال ہو گیا )


مخمور سعیدی

 یوم پیدائش 31 دسمبر 1938


لکھ کر ورق دل سے مٹانے نہیں ہوتے

کچھ لفظ ہیں ایسے جو پرانے نہیں ہوتے


جب چاہے کوئی پھونک دے خوابوں کے نشیمن

آنکھوں کے اجڑنے کے زمانے نہیں ہوتے


جو زخم عزیزوں نے محبت سے دئیے ہوں

وہ زخم زمانے کو دکھانے نہیں ہوتے


ہو جائے جہاں شام وہیں ان کا بسیرا

آوارہ پرندوں کے ٹھکانے نہیں ہوتے


بے وجہ تعلق کوئی بے نام رفاقت

جینے کے لیے کم یہ بہانے نہیں ہوتے


کہنے کو تو اس شہر میں کچھ بھی نہیں بدلا

موسم مگر اب اتنے سہانے نہیں ہوتے


سینے میں کسک بن کے بسے رہتے ہیں برسوں

لمحے جو پلٹ کر کبھی آنے نہیں ہوتے


آشفتہ سری میں ہنر حرف و نوا کیا

لفظوں میں بیاں غم کے فسانے نہیں ہوتے


مخمورؔ یہ اب کیا ہے کہ بار غم دل سے

بوجھل مرے احساس کے شانے نہیں ہوتے


مخمور سعیدی


آفتاب عارف

 یوم پیدائش 31 دسمبر 1943


دھڑکنیں جاگ اٹھیں پہلی ملاقات کے ساتھ

عشق چڑھتا رہا پروان محاکات کے ساتھ


 اشک آنکھوں میں امنڈ آۓ ہنسی آتے ہی

 مدتوں بعد کھلی دھوپ تو برسات کے ساتھ

 

تجھ کو سوچوں تو مہک اٹھتی ہے تنہائی مری

کوئی نسبت تو یقیناً ہے تری ذات کے ساتھ


ہجر کا سوگ منانے کی کسے فرصت ہے

رات کی بات گئی ، یار گئی رات کے ساتھ


صبح ہونے کو ہے دھڑ کا سا لگا ہے دل کو

 رات گزری ہے پریشان خیالات کے ساتھ

 

 مدتیں ہوگئیں احساس کا دربند ہوۓ

 دل کا اب کوئی تعلق نہیں جذبات کے ساتھ

 

عمر بھر جان ہتھیلی پے رکھے جیتے رہے

گو کہ سمجھوتہ گوارہ نہ تھا حالات کے ساتھ


زندگی تیری خوشی کے لئے کیا کچھ نہ کیا

تو ملی بھی تو ملی درد کی سوغات کے ساتھ


 آفتاب عارف


شمشاد شاد

 جہالتوں کی غلامی سے بچ نکلنے کا

سنھبل بھی جاؤ یہی وقت ہے سنبھلنے کا


بلندیاں بھی کریں گی سلام جھک کے تمھیں

شعور تم میں اگر ہے زمیں پہ چلنے کا


جو ناامیدی کے بادل فلک پہ چھاۓ ہوں

تم انتظار کرو برف کے پگھلنے کا


نڈھال ہو کے لو سورج بھی محو خواب ہوا

اے چاند تارو یہی وقت ہے نکلنے کا


میں وہ چراغ ہوں جس میں ہے عزم کا ایندھن

نہیں ہے خوف مجھے آندھیوں کے چلنے کا


شفق کے سائے میں دن رات مل رہے ہیں گلے

بڑا حسین ہے منظر یہ شام ڈھلنے کا


ہر اک سوال کا معقول دو جواب کہ شاد

نہیں یہ وقت خموشی سے ہاتھ ملنے کا


شمشاد شاد


رضا علی عابدی

 یوم پیدائش 30 دسمبر 1935

نظم چاند نگر سے خط آیا ہے


چاند نگر سے خط آیا ہے 

دیکھنا اس میں کیا لکھا ہے 

اس میں لکھا ہے پیارے بچو 

میں آکاش پہ بیٹھا بیٹھا 

تم سب لوگوں کی دنیا کو 

خاموشی سے دیکھ رہا ہوں 

اس میں لکھا ہے پیاری دنیا 

پہلے کتنی بھولی بھالی 

نیلی برف کے گولے جیسی 

سندر سی اچھی لگتی تھی 

اس میں لکھا پیارے بچو 

اب یہ خون کی رنگت جیسی 

اب یہ آگ کے شعلوں جیسی

سرخ نظر آیا کرتی ہے 

اس میں لکھا ہے اس دنیا کو 

کیوں تاریکی نے گھیرا ہے 

نفرت کی گھنگھور گھٹا کا 

کیوں کالا بادل چھایا ہے

اس میں لکھا ہے اچھے بچے 

پیار کے روشن دیے جلاؤ 

مجھ سے اجلی روشنی لے لو 

اپنی دنیا کو چمکاؤ

چاہے میں پڑ جاؤں ماند 

فقط تمہارا پیارا چاند 

چاند نگر سے خط آیا ہے 

دیکھنا اس میں کیا لکھا ہے


رضا علی عابدی 


اقبال ادیب کاشی پوری

 یوم پیدائش 09 جنوری 1954


اجاڑ نے پہ جسے متفق زمانہ ہے

اسی چمن میں ہمارا بھی آشیانہ ہے


مرے خدا کسی مشکل میں ڈالدے مجھ کو

مجھے کچھ اپنے عزیزوں کو آزمانا ہے


ہے آج تک بھی حسین و جمیل ویسا ہی

یہ چاند کہنے کولاکھوں برس پرانا ہے


یہاں پہ کوئی کسی کی مدد نہیں کرتا

خودا پنی راہ کا پتھر مجھے ہٹانا ہے


وہ ہم سے کوئی سا لہجہ بھی اختیار کرے

 ہمیں تو صرف محبت سے پیش آنا ہے


کسی کی جان چلی جاۓ یا رہے اقبال

اسے تو صرف نشانے کو آزمانا ہے


اقبال ادیب کاشی پوری


الوک شریواستو


 یوم پیدائش 30 دسمبر 1971


اگر سفر میں مرے ساتھ میرا یار چلے 

طواف کرتا ہوا موسم بہار چلے 


لگا کے وقت کو ٹھوکر جو خاکسار چلے 

یقیں کے قافلے ہم راہ بے شمار چلے 


نوازنا ہے تو پھر اس طرح نواز مجھے 

کہ میرے بعد مرا ذکر بار بار چلے 


یہ جسم کیا ہے کوئی پیرہن ادھار کا ہے 

یہیں سنبھال کے پہنا یہیں اتار چلے 


یہ جگنوؤں سے بھرا آسماں جہاں تک ہے 

وہاں تلک تری نظروں کا اقتدار چلے 


یہی تو ایک تمنا ہے اس مسافر کی

جو تم نہیں تو سفر میں تمہارا پیار چلے


آلوک شریواستو

ساحر شیوی

 یوم پیدائش 29 دسمبر 1936


غم حیات کی پہنائیوں سے خوف زدہ

میں عمر بھر رہا ناکامیوں سے خوف زدہ


جہاں بھی دیکھو تعصب کی چل رہی ہے ہوا

ہمارا شہر ہے بلوائیوں سے خوف زدہ


کبھی کسی کا برا ہی نہیں کیا پھر بھی

زمانہ ہے مری خوش حالیوں سے خوف زدہ


کرم تمہارا کوئی بے غرض نہیں ہوتا

ہے دل تمہاری مہربانیوں سے خوف زدہ


الٰہی تجھ کو خبر ہے کہ یہ ترا ساحرؔ

ہے کتنا اپنی پریشانیوں سے خوف زدہ


ساحر شیوی


 #شعراء #اردو #اردوشاعری #پیدائش #اردوغزل #urdudeccan #poetrylovers #اردودکن #birthday #urdu #urduadab


منظر بھوپالی

 یوم پیدائش 29 دسمبر 1959


کوئی بچنے کا نہیں سب کا پتا جانتی ہے

کس طرف آگ لگانا ہے ہوا جانتی ہے


اجلے کپڑوں میں رہو یا کہ نقابیں ڈالو

تم کو ہر رنگ میں یہ خلق خدا جانتی ہے


روک پائے گی نہ زنجیر نہ دیوار کوئی

اپنی منزل کا پتہ آہ رسا جانتی ہے


ٹوٹ جاؤں گا بکھر جاؤں گا ہاروں گا نہیں

میری ہمت کو زمانے کی ہوا جانتی ہے


آپ سچ بول رہے ہیں تو پشیماں کیوں ہیں

یہ وہ دنیا ہے جو اچھوں کو برا جانتی ہے


آندھیاں زور دکھائیں بھی تو کیا ہوتا ہے

گل کھلانے کا ہنر باد صبا جانتی ہے


آنکھ والے نہیں پہچانتے اس کو منظرؔ

جتنے نزدیک سے پھولوں کی ادا جانتی ہے


منظر بھوپالی


اثر صہبائی

 یوم پیدائش 28 دسمبر 1904


لطف گناہ میں ملا اور نہ مزہ ثواب میں

عمر تمام کٹ گئی کاوش احتساب میں


تیرے شباب نے کیا مجھ کو جنوں سے آشنا

میرے جنوں نے بھر دیے رنگ تری شباب میں


آہ یہ دل کہ جاں گداز جوشش اضطراب ہے

ہائے وہ دور جب کبھی لطف تھا اضطراب میں


قلب تڑپ تڑپ اٹھا روح لرز لرز گئی

بجلیاں تھیں بھری ہوئی زمزمۂ رباب میں


چرخ بھی مے پرست ہے بزم زمیں بھی مست ہے

غرق بلند و پست ہے جلوۂ ماہتاب میں


میرے لیے عجیب ہیں تیری یہ مسکراہٹیں

جاگ رہا ہوں یا تجھے دیکھ رہا ہوں خواب میں


میرے سکوت میں نہاں ہے مرے دل کی داستاں

جھک گئی چشم فتنہ زا ڈوب گئی حجاب میں


لذت جام جم کبھی تلخی زہر غم کبھی

عشرت زیست ہے اثرؔ گردش انقلاب میں


اثر صہبائی


نیاز فتح پوری

 یوم پیدائش 28 دسمبر 1884


جب قفس میں مجھ کو یاد آشیاں آ جائے ہے

سامنے آنکھوں کے اک بجلی سی لہرا جائے ہے


دل مرا وہ خانۂ ویراں ہے جل بجھنے پہ بھی

راکھ سے جس کی دھواں تا دیر اٹھتا جائے ہے


تم تو ٹھکرا کر گزر جاؤ تمہیں ٹوکے گا کون

میں پڑا ہوں راہ میں تو کیا تمہارا جائے ہے


چشم تر ہے اس طرف اور اس طرف ابر بہار

دیکھنا ہے آج کس سے کتنا رویا جائے ہے


میں تو بس یہ جانتا ہوں اس کو ہونا ہے خراب

کیا خبر اس کی مجھے دل آئے ہے یا جائے ہے


میرا پندار خدائی اس گھڑی دیکھے کوئی

جب مجھے بندہ ترا کہہ کر پکارا جائے ہے


اب وہ کیا آئیں گے تم بھی آنکھ جھپکا لو نیازؔ

صبح کا تارہ بھی اب تو جھلملاتا جائے ہے


نیاز فتح پوری


رشید بشر

 یوم پیدائش 27 دسمبر 1968


غریبی میں امیری کے میں جب بھی خواب بنتا ہوں 

کھلے جب آنکھ حسرت سے درو دیوار تکتا ہوں 


زمانے کی ڈگر سے میں عموماً ہٹ کے چلتا ہوں 

اسی خاطر تو لوگوں کی نگاہوں میں کھٹکتا ہوں 


سفرمیں اس لئے مڑ مڑ کے میں پیچھے نہیں تکتا 

میں خود ہی اپنی منزل بھی ہوں خود اپنا ہی رستہ ہوں 


چھپائیں لاکھ اپنی شخصیت لفظوں کے پردے میں 

سرِ محفل ہے کیسا کون میں سب کو سمجھتا ہوں 


تجاوز کر چکی ہے عمر گو حدّ جوانی سے 

ابھی تک گود میں ماں کی تصوّر میں مچلتا ہوں 


مرے صیّادنے پنجرے میں میرے پر بھی باندھے ہیں 

اسے ہے خوف میں پنجرہ پروں سے توڑ سکتا ہوں


مرے دشمن بھی حیراں ہیں مری اس سادہ لوحی پر 

عدو کو بھی میں دل کے گوشہُ الفت میں رکھتا ہوں 


جو ہیں سیراب پہلے ہی انہیں سیراب کیا کرنا 

میں وہ بادل ہوں جو پیاسی زمینوں پر برستا ہوں 


بشر اس واسطے اپنا تخلّص میں نے رکّھا ہے  

بشر کی افضلیّت کو بخوبی میں سمجھتا ہوں


رشید بشر


سید محمد جعفری

 یوم پیدائش 27 دسمبر 1905


سگریٹ نے یہ اک پان کے بیڑے سے کہا

تو ہمیشہ سے پری رویوں کے جھرمٹ میں رہا

کون سی ایسی ہیں خدمات تری بیش بہا

خوں بہا کیوں لب و دندان حسیناں سے لیا

تجھ میں کیا لعل لگے ہیں کہ تو اتراتا ہے

بے حجابانہ ہر اک بزم میں آ جاتا ہے


سگریٹ سے جو سنے پان نے یہ تلخ سخن

بولا خاموش کہ اچھا نہیں حاسد کا چلن

جلتے رہنے سے دھواں بن کے مٹا تیرا بدن

تو لگا منہ کو تو غائب ہوئی خوشبوئے دہن

کاغذی پیرہن اور اس پہ تو فریادی ہے

خودبخود غصہ میں جل جانے کا تو عادی ہے


اس پہ سگریٹ نے کہا پان سے یہ کیا ہے ستم

چھاؤں میں پلتا ہے اور تو ہے بڑا سبز قدم

کتھے، چونے پہ، ڈلی پر ترا قائم ہے بھرم

تجھ پہ چاندی کے ورق لپٹیں تو کیا ہے تجھے غم

خاصدانوں کے محافوں میں سفر کرتا ہے

رات دن ماہ جبینوں میں بسر کرتا ہے


پان بولا کہ جلاتا ہے تو کیوں قلب و جگر

ایشیائی میں ہوں، مغرب کا ہے تو سوداگر

کاش تو اپنے گریبان میں منہ ڈالے اگر

تو وہ بے بس ہے کہ ماچس کا جو ہو دست نگر

آگ برسانے میں ساری تری رعنائی ہے

اور یہ چنگاری بھی باہر سے کہیں پائی ہے


بولا سگریٹ کہ بشر شکوہ کناں ہیں تیرے

در و دیوار پہ پیکوں کے نشاں ہیں تیرے

جو لپ اسٹک میں ہیں وہ جلوے کہاں ہیں تیرے

خود تو ہلکا ہے پہ نقصان گراں ہیں تیرے

نہ غذا میں نہ دوا میں ہے تو پھر کون ہے تو

تو ہلاکو ہے کہ تیمور کہ فرعون ہے تو


پان کہنے لگا سگریٹ سے کہ ابلیس لعین

تیری تمباکو سے جاتی ہے بدن میں نکوٹین

تجھ سے پیدا ہوئے امراض نہایت سنگین

بے تمیز اتنا کہ محفل میں جلائے قالین

راکھ سے تیری بھری دیکھتے ہیں ایش ٹرے

کوئی گرنے کو تو گر جائے پر اتنا نہ گرے


جل کے خود سب کو جلا دینا ترا پیشہ ہے

چھپ کے بیٹھی ہے اجل جس میں تو وہ بیشہ ہے

جان لے اپنے ہی عاشق کی جو وہ تیشہ ہے

تیرے پینے سے تو سرطان کا اندیشہ ہے

جو تجھے منہ سے لگائیں گے لہو تھوکیں گے

اور بھی چیزوں کے کش لینے سے کب چوکیں گے


صلح ان دونوں کی آخر میں کرائی میں نے

پان میں ڈال کے تمباکو بھی کھائی میں نے

لب سے سگریٹ کے جو چنگاری اڑائی میں نے

شعر اور فکر کی شمع اس سے جلائی میں نے

پان سے میں نے کہا شان تری بالا ہے

تو ہے نوشہ تو یہ سگریٹ ترا شہبالا ہے


سید محمد جعفری


نواب مصطفی خان شیفتہ

 یوم پیدائش 27 دسمبر 1809


روز خوں ہوتے ہیں دو چار ترے کوچے میں

ایک ہنگامہ ہے اے یار ترے کوچے میں


فرش رہ ہیں جو دل افگار ترے کوچے میں

خاک ہو رونق گلزار ترے کوچے میں


سرفروش آتے ہیں اے یار ترے کوچے میں

گرم ہے موت کا بازار ترے کوچے میں


شعر بس اب نہ کہوں گا کہ کوئی پڑھتا تھا

اپنے حالی مرے اشعار ترے کوچے میں


نہ ملا ہم کو کبھی تیری گلی میں آرام

نہ ہوا ہم پہ جز آزار ترے کوچے میں


ملک الموت کے گھر کا تھا ارادہ اپنا

لے گیا شوق غلط کار ترے کوچے میں


تو ہے اور غیر کے گھر جلوہ طرازی کی ہوس

ہم ہیں اور حسرت دیدار ترے کوچے میں


ہم بھی وارستہ مزاجی کے ہیں اپنی قائل

خلد میں روح تن زار ترے کوچے میں


کیا تجاہل سے یہ کہتا ہے کہاں رہتے ہو

ترے کوچے میں ستم گار ترے کوچے میں


شیفتہؔ ایک نہ آیا تو نہ آیا کیا ہے

روز آ رہتے ہیں دو چار ترے کوچے میں


نواب مصطفی خان شیفتہ


سحر انصاری

 یوم پیدائش 27 دسمبر 1936


نہ دوستی سے رہے اور نہ دشمنی سے رہے 

ہمیں تمام گلے اپنی آگہی سے رہے


وہ پاس آئے تو موضوع گفتگو نہ ملے

وہ لوٹ جائے تو ہر گفتگو اسی سے رہے


ہم اپنی راہ چلے لوگ اپنی راہ چل

یہی سبب ہے کہ ہم سرگراں سبھی سے رہے


وہ گردشیں ہیں کہ چھٹ جائیں خود ہی بات سے ہات

یہ زندگی ہو تو کیا ربط جاں کسی سے رہے


کبھی ملا وہ سر رہ گزر تو ملتے ہی

نظر چرانے لگا ہم بھی اجنبی سے رہے


گداز قلب کہے کوئی یا کہ ہرجائی

خلوص و درد کے رشتے یہاں سبھی سے رہے


سحر انصاری


مرزا غالب

 یوم پیدائش 27 دسمبر 1797


سادگی پر اس کی مر جانے کی حسرت دل میں ہے

بس نہیں چلتا کہ پھر خنجر کف قاتل میں ہے


دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا

میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے


گرچہ ہے کس کس برائی سے ولے باایں ہمہ

ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے


بس ہجوم ناامیدی خاک میں مل جائے گی

یہ جو اک لذت ہماری سعیٔ بے حاصل میں ہے


رنج رہ کیوں کھینچیے واماندگی کو عشق ہے

اٹھ نہیں سکتا ہمارا جو قدم منزل میں ہے


جلوہ زار آتش دوزخ ہمارا دل سہی

فتنۂ شور قیامت کس کے آب و گل میں ہے


ہے دل شوریدۂ غالبؔ طلسم پیچ و تاب

رحم کر اپنی تمنا پر کہ کس مشکل میں ہے


مرزا غالب


سلیمان خطیب

 یوم پیدائش 26 دسمبر 1922

نظم چھورا چھوری


بولو خالہ مزاج کیسے ہیں؟

 کتنے برسوں کے بعد آئی ہو؟

مِسّی ہونٹوں پہ آنکھ میں کاجل

جیسے پیغام کوئی لائی ہو؟


لڑکے کی ماں

میرے چھورے کو چھوری ہونا ہے

میرا چھورا تو پکا سونا ہے

تمیں دل میں ذرا نکو سوچو

ہاتھ آیا تو ہیرا سونا ہے

چار لوگاں میں اس کی ابرو ہے

جیسے کیوڑے کے بن میں خوشبو ہے

کھلّے دل کی ہوں سب بتاتی ہوں

کھلّا مکھلاج میں سناتی ہوں

تھوڑا ترپٹ ہے اور لُلّا ہے

سیدھی آنکھی میں اس کی پھلّا ہے

منہ پہ چیچک کے خالی داغاں ہیں

رنگ ڈامر سے ذرّا کھلّا ہے

ناک نقشے کا کِتّا اچھا ہے

میرا بچہ تو بھور بچہ ہے

اس کے دادا بھی سو پہ بھاری تھے

یوں تو کم ذات کے مداری تھے

کنولے جھاڑاں کی سیندھی پیتے تھے

کیا سلیقے کا جینا جیتے تھے

پی کو نکلے تو جھاڑ دیتے تھے

باوا دادا کو گاڑ دیتے تھے

اچھے اچھے شریف لوگاں تھے

جڑ سے پنجے اکھاڑ دیتے تھے

پہلا دروازے بند کرتے تھے

بچے گوداں میں ڈر کو مرتے تھے


لڑکی کی ماں

خالہ!


یہ تو دنیا ہے ایسا ہوتا ہے

کوئی پاتا ہے کوئی کھوتا ہے

ایسے ویسوں کے دن بھی پھرتے ہیں

سر سے شاہوں کے تاج گرتے ہیں

میری بچی تو خیر جیسی ہے

بولو مرضی تمہاری کیسی ہے؟


لڑکے کی ماں


چھوری پھولاں میں پھول دِسنا جی

بھولی صورت قبول دِسنا جی

اس کے لکّھن سے چال نَئِیں پڑنا

چاند پاواں کی دھول دِسنا جی

منہ کو دیکھے تو بھوک مَرجانا 

پیاسی انکھیا سے پیاس مَر جانا

لچکے کمّر تو بید سرمانا

 لپکے چوٹیاں تو ناگ ڈر جانا

زلفاں لوبان کا دھواں دِسنا

لال ہونٹاں کو غنچے مَرجانا

اچھی غنچی ہو اچھا پاؤں ہو

گھر میں لچھمی کے سر کی چھاؤں ہو

ہنڈیا دھونے کی اس کو عادت ہو

بوجھا ڈھونے کی اس کو عادت ہو

سارے گھر بار کو کِھلا دے وہ

بھکّا سونے کی اس کو عادت ہو

پاک سیتا ہو سچّی مائی ہو

پوری اللہ میاں کی گائی ہو

گَلّا کاٹے تو ہنس کے مرجانا

 بیٹی دنیا میں نام کر جانا

باہر والے تو بہت پوچھیں گے

گھر کا بچہ ہے گھر کا زیور دیو

ریڈیو سئیکل تو دنیا دیتِچ ہے

اللہ دے رہا ہے تو ایک موٹر دیو

بہت چیزاں نکّو جی! تھوڑے بس

ایک بنگلہ ہزار جوڑے بس

گھوڑا جوڑا کیا لے کو دھرنا ہے؟ 

خالی 25 لاکھ ہونا ہے


لڑکی کی ماں


تمیں کتّے ذلیل لوگاں ہیں

 تمیں کتّے ذلیل لوگاں ہیں

 

اتنے میں لڑکی کا باپ اندر آتا ہے اور اپنی پگڑی لڑکے کی ماں کے قدموں میں رکھ دیتا ہے اور کہتا ہے:


جس کی بچی جوان ہوتی ہے 

کس مصیبت میں جان ہوتی ہے؟

بوڑھے ماں باپ کے کلیجے پر

 ایک بھاری چٹان ہوتی ہے

بہنیں گھر میں جوان بیٹھی ہیں

 بھائی چپ ہے کہ کہہ نہیں سکتا

ماں تو گھل گھل کے خود ہی مرتی ہے

باپ بیٹی کو سہہ نہیں سکتا

جی میں آتا ہے اپنی بچی کو

اپنے ہاتھوں سے خود ہی دفنا دیں

لال جوڑے تو دے نہیں سکتے 

لال چادر میں کیوں نہ کفنا دیں

یہ بھی دلہن ہے گھر سے جاتی ہے

موت مفلس کو کیا سہاتی ہے

یہ سہاگن ہے اس کو کاندھا دو

ہم نے خونِ جگر سے پالا ہے

اِس کی تربت پہ یہ بھی لکھ دینا

زرپرستوں نے مار ڈالا ہے


سلیمان خطیب


Thursday, December 30, 2021

عین تابش

 یوم پیدائش 26 دسمبر 1958


میری تنہائی کے اعجاز میں شامل ہے وہی

رقص میں ہے دل دیوانہ کہ محفل ہے وہی


یہ الگ بات نہ وہ تمکنت آرا ہے نہ میں

ہے چمن بھی وہی اور شور عنادل ہے وہی


وہی لیلائے سخن اب بھی سراپائے طلسم

میری جاں اب بھی وہی ہے کہ مرا دل ہے وہی


دشت حیرت میں وہی میرا جنوں محو خرام

آ کے دیکھو کہ یہاں گرمی محفل ہے وہی


اس میں جو ڈوب گیا پار اتر جائے گا

موج در موج وہ دریا ہے تو ساحل ہے وہی


آج بھی اس کے مرے بیچ ہے دنیا حائل

آج بھی اس کے مرے بیچ کی مشکل ہے وہی


عین تابش


اعزاز احمد آذر

 یوم پیدائش 25 دسمبر 1942


درخت جاں پر عذاب رت تھی نہ برگ جاگے نہ پھول آئے

بہار وادی سے جتنے پنچھی ادھر کو آئے ملول آئے 


نشاط منزل نہیں تو ان کو کوئی سا اجر سفر ہی دے دو

وہ رہ نورد رہ جنوں جو پہن کے راہوں کی دھول آئے 


وہ ساری خوشیاں جو اس نے چاہیں اٹھا کے جھولی میں اپنی رکھ لیں

ہمارے حصے میں عذر آئے جواز آئے اصول آئے 


اب ایسے قصے سے فائدہ کیا کہ کون کتنا وفا نگر تھا

جب اس کی محفل سے آ گئے اور ساری باتیں ہی بھول آئے 


وفا کی نگری لٹی تو اس کے اثاثوں کا بھی حساب ٹھہرا

کسی کے حصے میں زخم آئے کسی کے حصے میں پھول آئے 


بنام فصل بہار آذرؔ وہ زرد پتے ہی معتبر تھے

جو ہنس کے رزق خزاں ہوئے ہیں جو سبز شاخوں پہ جھول آئے 


اعزاز احمد آذر


لبنی صفدر

 یوم پیدائش 25 دسمبر


موت سے بھی بڑی قیامت ہے

سچ کہوں زندگی قیامت ہے


دُکھ سے کُھلتی نہیں ہیں آنکھیں اب

خواب کی یہ گھڑی قیامت ہے


صاف دکھنے لگے سبھی چہرے

اب یہی روشنی قیامت ہے


راکھ جسموں کی اُڑ رہی ہے اب

عشق کی آگہی قیامت ہے


آج بولے نہیں پرندے بھی

اس قدر خامشی قیامت ہے


لبنیٰ صفدر


رضا ہمدانی

 یوم پیدائش 25 دسمبر 1910


یہ دور مسرت یہ تیور تمہارے

ابھرنے سے پہلے نہ ڈوبیں ستارے


بھنور سے لڑو تند لہروں سے الجھو

کہاں تک چلو گے کنارے کنارے


عجب چیز ہے یہ محبت کی بازی

جو ہارے وہ جیتے جو جیتے وہ ہارے


سیہ ناگنیں بن کے ڈستی ہیں کرنیں

کہاں کوئی یہ روز روشن گزارے


سفینے وہاں ڈوب کر ہی رہے ہیں

جہاں حوصلے ناخداؤں نے ہارے


کئی انقلابات آئے جہاں میں

مگر آج تک دن نہ بدلے ہمارے


رضاؔ سیل نو کی خبر دے رہے ہیں

افق کو یہ چھوتے ہوئے تیز دھارے


رضا ہمدانی


عشرت آفرین

 یوم پیدائش 25 دسمبر 1956


اپنی آگ کو زندہ رکھنا کتنا مشکل ہے 

پتھر بیچ آئینہ رکھنا کتنا مشکل ہے 


کتنا آساں ہے تصویر بنانا اوروں کی 

خود کو پس آئینہ رکھنا کتنا مشکل ہے 


آنگن سے دہلیز تلک جب رشتہ صدیوں کا 

جوگی تجھ کو ٹھہرا رکھنا کتنا مشکل ہے 


دوپہروں کے زرد کواڑوں کی زنجیر سے پوچھ 

یادوں کو آوارہ رکھنا کتنا مشکل ہے 


چلو میں ہو درد کا دریا دھیان میں اس کے ہونٹ 

یوں بھی خود کو پیاسا رکھنا کتنا مشکل ہے 


تم نے معبد دیکھے ہوں گے یہ آنگن ہے یہاں 

ایک چراغ بھی جلتا رکھنا کتنا مشکل ہے 


داسی جانے ٹوٹے پھوٹے گیتوں کا یہ دان 

سمے کے چرنوں میں لا رکھنا کتنا مشکل ہے


عشرت آفرین


شمیم فاروقی

 یوم پیدائش 25 دسمبر 1943


کتاب کون سی ہے اور کس زبان میں ہے

سنا ہے ذکر ہمارا بھی داستان میں ہے


اسی نے دھوپ میں چلنے کی جیت لی بازی

وہ ایک شخص جو مدت سے سائبان میں ہے


زمیں کو جو بھی اگانا ہے وہ اگائے گی

مجھے پتہ ہے مرا رزق آسمان میں ہے


وہ لوٹ آئے تو اپنی بھی کچھ خبر دوں گا

مرے لہو کا پرندہ ابھی اڑان میں ہے


اسے بھی چھوڑ کہ اب حوصلہ نہیں باقی

وہ ایک تیر جو اب تک تری کمان میں ہے


یہیں کہیں نہ کہیں ہے شمیمؔ فاروقی

اگر یقیں میں نہیں ہے تو پھر گمان میں ہے


شمیم فاروقی


سیف زلفی

 یوم پیدائش 25 دسمبر 1934


سائے جو سنگ راہ تھے رستے سے ہٹ گئے

دل جل اٹھا تو خود ہی اندھیرے سمٹ گئے


دن بھر جلے جو دھوپ کے بستر پہ دوستو

سورج چھپا تو چادر شب میں سمٹ گئے


وہ کرب تھا کہ دل کا لہو آنچ دے اٹھا

ایسی ہوا چلی کہ گریبان پھٹ گئے


وہ فکر تھی کہ دیدہ و دل مضمحل ہوئے

وہ گرد تھی کہ گھر کے در و بام اٹ گئے


آئی جو موج پاؤں زمیں پر نہ جم سکے

دریا چڑھا تو کتنے سفینے الٹ گئے


پھیلا غبار غم تو کہیں منہ چھپا لیا

آندھی اٹھی تو گھر کے ستوں سے لپٹ گئے


کہتے تھے جس کو قرب وہی فاصلہ بنا

بدلا جو رخ ندی نے کئی شہر کٹ گئے


گمنام تھے تو سب کی طرف دیکھتے تھے ہم

شہرت ملی تو اپنی خودی میں سمٹ گئے


دستک ہوئی تو دل کا دریچہ نہ کھل سکا

آئے اور آ کے یاد کے جھونکے پلٹ گئے


میں خود ہی اپنی راہ کا پتھر بنا رہا

ہر چند آپ بھی مرے رستے سے ہٹ گئے


دل کو کسی کی یاد کا غم چاٹتا رہا

یوں میری زندگی کے کئی سال گھٹ گئے


زندان غم کا دھیان بھی خنجر سے کم نہ تھا

زنجیر کی کھنک سے مرے پاؤں کٹ گئے


رستے رہیں گے دیدۂ حسرت سے عمر بھر

زلفیؔ جو زخم پائے طلب سے چمٹ گئے


سیف زلفی


فرحت احساس

 یوم پیدائش 25 دسمبر 1952


مرے ثبوت بہے جارہے ہیں پانی میں

کسے گواہ بناؤں سرائے فانی میں


جو آنسوؤں میں نہاتے رہے سو پاک رہے

نماز ورنہ کسے مل سکی جوانی میں


بھڑک اٹھے ہیں پھر آنکھوں میں آنسوؤں کے چراغ

پھر آج آگ لگادی گئی ہے پانی میں


ہمی تھے ایسے کہاں کے کہ اپنے گھر جاتے

بڑے بڑوں نے گزاری ہے بے مکانی میں


بے کنار بدن کون پار کر پایا

بہت چلے گئے سب لوگ اس روانی میں


وصال و ہجر کہ ایک اک چراغ تھے دونوں

سیاہ ہو کے رہے شب کی بے کرانی میں


بس ایک لمس کہ جل جائیں سب خس و خاشاک

اسے وصال بھی کہتے ہیں خوش بیانی میں


کہانی ختم ہوئی تب مجھے خیال آیا

ترے سوا بھی تو کردار تھے کہانی میں


فرحت احساس


سرشار صدیقی


 یوم پیدائش 25 دسمبر 1926


میرے بدن میں تھی تری خوشبوئے پیرہن

شب بھر مرے وجود میں مہکا ترا بدن


ہوں اپنے ہی ہجوم تمنا میں اجنبی

میں اپنے ہی دیار نفس میں جلا وطن


سب پتھروں پہ نام لکھے تھے رفیقوں کے

ہر زخم سر ہے سنگ ملامت پہ خندہ زن


اب دشت بے اماں ہی میں شاید ملے پناہ

گھر کی کھلی فضا میں تو بڑھنے لگی گھٹن


ہر آدمی ہے پیکر فریاد ان دنوں

ہر شخص کے بدن پہ ہے کاغذ کا پیرہن


خوش فہم ہیں کہ صرف روایت پرست ہیں

خوش فکر تھے کہ لے اڑے تاریخ کا کفن


اس دور میں یہاں بھی فلسطین کی طرح

کچھ لوگ بے زمیں ہوئے کچھ لوگ بے وطن


مثل صبا کوئی ادھر آیا ادھر گیا

گھر میں بسی ہوئی ہے مگر بوئے پیرہن


سرشارؔ میں نے عشق کے معنی بدل دیے

اس عاشقی میں پہلے نہ تھا وصل کا چلن


سرشار صدیقی

نوشاد علی

 یوم پیدائش 25 دسمبر 1919


آبادیوں میں دشت کا منظر بھی آئے گا

گزرو گے شہر سے تو مرا گھر بھی آئے گا


اچھی نہیں نزاکت احساس اس قدر

شیشہ اگر بنوگے تو پتھر بھی آئے گا


سیراب ہو کے شاد نہ ہوں رہروان شوق

رستے میں تشنگی کا سمندر بھی آئے گا


دیر و حرم میں خاک اڑاتے چلے چلو

تم جس کی جستجو میں ہو وہ در بھی آئے گا


بیٹھا ہوں کب سے کوچۂ قاتل میں سرنگوں

قاتل کے ہاتھ میں کبھی خنجر بھی آئے گا


سرشار ہو کے جا چکے یاران مے کدہ

ساقی ہمارے نام کا ساغر بھی آئے گا


اس واسطے اٹھاتے ہیں کانٹوں کے ناز ہم

اک دن تو اپنے ہاتھ گل تر بھی آئے گا


اتنی بھی یاد خوب نہیں عہد عشق کی

نظروں میں ترک عشق کا منظر بھی آئے گا


روداد عشق اس لیے اب تک نہ کی بیاں

دل میں جو درد ہے وہ زباں پر بھی آئے گا


جس دن کی مدتوں سے ہے نوشادؔ جستجو

کیا جانے دن ہمیں وہ میسر بھی آئے گا


نوشاد علی


صہبا لکھنوی

 یوم پیدائش 25 دسمبر 1919


تیرہ بختی نہ گئی سوختہ سامانوں کی

خاک روشن نہ ہوئی شمع سے پروانوں کی


چاہتے ہیں نہ رہے ہوش میں اپنے کوئی

کتنی معصوم ضدیں ہیں ترے دیوانوں کی


شیشۂ دل سے کوئی برق تڑپ کر نکلی

جب پڑی چوٹ چھلکتے ہوئے پیمانوں کی


نگہ مست سے ٹکراتے رہے شیشۂ دل

خوب چلتی رہی دیوانوں سے دیوانوں کی


مست صہبائے محبت ہے ازل سے صہباؔ

اس کو شیشہ کی ضرورت ہے نہ پیمانوں کی


صہبا لکھنوی


سید اظہر فرید

 یوم پیدائش 25 دسمبر


ایک خواہش تھی کوئی خواب معطر جاگے

  میری بستی میں تو ہر لمحہ ستم گر جاگے


تم نے پایا ہے اسے گزرا حوالہ دے کر

 اب نہ آنکھوں میں تمہاری یہ تکبر جاگے


  کیا پتہ تم کو دعاؤں کا ثمر مل جائے

تم قدم ریت پہ رکھ دو تو سمندر جاگے


  موسمِ ہجر نے آنے کو کہا ہے اظہر

   کیا خبر رات اندھیری کا مقدر جاگے


 سید اظہر فرید


فیصل فارانی

 یوم پیدائش 25 دسمبر


 کبھی یقیں میں کبھی تم گمان میں رہنا

 مجھے جو مل نہ سکے اس جہان میں رہنا

 

نکل پڑا ہوں ترے بے نشاں جزیروں کو

نشان بن کے مرے بادبان میں رہنا


أسی کے در پہ ہے دستک کی آرزو، جس نے

ازل سیکھا ہے بے در مکان میں رہنا


کسی طرح سے بھی ٹوٹے نہ رابطہ اپنا

نظر سے ہٹ بھی گئے تم تو دھیان میں رہنا


سبب یہی ہے مِرے دل کی لامکانی کا

زمیں پہ چلتے ہوئے آسمان میں رہنا


فیصل فارانی


ثمینہ گل

 یوم پیدائش 25 دسمبر 1965


کھینچتا ہے کون آخر دائرے در دائرے 

دائرے ہی دائرے ہیں دائروں پر دائرے 


پانیوں کی کوکھ سے بھی پھوٹتا ہے دائرہ 

دیر تک پھر گھومتے رہتے ہیں اکثر دائرے 


اس کتاب زیست کے بھی آخری صفحے تلک 

کھینچ ڈالے قوس نے بھی زندگی پر دائرے 


جانے کیا کیا گھومتا ہے گرد کی آغوش میں 

جھانکتے ہیں آسمانوں سے سراسر دائرے 


آنکھ میں بھی دائرہ ہے دائرے میں دائرہ 

زندگانی دیکھتی ہے کیا برابر دائرے 


ثمینہ گل


احمد علی برقی اعظمی

 یوم پیدائش 25 دسمبر 1954


عشق میں سود و زیاں کی جو وکالت کی ہے

نام پر اُس نے محبت کے تجارت کی ہے


ہم کو معلوم تھا انجامِ محبت کیا ہے

"اک سزا کاٹتے رہنے کی ریاضت کی ہے"


جب کیا عرضِ تمنا تو وہ مجھ سے بولا

لب کشائی کی یہ کیوں تونے حماقت کی ہے


تختۂ مشقِ ستم مجھ کو بنانے کے لئے

حاکِم وقت نے درپردہ ہدایت کی ہے


مُنتشر کردیا شیرازۂ ہستی اس نے

غمزہ و ناز سے برپا وہ قیامت کی ہے


عمر بھر جس کو سمجھتا تھا میں قائد اپنا

شر پسندوں کی پسِ پردہ قیادت کی ہے


منفرد سب سے ہے اقبال کا اندازِ بیاں

کیوں کہ فرسودہ روایت سے بغاوت کی ہے


عہد شکنی کا ہے الزام اب اس پر برقی

حق پسندی کی سدا جس نے حمایت کی ہے


 احمد علی برقی اعظمی


شجاع خاور

 یوم پیدائش 24 دسمبر 1948


اس کو نہ خیال آئے تو ہم منہ سے کہیں کیا

وہ بھی تو ملے ہم سے ہمیں اس سے ملیں کیا


لشکر کو بچائیں گی یہ دو چار صفیں کیا

اور ان میں بھی ہر شخص یہ کہتا ہے ہمیں کیا


یہ تو سبھی کہتے ہیں کوئی فکر نہ کرنا

یہ کوئی بتاتا نہیں ہم کو کہ کریں کیا


گھر سے تو چلے آتے ہیں بازار کی جانب

بازار میں یہ سوچتے پھرتے ہیں کہ لیں کیا


آنکھوں کو کئے بند پڑے رہتے ہیں ہم لوگ

اس پر بھی تو خوابوں سے ہیں محروم کریں کیا


دو چار نہیں سینکڑوں شعر اس پہ کہے ہیں

اس پر بھی وہ سمجھے نہ تو قدموں پہ جھکیں کیا


جسمانی تعلق پہ یہ شرمندگی کیسی

آپس میں بدن کچھ بھی کریں اس سے ہمیں کیا


خوابوں سے بھی ملتے نہیں حالات کے ڈر سے

ماتھے سے بڑی ہو گئیں یارو شکنیں کیا


شجاع خاور


قتیل شفائی

 یوم پیدائش 24 دسمبر 1919


حسن کو چاند جوانی کو کنول کہتے ہیں

ان کی صورت نظر آئے تو غزل کہتے ہیں


اف وہ مرمر سے تراشا ہوا شفاف بدن

دیکھنے والے اسے تاج محل کہتے ہیں


وہ ترے حسن کی قیمت سے نہیں ہیں واقف

پنکھڑی کو جو ترے لب کا بدل کہتے ہیں


پڑ گئی پاؤں میں تقدیر کی زنجیر تو کیا

ہم تو اس کو بھی تری زلف کا بل کہتے ہیں


قتیل شفائی


زبدہ خان

 ہمیشہ جن کے غم ہنس کر محبت میں اٹھاتے ہیں

کسے تھی یہ خبر وہ صرف ہم کو آزماتے ہیں


ہمارے اپنے لوگوں میں یہی اک خاص خوبی ہے

کبھی کانٹے بچھاتے ہیں کبھی رستے میں آتے ہیں 


کسی بھی کام میں رب کی قسم لگتا نہیں ہے دل

اکیلے میں خیالوں میں انہیں ہم جب بھی لاتے ہیں


ہم انکے ساتھ کوئی چھیڑ خانی بھی کریں کیسے

کسی بھی بات کو لے کر وہ اکثر روٹھ جاتے ہیں


رسالے میں چھپی تصویر تیرے ساتھ جس دن سے

بھلا ہیں غیر کیا اپنے بھی بیٹھے دل جلاتے ہیں


اصولِ شاعری کے زیروبم سے جو نہیں واقف 

مرے اشعار پر زبدہ وہی انگلی اٹھاتے ہیں


زبدہ خان


ناصر امروہوی

 یوم پیدائش 23 دسمبر 1964


ممکن جہاں نہیں تھی وہاں کاٹ دی گئی 

کچھ دن کی زندگی تھی میاں کاٹ دی گئی 


مفلس جو تھے وہ پیاس کی شدت سے مر گئے 

محلوں کی سمت جوئے رواں کاٹ دی گئی 


میں نے بلند کی تھی صدا احتجاج کی 

پھر یوں ہوا کہ میری زباں کاٹ دی گئی 


تیری زمیں پہ سانس بھی لینا محال تھا 

مجبور ہو کے زیست یہاں کاٹ دی گئی 


میری سزائے موت پہ اک جشن تھا بپا

وہ شور تھا کہ میری فغاں کاٹ دی گئی 


دست ہنر پہ نوک سناں پر غرور ہے 

لیکن جری جو نوک سناں کاٹ دی گئی 


پہلے تو بات بات پہ ٹوکا گیا مجھے 

پھر تنگ آ کے میری عناں کاٹ دی گئی 


ناصر امروہوی


ریاض لطیف

 یوم پیدائش 23 دسمبر 1964


دنیا سے پرے جسم کے اس باب میں آئے 

ہم خود سے جدا ہو کے ترے خواب میں آئے 


کچھ ایسے بھی ہموار کی ہر سطح کو اپنی 

موجوں کی طرح ہم ترے پایاب میں آئے 


ان کو بھی ابد کے کسی ساحل پہ اتارو 

وہ لمس جو اس رات کے سیلاب میں آئے 


اک نقش تو ٹھہرا تھا روانی کے بدن پر 

جب بن کے بھنور ہم ترے گرداب میں آئے 


بکھراؤ کے شہپر پہ ہم اترے پہ زمیں پر 

کچھ پھیل کے اس نقطۂ نایاب میں آئے 


تھے غیب کے تیشے سے تراشے ہوئے ہم تب 

انگڑائی کی صورت تری محراب میں آئے 


ریاض لطیف


حمیدہ معین رضوی

 یوم پیدائش 23 دسمبر 1943


منزل پہ پہنچنے کو تاروں پہ نظر رکھتے

جب شہر بسایا تھا رستوں کی خبر رکھتے


کہتے ہو اندھیرا ہے کوئی نہیں چہرہ ہے

ایمان یقیں ہوتا آنکھوں میں سحر رکھتے


الزام تراشی سے اب کچھ بھی نہیں حاصل

جب آئے غنیم اندر لڑنے کا ہنر رکھتے


اس قحط رجالاں میں قائد بھی نہیں ملتے

جو قافلۂ دل کو مائل بہ سفر رکھتے


ہم خاک کے ذروں کی صورت میں پریشاں ہیں

طاقت کو جمع کرتے تو برق و شرر رکھتے


ہم سب سگ مایہ ہیں ہڈی پہ جھپٹتے ہیں

ایسے میں کسی پر کیا اب خاک اثر رکھتے


صحرا کی تپش ہر سو کرگس کا بسیرا ہے

ہر شے جو جلا دی ہے کچھ باقی شجر رکھتے


اک مرگ مسلسل ہے افکار ہیں یخ بستہ

صحرا کی حرارت کو شعلوں سا جگر رکھتے


حمیدہ معین رضوی


مظفر فاروقی

 یوم پیدائش 23 دسمبر 1933


آدمی چونک چکا ہے مگر اٹھا تو نہیں

میں جسے ڈھونڈ رہا ہوں یہ وہ دنیا تو نہیں


روح کو درد ملا درد کو آنکھیں نہ ملیں

تجھ کو محسوس کیا ہے تجھے دیکھا تو نہیں


رنگ سی شکل ملی ہے تجھے خوشبو سا مزاج

لالہ و گل کہیں تیرا ہی سراپا تو نہیں


چہرہ دیکھوں تو خد و خال بدل جاتے ہی

چھپ کے آئینے کے پیچھے کوئی بیٹھا تو نہیں


پھینک کر مار زمیں پر نہ زمانے مجھ کو

ٹوٹ ہی جاؤں گا جیسے میں کھلونا تو نہیں


زندگی تجھ سے ہر اک سانس پہ سمجھوتا کروں

شوق جینے کا ہے مجھ کو مگر اتنا تو نہیں


میری آنکھوں میں ترے نقش قدم کیسے ہیں

اس سرائے میں مسافر کوئی ٹھہرا تو نہیں


سوچتے سوچتے دل ڈوبنے لگتا ہے مرا

ذہن کی تہ میں مظفرؔ کوئی دریا تو نہیں


مظفر وارثی


انیس الرحمان

 یوم پیدائش 22 دسمبر 1950


ہجر سے بات کی وصال کے بعد 

اب کے آنا تو ماہ و سال کے بعد 


جیسے آیا تھا ماضی حال کے بعد 

کیا جنوب آئے گا شمال کے بعد 


بات سے بات چلتی رہتی ہے 

ختم ہو جاتی ہے مثال کے بعد 


اک خموشی حصار کی مانند 

پہلے اور آخری سوال کے بعد 


ایک سیل ملال ہر جانب 

اک ملال اور اک ملال کے بعد 


اک خموشی رواں دواں ہر سو 

کیا خموشی ہے قیل و قال کے بعد 


اس کی صورت گری میں روز و شب 

خواب ہم دیکھتے خیال کے بعد 


دست و بازو میں آسمان و زمیں 

اور کیا فال نیک فال کے بعد 


"مرگ اک ماندگی کا وقفہ ہے "

زندگی یہ تو احتمال کے بعد


انیس الرحمان


عرفی آفاقی

 یوم پیدائش 22 دسمبر 1936


وہ دھیان کی راہوں میں جہاں ہم کو ملے گا

بس ایک چھلاوے سا کوئی دم کو ملے گا


انجانی زمینوں سے مجھے دے گا صدا وہ

نیرنگ نوا شوق کی سرگم کو ملے گا


میں اجنبی ہو جاؤں گا خود اپنی نظر میں

جس دم وہ مرے دیدۂ پر نم کو ملے گا


جو نقش کہ ارژنگ زمانہ میں نہیں ہے

اس دل کے دھڑکتے ہوئے البم کو ملے گا


رت وصل کی آئے گی چلی جائے گی لیکن

کچھ رنگ تو یوں ہجر کے موسم کو ملے گا


یہ دل کہ ہے ٹھکرایا ہوا سارے جہاں کا

گھر ایک یہی ہے جو ترے غم کو ملے گا


پتھر ہے تو ٹھوکر میں رہے پائے طلب کی

دل ہے تو اسی طرۂ پر خم کو ملے گا


گر شیشۂ مے ہے تو ہو اوروں کو مبارک

ہے جام جہاں بیں تو فقط جم کو ملے گا


لہراتے رہیں گے چمنستاں میں شرارے

خار و خس و خاشاک ہی عالم کو ملے گا


معلوم ہے عرفیؔ جو ہے قسمت میں ہماری

صحرا ہی کوئی گریۂ شبنم کو ملے گا


عرفی آفاقی


واحد کشمیری

 یوم پیدائش:-21 ڈسمبر 1977 کی پر خلوص مبارکباد


درد تنہائی تڑپ آہ و بکا دے کر گیا

زندگی بھر کے لئے اک مسئلہ دے کرگیا


اشتہارِ خفتگی لٹکا ہوا ہے بام پر

کیا امیرِ شہر تھا کیاحوصلہ دے کر گیا


اور جب آیا تو دستک کے بنا داخل ہوا

روح اور خاکی بدن کو فاصلہ دے کرگیا 


ہم انا کی آڑ میں غیرت کے سودا گر ہوئے

کون ایسی بد مزاجی برملا دے کر گیا


ہم روابط کے لئے تو اس قدر راضی نہ تھے

دل بڑا بے صبر نکلا حادثہ دے کر گیا


ہائے رے واحد تری کمسِن مزاجی دیکھ لی

کس طرح اہل جفا کو تُو وفا دے کر گیا

واحد کشمیری


شمیم روش

 یوم پیدائش 21 دسمبر 1956


آنکھوں میں ہجر چہرے پہ غم کی شکن تو ہے

مجھ میں سجی ہوئی مگر اک انجمن تو ہے


سانسوں کو اس کی یاد سے نسبت ہے آج بھی

مجھ میں کسی بھی طور سہی بانکپن تو ہے


ہر صبح چہچہاتی ہے چڑیا منڈیر پر

ویران گھر میں آس کی کوئی کرن تو ہے


ممکن ہے اس کا وصل میسر نہ ہو مجھے

لیکن اس آرزو سے مرا گھر چمن تو ہے


ہر وقت محو رقص ہے چہرہ خیال میں

بے ربط زندگی ہے مگر دل مگن تو ہے


ہر لمحہ اس سے رہتا ہوں مصروف گفتگو

کہنے کو میرے ساتھ کوئی ہم سخن تو ہے


میرے لیے یہ بات ہی کافی ہے اے روشؔ

کچھ بھی ہو مجھ میں اب بھی مرا اپنا پن تو ہے


شمیم روش


ناصر شہزاد

 یوم پیدائش 21 دسمبر 1937


دل سے حصول زر کے سبھی زعم ہٹ گئے

فکر معاش بڑھ گئی خانوں میں بٹ گئے


پھر یوں ہوا کہ مجھ سے وہ یونہی بچھڑ گیا

پھر یوں ہوا کہ زیست کے دن یونہی کٹ گئے


کھینا سکھی سکھی نہ سجن کی طرف مجھے

لینا سکھی سکھی مرے پاؤں رپٹ گئے


آئینہ اس کو دیکھ کے مبہوت ہو گیا

گلدان میں گلاب لجا کر سمٹ گئے


اخروٹ کھائیں تاپیں انگیٹھی پہ آگ آ

رستے تمام گاؤں کے کہرے سے اٹ گئے


آنے دیا نہ میرے بزرگوں نے حق پہ حرف

میدان کربلاؤں کے لاشوں سے پٹ گئے


ڈالی ندی میں ناؤ نہ برگد کے نیچے پینگ

تو کیا گیا پلٹ کے وہ سب دن پلٹ گئے


کھادیں لگیں تو چھوڑ گئیں کھیت تتلیاں

فصلیں بڑھیں تو ڈار پرندوں کے گھٹ گئے


اس سے ملی نظر تو لرزنے لگا بدن

دیدے سکھی ری دیکھ کے پریتم کو پھٹ گئے


تو شانت ہو کہ تیری مرادیں ہوئیں سپھل

بادل گرج برج کے جو آئے تھے چھٹ گئے


دیکھا تو اس کے تن پہ گرے کیوڑے کے پھول

پاؤں سے آبشار کے پانی لپٹ گئے


ناصر شہزاد


ساقی فاروقی

 یوم پیدائش 21 دسمبر 1936 


دامن میں آنسوؤں کا ذخیرہ نہ کر ابھی

یہ صبر کا مقام ہے گریہ نہ کر ابھی


جس کی سخاوتوں کی زمانے میں دھوم ہے

وہ ہاتھ سو گیا ہے تقاضا نہ کر ابھی


نظریں جلا کے دیکھ مناظر کی آگ میں

اسرار کائنات سے پردا نہ کر ابھی


یہ خامشی کا زہر نسوں میں اتر نہ جائے

آواز کی شکست گوارا نہ کر ابھی


دنیا پہ اپنے علم کی پرچھائیاں نہ ڈال

اے روشنی فروش اندھیرا نہ کر ابھی



ساقی فاروقی

شفیق سلیمی

 یوم پیدائش21 دسمبر 1942 


تیز آندھی نے فقط اک سائباں رہنے دیا

ہم زمیں زادوں کے سر پر آسماں رہنے دیا


لفظ وہ برتے کہ ساری بات مبہم ہو گئی

اک پردہ تھا کہ حائل درمیاں رہنے دیا


آنکھ بستی نے سبھی موسم مسافر کر دیے

ایک اشکوں کی روانی کا سماں رہنے دیا


خون کی سرخی اندھیروں میں اجالا بن گئی

ہم نے ہر صورت چراغوں کو جواں رہنے دیا


صد کمال مہربانی پانیوں نے اس دفعہ

کاغذی کشتی کو لہروں پر رواں رہنے دیا


لاکھ کوشش پر بھی گھر کو گھر نہ کر پائے شفیقؔ

اور پھر ہم نے مکاں کو بس مکاں رہنے دیا


شفیق سلیمی


طالب جے پوری

 یوم پیدائش 21 دسمبر 1911


درد دل پیدا کریں یا درد سر پیدا کریں

میری باتیں جانے ان پر کیا اثر پیدا کریں


زندگی ان کی ہے جو گلشن میں اپنے واسطے

آشیاں با وصف صد برق و شرر پیدا کریں


آئیے ہم رہبر و رہزن سے ہو کر بے نیاز

منزل مقصود تک خود رہ گزر پیدا کریں


آ کہ پھر دے کر پیام نو مذاق دید کو

ہر نظر میں ایک دنیائے دگر پیدا کریں


کھل ہی جائے گی حقیقت عالم اضداد کی

دیدۂ دل امتیاز خیر و شر پیدا کریں


ان کو پا کر خود کو کھو دینا تو ہے اک عام بات

ان کو پا کر خود کو پانے کا ہنر پیدا کریں


آہ بے تاثیر میں طالبؔ اثر آ جائے گا

درد دل پیدا کریں درد جگر پیدا کریں


طالب جے پوری


آسی غازی پوری

 یوم پیدائش 21 دسمبر 1834


حرص دولت کی نہ عز و جاہ کی

بس تمنا ہے دل آگاہ کی


درد دل کتنا پسند آیا اسے

میں نے جب کی آہ اس نے واہ کی


کھنچ گئے کنعاں سے یوسف مصر کو

پوچھئے حضرت سے قوت چاہ کی


بس سلوک اس کا ہے منزل اس کی ہے

اس کے دل تک جس نے اپنی راہ کی


واعظو کیسا بتوں کا گھورنا

کچھ خبر ہے ثم وجہ اللٰہ کی


یاد آئی طاق بیت اللہ میں

بیت ابرو اس بت دل خواہ کی


راہ حق کی ہے اگر آسیؔ تلاش

خاک رہ ہو مرد حق آگاہ کی


آسی غازی پوری


ساغر نظامی

 یوم پیدائش 21 دسمبر 1905

دوشاعر ایک مقطع


دشت میں قیس نہیں کوہ پہ فرہاد نہیں

ہے وہی عشق کی دنیا مگر آباد نہیں


رسمِ الفت میں روا شکوۂ بیداد نہیں

یہ تو کم ظرفیِ جذبات سے فریاد نہیں


وہ مری خاک نشینی کے مزے کیا جانے 

جو مری طرح تری راہ میں آباد نہیں


ڈھونڈھنے کو تجھے او میرے نہ ملنے والے

وہ چلا ہے جسے اپنا بھی پتہ یاد نہیں


ایک زنجیرِ طریقت میں بندھے ہیں دونوں

عشقِ پابند سہی حسن بھی آزاد نہیں


عرش والے نہ سنیں سری خدائی سن لے 

اس قدر پست مذاق لبِ فریاد نہیں


روحِ بلبل نے خزاں بن کے اجاڑا گلشن

پھول کہتے رہے ہم پھول ہیں صیاد نہیں


حسن سے چوک ہوئی اس کی ہے تاریخ گواہ

عشق سے بھول ہوئی ہے یہ مجھے یاد نہیں


بربط ماہ پہ مضرابِ فغاں رکھ دی تھی

میں نے اک نغمہ سنایا تھا تمہیں یاد نہیں


قفس بلبل و گل سب ہیں یہ فانوس خیال

کہ تری ذات سے بڑھ کر کوئی صیاد نہیں


لاؤ اک سجدہ کروں عالمِ بدمستی میں

لوگ کہتے ہیں کہ ساغرؔ کو خدا یاد نہیں


ساغر نظامی


ہے دعا یاد مگر حرف دعا یاد نہیں

میرے نغمات کو انداز نوا یاد نہیں


میں نے پلکوں سے در یار پہ دستک دی ہے

میں وہ سائل ہوں جسے کوئی صدا یاد نہیں


میں نے جن کے لیے راہوں میں بچھایا تھا لہو

ہم سے کہتے ہیں وہی عہد وفا یاد نہیں


کیسے بھر آئیں سر شام کسی کی آنکھیں

کیسے تھرائی چراغوں کی ضیا یاد نہیں


صرف دھندلائے ستاروں کی چمک دیکھی ہے

کب ہوا کون ہوا کس سے خفا یاد نہیں


زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے

جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں


آؤ اک سجدہ کریں عالم مدہوشی میں

لوگ کہتے ہیں کہ ساغرؔ کو خدا یاد نہیں


ساغر صدیقی


شبنم رومانی

 یوم پیدائش 20 دسمبر 1928


میں نے کس شوق سے اک عمر غزل خوانی کی

کتنی گہری ہیں لکیریں میری پیشانی کی


وقت ہے میرے تعاقب میں چھپا لے مجھ کو

جوئے کم آب قسم تجھ کو ترے پانی کی


یوں گزرتی ہے رگ و پے سے تری یاد کی لہر

جیسے زنجیر چھنک اٹھتی ہے زندانی کی


اجنبی سے نظر آئے ترے چہرے کے نقوش

جب ترے حسن پہ میں نے نظر ثانی کی


مجھ سے کہتا ہے کوئی آپ پریشان نہ ہوں

مری زلفوں کو تو عادت ہے پریشانی کی


زندگی کیا ہے طلسمات کی وادی کا سفر

پھر بھی فرصت نہیں ملتی مجھے حیرانی کی


وہ بھی تھے ذکر بھی تھا رنگ غزل کا شبنمؔ

پھر تو میں نے سر محفل وہ گل افشانی کی


شبنم رومانی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...